Tuesday, April 30, 2019

تب کہا جاسکے گا: ریاست ہے ماں کے جیسی! ایکسپریس اردو

نظام بدلو، صدارتی نظام لاؤ، اور ’’گو نظام گو‘‘ کے نعرے پڑھ اور سن کر میری آنکھیں، قلم اور کان سن ہو گئے ہیں۔ عوام کی اکثریت کیوں اس نظام کی دشمن بن گئی ہے؟ کیوں نظام کی تبدیلی کے نعرے کی آڑ میں انتظامیہ، عدلیہ اور اور ایوانوں سے بغاوت پر تلی ہوئی ہے؟ حالانکہ ان اداروں کا باہمی اشتراک ریاست کہلاتا ہے؛ اور ریاست تو ماں کے جیسی ہوتی ہے، سب سے پیار کرتی ہے۔ لیکن ریاست کے بیٹے بیٹیاں یعنی عام شہری اگر مطمئن نہیں، اور انہیں بنیادی حقوق میسر نہیں، تو پھر ریاست سے شکایت تو بنتی ہے۔ ریاست جو ماں جیسی ہے، پھر وعدے کے مطابق اپنے بچوں کو بنیادی سہولیات سے ہی محروم کیوں رکھے ہوئے ہے؟

ایک شہری ریاست سے سوال کرتا ہے کہ وہ ریاست سے کیے گئے معاہدے کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے۔ لیکن کیا ریاست اپنے فرائض پورے کر رہی ہے؟ ایک عام غریب شہری سورج، چاند اور تارے توڑ لانے یا دودھ اور شہد کی نہریں تو نہیں مانگتا۔ عام شہری تو ریاست سے اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرتا ہے۔ وہ پینے کا صاف پانی، اپنی اولاد کےلیے تعلیم و صحت کا معیاری نظام، علاج اور امن و امان کا وہ ایسا نظام مانگتا ہے جہاں عزت اور جان و مال کا تحفظ ہو۔ ایک شہری پاکستان کی صادق و امین قیادت سے بھی سوال کرتا ہے کہ کیا چہروں کی تبدیلی سے کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا؟ عوام سوچتے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی کے باوجود کرپشن کا ناسور ہماری بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے، اب اگر مالی و انتظامی کرپشن نہیں تو پھر میرے گھر، میرے علاقے اور میرے شہر میں بنیادی سہولیات میسر کیوں نہیں؟

ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، تو پھر ہر سال ساڑھے تین لاکھ بچے اس ملک میں پینے کا صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے موت کی وادی میں کیوں چلے جاتے ہیں؟ ریاست ماں کے جیسی ہے، تو بجلی اور گیس کے نظام میں تعطل، شہری کو ریاست بتائے کہ کیوں لوڈ شیڈنگ اووربلنگ، ٹیرف سے ہٹ کر من مانے بل شہریوں پر لاد دیتی ہے؟ احتجاج کرو تو پولیس حرکت میں آجاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ حق مانگو تو ریاست اور ہر حکومت کو برا لگتا ہے۔ عدل اور انصاف کا مطالبہ اقتدار پر بیٹھے لوگوں کو کیوں گراں گزرتا ہے؟ کیا اس نظام میں حکمرانی غریب آدمی سے اس کے تمام حق چھین لینے کا نام ہے؟ کیا حکومت معاشی کاموں کو ادھار پر چلانے کا نام ہے؟ ایک عام آدمی اپنے تمام نمائندوں اور ارباب اختیار سے پوچھتا ہے: کیوں ہماری قسمت میں لکھ دیا گیا ہے، کہ کیوں اشرافیہ جیسی بَلا پر مشتمل چند گھرانے عیش و عشرت سے زندگی گزاریں اور ریاست کے کروڑوں بیٹے بیٹیاں بھوک، افلاس جہالت اور بیماریوں پر مشتمل زندگی گزارنے پر مجبور؟

نہیں! اب ایسا نہیں چلے گا، عام آدمی اس نظام اور نظام چلانے والوں کو مسترد کرتا ہے۔ ظلم، جبر و استحصال اور ناانصافی کی سیاست کو رد کرتا ہے۔ اپنے بنیادی جمہوری اور آئینی حقوق کے حصول کےلیے فرسودہ اور ناکارہ نظام سے جان چھوڑانا چاہتا ہے۔ ریاست پاکستان کا شہری ایک ایسا شفاف نظام مانگتا ہے جس میں تمام پاکستانیوں کے حقوق یکساں ہوں۔ ایسا نظام جس کے تحت تمام وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو۔ ساتھ ہی نظام بدلنے کا طریقہ بھی شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایک ایسا طریقہ جس میں دھن، دھونس، دھاندلی کا ذرّہ بھر بھی امکان نہ ہو۔ ایک ایسا طریقہ جس سے عوام مطمئن ہوں، کوئی بھی اس طریقہ کار پر انگلی نہ اٹھائے۔

جب حکومت عوام کی ہوگی، عوام میں سے ہوگی، عوام کےلیے ہوگی، تب کہا جا سکے گا کہ ریاست ہے ماں کے جیسی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post تب کہا جاسکے گا: ریاست ہے ماں کے جیسی! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2VE2adq
via IFTTT

No comments:

Post a Comment