ہر جاندار کے جسم میں پایا جانے والا سرخ سیال یعنی خون زندگی کے لئے ناگزیر ہے، کیوں کہ تمام جسمانی اعضاء کو خوراک و آکسیجن کی فراہمی کے علاوہ مختلف انفیکشنز سے تحفظ فراہم کرنا اسی کی ذمہ داری ہے۔ یہ خون اپنی مخصوص مقدار کے ساتھ پورے جسم میں گردش کرتے ہوئے اپنے افعال سرانجام دیتا ہے۔
خون میں مختلف قسم کے خلیات پائے جاتے ہیں، جن میں اہم ترین سرخ خونی خلیات (Red Blood Cells)، سفید خونی خلیات (White Blood Cells) اور صفیحات (Thrombocytes ) کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ایک انسانی جسم میں اوسطاً 1.2 سے 1.5 گیلن یا ساڑھے چار سے ساڑھے پانچ لیٹر تک خون ہوتا ہے۔ کچھ افراد کے اندر خون کی مقدار ان کے جسمانی وزن کے 8 سے 10 فیصد کے برابر ہوتی ہے اور یہ مقدار 6 سال کی عمر سے جسم کا حصہ ہوتی ہے جبکہ اس سے کم عمر بچوں میں ایک کپ کے برابر خون ہوتا ہے۔ کسی چوٹ یا دیگر وجوہات کی بناء پر جسم میں ڈیڑھ سے دو لیٹر خون کی کمی واقع ہو جائے تو فوری طور پر اس شخص کو خون فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ اس سے زیادہ خون کی کمی سے دل بلڈ پریشر کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو جاتا ہے اور نتیجتاً زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ خون کی رنگت، افعال اور بنیادی عناصر ہر انسان میں ایک سے ہوتے ہیں لیکن کچھ عوامل خون کو مختلف گروپس میں تقسیم کر دیتے ہیں، جنہیں جدید طب نے اے (اے پازیٹو، اے نیگٹو)، بی (بی پازیٹو، بی نیگٹو)، اے بی (اے بی پازیٹو، اے بی نیگٹو) اور او (او پازیٹو، او نیگٹو) میں تقسیم کر رکھا ہے اور یہ تقسیم انسانی صحت میں کھڑکی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یونہی ان چاروں گروپس کو جو چیز ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے، وہ اے اور بی اینٹی جنز ہے، یعنی ایسے پروٹین یا کاربوہائیڈریٹ جو خون میں شامل ہو کر اینٹی باڈیز بنانے کے عمل کو تیز کرتے ہیں۔
یہ اینٹی جنز خون کی رگوں، نیورانز اور پلیٹ لیٹس پر اثرانداز ہوتے ہیں، جن کے نتیجے میں انسانی جسم کو مختلف امراض جیسے دل، کینسر اور اسٹروک وغیرہ کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں بلڈ گروپس کی تقسیم کی بات کی جائے تو کچھ عرصہ قبل ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق مجموعی آبادی کے تقریباً 27 فیصد افراد کا بلڈ گروپ او پازیٹو، 22 فیصد کا اے پازیٹو، 34 فیصد کا بی پازیٹو، 10 فیصد کا اے بی پازیٹو، سوا 2 فیصد کا او نیگٹو، پونے 2 فیصد کا اے نیگٹو، ساڑھے 3 فیصد کا بی نیگٹو جبکہ تقریباً نصف فیصد(0.45) کا اے بی نیگٹو ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ہر انسان کے لئے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ اس کی رگوں میں دوڑنے والا خون کس گروپ سے تعلق رکھتا ہے اور اس بلڈ گروپ کی وجہ سے آپ خدانخواستہ کن بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ایک جاپانی ماہر طب پروفیسر ٹوکی جی فیوریکاوا نے 1930ء میں ایک مقالہ پیش کیا، جس میں یہ دعوی کیا گیا کہ بلڈ گروپس شخصی خصلتوں کو ظاہر کرتے ہیں، تاہم اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا کیوں کہ یہ مفروضہ سائنسی طور پر ثابت شدہ نہیں، لیکن دور جدید میں جدت اور ترقی کی منازل طے کرتی میڈیکل سائنس نے بلڈ گروپس کے حوالے سے کچھ چیزوں کو ضرور ثابت کیا ہے، جن کے بارے میں ہم یہاں اپنے قارئین کو آگاہی فراہم کریں گے تاکہ قیمتی انسانی جان کو بچانے کے لئے بروقت اقدامات کئے جا سکیں۔
اے، بی اور اے بی بلڈ گروپ
برطانوی کمپنی بی ایم سی میڈیسن کی تحقیق کے مطابق او بلڈ گروپ کے برعکس اے، بی اور اے بی بلڈ گروپ کے حامل افراد کی رگوں میں 25 سے 30 فیصد تک خون جمنے کا خطرہ ہوتا ہے، جس کے باعث ان بلڈ گروپس کے افراد میں او بلڈ گروپ کی نسبت امراض قلب کا 15 فیصد خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ جس خون میں او گروپ نہیں پایا جاتا، اس سے متعلق بی ایم سی میڈیسن کی تحقیقات کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان بلڈ گروپس کی وجہ سے معدے کے السر کا خدشہ بھی ہوسکتا ہے، جس کی وجہ خون کے جوش کا ردعمل ہوتا ہے۔ بلڈ ٹرانسفیوژن نامی جریدے میں شائع ایک آرٹیکل کے مطابق اے، بی اور اے بی بلڈ گروپ رکھنے والے افراد کی رگوں میں thromboembolism نامی رکاوٹ بھی پیدا ہو سکتی ہے، جس کے باعث ٹانگ، بازو، پیٹ اور ران کے درمیانی حصہ میں ہونے والی خون کی گردش متاثر ہوتی ہے اور نتیجتاً پھیپھڑوں میں بھی خون کی سپلائی کم ہو جاتی ہے۔
موروثی طور پر نان او ٹائپ بلڈ گروپس کے افراد میں خون جمنے کے خطرات میں تین گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ نیورولوجی جریدے کا کہنا ہے کہ اگرچہ اے بی بلڈ گروپ بہت عام ہے لیکن اس بلڈ گروپ کے حامل افراد میں دیگر بلڈ گروپس کی نسبت 82 فیصد تک یاداشت کے مسائل جنم لینے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ڈایابیٹالوجیا جریدے میں شائع ایک تحقیق کے مطابق اے یا بی اور خصوصاً بی بلڈ گروپ رکھنے والے افراد میں دیگر بلڈ گروپس کی نسبت 21 فیصد تک ذیابطیس ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، جس کی وجہ ماہرین اس بلڈ گروپ کی وجہ سے میٹابولزم (خلیوں کی طبعی یا کیمیائی تبدیلیوں کا مجموعہ) کے متاثر ہونے کو قرار دیتے ہیں۔
اے بلڈ گروپ میں اے اینٹی جنز سرخ خلیات میں ہوتے ہیں جبکہ بی اینٹی باڈیز پلازمہ میں پائے جاتے ہیں، اگر آپ کے خون کا گروپ اے ہے تو آپ اے اور اے بی خون کے گروپس رکھنے والے افراد کو سرخ خلیات کا عطیہ کرسکتے ہیں۔ بی بلڈ گروپ کے سرخ خلیات میں بی اینٹی جنز اور پلازمہ میں اے اینٹی باڈیز ہوتے ہیں، ایسے لوگ بی اور اے بی بلڈ گروپ رکھنے والوں کو سرخ خلیات کا عطیہ کرسکتے ہیں۔ ہاورڈ یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس بلڈ گروپ والے افراد میں امراض قلب کا خطرہ او گروپ کے مقابلے میں 11 فیصد زیادہ ہوتا ہے، تاہم ایسے افراد کے معدے میں اے یا او بلڈ گروپ کے مقابلے میں 50 ہزار گنا زیادہ دوست بیکٹریا ہوتے ہیں جو صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔ اے بی بلڈ گروپ کے سرخ خلیات میں اے اور بی دونوں اینٹی جنز ہوتے ہیں، مگر پلازما میں اے یا بی کوئی اینٹی باڈی نہیں ہوتا، اگر آپ کے خون کا گروپ اے بی پازیٹو ہے تو آپ ہر قسم کا خون لے سکتے ہیں۔
او بلڈ گروپ
معروف امریکی ماہر طب ٹیری بی گیرنیشیمر کا کہنا ہے کہ او بلڈ گروپ میں ایسے پروٹین کی تعداد کافی کم ہوتی ہے، جو خون کو رگوں میں جمانے کا باعث بنتے ہیں، تاہم اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ کسی چوٹ لگنے کی صورت میں او گروپ کے باعث جسم سے بہت زیادہ خون بہہ سکتا ہے۔ دوسری طرف او بلڈ گروپ کے بارے میں ہیومن پروڈکشن نامی جریدے کی ریسرچ کے مطابق مذکورہ بلڈ گروپ کی وجہ سے حمل کے عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جس کی وجہ اس بلڈ گروپ میں پایا جانے والا ایک خاص ہارمون (follicle-stimulating hormone) ہے۔
لہذا ماہرین کے مطابق او بلڈ گروپ کی حامل خواتین میں اس کے علاوہ بلڈ گروپ رکھنے والی خواتین کی نسبت حمل ضائع ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ اگر آپ کے خون کا گروپ او ہے تو آپ کے سرخ خلیات میں اے یا بی اینٹی جنز نہیں ہوں گے مگر پلازما میں اے اور بی اینٹی باڈیز ہوتے ہیں، او پازیٹو سب سے عام خون کا گروپ ہے جبکہ او نیگیٹو گروپ رکھنے والے ہر کسی کو خون کے سرخ خلیات کا عطیہ کرسکتے ہیں۔
ممکن ہے آپ نے ایسا سن رکھا ہو کہ مخصوص بلڈ گروپس کے لئے مخصوص غذاؤں کا استعمال یا احتراز آپ کو مختلف بیماریوں سے بچا کر صحت مند رکھ سکتا ہے لیکن امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن کے مطابق اس بات کا ابھی تک کوئی ثبوت نہیں مل سکا، تاہم یہ ممکن ہے کہ غذا کے استعمال میں احتیاط آپ کی صحت کی مجموعی صورت حال کو بہتر بنا دے، لیکن اس عمل کا مخصوص بلڈ گروپ سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ آپ کا کوئی بھی عمل آپ کے بلڈ گروپ کی عکاسی کرتا ہے لیکن پلوز ون نامی طبی جریدے میں شائع ہونے والی ایک جاپانی تحقیق کے مطابق اس نظریہ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، لہذا ہم اپنے غلط رویہ کا قصوروار کبھی بھی بلڈ گروپ کو نہیں ٹھہرا سکتے۔
اسی طرح کسی خاص مرض کی وجہ بھی حتمی طور پر کوئی خاص بلڈ گروپ نہیں ہو سکتا، کیوں کہ کسی ایک بیماری کی وجوہات بہت سی ہو سکتی ہیں، جس کا کافی حد تک انحصار آپ کی روزمرہ کی زندگی، خوراک، کام اور خاندانی پس منظر پر ہوتا ہے۔ ماہر طب ٹیری بی گیرنیشیمر کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ اس بات کا تاحال کوئی مستند ثبوت نہیں ہے کہ کسی انسان کا طرز زندگی اس کے بلڈگروپ کی وجہ سے تبدیل ہوا ہو۔ لہذا آگاہی انسان کا حق ہے، جو اس ملنا چاہیے تاکہ وہ بہتر زندگی گزار سکے، لیکن کسی ایک چیز پر تکیہ کرنا درست نہیں۔
The post A,B,AB,O بلڈ گروپس میں چھپے راز appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/30ihPAQ
via IFTTT
No comments:
Post a Comment