Sunday, December 31, 2017

سال نو ایکسپریس اردو

آفتاب نے اپنی احمریں چادر صحراؤں، پانیوں، پہاڑوں اور سبزہ زاروں پر پھیلا دی ہے۔ وقت رخصت اس کی آنکھوں سے خون کے آنسو رواں ہیں۔ چند ہی لمحوں میں یہ سنہری چادر لپیٹ لی جانے والی ہے۔ بوڑھا وقت سال نو سے ہم آغوش ہونے کو آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک اور سال شب یلدہ کی تیرگی میں تبدیل ہو جائے گا۔ پھر یہ بھی ماضی کا ایک بھولا ہوا افسانہ بن جائے گا۔

ہر آنے والا سال عمر فانی کا ایک سال گھٹا دیتا ہے۔ جیسے خزاں کے زرد پتے ٹہنیوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گر جاتے ہیں۔ یہ سارے پتے غیر مرئی وادیوں میں منتشر ہو جاتے ہیں اور پھر کبھی نظر نہیں آتے۔ یا کسی دیوانے کی بے معنی چیخ کی طرح! جو فضا میں کھو کر رہ جاتی ہے۔

لیکن اس سے وابستہ توقعات! کیا حساس دل انہیں بھی اس قدر جلدی فراموش کر دیتے ہیں۔ اور کیا وہ صفحہ دل سے بھی اس طرح محو ہو جاتے ہیں۔ وقت غروب سے طلوع آفتاب تک کتنی تبدیلیاں ہو جاتی ہیں۔ شاخ حیات سے سینکڑوں گل ٹوٹ جاتے ہیں اور بے اندازہ پھول پھوٹتے بھی رہتے ہیں۔ مذاہب مادیت میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور بہار پر خزاں غلبہ پا لیتی ہے۔ کتنے ہی ارادے ایسے ہیں جو ساحل مراد تک نہیں پہنچ سکتے اور کتنے ہی ارمان زندہ رہنے کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں۔ کئی منصور دار پر چڑھ جاتے ہیں اور بہت سے سرمد درجۂ شہادت کو پا لیتے ہیں۔

حسین معصومیت کا سکہ دہر پر بٹھا دیتے ہیں اور یزید شکار معصیت ہوتے جاتے ہیں۔ نہ معلوم کس قدر خلیل نذر آتش ہوتے ہیں۔ کئی کلیم ساحل تک جا پہنچتے ہیں اور فرعون غرق نیل۔ مالک! نہ معلوم کتنی روحیں ایک سال میں جنگ کے دیوتا کی بھینٹ چڑھتی ہیں۔ سسکتے تلملاتے دم توڑتی ہیں اور میدان کارزار کا مدفن ارمان بن جاتا ہے۔

لیکن اس وقت کو کیا، وہ تو اب بھی سبک رفتار فاختہ کی طرح محو پرواز ہے۔ اپنی جانستانیوں سے کائنات کو زیرو زبر کر رہا ہے اور بڑھتے ہوئے مظالم کا شکار۔

کیلنڈر کا آخری ورق بھی اب نوچ کر پھینک دیا جائے گا۔ اس کے بعد یہ سال بھی ایک بھولا بسرا خواب بن جائے گا۔ ان سالہائے رفتہ کی طرح، جو کفن آفتاب میں لپٹ کر کھو گئے۔ اور اس کے بعد سال نو کا ورق! لیکن مالک اس وقت دنیا کس حال میں ہو گی، تقدیر کی اندھی اونٹنی کہاں قیام کرے گی اور وقت! ظالم و بےقرار وقت! کون سی کروٹ لے گا۔

میں بے قراری سے منتظر ہوں کہ دنیا کن معنوں میں سال نو کا استقبال کرے گی۔ اس وقت کائنات سکوں پذیر ہوگی یا شاعر کے دھڑکتے دل کی طرح مضطرب۔

پاکستان میں ہم نے سال گزشتہ کیسے گزارا۔ بے شمار اچھے کام ہوئے جس کےلیے ہم سب خدائے بزرگ و برتر کے شکر گزار ہیں اور اس کی توفیق و حمایت سے یہ سب کام سرانجام دینے والوں کی تحسین و حوصلہ افزائی ہم سب دل و جان سے کرتے ہیں۔ اللہ ان کو مزید اچھا کرنے کی ہمت و استقامت عطا فرمائے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ دل فِگار حادثات و واقعات بھی ہوئے، جن کی ناگوار یادیں غلیل کا پتھر بن کر ہمارے ماتھوں سے ٹکراتی رہیں گی۔ یہ کہاں نہیں ہوتے، لیکن ان کی روک تھام کےلیے احتیاطی تدابیر کی سوچ بچار کہاں نہیں ہوتی۔ وہ ہمیں بھی کرنی ہے اور تہیہ کرنا ہے کہ آئندہ دل توڑ کام کم سے کم اور دل جوڑ کام زیادہ سے زیادہ ہوں۔

آئیے ہم ان سب دل فِگار واقعات کو کاتب تقدیر کا منشا سمجھتے ہوئے ایک طرف رکھتے ہیں اور ذرہ ٹھنڈے دل و دماغ سے تفکر کرتے ہیں کہ سب سے برتر و اعلیٰ، سب سے عظیم، عزیز از دل و جان ہستی کی محبت کے بھیس میں ہم نے سال گزشتہ جو کچھ کیا، کیا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہمیں یہی درس دیتی ہیں یا کچھ مختلف۔ ہم کسی کے ہاتھوں میں تو نہیں کھیل رہے کہ یہ کوئی وقتی یا مقامی چیز نہیں لگتی۔۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

کیا اس خوشنما صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کبھی چلتی راہ بند کی، کسی کو برا بھلا کہا، کسی پہ ہاتھ اٹھایا، کسی کو زخمی کیا، کھڑکیاں دروازے توڑے، گاڑیاں نظر آتش کیں۔ مجھے یقین کامل ہے آپ سب کا جواب نہیں میں ہے۔

ہمیں یہ یقین و اطمینان رکھنا ہے کہ مالک عرش کے حضور عزت والے کے نقش کف پا کے ایک ذرے کی عزت میں کمی لانا بھی اہل زمین کے بس کی بات نہیں ہے۔ فلاح کی راہ پہ چلنے والے غم سے نبٹنے کےلیے صبر کی ڈھال استعمال کرتے ہیں اور اپنی تکلیفوں کو راز رکھتے ہیں، احتجاج و دھرنے نہیں۔ یہ کسی کا پروقار طرز عمل اور رویہ ہی ہوتا ہے جس کے باعث اس کا احترام کیا جاتا ہے۔

تو پھر ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے نام پہ سال گزشتہ یہ سب کچھ کیوں کیا جس کی نبی صلی علیہ وسلم کی زندگی سے ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بدقسمتی سے لوگوں نے اپنی خواہشات کا نام شریعت، حب جاہ کا نام عزت، تکبر کا نام علم اور ریا کاری کا نام تقویٰ رکھ لیا ہے۔ اور دل کے کینہ کو چھپانے کا نام حلم، مجادلہ کا نام مناظرہ، محاربہ و بے وقوفی کا نام عظمت، نفاق کا نام ذوق، آرزو و تمنا کا نام زہد، نفسانیت کا نام محبت، الحاد کا نام فقر، انکار وجود کا نام صفوت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو ترک کرنے کا نام طریقت رکھ لیا ہے، جبکہ اہل دنیا کی آفتوں کو معاملہ کہنے لگے ہیں۔

اسی بنا پر ارباب معانی اور عارفان حقیقت نے ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے اور گوشہ خلوت میں رہنا پسند کرلیا ہے۔ اس حقیقت کا انکشاف شہنشاہ اہل حقائق، برہان تحقیق و دقائق حضرت ابوبکر واسطی رحمتہ اللہ علیہ نے کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ:

“ہم ایسے دور میں پھنس چکے ہیں جس میں نہ تو اسلام کے آداب ہیں، نہ جاہلیت کے اخلاق ہیں اور نہ ہی انسانی شرافت کے طور طریق۔”

ہماری روح پرندوں کو سونپ دی جائے
بدن ہمارے گناہ گار ہو گئے صاحب

تو کیوں نہ اختتام سال ہم عہد کریں کہ سال آئندہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے عملی محبت کا سال ہوگا۔ ہم سب کم از کم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان چالیس عظیم اصولوں پر عمل کر کے دکھائیں گے، اور دنیا کو حیران کر دیں گے۔ اللہ ہمارا حامی و مددگار ہو۔ آمین

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چالیس اصول

1۔ فرمایا: فجر اور اشراق ۔ عصر اور مغرب ۔ مغرب اور عشاء کے درمیان سونے سے اجتناب کیا کرو۔

2۔  بدبودار اور گندے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو۔

3۔ ان لوگوں کے درمیان نہ سوئیں جو سونے سے قبل بری باتیں کرتے ہیں۔

4۔ ہاتھ کے کڑاکے نہ نکالا کرو۔

5۔ جوتا پہننے سے پہلے جھاڑ لیا کرو۔

6۔ نماز کے دوران آسمان کی طرف نہ دیکھو۔

7۔ رفع حاجت کی جگہ (ٹوائلٹ میں) مت تھوکو۔

8۔ لکڑی کے کوئلے سے دانت صاف نہ کرو۔

9۔ ہمیشہ بیٹھ کر کپڑے تبدیل کرو۔

10۔ اپنے دانتوں سے سخت چیز مت توڑا کرو۔

11۔ بائیں ہاتھ سے نہ کھاؤ۔

12۔ منہ سے کھانا نکال کر واپس نہ کھاؤ۔

13۔ گرم کھانے کو پھونک سے ٹھنڈا نہ کرو، پنکھا استعمال کر لیا کرو۔

14۔ کھاتے ہوئے کھانے کو سونگھا نہ کرو۔

15۔ اپنے کھانے پر اداس نہ ہوا کرو۔ یہ عادت ناشکری پیدا کرتی ہے۔

16۔ منہ بھر کر نہ کھاؤ۔ ہمارا منہ خوراک کے ہاضمے کا آدھا کام کرتا ہے، باقی آدھی ذمہ داری معدے کی ہے۔

17۔ اندھیرے میں مت کھاؤ۔ روشنی میں کھایا کھانا زیادہ توانائی دیتا ہے۔

18۔ دوسروں کے عیب تلاش نہ کرو۔ ایسا کرنے والا چغلی، غیبت اور منافقت جیسی روحانی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

19۔ اذان اور اقامت کے درمیان گفتگو نہ کیا کرو۔

20۔ بیت الخلاء میں باتیں نہ کیا کرو۔

21۔ دوستوں کے بارے میں جھوٹے قصے بیان نہ کیا کرو۔

22۔ دوست کو دشمن نہ بناؤ۔

23۔ دوستوں کے بارے میں شکوک نہ پالو۔ شک دوستی کےلیے زہر ہے۔

24۔ چلتے ہوئے بار بار پیچھے مڑ کر نہ دیکھو۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے۔

25۔ ایڑیاں مار کر نہ چلو۔ یہ تکبر کی نشانی ہے۔

26۔ کسی کے بارے میں جھوٹ نہ بولو۔ یہ ایک بڑی معاشرتی بیماری اور گناہوں کی ماں ہے۔

27۔ ٹھہر کر، صاف بولا کرو تاکہ دوسرے اچھی طرح سمجھ جائیں۔

28۔ اکیلے سفر نہ کیا کرو۔ بالخصوص عورت کو کبھی اکیلے سفر نہ کرنے دو۔

29۔ فیصلے سے قبل مشورہ کیا کرو۔ مشورہ ہمیشہ سمجھدار کی بجائے تجربہ کار سے کرنا چاہئے۔

30۔ کبھی غرور نہ کرو۔

31۔ شیخی نہ بگھارا کرو۔

32۔ گدا گردوں کا پیچھا نہ کیا کرو۔ مطلب یہ کہ حقدار تھا یا نہیں۔

33۔ مہمان کی کھلے دل سے خدمت کرو۔

34۔ غربت میں صبر کیا کرو۔

35۔ اچھے کاموں میں دوسروں کی مدد کیا کرو۔

36۔ خامیوں پر غور کیا کرو اور توبہ کیا کرو۔

37۔ برا کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ نیکی کرو۔

38۔ اللہ نے جو دیا ہے اس پر خوش رہو۔

39۔ زیادہ نہ سویا کرو۔ زیادہ نیند یادداشت کو کمزور کر دیتی ہے۔

40۔ روزانہ کم از کم سو بار استغفار کیا کرو۔

بشرط زندگی اگلے اختتام سال پھر ملیں گے، اور اس وقت دیکھیں گے کہ کون سر اونچا کیے، چہرے پہ بشاشت لیے لوٹتا ہے اور کس کا سر سینے پہ جھکا ہوتا ہے۔ کون خوش، کون مضطرب، کون پاک دامن اور کون ایک مرتبہ پھر آلودہ دامنی کا گلہ لیے ملتا ہے۔ پھر ایک دوسرے سے پوچھیں گے بالکل ایسے ہی جیسے ظفر اقبال صاحب نے ایک قہقہے بکھیرنے والے سے استفسار کیا:

اے قہقہے بکھیرنے والے! تو خوش بھی ہے؟
ہنسنے کو چھوڑ، کہ ہنستا تو میں بھی ہوں!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post سال نو appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2zRW8XR
via IFTTT

No comments:

Post a Comment