Wednesday, August 26, 2020

سسٹم کی ستم ظریفیاں ایکسپریس اردو

حالیہ مون سون بارشوں کی رپورٹنگ کا ایک منظرنامہ ملاحظہ فرمایئے جو برساتی پینوراما کی شکل میں عوام برس ہا برس سے دیکھتے اور پڑھتے آرہے ہیں۔

بارش کی کہانی اس طرح شروع ہوتی ہے، ’’کراچی میں منگل کو گرج چمک کے ساتھ طوفانی بارش سے شہر زیر آب آگیا، نظام زندگی درہم برہم ہوگیا جب کہ کرنٹ لگنے، ڈوبنے اور دیوار گرنے سے دو بچے اور ایک شخص جاں بحق ہوگیا، شہر میں اگست کے مہینے میں بارشوں کا سابقہ 89 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، مختلف علاقوں میں اربن فلڈنگ کی صورتحال پیدا ہوگئی، 2 روز کے دوران شہر میں 230 ملی میٹر بارشیں ریکارڈ ہوچکیں، گلیاں محلے تالاب کی شکل اختیار کر گئے۔

مرکزی سڑکیں جھیلوں میں تبدیل ہوگئیں، گھروں میں پانی داخل ہونے سے شہریوں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوگیا، شہر میں نکاسی آب کا نظام بیٹھ گیا، برساتی نالے اوور فلو ہو گئے جس سے مرکزی شاہراہیں زیر آب آگئی اور آبادیوں میں پانی داخل ہوگیا، شہر کراچی بارش کے بعد مفلوج ہوگیا، شہریوں کی بڑی تعداد گھنٹوں سڑکوں پر پھنسی رہی، گاڑیاں پانی میں تیرتی رہیں، ہزاروں موٹر سائیکلیں خراب ہوگئیں۔

بارش کے ساتھ ہی شہر میں بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا، 700 سے زائد فیڈر متاثر ہوئے، شہر کے بعض علاقوں میں رات گئے تک بجلی بحال نہیں ہوسکی تھی۔‘‘ پھر رین ایمرجنسی کا اعلان ہوتا ہے جس کے تحت سرکاری ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کر دی جاتی ہیں، میڈیا سے خبر آتی ہے کہ بارش کے بعد شہر زیر آب آگیا، گلیاں محلے تالاب کی شکل اختیار کر گئے مرکزی سڑکیں جھیلوں میں تبدیل ہوگئی گھروں میں پانی داخل ہوگیا جس سے شہریوں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوگیا، شہر میں نکاسی آب کا نظام بیٹھ گیا، برساتی نالے اوور فلو ہو گئے جس سے مرکزی شاہراہیں زیر آب آگئی اور آبادیوں میں پانی داخل ہوگیا۔‘‘

یہ صورتحال قیام پاکستان سے پہلے نہیں تھی، اس وقت ایک نوزائیدہ ملک کی آفرینش کے دن تھے، آبادی کم تھی، نقل مکانی اور ہجرت کے دلگداز واقعات نے سیاسی اور سماجی اداروں کی تشکیل کی اہم ترجیحات بانیان قوم کے پیش نظر رکھی تھیں اس لیے بارش، معیشت، سیاست اور تعلیم وصحت کے شعبوں کی ادارہ جاتی تنظیم و تعمیر کے لیے قوم بھی ’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی کے تحت خاموش تھی، مگر قومی تعمیر نو کے معاملہ کا زندگی کے حقائق اور انسانی ضروریات کی روشنی میں جائزہ لینے کا عمل شروع کردیا تھا۔

یہ چیک اینڈ بیلنس جو حکومت کو امور ریاست میں بنیادی طور پر اپنے انتظامی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی معاملات میں رکھنا چاہیے تھا اسے عوام نے اس وقت سے شروع کیا جب چھ سات عشرے گزرنے کے بعد بھی عوام کی حالت نہیں بدلی، امور مملکت میں عوام کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا گیا اور مملکت خداداد کے شہر اور آبادیاں بارش کے سیلابی ریلوں میں ڈوبنے لگیں تو میڈیا نے کہرام برپا کردیا اور شور مچایا کہ بارشیں قدرتی آفات نہیں سسٹم کی خرابی کا نتیجہ ہیں، حکمرانوں کو باور کرایا گیا کہ جب انگریز برصغیر پر حکومت کرتے تھے تو بلدیاتی نظام شفاف اور عوام دوست تھا، مقامی خود اختیاری حکومت کے ہاتھ شہریوں کی نبض پر ہوتے تھے، میئرز خدا ترس تھے، نہ صرف شہریوں کو صاف پانی ملتا تھا بلکہ حیوانات کی پیاس بجھانے کے لیے سڑک کے کنارے ’ پیالو‘‘ بنائے گئے تھے۔

ان ہی انگریزوں کے دور میں پاکستان کے بلدیاتی ادارے، اسپتال، جامعات، کالجز اور سماجی و خیراتی محکمے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے دن رات کام کرتے تھے، غریب آبادیوں میں بھی شفا خانے اور میٹرنٹی ہوم قائم تھے، ڈرینیج سسٹم کام کرتا تھا، سیوریج کا پانی بارش کے بعد کہیں نظر نہیںآتا تھا، یہ اسی سسٹم کی تربیت اور انتظامی صلاحیت تھی جس نے بلدیاتی اور سرکاری افسروں کو شعور دیا کہ برساتی نالے قدرت کا فطری نظام ہیں جو ہزاروں سال سے بارش اور سیلاب کے پانے کی نکاسی کے راستے بنے ہوئے ہیں۔

مگر رفتہ رفتہ حکمرانوں اور بیوروکریسی میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوا جو ماضی کے انتظامی اور بلدیاتی ورثے کی لوٹ مار میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا، حالانکہ شہر کی خوبصورتی، امن وامان، سڑکوں کی تعمیر و مرمت، اسکولوں اور صحت کے مراکز کی نگہداشت میں شفافیت اور جوابدہی کا فالٹ فری نظام اس مقام کا ہونا ناگزیر تھا کہ اس کی مثالیں ہماری نئی حکومتیں دنیا کے سامنے پیش کرتیں، شہر چھوٹے تھے یا بڑے، آبادی کم تھی یا زیادہ، کراچی میں کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کا دائرہ توقع سے بڑھتا ہی گیا۔

اس حساب اور تناسب سے شہر کے ماسٹر پلان بنتے چلے جاتے، اربنائزیشن کی مانیٹرنگ اور ڈیموگرافک تبدیلیوں کے اشاریے ریکارڈ ہوتے رہتے، کراچی کو کنکریٹ جنگل نہ بننے دیاجاتا، ایشیا کی اس عروس البلاد کی مانگ میں ستارے بھر دیے جاتے، اسی طرح لاہور، کوئٹہ، پشاور، حیدرآباد سمیت ملک کے دیگر تجارتی، کاروباری شہروں کی بلدیاتی اور اربن ضروریات کا خیال رکھا جاتا تو بارشیں کبھی بھی زحمت نہ بنتیں۔

لیکن حالیہ بارشوں کی تباہ کاریوں کے تسلسل کو جب قومی تناظر میں دیکھا جاتا ہے تو کئی تضادات سر اٹھاتے ہیں، مثلاً یہ عجیب تضاد اور ستم ظریفی ہے کہ سیلاب اور بارشوں سے تباہی تو دکھائی جاتی ہے مگر نظام کی سفاکیت نظروں سے پوشیدہ رہتی ہے، بربادی بھی جاری ہے، سرکار کی طرف سے تنخواہیں بھی جاری ہیں، حکمران طبقہ کی مراعات بے حساب ہیں، ملک میں احتساب کا غلغلہ ہے مگر کرپشن کی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے جارہے ہیں، عدالتیں فریاد کناں ہیں کہ کرپشن کے بڑے مگرمچھ کہاں غائب ہوگئے، ملک کے سب سے بڑے شہر میں کئی دن سے پانی کھڑا ہے۔

لاکھوں لوگ بے گھر ہیں، کھانے کو کچھ نہیں، مگر حکومت اس کا انتظامی ڈھانچہ، انفراسٹرکچر، عملہ، ریسکیو ٹیمیں، کس دنیا میں بستی ہیں۔ ہمارے ’’بااثر‘‘ وزیر اعظم کی ڈھیر ساری ٹاسک فورسز؟ اور وہ ٹارزن جیسی ’’ٹائیگر فورس‘‘ کا کیا ہوا، جو پاکستان کی تقدیر بدلنے کی ریہرسل کر رہی تھی۔ کوئی خود مختار مانیٹرنگ میکنزم ہونا چاہیے جو حکومت، بیوروکریسی، وزرا سے جواب دہی کرتا کہ شہری زندگی مفلوج ہوگئی تو ان کے امدادی اقدامات اور رین ایمرجنسی کے نتائج کیوں سامنے نہیں آسکے؟

یہ ملک بھر کے سسٹم پر ایک سقراطی طنز ہے، کیا قوم ایک ملک گیر جوابدہ سسٹم سے محروم ہے، یہ کون سی سسٹیمک خرابیاں ہیں جو ہر دور کی معمول کی مون سون بارشوں میں ملک کے شہروں، قصبوں، دیہاتوں، ضلعوں، تحصیلوں اور گوٹھوں کو تباہی سے دوچار کردیتی ہیں، مسئلہ بارش اور قدرتی آفات کا نہیں حکمرانوں کی ناکامی، نظام کی ازکار رفتگی، فرسودہ حکومتی و ریاستی دروبست کا ہے، غلامانہ ذہنیت، طبقاتی رعونت، سیاسی آوارگی اور عوام سے بے وفائی کا ہے۔

عوام دکھ سہتے آئے ہیں، کورونا، مہنگائی، بیروزگاری کا عذاب برداشت کرتے ہیں تاہم سسٹم کے جبر کا تسلسل جاری ہے، حکومت ایک ہمہ گیر میکنزم دینے کی بجائے اس بات کا انتظار کرتی ہے کہ ’’پانی اتر جائے، عوام کی برہمی ختم ہو تو فوٹو سیشن کا کچھ اہتمام کیا جائے‘‘ کورونا کی پسپائی پر دنیا سے تعریف و توصیف سمیٹنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن سول سوسائٹی کا یہ اعتراض بجا ہے کہ اہل اقتدار تھوڑا سا وقت عوام کے صبر و استقامت اور ان کی شاباشی پر بھی دیں، عوام 74 برسوں سے ایک بیمار، بے فیض اور جبر و قہر پر مبنی سماجی اور بلدیاتی نظام کا بوجھ کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں، حکومت عوام سے اربوں کا ٹیکس لیتی ہے، مگر کس پر خرچ کرتی ہے اس کا کوئی جواب نہیں ملتا، اشرافیہ ملکی مسائل پر قابض ہے مگر عوام روزگار کے لیے دھکے کھاتے ہیں۔ سیاست دانوں، بیوروکریسی اور امیروں کو کروڑوں عوام کے شب وروز کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔

حکمرانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ سیاسی نظام کو لفظوں کی بازیگری اور باہمی نفاق میں برباد نہ کریں، عوام کو ایک مستحکم سویلین سسٹم درکار ہے جو ان کے دکھوں کا مداوا کرے۔ لوگوں کو آسودگی دینے والا میکنزم دیں، تعلیم وصحت کے لیے سہولیات مہیا کریں، ملک میں ڈزاسٹر مینجمنٹ کی شفاف ترین سہولتیں ناکافی ہیں، اکا دکا ریسکیو معاملات پر ملک کے عوام کی آسودگی کو کافی نہیں سمجھنا چاہیے، ملک قحط الرجال اور سٹرکچرل بحران کا شکار ہے، ملکی سیاست دان عوامی مسائل کے حل کے لیے اپنے ایئر کنڈیشنڈ کمروں سے نکلنے کو تیار نہیں۔

ان کا زیادہ تر وقت ٹی وی ٹاکس کی نذر ہو رہا ہے، ہمارے وزرا، سیاسی اکابرین اور حکمراں اس بات میں الجھے ہوئے ہیں کہ نواز شریف کو کیسے واپس پاکستان لانا ہے، کسی کو این آر او نہ دینے کا بار بار عزم ظاہر کیا جاتا ہے لیکن جو کام اولین فرصت میں حکومت کو کرنے ہیں، اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے، حکومت کو اطلاع مل چکی کہ90 سالہ بارش کا ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے، کئی نامعلوم حکومتی ریکارڈ اور بھی ٹوٹ چکے ہیں لیکن فساد فی الارض کے خطرہ کے پیش نظر ان کا یہاں ذکر مناسب نہیں۔

اس وقت ملک کے طبیعاتی، ارضی، اقتصادی، انتظامی اور بلدیاتی اہداف کی تکمیل کی ضرورت ہے، افسر شاہی، وزرا اور حکومتی سسٹم اربوں کی تنخواہیں ہڑپ کر چکا ہے، قومی وسائل کا بے دریغ استعمال کسی نتیجہ خیز منصوبہ بندی پر منتج نہیں ہوا، بیشمار اقدامات اور منصوبے خواب وخیال ہوکر رہ گئے، ارباب اختیار اس امر پر سنجیدگی سے غور کریں کہ کب قوم کی تقدیر بدلی جائے گی، ملک میں نکاسی و فراہمی آب کا ہمہ جہت سسٹم کب عوام کی دہلیز تک پہنچے گا، کراچی کی مقامی حکومت کے حوالہ سے یہ انوکھا سوال کیا گیا ہے کہ شہر کا کوئی میئر نہیں بس ایک ’’باس‘‘ ہے۔

سیاسی پولرائزیشن کی دلدل میں پھنسے شہر کو قانون کی حکمرانی اور انفراسٹرکچر کی مضبوطی چاہیے۔ کروڑوں عوام کو نعروں سے مت بہلائیے، بے بسی کی تصویر ان عوام کی استقامت کو داد دیجیے کہ ایک عوام بیزار سیاسی نظام میں بھی وہ مون سون کی بارشوں میں تباہی و بربادی کا شکار ہوگئے۔

وقت آگیا ہے کہ اہل سیاست دوراندیشی سے کام لیں، احساس کریں کہ عوام کے مسائل سے لاتعلقی کا شاخسانہ مزید ستم ڈھائے گا اور سیاسی نظام اور نوکر شاہی کی غفلت، فرض ناشناسی، سنگدلی اور نوآبادیاتی طرز عمل کا سلسلہ دراز ہوا تو عوام غضبناک بھی ہوسکتے ہیں، ارباب اختیار مون سون بارشوں سے چشم کشائی کا سبق سیکھ لیں، یہ سب کے لیے بہتر ہوگا۔

The post سسٹم کی ستم ظریفیاں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/34BsjOd
via IFTTT

No comments:

Post a Comment