پاکستان کو اس وقت معاشی اور سیاسی دونوں حوالوں سے مشکل صورتحال کا سامنا ہے ۔ کسی ملک کی معیشت اگر کساد بازاری یا افراطِ زر اورکم شرح نمو جیسے مسئلوں کے باعث بحران یا دیوالیہ پن کی صورتحال سے دوچار ہوجائے تو اُسے کس عذاب سے گزرنا پڑتا ہے ، اس کی درجنوں مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
اس کی تازہ ترین مثال وینزویلا ہے جہاں دنیا کے سب سے زیادہ تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ اسے اصولی طور پر مالدار ترین ملک ہونا چاہیے تھا لیکن یہاں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ افراطِ زر کی سطح ایک لاکھ بیس ہزار فیصد سے تجاوزکرچکی ہے، جتنے پیسوں میں پہلے ایک اچھا فلیٹ یا مکان مل جایا کرتا تھا اس میں اب کافی یا چائے کا ایک کپ بھی خریدنا ممکن نہیں رہا ۔ یہ ملک اتنے بھیانک بحران سے کیوں متاثر ہوا اس پر ایک طویل بحث کی ضرورت ہے ، جسے کسی اور وقت کے لیے اٹھائے رکھتے ہیں ۔
یہ درست ہے کہ معدنی وسائل یا جغرافیائی اعتبار سے اہم ملکوں میں بیرونی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے مداخلت کرتی رہتی ہیں، تاہم یہ اس ملک کے حکمرانوں کی حکمت اور دانش پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس صورتحال کا کس طرح سامنا کرتے ہیں ۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب حکمران طاقتیں اس امر پر اصرارکرتی ہیں کہ معیشت ان کے نظریات ، مفادات ، پسند اور ناپسند کے تابع رہے اور اپنے فطری تقاضوں کے مطابق آگے نہ بڑھے۔
پائیدار معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں براہ راست بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری کا عمل تیز ہو جس کے لیے سیاسی استحکام اولین شرط ہے۔ سیاسی استحکام کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ایک مضبوط آمرانہ حکومت میں بہ ظاہر سیاسی استحکام نظر آتا ہے لیکن معاشرے کے اندر ایک لاوا ابل رہا ہوتا ہے جوکسی بھی وقت پھٹ کر ہر چیزکو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ سیاسی استحکام کی دوسری صورت آئین، پارلیمنٹ اور قانون کی حکمرانی کے باعث ممکن ہوتی ہے، جمہوری عمل کا تسلسل حقیقی استحکام پیدا کرتا ہے۔
معاشی ترقی کا دوسرا کلیہ یہ ہے کہ ملک کے اندر ترقی یافتہ بنیادی ڈھانچہ موجود ہو ۔ نقل وحمل کے لیے موٹر ویز ہوں ، چھوٹے بڑے شہر اور دیہات سڑکوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہوں اور صارفین تک اشیاء اور خدمات کی صارفین تک تیز رفتار ترسیل ممکن ہو، توانائی کا بحران نہ ہوتا کہ صنعتیں اورکاروبار رواں دواں رہے۔
معاشی ترقی کے لیے امن وامان کا ہونا بھی ایک لازمی عنصر ہے لیکن امن کو، جبرکے ذریعے نہیں بلکہ فطری انداز میں موجود ہونا چاہیے، اگر ہر طرف بندوق سے لیس سپاہی کھڑے ہوں، جگہ جگہ ناکے لگے ہوں گے ، لوگوں کی تلاشیاں لی جارہی ہوں،گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہوں اور اس کے نتیجے میں امن و امان نظر آئے گا تو یہ ’’امن‘‘ سرمایہ کار کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا ۔
کسی ایسے ملک میں جہاں مجرم خوف کے ماحول میں رہنے پر مجبور ہوں ،عام شہری اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہو اور لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ڈرنے کے بجائے ان سے محبت کرتے ہوں ، وہاں سرمایہ کار بن بلائے دوڑا چلا آتا ہے،اس کی خوشامدکرنے کے لیے بیرونِ ملک دورے نہیں کرنے پڑتے اور دوستوں سے قرض یا امداد کے لیے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑتے۔ المیہ ہے کہ ہم پائیدار معاشی ترقی کے ان بنیادی تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم معاشی طور پر جنوبی ایشیاء کے سب سے پس ماندہ ملک بن چکے ہیں اور بنگلہ دیش تک ہم سے کہیں آگے نکل چکا ہے ۔ کیا اب وقت نہیں آگیا ہے کہ معیشت کو اس کے فطری اصولوں کے مطابق چلنے دیا جائے اور اُسے سیاسی مفادات کے تابع نہ رکھا جائے ؟
معیشت کے بعد ایک مضبوط جمہوری نظام ملکوں کو مضبوط اور مستحکم رکھتا ہے۔ جمہوری نظام میں عوام کی بالادستی پارلیمنٹ کے ذریعے نافذ کی جاتی ہے ، عوام کے منتخب نمایندے آئین اور قانون بناتے ہیں جن کے تحت ریاست کے تمام ادارے اپنا کام کرتے ہیں ، ہر ملک کی مخصوص صورتحال اور سماجی و تاریخی پس منظر کے لحاظ سے جمہوری نظام کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے ۔ مثلاً اگر کوئی ملک یک قومی یا یک لسانی ہو تو وہاں کا جمہوری نظام صدارتی طرز کا ہوسکتا ہے ۔ تاہم ،کثیر قومی ملکوں میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام پر عمل کیا جاتا ہے تاکہ ہر نسل اور قومیت کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے ۔
ہمارے ملک میں چونکہ کئی قومیتوں، مذہبوں اور مسلکوں کے لوگ رہتے ہیں، جو مختلف زبانیں بولتے ہیں اور جن کی تاریخ اور ثقافت بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے لہٰذا یہاں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے علاوہ کوئی دوسرا نظام سیاسی استحکام پیدا نہیں کرسکتا ۔ 1973ء میں آئین ساز اسمبلی نے انھیں حقائق کو پیش نظر رکھ کر دو ایوانوں پر مشتمل ایک وفاقی طرزکا آئین تشکیل دیا تاکہ کسی بھی وفاقی اکائی کو یہ احساس نہ ہو کہ آبادی کی بنیاد پر اس کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے ۔
1954ء میں جگتو فرنٹ نے مسلم لیگ کو شکست فاش دے کر مشرقی پاکستان کی کل309میں سے 223نشستوں پر کامیابی حاصل کی جس کے بعد یہ حقیقت عیاں ہوگئی تھی کہ عوام کی بالادستی کے اصول پر جمہوری نظام قائم ہوگیا تو ریاست پر بالادستی رکھنے والی طاقتوں کو اقتدار سے محروم ہونا پڑے گا۔ اسی خوف کے باعث 1956ء تک آئین سازی کے عمل کو مکمل نہیں ہونے دیا گیا لیکن جب آئین کسی طرح بن گیا تو اس کے تحت ہونے والے پہلے عام انتخابات کو روکنے کے لیے 8اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا کے ذریعے مارشل لاء لگوایا گیا اور پھر چند ہفتوں بعد 27اکتوبر 1958ء کو ان کا تختہ الٹ کر جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔ مارشل لاء کے نفاذ اور عوام کی بالادستی کو قبول نہ کرنے کے بڑے سنگین نتائج برآمد ہوئے اور پاکستان کی سیاست نے ایک نیا انداز اختیار کرلیا ۔
مشرقی پاکستان میں پاکستانیوں کی اکثریت آباد تھی۔ 1951ء کی پہلی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 7کروڑ 50لاکھ تھی جس میں 3کروڑ 37لاکھ لوگ مغربی جب کہ 4کروڑ 20لاکھ لوگ مشرقی پاکستان میں رہتے تھے ۔ جگتو فرنٹ کی کامیابی کے بعد یہ امر یقینی تھا کہ مشرقی پاکستان کے عوام جمہوریت کے بجائے کسی آمرانہ نظام کو کبھی قبول نہیں کریں گے کیونکہ وفاقی پارلیمانی نظام کے ذریعے وہ اقتدار میں اپنا جائز مقام اور حصہ حاصل کرسکتے ہیں ۔
جنرل ایوب خان اور ان کے ساتھی بھی یہ سمجھ چکے تھے کہ ان کے اقتدار کو اصل خطرہ مشرقی پاکستان کے بنگالی بولنے والے پاکستانیوں سے ہے لہٰذا مغربی پاکستان میں بنگالیوں کے خلاف اس بیانیے کو بڑے منظم انداز میں عام کیا گیا کہ بنگالی قوم پرست ہیں، انھیں پاکستان سے محبت نہیں اور وہ ہندوؤں کے زیر اثر ہیں ، وہ چھوٹے قد کے بدبو دار اور بزدل لوگ ہیں اور پاکستان پر ایک بڑا معاشی بوجھ بن چکے ہیں۔
جمہوری تحریک کو کچلنے کے لیے ہر اس سیاستدان کو بدعنوان اور غدار کہا گیا جس نے آئین اور عوام کی بالادستی کی بات کی، 1964ء کے صدارتی انتخاب میں ایوب خان کی مخالف امیدوار محترمہ فاطمہ جناح تک کو غدار کے لقب سے نوازا گیا گویا مادر ملت کو غداروں کی ’’ماں ‘‘ بنادیا گیا ۔ اس وقت سے غدار کہنے کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور ہر مقبول عوامی لیڈر ’’غدار‘‘ کا خطاب پا چکا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج بھی اٹھارہویں ترمیم کے ساتھ وفاقی پارلیمانی نظام کو بھی ختم کرنے کی باتیں بھی کی جارہی ہیں ۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جب تک ہم معیشت کو نظریاتی جکڑ بندیوں سے آزاد کرکے اسے فطری تقاضوں کے مطابق نہیں چلنے دیں گے اس وقت تک معاشی تنزلی کا عمل نہیں رکے گا۔ اس کے ساتھ جب تک عوام کی بالادستی پر قائم وفاقی پارلیمانی نظام کو بھی صدق دل سے تسلیم نہیں کیا جائے گا اور اختلاف کرنے والے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو ’’غدار‘‘ کہنے کی روش ترک نہیں کی جائے گی، اس وقت تک ملک معاشی اور سیاسی بحرانوں سے باہر نہیں نکل سکے گا ۔ اب سوچنے کا نہیں خود کو تبدیل کرنے کا وقت ہے۔ اس کام میں مزید تاخیر کسی بڑے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے ۔
The post سوچنے کا نہیں، بدلنے کا وقت ہے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2BELVS7
via IFTTT
No comments:
Post a Comment