آئر لینڈ یورپ کا ایسا ملک ہے، جہاں بارہ ہزار آٹھ سو سال قبل مسیح انسانی زندگی کے آثار ملتے ہیں۔ یہاں جن افراد نے آبادکاری کی وہ آئرش ہیں کبھی قتل وغارت نہیں کی اپنی حکومت کو قائم رکھا۔
1706ء کو معاہدہ اتحاد کی رو سے آئر لینڈ کو برطانیہ سے ملا دیا۔ اس سے قبل آئر لینڈ کئی صدیاں برطانیہ کے حکم پر چلتا رہا، 1920ء میں پہلا آئین آئرلینڈ میں متعارف کرایا گیا۔ عوام برطانیہ سے آزادی کے طلبگار پچھلے پچاس برسوں سے تھے۔ 24 اپریل 1916ء کو آئرلینڈ کی آزادی کا اعلان ہوا 6 دسمبر 1921ء میں ایک معاہدہ کیا گیا جس کو ’’اینگلو آئرش‘‘ معاہدہ کہا گیا ہے۔
اس کے بعد پہلی آزاد آئرش سلطنت کی بنیاد رکھی گئی جسے آئرش فری اسٹیٹ کہا جاتا تھا بعد میں اس کا نام آئر لینڈ رکھا گیا۔ 1922ء کو آئرلینڈ کا پہلا آئین متعارف کرایا گیا، دوسرا آئین 1937ء کو متعارف کرایا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران آئرلینڈ کسی بھی ملک کا حمایتی نہ بنا۔
1949ء میں یہ ملک جمہوری ملک کے طور دنیا کے نقشے پر نمایاں ہوا۔ دسمبر 1955ء کو آئرلینڈ نے اقوام متحدہ میں شمولیت اختیارکی اور یکم جنوری 1973ء کو آئر لینڈ یورپی یونین کا ممبر بنا۔ آئر لینڈ کی آبادی میں ہر سال کمی نظر آتی ہے۔ 2011ء کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق آئرلینڈ کی آبادی تقریباً 64 لاکھ تھی جو بجائے بڑھنے 47 لاکھ 92 ہزار نفوس ہوگئی۔ یہ مغربی یورپ کا تیسرا بڑا جزیرہ ہے جوکہ 70 ہزار 273 کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ 1801ء میں آئرلینڈ اور برٹین متحدہ ہوگئے اور نئی مملکت کنگ ڈم آف گریٹ برٹین اینڈ آئر لینڈ کہا جاتا تھا۔1845ء سے 1852ء تک آئرلینڈ میں ایسی قحط سالی ہوئی جس نے آبادی کے 80 لاکھ افراد کی کوکم کر کے 65 لاکھ کر دیا۔ سات سال میں پندرہ لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔
انگریزی نے ان کو آگے آنے کا موقعہ نہ دیا اسکولوں میں یکم جماعت سے انگریزی کے ساتھ آئرش شامل ہے۔10.1 فیصد آبادی کا کوئی دین نہیں۔ فٹبال، ٹینس، ہاکی اور کرکٹ شوق سے کھیلے جانے والے کھیل ہیں۔ تعلیمی شرح سو فیصد ہے۔ چونکہ آئرلینڈ ایک جزیرہ ہے جس کی زمینی سرحد کسی بھی ملک سے نہیں ملتی۔بیلفاسٹ آئرلینڈ کا حصہ ہے لیکن اس پر برطانیہ قابض ہے جب برطانیہ اور آئرلینڈ کی بات بڑھی تو بیلفاسٹ میں ریفرنڈم کروایا گیا۔ آبادی کی نصف تعداد برطانیہ اور آدھی آئرلینڈ کی جانب معلوم دیتی ہے۔ نتیجہ یہ آیا تو 51 فیصد برطانیہ اور 49 فیصد آئرلینڈ۔
آئرلینڈ میں ایک خاندان کے اوسطاً چار افراد ہوتے ہیں ایک میاں بیوی اور دو بچے زیادہ بڑا خاندان نہیں ہوتا۔ آئرلینڈ میں ہک لائٹ ہاؤس کو یورپ بلکہ پوری دنیا کا قدیم لائٹ ہاؤس ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آئرلینڈ میں دنیا کی بڑی تجارتی کمپنیاں ہیں گوگل، انٹیل، مائیکروسافٹ یہ آئرلینڈ میں موجود ہیں سب نے یہاں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔
زراعت، صنعت اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے آئرلینڈ پوری دنیا میں الگ اپنا مقام بنائے ہوئے ہے۔ آئرلینڈ کا جس طرح نظارہ کریں سبزہ ہی سبزہ، خوبصورتی نظر آتی ہے۔ دنیا کا ایک خوبصورت یورپی ملک ہے یہاں کے لوگ بھی پراخلاق، مہذب، ہمدرد ہیں۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہوتی ہے دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں شکریہ، معذرت، خوش آمدید ان الفاظ کا استعمال زیادہ ہے۔ اسمبلی کے ممبر کو اپنا کاروبار، ملازمت ترک کرنا لازم ہے کسی ممبر یا وزیر کے ساتھ کوئی گارڈ یا پولیس اہلکار نہیں وہ تنہا اپنی کار کو چلاتا ہوا آتا جاتا ہے۔
میں نے ایک وزیر سے پوچھا آپ تنہا اکیلے اپنی ذاتی کار چلا کر جاتے ہو بولا ہم کو عوام نے منتخب کیا ہے ہم عوام کے نمایندے ہیں ہمارا کام اپنے ملک و ملت کی خدمت کرنا ہے نہ کہ ہم اپنے ساتھ گائیڈ یا پولیس اہلکار رکھیں۔ ہمیں کوئی خوف نہیں، اگر ہم عوام کو ناپسند ہوں گے یا ان کے کام نہ آ سکے تو وہ ہمیں مسترد کردیں گے ہماری ساری عوام امن پسند، مہذب، بااخلاق ہے۔ ان کی بات درست بلکہ سو فیصد درست واقعی نہ صرف وزیر، وزرا، ممبران کو ملک کو قوم سے محبت ہے بلکہ پوری قوم کا یہی حال ہے یہی وجہ ہے روز بروز ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
دوران علالت مساجد کے پیش امام، مقتدی اور آئرش دوست عیادت کے لیے آتے رہے، میرا ساتھ دیا مجھے وہ دن یاد ہیں۔ آئرش کے خلوص و محبت اور آئرلینڈ کی خوبصورتی کو دیکھنے ہر سال لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ آمدن میں خاصا اضافہ ملک کی ترقی و خوشحالی کا باعث ہے۔ اگر کوئی شخص گھر سے علیحدہ ہو، رہنے کی جگہ نہ ہو تو فوری طور پر حکومت اس فرد کو ہوسٹل میں رکھتی ہے اس وقت تک جب تک اس کے لیے مکان نہ ہو جائے۔ کھانے کے لیے مفت غذا میسر ہے۔ کوئی گھر ایسا نہیں جس میں الیکٹرک سٹی نہ ہو۔ اسٹریٹ لائٹ جو دن کو بند رات کو روشن ہوتی ہیں۔
آئرلینڈ میں دنیا کی پانچویں بڑی زنک کی کان ہے جو کہ یورپ میں اول نمبر شمار کی جاتی ہے، یہاں سے نکالا جانے والا زنک اعلیٰ قسم کا ہوتا ہے۔11 اپریل 1912ء بروز منگل بوقت 12:30دوپہر کو فرانس سے ٹائی ٹانک جہاز 25 ناٹ (سمندری میل) کی رفتار سے روانہ ہوا۔ 2225 مسافروں کے ساتھ پندرہ گھنٹے کی تیز مسافت کے بعد آئرلینڈ کے ساحلی شہر کوبھ پہنچا یہاں آکر ایک گھنٹہ تیس منٹ رکنے کے بعد جہاز نے بحیرہ اوقیانوس پر سفر شروع کر دیا، وہ نیویارک کی طرف روانہ تھا۔
14 اپریل 1912ء بروز اتوار کی شام تھی سمندر کی طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ 3 دن سے متواتر بغیر کہیں رکے 25 ناٹ فی گھنٹہ کی رفتار سے سمندر کا سینہ چیرتا ہوا رواں دواں امریکا کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جہاز کی کھڑکیوں سے نظر آنے والی شام کی اداس روشنی تیزی سے غائب ہو رہی تھی سمندر تاریکی میں ڈوبا تھا دیکھتے دیکھتے شب کی تاریکی سمندر پر اتر آئی۔ سردی میں بھی اضافہ ہو گیا، شمالی بحیرہ اوقیانوس میں برف کی چٹانیں سمندر میں تیر رہی تھیں۔
ٹائی ٹانک کے وائرلیس آپریٹر کو کسی جہاز نے برفیلے تودے کی اطلاع دی بلکہ کچھ بار سے زیادہ اطلاع دی گئی۔ وائرلیس کمپنی کے آپریٹر نے کوئی دلچسپی نہ لی بلکہ اطلاع دینے والے آپریٹر کو ڈانٹ دیا۔ 11:40 شب کا وقت تھا جب تیز رفتار ٹائی ٹانک بڑے برف کے تودے کے پاس پہنچ گیا جہاز برفانی تودے سے ٹکرا گیا دو ٹکڑے ہوگئے، 12:45 شب پہلی کشتی پانی میں اتاری 2:18 منٹ پر جہاز کی تمام روشنیاں گل ہوگئیں۔ جہاز کو ڈوبنے میں 2 گھنٹے چالیس منٹ لگے۔ 705 لوگوں کوزندہ بچا لیا گیا تقریباً کئی سو افراد لقمہ اجل بنے۔ میں کوبھ گیا وہاں جہاز کی بڑی تصویر آویزاں ہے۔
The post جمہوریہ آئرلینڈ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PDEZMh
via IFTTT
No comments:
Post a Comment