Saturday, August 1, 2020

کیا ہم فاشسٹ ریاست میں رہتے ہیں؟ ایکسپریس اردو

آکسفورڈ کی لغت نے فاشزم کی تعریف ’’حکومت اور سماجی تنظیم کا ایک آمرانہ اور قوم پرست دائیں بازو کا نظام‘‘ کے طور پر کی ہے۔

لارنس برٹ نے ہٹلر، مسولینی، فرانکو، سوہارتو اور متعدد لاطینی امریکی حکومتوں کی فاشسٹ حکومتوں کا جائزہ لیا۔ برٹ کے مطابق ہر فاشسٹ حکومت میں 14 خصوصیات ضرور ہوتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان 14 خصوصیات میں سے کتنی پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔

 

1۔ کرپشن

ایک فاشسٹ حکومت کےلیے کرپشن کا ہونا ایسا ہی ہے کہ جیسے انسان کے زندہ رہنے کےلیے آکسیجن۔ پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت یا کوئی ریاستی ادارہ ایسا نہیں جو کرپشن سے پاک ہو۔ گزشتہ دنوں جب وزیراعظم کے مشیران کے اثاثوں کی تفصیلات سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ ریٹائرڈ جنرل صاحب کے پاس کروڑوں کی جائیداد ہے جبکہ تین سے چار کروڑ مالیت کی گاڑی انہیں صرف تیس لاکھ میں ملی۔ لیکن ان معاملات پر بات کرنا، جواب مانگنا ہماری ریاست میں جرم ہے۔

 

2۔ فراڈ الیکشن

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے پہلے عام انتخابات بالکل شفاف تھے۔ لیکن یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ اس وقت عوامی لیگ کو مغربی پاکستان جبکہ پیپلز پارٹی کو مشرقی پاکستان میں جلسہ کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔ جنرل ایوب، ضیا اور پرویز مشرف کے ریفرنڈم جن حالات میں ہوئے وہ ڈھکے چھپے نہیں۔ نوے کی دہائی میں ہونے والی پولیٹیکل انجینئرنگ بھی سب پر عیاں ہے۔ مختصر یہ کہ آج تک پاکستان میں ایک بھی الیکشن کو صاف و شفاف قرار نہیں دیا جاسکا۔

 

3- قوم پرستی کا پرچار

ہماری قوم پرستی اور مذہب ایک جان دو قالب کی مثال ہیں۔ بچپن سے ہی ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ ایک ہم ہی اسلام کا قلعہ اور امت کے رکھوالے ہیں، باقی تمام مسلمان ممالک کی حفاظت کی ذمے داری ہم پر ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امت مسلمہ آج تک کشمیر پر کوئی واضح لائحہ عمل بنانے میں ناکام رہی ہے۔

 

4- انسانی حقوق تسلیم نہ کرنا

قیام پاکستان سے ہی ہماری قومی سلامتی خطرات کا شکار رہی یا ہمیں ایسا بتایا جاتا رہا۔ اس قومی سلامتی کے بیانیے پر اگر بحث بھی کی جائے تو غداری کا الزام آپ کے سر تھوپ دیا جائے گا، بلکہ ایسا بہت بار ہو بھی چکا اور ہم تو وہ قوم ہیں جنہوں نے اپنی مادر ملت کو ہی بھارتی ایجنٹ قرار دے دیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ ہم دنیا کا واحد ملک ہیں جہاں اکثریت (بنگالی) کو اقلیت (مغربی پاکستانی) نے غداری کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا تھا۔ ساری دنیا میں بغاوت کرنے والے اقلیت میں ہوتے ہیں لیکن ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔

 

5- قومی یک جہتی کےلیے مختلف دشمن بنانا

پاکستان کے معاملات میں بیرونی سازشیں، اندرونی غدار، غیر ملکی فنڈنگ، یہود و ہنود کی سازشوں جیسی تھیوریاں بہت بیچی جاتی ہیں اور اب تو پوری ایک نسل پیدا ہوچکی ہے جو ’’قومی سلامتی‘‘ پر ایک جملہ کہنے والے کو سوشل میڈیا پر کیسے کیسے القابات سے پکارتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔

6- فوج کی بالادستی

پاکستان میں فوجی بالادستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ فوج پاکستان کے قیام سے آج تک براہِ راست یا پس پردہ حکمران رہی ہے۔ آپ ان سے کوئی سوال نہیں کرسکتے اور اگر کوئی شخص غلطی سے سوال کر ہی لے تو اسے غدار قرار دینا کوئی مسئلہ نہیں۔

 

7- خواتین کو برابری کی مخالفت

دائیں بازو کے نظریات کے زیرِ اثر چلنے والا نظام کبھی عورتوں کو حقوق نہیں دیتا۔

 

8- میڈیا پر قدغن

مجھے لکھتے ہوئے ابھی صرف چار ماہ ہوئے اور ان چار ماہ میں میرے تین کالم ایسے تھے جو مختلف اداروں نے یہ کہہ کر شائع کرنے سے انکار کردیا کہ اس سے ہمارے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ فوجی ادوار ہوں یا جمہوری، ایوب، بھٹو، ضیا، نواز مشرف اور عمران دور میں میڈیا کو اعلانیہ اور غیر اعلانیہ پابندیوں کا سامنا ہمیشہ رہا ہے۔

 

9- قومی سلامتی کا ڈھنڈورا

ہمیں یہ بات کتنی بار سننی پڑتی ہے کہ اگر دفاعی بجٹ نہ بڑھایا گیا تو ہندوستان شائد ہمیں کچا ہی کھا جائے گا۔ ایک سازشی تھیوری یہ بھی ہے کہ امریکی، برطانوی، بھارتی اور اسرائیلی ایجنسیاں ہمارے ہی تعاقب میں ہیں اور اگر ہم ذرا سا بھی چوکے تو ہمارا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔ یوں فوج ہمارے ملک میں اتنی اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ ہمارے بہت سے اہم سویلین اداروں کے سربراہان بھی ریٹائرڈ جنرل ہیں۔

 

10- مذہبی انتہاپسندی

مذہبی طبقہ کسی بھی فاشسٹ ریاست کا سب سے طاقتور طبقہ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں مذہب کے نام پر آئے روز بلیک میلنگ کی جاتی ہے۔ لال مسجد میں قتل و غارتگری کے باوجود آج بھی مولانا عبد العزیز کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مولوی اور مفتی حضرات کا چاند کی رویت کے متعلق رویہ دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ دلیل ان کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور آخری فیصلہ انہی کا ہوگا جن کے پاس مذہبی اوور کوٹ ہوگا۔

 

11- امیروں کی سلطنت

کسی بھی حکومت کو لانے یا گرانے میں امیر طبقے کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اس طرح حکمران طبقہ اور امرا کا طبقہ ایک دوسرے کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے کئی نام ہیں جو حکومت بنانے اور گرانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، جن میں میاں منشا، جہانگیر ترین، ملک ریاض، ندیم بابر، رزاق داؤد وغیرہ سرفہرست ہیں۔

 

12- مزدوروں کا استحصال

ہم لیبر ڈے ضرور مناتے ہیں لیکن آئے روز گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ فاشسٹ حکمران کبھی بھی مزدور کو برابر کا انسان نہیں سمجھتے۔ کئی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ مزدوروں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دس فیصد جبکہ پارلیمنٹیرینز کی تنخوائیں سو فیصد بڑھائی گئیں۔

13- دانشوروں سے بیزاری

پاکستان میں ڈاکٹر عبدالسلام جیسے شخص کو ملک بدر ہونا پڑا۔ حالیہ دنوں میں ہود بھائی کا واقعہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ آج ہم حبیب جالب اور فیض احمد فیض کی نظمیں بہت شوق سے پڑھتے ہیں لیکن یہ لوگ بھی اپنی زندگی میں جیل اور غداری کے مقدمات بھگت چکے ہیں۔

 

14- من گھڑت جرائم اور سزا

کسی بھی جرم کو دہشت گردی یا غداری کے زمرے میں لانا اور دہشت گردی کی دفعات کے مطابق سزا دینا ایک فاشسٹ حکومت کےلیے عام سی بات ہوتی ہے۔ پاکستان میں اظہارِ رائے پر بھی ملک دشمنی کی دفعات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اب ظاہر ہے کہ کسی بیماری کے علاج کا سب سے پہلا قدم یہی ہے کہ ہم تسلیم کریں کہ یہ بیماری وجود رکھتی ہے اور یہی سب سے مشکل مرحلہ ہے۔ جب ہم تسلیم کرلیں گے کہ ہم غلط سمت جارہے ہیں تبھی درست سمت کی تلاش اور تعین کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ اگر یہی فاشسٹ نظام چلتا رہا تو ہم ہمیشہ ایک سیکیورٹی اسٹیٹ بن کر رہیں گے اور کبھی ویلفیئر اسٹیٹ نہیں بن سکیں گے، جس کا خواب قائداعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post کیا ہم فاشسٹ ریاست میں رہتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/30lasZf
via IFTTT

No comments:

Post a Comment