مشہور زمانہ میموگیٹ اسکینڈل کے بارے میں ہماری حالیہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جو ریمارکس ارشاد فرمائے ہیں ،وہ ماضی میںاِسی مقدمے کی سماعت کے دوران دیے گئے ریمارکس سے نہ صرف بہت مختلف ہیں بلکہ قانون کی پیچیدگیوں کی سمجھ نہ رکھنے والے مجھ جیسے کئی لوگوں کے لیے حیران کن بھی ہیں ۔
یہ وہی اسکینڈل تھا جس نے اُس وقت کی سول حکومت کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیا تھا اور حکمراں پارٹی کے سربراہ اور صدر مملکت کے عہدے پر فائز آصف علی زرداری کے لیے موت و زیست کا ایسا مسئلہ بنا دیا تھا کہ وہ ایوان صدر سے نکل کرمجبوراً دبئی میں اپنے ایک پرائیویٹ گھر میںمنتقل ہوگئے تھے اور تقریباً ایک ماہ تک واپس نہیں آئے ۔
ہماری اعلیٰ عدلیہ نے اپنے اِس تاریخی فیصلے میں ریمارکس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ کیا ریاست اتنی کمزور ہے کہ ایک میموگیٹ کی وجہ سے خطرات سے دو چار ہوجائے۔اُس نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے کہ وہ ایسے معاملات میں بلاوجہ خود کو ملوث کرے ، اگر حکومت کو کوئی اعتراض ہے تووہ اپنی پٹیشن خود لے کر آئے ۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ چند سال پہلے جب میاں صاحب کالا کوٹ پہن کر عدالت عظمیٰ پہنچ گئے تھے تو ماضی کی اِسی عدالت نے اُن کی پٹیشن سماعت کے لیے منظور بھی کرلی تھی اور حسین حقانی جو اُس وقت امریکا میں پاکستانی سفیر کے حیثیت سے کام کر رہے تھے نہ صرف طوعاًوکرہاً استعفیٰ پر مجبور ہوئے خود ساختہ جلاوطنی بھی اختیارکرگئے ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن کہ وہ عدالت کے طلب کیے جانے پر بھی کبھی پاکستان واپس نہیں آئے۔
میموگیٹ اور ڈان لیکس ہماری سیاسی جمہوری تاریخ کے دو ایسے اسکینڈلز ہیں جن کی وجہ سے اُس وقت کی دونوں حکومتوں کو ایک ایسے بحران کا سامنا ہوگیا کہ جن سے انھیں اپنی جان چھڑانا مشکل ہوگیا ۔ زرداری صاحب کو اپنے سفیر سے استعفیٰ لینا پڑا اور میاں صاحب کو اپنے دو اہم وفاقی وزیروں سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ تب جاکے کچھ معافی تلافی ممکن ہو پائی۔
اِن دونوں کیسوں کو سیاسی حریفوں نے پس چلمن بیٹھی کسی بالادست قوت کی شہ پر اِس قدر اُچھالا کہ کچھ دنوں کے لیے تو حکومتی ایوانوں میں ایک بھونچال کی سی کیفیت طاری ہوگئی، مگر اب اِن اسکینڈلز کے بارے میں اعلیٰ عدلیہ کے ریمارکس نے سارے واقعے کی حیثیت اور اہمیت زیرو کرکے رکھ دی۔اِس فیصلے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ ہمارے ملک میں مقدمات اور اسکینڈل حالات وواقعات کے مطابق تشکیل دیے جاتے ہیں اور اُنہی کے مطابق اُن پرفیصلے بھی دیے جاتے ہیں۔اسکینڈل کی ساکھ اور پس پردہ محرکات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔آج زرداری صاحب اور میاں نواز شریف چونکہ برسراقتدار نہیں رہے لہذا اِن اسکینڈلزکی بھی اب کوئی اہمیت باقی نہیں رہی ۔
یہی حال پاناما اسکینڈل کا بھی ہے۔ میاں صاحب کی اقتدار سے معزولی نے اُسے بھی اب پس پشت ڈال دیا ہے، وہ جب تک اقتدارسے محروم نہیں کردیے پاناما کی بازگشت نہ صرف ہمارے ایوانوں میں سنی جاتی رہی بلکہ الیکٹرانک میڈیا کے پروگراموں میں بھی اُسے ہر روز موضوع گفتگو بنایاجاتارہا ، مگر اب کسی کی زباں سے بھی اُس کا لفظ سنائی نہیں دے رہا ۔ لگتا ہے مقصد صرف میاں صاحب کو اقتدار سے ہٹا ناہی رہ گیا تھا۔ پاناما سے شروع ہونے والی اِس ساری کہانی کا انجام محض ایک اقامے پر ختم ہوگیا ۔ جن کیسوں کا حوالہ دیکر بعد ازاں نیب عدالت کے ذریعے فیصلے سنائے گئے وہ بھی ایک ایک کرکے واپس ہورہے ہیں۔
ایون فیلڈ کیس میں میاں صاحب کو جو دس سال کی سزا سنائی گئی تھی وہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے منسوخ کردی اور جسے سپریم کورٹ نے بھی بوجوہ سخت تنقید کے جوں کا توں برقرار رکھا ۔ حالات و واقعات کے اِن بدلتے تیور کو دیکھ کر ہمارا یہ ایمان اور بھی پختہ ہوگیا ہے کہ ہمارے یہاں کچھ بھی ناممکن نہیں ۔کون کس لمحے اقتدار کے محلات سے نکال کر قید خانے کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے اور کون اُنہی قید خانوں سے نکال کر ایوان صدر کے عہدے پر فائز کردیاجائے ، مگر ہاں ایک بات پتھر پہ لکھی کسی تحریرکی طرح مستند اور ٹھوس ہے کہ یہاں کسی مطلق العنان شخص کو کبھی سزا نہیں دی جاسکتی ۔
جنرل پرویز مشرف ایک بار بھی عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے اور عدالتیں اُن کی منت سماجت کرتے ہوئے تمام مراعات دینے کا یقین دلاتی رہیں لیکن وہ پھر بھی حاضر نہ ہوئے ۔ اِس کے برعکس سیاستداں ہمارے ملک کی ایسی مخلوق ہے جسے صبح و شام ہرکوئی لعن وطعن کرتا رہتا ہے۔عوام الناس سے لے کر میڈیا پر بیٹھے اینکرحضرات اور سارے تجزیہ نگار سارے کے سارے انھیں روزانہ برا بھلاکہتے رہتے ہیں لیکن وہ پھر بھی نہ صرف عدالتوں کے رو برو پیش بھی ہوتے ہیں اورہمت وحوصلے سے سزائیں بھی بگھتتے رہتے ہیں۔انھیں ہتھکڑیاں پہنا کر اور خستہ حال بکتر بند گاڑیوں میں بٹھا کر اُن کے عزت نفس کو نہ صرف مجروح کیاجاتا ہے بلکہ بے شمار الزامات لگاکر عوام کے سامنے اُن کا چہرہ مسخ بھی کر کے پیش کیا جاتا ہے۔
اِس کے برعکس نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں موت کی نیند سلا دینے والے ایک معمولی پولیس افسر کو نہ صرف عزت و احترام کے ساتھ عدالت طلب کیا جاتا ہے بلکہ فوراً سے پیشتر اُس کی ضمانت بھی منظورکرکے اُسے رہا اور آزاد بھی کر دیا جاتا ہے ۔ زمانے کی اِن سنگین تضادات کو دیکھ کرکسی بڑے معاملے میں انصاف کی توقع رکھنا عبث ہوکر رہ گیاہے ۔ نقیب اللہ محسود کے قتل کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہونا کسی طور ممکن نہیں رہا ۔
جو لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ نقیب اللہ محسود کے لواحقین کو انصاف ملے گا وہ شاید کسی اور دنیا میں رہتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں ایسے کرشموں کا ہوجانا ہرگز ممکن نہیں ہے۔ یہاں تو ایک اورمعمولی کیس میں سابق ائیرمارشل اصغر خان اپنے مقدمے کے فیصلے کے انتظار میں دار فانی سے کوچ کرگئے لیکن انھیں جیتے جی کوئی انصاف نہیں ملا ۔ اب اُن کی فیملی کے افراد اِس مقدمے کے منطقی انجام کو پہنچنے کی آس و اُمید لگائے بیٹھے ہیں اور عدالتیں انھیں صرف دلاسہ ہی دے پارہی ہیں ۔
عدالتوں کی الماریوں میں ایسے بہت سے کیسزاب بھی بند پڑے ہیں جنھیں مجبوریوں اور مصلحتوں کے سبب ایک بار بھی نہیں سنا گیا۔12مئی 2007ء کو کراچی شہر میں کشت وخون کابازار گرم کرنے والوں کے خلاف بھی ہماری عدالتیں آج تک کوئی فیصلہ نہ کرسکیں ۔ بارہ سال گزر چکے ہیں لیکن اِس واقعے کے اصل ذمے داروں کے گرد گھیرا ایک روزکے لیے بھی تنگ نہیں کیا گیا ۔ نجانے اِس کیس کے پیچھے ایسی کونسی مصلحتیں حائل ہیں جو انصاف کے علمبرداروں کے لیے مشکل بنی ہوئی ہیں ۔
ایک ایسا ہی کیس بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں دانستہ طور پر لگائی جانے والی آگ کا ہے جس میں 250 سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ تمام ثبوت و شواہد اصل ملزمان کی مکمل نشاندہی کر رہے ہیں لیکن معاملہ ہے کہ منطقی انجام تک پہنچ ہی نہیں پا رہا۔ معاشرے کی بے بسی اورکرتا دھرتاؤں کی سنگ دلی کو دیکھ کر ہم اپنے مستقبل سے مایوس نہ ہوں تو کیا کریں ۔ ہمارے اِس سوال کا جواب عدالتیں صرف اپنے فیصلوں سے دے سکتی ہیں ، باتوں سے نہیں۔ باتیں تو بہت سے منصف کرکے چلے گئے مگر کسی نے بھی اِس ملک کی بالا دست قوتوں کو اپنے فیصلوں کا تابع نہیں بنایا بلکہ خود ہی مصلحتوں کا شکار ہوکر رہ گئے۔
The post میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2SLQk0u
via IFTTT
No comments:
Post a Comment