امریکا اور افغان طالبان کے درمیان اٹھارہ ماہ کے طویل مذاکرات کے بعد گزشتہ روز قطر کے دارالحکومت دوحا میں امن معاہدے پر دستخط ہوجانا، اس خطے کے مستقبل اور ترقی و خوشحالی کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے، بلکہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی سفارتی کوششیں بھی رنگ لائیں۔
سادہ سی بات ہے کہ موجودہ ڈیل میں اہم ترین کردار صدر ٹرمپ اور پاکستان نے ادا کیا ہے۔ اٹھارہ سال کی طویل جنگ اگر مذاکرات کی میز پر حل ہونے جارہی ہے تو یہ پیغام دنیا کے لیے سکھ اور اطمینان کا باعث ہے۔ جنگ نام ہی تباہی و بربادی کا ہے، اس طویل جنگ کے نتیجے میں افغانستان اور پاکستان نے جو براہ راست اور بالواسطہ نقصانات اٹھائے، دونوں ملکوں کا انفرا اسٹرکچر تباہی سے دوچار ہوا۔ افغانستان میں جاری جنگ کے دوران ایک لاکھ افغان اور 35 سو اتحادی فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق امریکا کو مجموعی طور پر 2 ہزار ارب ڈالر کا مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ دوسری جانب دہائیوں سے جنگی تباہ کارروائیوں کے شکار افغانستان میں مزید تباہ حالی کا شکار ہوا۔گزشتہ پانچ برسوں میں افغان سیکیورٹی فورسزکے 50ہزار سے زائد اہلکاروں کی ہلاکتیں ہوئیں اور ہزاروں زخمی ہوئے۔
نیٹو افواج کے 3550 فوجی ہلاک ہوئے جن میں2400 امریکی تھے۔ بلاشبہ امر یکا کا یہ ایڈونچر مس ایڈونچر تھا ۔ افغان جنگ کے نتیجے میں پاکستان میں دہشتگردی پھیلی۔ خودکش بمباروں کی کھیپ نے انسانی جانوں کا ضیاع کیا۔ بم دھماکوں میں پاکستان کے تقریبا 80 ہزار عوام جن میں سیکیورٹی فورسزکے اہلکار بھی شامل تھے شہید ہوئے، لاکھوں زندگی بھرکے لیے معذور ہوگئے۔ ملکی انفرا اسٹرکچر کو اربوں ڈالرزکا نقصان پہنچا اور پاکستانی معیشت بیٹھ گئی۔
معاہدے کے مندرجات پر ایک نظر ڈالی جائے تو امریکی فوج 14ماہ میں افغانستان سے نکل جائے گی، طالبان کو تمام دہشت گرد تنظیموں سے روابط منقطع کرنا ہوں گے۔ افغان سرزمین القاعدہ ، داعش سمیت تمام شدت پسند تنظیموں کواستعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ 10 مارچ تک طالبان کے 5 ہزار سے زائد اور افغان فورسز کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے گا،29مئی تک طالبان رہنماؤں کے نام اقوام متحدہ میں دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیے جائیں گے۔ہم تو یہی دعا کرسکتے ہیں کہ خداکرے کہ اس معاہدے پر عمل ہوجائے ابھی اس میں بہت سے اگر ،مگر ہیں۔
معاہدے کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے توقع ظاہرکی کہ اب افغان دھڑوں کے مابین مذاکرات بھی کامیاب ہوں گے کیونکہ ہرکوئی جنگ سے تنگ ہے۔ انھوں نے افغان عوام پر زور دیا ہے کہ وہ نئے مستقبل کے موقع سے فائدہ اٹھائیں، تمام افغان قوتوں کو اس موقع کوغنیمت سمجھنا چاہیے۔ معاہدے کے بعد بال افغان حکومت اور طالبان کے کورٹ میں ہے، پاکستان کو چاہیے کہ وہ بہت محتاط اندازمیں آگے بڑھے اور امریکا اشرف غنی حکومت پر زوردے کہ وہ پاکستان کوبرا بھلا کہنے کے بجائے اپنی ذمے داریوں پر بھی توجہ دے۔
سینئرطالبان رہنما ملا عبدالغنی برادرنے امن معاہدہ کو افغانستان کی مجاہد قوم اور عالمی برداری کے لیے خوش آیند قرار دیا اور امید ظاہرکی کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغان قوم اسلامی نظام کے تحت ترقی کی بنیاد رکھے گی، انھوں نے افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا اور تمام فریقوں کو مبارکباد دی ۔دوحہ میں موجود وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہا ہے کہ امریکا اورافغان طالبان کے درمیان امن معاہدے سے خطے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ افغانستان میں امن سے وسطی ایشیا کے ساتھ ہمارے روابط بڑھیں گے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے شاندار مواقع پیدا ہوں گے۔
افغانستان میں امن سے پاکستان کو کاسا1000منصوبے سے استفادہ کرنے اور ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ امریکی صدرکی خواہش ہے کہ امریکی فوجی بحفاظت وطن واپس آجائیں، اسی تناظر میں وہ اپنی قوم کو امید دلا رہے ہیں کہ وہ فوجی گھر واپس لا رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ دراصل افغانستان میں قیام امن کے لیے گزشتہ برسوں میں ہونے والی کوششوں میں عالمی برادری نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔
افغان صدر ڈاکٹراشرف غنی نے معاہدے میں اہم کردار ادا کرنے پر امریکی وزیر دفاع کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ پاکستان اور دیگر برادر ملکوں کی کوششوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے گزشتہ برسوں میں ہونے والی کوششوں کو دہراتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمارے علما امن کے چیمپئن ہیں۔ ہمارے علما نے 2018 کی جنگ بندی کے لیے راستہ بنایا، امن اور جنگ بندی کا فتویٰ جاری کیا اور طالبان نے اسے تسلیم کیا۔
سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہاکہ خارجہ پالیسی کو کسی ایک پارٹی کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے، جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو ہم بھی افغان ری کنسلیشین پرکام کر رہے تھے، جویہ سب کچھ ہواہے امریکا کا اس جگہ پر آنا جہاں وہ آج ہے بہت ضروری تھا، طالبان سے مذکرات کی بات چیت2010میںہی شروع ہوگئی تھی۔ دوسری جانب چیئرمین سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ سینیٹر مشاہدحسین سید نے کہا کہ افغانستان میں جو طاقت کا توازن پاکستان کے حق میں نہیں تھا وہ تبدیل ہوجائے گا، اگر عمران خان بطور وزیر اعظم پاکستان اس کاکریڈٹ لیتے ہیں تو درست ہے کیونکہ ان کی نگرانی میں سب کچھ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ امریکا اور طالبان کے مابین ہونے والے امن معاہدے پر دستخط افغانستان اور پورے خطے کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے، پاکستان نے عالمی امن و استحکام کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں جن کی تعریف کی جانی چاہیے۔
یہ معاہدہ تاریخی اہمیت کا حامل اس وقت قرار پائے گا ، جب فریقین اس کی پاسداری کو یقینی بنائیں گے، خدانخواستہ طالبان یا افغان حکومت نے امن معاہدہ توڑا ، تو امریکی افواج زیادہ قوت کے ساتھ دوبارہ افغانستان پر حملہ آور ہوں گی، جس کا اظہار امریکی صدر نے کیا ہے۔ خدشات اس وقت ختم ہوسکتے ہیں جب کہ فریقین ، تحمل، برداشت اور سیاسی حکمت ودانائی سے کام لیں، کیونکہ خطے میں امن کی کوششیں جاری رکھنے سے ہی جنگ کی آگ ٹھنڈی ہوگی۔
بلاشبہ افغان عوام کے لیے فتح اس دن ہوگی جب ان کے ملک میں امن آئے گا اور وہ خوشحال ہوں گے۔ افغانستان میں امن کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا، فریقین سمیت عالمی برداری کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جنگ زدہ ملک میں استحکام برقرار رکھنے میں مدد کرنی چاہیے، مستحکم افغانستان اور ہمارے مستقبل کے لیے امن ضروری ہے۔
The post افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/39hwQoG
via IFTTT
No comments:
Post a Comment