ایران اور مقبوضہ کشمیر میں بیک وقت حملے دیکھ کر تو اندھا بھی جان لے کہ یہ پاکستان کے خلاف کوئی گہری اور منظم سازش کی جارہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حملے میں وہیں کا شہری جبکہ ایران میں ہونے والے دھماکے میں ایرانی (بلوچ) ملوث پائے گئے ہیں۔ دونوں حملوں میں مقامی لوگ ملوث ہیں لیکن الزام صرف اور صرف پاکستان پر کیوں دھردیئے گئے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب پاکستانی اداروں کو تلاش کرنا ہے۔
پلوامہ حملے کے خودکش بمبار نوجوان کے والدین منظر عام پر آچکے ہیں اور انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ہمارا بیٹا، مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے مظالم اور بلاوجہ کے تشدد کے باعث متنفر تھا، اور پچھلے کئی مہینوں سے لاپتا تھا۔ غرض پلوامہ میں ہونے والا یہ دھماکہ وہیں کے ایک مقامی نوجوان نے، بھارتی فوج کے مظالم کے ردِعمل میں کیا۔ اب اس میں پاکستان کا عمل دخل کہاں سے آ گیا جو نریندر مودی پاکستان کو کھلی دھمکیاں دینے پر اُتر آیا ہے؟ مودی کھلے عام پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ مہاراشٹر میں ایک تقریب خطاب میں مودی نے کہا کہ میں نے کل بھی کہا تھا اور آج بھی کہہ رہا ہوں کہ ان جوانوں کی قربانی ضائع نہیں جائے گی، دہشت گرد کہیں بھی چھپنے کی کوشش کریں، انہیں چھوڑا نہیں جائے گا۔ سیکیورٹی فورسز کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔
پاکستان کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ وہ ملک جو دیوالیہ ہونے کی دہلیز پر ہے وہ دہشت گردی کا استعارہ بن چکا ہے۔ مودی نے کہا پلوامہ حملے کا جواب کیسے دینا ہے؟ کب دینا ہے؟ کہاں دینا ہے؟ کس طرح دینا ہے؟ اس سب کا فیصلہ ہماری فوج کرے گی، آپ تحمل رکھیے۔
اس کے برعکس، پلوامہ حملے کے زمینی حقائق تو یہ بتا رہے ہیں کہ مودی خود ملوث ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقہ پلوامہ میں بھارتی فوج پر حملہ کے حوالے سے کئی انکشافات سامنے آئے ہیں۔ اب بھارتی حکومت کے کچھ اہم ذمہ داران کے اس میں ملوث ہونے کے حوالے سے بھی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ مقامی اخبار کے مطابق 3 فروری کو جب مودی نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا تو اس دورے میں باقاعدہ پلاننگ کی گئی کہ آئندہ انتخابات میں کس طرح دلت برادری کی حمایت حاصل کی جائے اور کس طرح پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر نفرت پھیلائی جائے۔ اس اجلاس میں نریندر مودی کے ساتھ ان کے خفیہ اداروں کے اہم ذمہ داران بھی تھے۔ وہاں پر ہی فیصلہ کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں دلت برادری سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کو آپریشن میں استعمال کیا جائے تاکہ اگر کسی جگہ کوئی واقعہ ہو تو اس میں یہی نشانہ بنیں۔ اس سے ان کے دل میں پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھے گی اور اس کا سارا فائدہ ہمیں الیکشن میں ملے گا۔
اس حملے میں جو بارودی مواد استعمال ہوا، وہ سارے کا سارا نہ صرف بھارتی ساختہ ہے بلکہ ویسا ہی بارودی مواد ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کے اکثر حملوں میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس کی تصدیق خود نہ صرف بھارتی میڈیا نے کی ہے بلکہ بھارت کی دو انویسٹی گیشن ایجنسیوں نے بھی اس کا اشارہ دیا ہے۔ بھارتی ایجنسیوں کو باقاعدہ اطلاع تھی کہ جس قدر مقبوضہ کشمیر کے اندر کشمیریوں کو بھارتی فوج تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے اور جس طرح قتل عام کیا جا رہا ہے، اس کا ردعمل ضرور آئے گا؛ اور اسی رد عمل کےلیے باقاعدہ پلاننگ کے تحت کشمیریوں پر ظلم کی انتہا کی جارہی تھی… اور جب انتہائی سطح تک یہ چلے گئے تو پھر کسی بھی ایسے خدشے کے پیش نظر کہ کوئی واقعہ ہو سکتا ہے، پھر باقاعدہ پلاننگ کے تحت دلت برادری سے تعلق رکھنے والے بھارتی فوجیوں کو قربانی کا بکرا بنا کر چھاؤنیوں سے باہر ڈیوٹیوں پر بھیجا جا رہا تھا۔ اس حملے سے متعلق یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بھارتی فوجیوں کے قافلے پر ایک نہیں، ایک سے زائد حملے ہوئے مگر بھارتی میڈیا اور بھارتی حکومت کی طرف سے صرف ایک خودکش حملے کا کہا جارہا ہے۔
ایک خودکش حملہ سامنے سے اور ایک بلاسٹ پیچھے سے بھی ہوا، اور جو پیچھے سے بلاسٹ ہوا اس میں بھارتی بارودی مواد تھا جس میں بھارتی ایجنسیوں کے بھی کسی ونگ نے اپنا کردار ادا کیا۔ حملے میں مرنے والے بھارتی فوجیوں میں سے زیادہ تر نچلی ذات دلت سے تعلق رکھنے والے فوجی ہیں۔ جس وقت یہ سارا واقعہ ہوا تو اس وقت بھارتی پلاننگ یہی تھی کہ اس کا صرف پاکستان پر الزام لگا کر یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ اس خود کش حملے میں پاکستانی شامل تھے۔ مگر کشمیری مجاہدین کی تنظیم کی طرف سے اس کی ذمہ داری قبول کرنے اور ایک مجاہد کی تصویر سامنے لانے پر ایک طرف تو بھارتی پلاننگ ناکام ہوئی اور دوسری طرف یہ بھی سوال اٹھ گیا کہ ایک خودکش حملہ تو کشمیری مجاہد نے کیا، دوسرا بلاسٹ کس طرح ہوگیا۔
اُدھر مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی میڈیا پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں میجر جنرل محمد علی جعفری نے کہا کہ پاکستان کی حکومت ایران میں انقلاب کے مخالفین اور اسلام کے دشمنوں کو پناہ دیتی ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ایران جانتا ہے یہ حملہ آور کہاں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جوابی کارروائی کرے اور دہشت گردوں کو سزا دے۔
مغربی میڈیا ایرانی جنرل کے اس بیان کو بڑھا چڑھا کر اور خوب مرچ مصالحہ لگا کر پیش کر رہا ہے۔ مغربی میڈیا کی کوشش ہے کہ دونوں ممالک میں کسی طرح تعلقات کشیدہ ہوجائیں لیکن اس حوالے سے پاکستان کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا۔ پاکستان کو بلوچستان کے علاقوں میں موجود ایرانی دہشت گردوں کو نکال باہر کرنا ہوگا جن کے کرتوتوں کی وجہ سے پاکستان بدنام ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ایران میں کارروائیاں ایرانی باغیوں کی تنظیم ’’جیش العدل‘‘ ہی کرتی ہے اور اس کے لوگ واردات کے بعد بھاگ کر پاکستان میں آکر پناہ لیتے ہیں۔ ایرانی جنرل نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ سرحد پر سیکیورٹی میں مزید اضافہ کیا جائے۔
پاکستان دشمن قوتوں کی کوشش ہے کہ ایران اور بھارت کو پاکستان کے ساتھ لڑا دیا جائے۔ اس حوالے سے کم از کم پاکستان کو ایسا موقع نہیں دینا چاہیے کہ جس سے ہمارے ہمسایہ ممالک کو کسی جارحیت کا موقع ملے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں، ہمیں ان قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیا جانا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post پاکستان کو گھیرا جا رہا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2IqJp82
via IFTTT
No comments:
Post a Comment