پہلی بار جب جنوری 2016 میں میرے اس بلاگ کا پہلا حصہ ایکسپریس نیوز میں چھپا، تب میرے پی ٹی آئی کے دوستوں نے مجھے خوب تنقید کا نشانہ بنایا؛ اور پھر یہی بلاگ پنجاب حکومت، بنجاب میٹرو اور دیگر مسلم لیگی رہنماؤں نے ٹوئٹر سمیت مختلف سوشل میڈیا مختلف پلیٹ فارم پر شیئر یا لائک کیا تو یہ بہت مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ، پی ٹی آئی سپورٹرز کی وجہ سے، متنازعہ ترین بھی بن گیا۔ جہاں مسلم لیگ (ن) کے حامیوں نے میری اس کاوش کا سراہا، وہیں پی ٹی آئی کے سپورٹرز کی طرف سے سوشل میڈیا پر گندی اور غلیظ گالیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
میں نے اپنے دوستوں کی تنقید کو بڑی خوشدلی سے برداشت کیا کیونکہ اس وقت میٹرو بس پروجیکٹ صرف شہباز شریف کا پروجیکٹ تھا اور عمران خان اسے جنگلہ بس اور نہ جانے کیا کیا کہا کرتے تھے۔ بلکہ ان کی سیاست کا ایک اہم جزو میٹرو بس پر تنقید بھی بن گیا۔ اسی لائن کو پی ٹی آئی کے سپورٹرز نے بھی اپنایا۔ پھر خان صاحب کو احساس ہوا کہ جسے وہ جنگلہ بس کہتے آرہے ہیں، وہ ایک عوام دوست اور انتہائی کارآمد پروجیکٹ ہے۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: خدارا! سفر کے آسان ذرائع کو بننے دیجیے
لہٰذا انہوں نے اس کو پشاور میں متعارف کروانے کا حتمی فیصلہ کیا۔ لوگ خان صاحب کو ان کے بدلتے فیصلوں کی وجہ سے یوٹرن خان بھی کہتے ہیں۔ لیکن میں اسی وجہ سے ان کی زیادہ عزت کرتا ہوں کیونکہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ خان صاحب ایک انا پرست انسان ہونے کے باوجود پاکستان کی عوامی فلاح و بہبود کو ذاتی انا پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ بہت مشکل کام ہوتا ہے جس کےلیے بہت بڑے ظرف کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا کہ خان صاحب نے بہت سے یوٹرن لیے۔ خان صاحب ایک جذباتی انسان ہیں، ملک کےلیے کچھ کرنے کا جذبہ ان کے اندرموجود ہے۔ لیکن اپنی شعلہ بیانی، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور معلومات سے مکمل واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کئی بار خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر ان کا بڑا پن یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی خفت کو عوام کی فلاح کے آڑے نہیں آنے دیا۔
اس میں بھی قصور ان کے ارد گرد کے لوگوں کا ہے جو انہیں غلط اور ادھوری معلومات دیتے ہیں جیسا کہ اسد عمر صاحب فرماتے تھے کہ میٹرو بس تو میں 8 ارب میں بنوا دوں گا جو ابھی پشاور میں 70 ارب میں بھی مکمل نہیں ہوسکی۔ بہرکیف میں میٹرو بس سروس کی مندرجہ ذیل وجوہ کی بنیاد پر حمایت کرتا ہوں چاہے وہ پی ٹی آئی پشاور میں بنائے، مسلم لیگ ن لاہور میں یا پیپلز پارٹی کراچی میں:
- میٹرو بس سروس کا سب سے بڑا فائدہ خواتین، بوڑھے اور ریٹارڈ افراد کو ہوا۔ اس کے علاوہ غریب، لوئر مڈل کلاس، مڈل کلاس، اپر مڈل کلاس، غرض کہ معاشرے کا ہر طبقہ اس سے مستفید ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ان پڑھ، پڑھے لکھے، غریب، امیر سب کو ایک جیسی سہولت ملتی ہے۔
- پاکستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ خواتین پر مشتمل ہے جو کئی بار مناسب سفری سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتیں جس کی وجہ پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کا ناقص نظام ہے جہاں مڈل کلاس سےتعلق رکھنے والی خواتین کا سفر کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے (وہ مسائل آپ پہلے حصے میں پڑھ سکتے ہیں)۔ دوسری طرف رکشہ اور ٹیکسی ہر بندہ افورڈ بھی نہیں کرسکتا، اور جو کر سکتے ہیں وہ اس سے وابستہ سیکیورٹی کے مسئلے کی وجہ سے اپنی بچیوں کو اکیلا ٹیکسی پر سفر کرنے سےکتراتے ہیں۔ اسی وجہ سے خواتین کی ایک کثیر تعداد اعلی تعلیم حاصل نہیں کرپاتی تھی۔ لیکن اب جہاں میٹرو ہے، وہاں امیر غریب سب کی بچیاں یکساں سفری سہولیات کا فائدہ اٹھا کر آرام دہ اور محفوظ سفر کر سکتی ہیں۔ اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس پروجیکٹ نے اس علاقے میں تعلیمی عمل کو فروغ دیا، طالب علموں کےلیے بہت سہولت پیدا کی ہے۔
- اب جہاں خواتیں جیسے تیسے کرکے تعلیم تو حاصل کر لیتی تھیں وہاں انہی سفری مشکلات کی وجہ سے وہ جاب کرنے سے گریزاں نظر آتی تھیں۔ لیکن میٹرو بس نے ان خواتین کو بھی ایک حوصلہ دیا جو ہمت ہار چکی تھیں۔ انہوں نے اپنے بھائیوں، خاوندوں، اور باپ کے شانہ بشانہ کام کیا اور اپنے خاندان کے معاشی نظام کو مستحکم کیا۔ اسی طرح میٹرو نے جہاں تعلیمی لحاظ سے آسانیاں پیدا کیں وہاں معاشی ترقی میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کیا۔
- اب رہ گیا یہ سوال کہ یہ پروجیکٹ لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں کیوں لگائے گئے؟ تو جناب ان تینوں شہروں میں تعلیم اور روز گار کے مواقع زیادہ ہونے کی وجہ سے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد یہاں کا رخ کرتی ہے۔ تو ان تینوں شہروں نے پورے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے عوام کو بوجھ اٹھا یا ہوا ہے اور یہاں ایسا پروجیکٹ دونوں صوبے کے لوگوں کے فائدے کی بات ہے۔ اب اس پروجیکٹ میں شہباز شریف کرپشن کر لے یا پرویز خٹک، اس پروجیکٹ کو 50 ارب کے بجائے 70 ارب میں لے جائے اور یہ پروجیکٹ مکمل ہونے سے پہلے ہی نیب کے پاس چلا جائے تو اس میں قصور پروجیکٹ کا نہیں ہمارا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسپتال بننے چاہئیں، اسکول بننے چاہئے لیکن میرا مؤقف یہ ہے کہ جو پہلے سے بنے اسکول اور اسپتال ہیں، ان کا نظام درست کیا جائے کیونکہ وہ ایک انتظامی معاملہ ہے۔
جو لوگ اب بھی ان پروجیکٹس کی مخالفت کرتے ہیں، ان سے میں یہی کہوں گا کہ اپنی ماں، بہن، بیٹی کو اس ویگن کے ڈرائیور کے حوالے کرکے دیکھیں جو ان پر گندی نظریں بھی ڈالے گا، فحش گانے بھی سنوائے گا (بلکہ اب تو ایل ای ڈی پر دکھائے گا بھی)، دھکے بھی دے گا، زائد کرایہ بھی وصول کرے گا اور ان کے جسموں کو ہاتھ لگا کر جنسی تسکین بھی حاصل کرے گا۔ اور جب یہ سب جانتے ہوئے بھی آپ اپنی ماں بہن بیٹی کو اس ویگن پربٹھا کر واپس آئیں گے تو جو ذہنی اذیت اور کرب سے آپ دوچار ہوں گے، اس کا مداوا کون کرے گا؟ اس لیے خدارا اگر آپ کا لیڈر غلط راستے پر ہے، وہ غلط بات کرتا ہے تو اسے سمجھائیے، اس کی راہنمائی کیجیے کہ وہ سیاست دان ہے، نعوذ باللہ خدا نہیں، پیغمبر نہیں۔ وہ انسان ہے، اس سے غلطی ہو سکتی ہے۔ اندھا دھند تقلید اور بے جا تنقید سے اجتناب برتیے، سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اپنا فیصلہ پاکستان کے حق میں دیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post خدارا! سفر کے آسان ذرائع کو بننے دیجیے (گزشتہ سے پیوستہ) appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2C6eeeX
via IFTTT
No comments:
Post a Comment