ویسے تو ہم میں سے زیادہ تر افراد کی اولین کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ ملازمت ایسی حاصل کی جائے جس میں کام کم سے کم اور تنخواہ، اختیارات و دیگر سہولیات زیادہ سے زیادہ ہوں۔ اِسی خیال کے زیراثر ہمارے ہاں سرکاری ملازمت کا حصول کسی بھی نوجوان کے نزدیک سب سے زیادہ خوش کن تصور کیا جاتا ہے۔
اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے سفارش، رشوت، دھونس، دھاندلی جیسے سارے گُروں کا آزادانہ استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا، جب کہ کچھ ملازمتیں ہمیشہ ہی سے ہمارے ہاں خطرناک تصور کی جاتی ہیں مثلاً پولیس کا سپاہی، ہائی وولٹیج بجلی کے کھمبوں کی مرمت کرنے والے لائن مین یا سرکس میں کرتب دکھانے کی نوکری، بالخصوص موت کے کنویں میں موٹر سائیکل یا موٹر کار چلانے جیسے کام کرنے والوں کو معاشرے میں ’’خطروں کے کھلاڑی‘‘ سمجھا جاتا ہے اور اِن ملازمتوں میں پائے جانے والے خطرات و مشقت کے باعث اکثر لوگ اِن شعبوں میں ملازمت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ 2019 میں جاری ہونے والی خطرناک ملازمتوں کو فہرست میں اِن میں سے ایک بھی ملازمت شامل نہیں ہے، بلکہ جن ملازمتوں کو ’’خطرناک ملازمتوں‘‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، ہوسکتا ہے کہ اُن میں سے کئی ایک ملازمتوں کو ہم میں سے اکثر افراد معمول کی محفوظ ملازمتیں ہی تصور کرتے ہوں۔
واضح رہے کہ خطرناک ملازمتوں کی فہرست مرتب کرتے ہوئے محققین اور ماہرین سماجیات کی طرف سے جن نکات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا، اُن میں دورانِ ملازمت، ملازمین کی شرح اموات، ملازمت کی جگہ پر ناگہانی حادثات کے امکانات اور پیشہ ورانہ کام کے باعث پیدا ہونے والا ذہنی دباؤ کا دورانیہ وغیرہ جیسی قابلِ ذکر وجوہات شامل ہیں۔
مثال کے طور پر موت کے کنویں میں گاڑی چلانے کی نوکری کرنے والے کو اِس فہرست میں اِس لیے شامل نہیں کیا گیا کہ دنیا بھر میں سرکس دکھانے والی اداروں نے اپنے ملازمین کے تحفظات کے لیے اتنے زیادہ حفاظتی اقدامات یقینی بنادیے ہیں کہ اُن ملازمین کے لیے حادثات کے اِمکانات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں، جب کہ حالیہ وقتوں میں سرکس میں کام کرنے والے کسی بازی گرکے مقابلے میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سوٹ، بوٹ پہن کر سیلزمین کی ملازمت کرنے والا شخص ’’سیلز ٹارگٹ‘‘ پورا کرنے کی فکر میں ہروقت ذہنی دباؤ میں رہنے کی وجہ سے زیادہ جان لیوا خطرات میں گھرا ہوتا ہے۔
یوں سمجھ لیجیے کہ جدید دنیا میں ’’نوکری ہے کچھ نظر آتی ہے کچھ‘‘ کا معاملہ۔ قصہ کوتاہ زیرنظر مضمون میں ماہرین کے تحقیق کے مطابق دنیا کی سب سے خطرناک ملازمتوں کا ایک اجمالی جائزہ پیشِ خدمت ہے۔
٭پائلٹ اور فلائٹ انجینئرز
ہوا کے دوش پر سیکڑوں مسافروں کے ہمراہ سفر کرنے والے پائلٹ اور فلائٹ انجینئرز کی ملازمت کتنی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اِس کا اندازہ صرف اُس ایک فضائی حادثہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جو گذشتہ دنوں کراچی میں پی آئی اے کی فلائٹ 8303 کے ساتھ پیش آیا اور جس میں پائلٹ اور فلائٹ انجینئرز سمیت 90 معصوم افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
امریکی بیورو آف لیبر کے سال 2019 میں جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق پائلٹ اور فلائٹ انجینئرز کے زخمی اور ہلاک ہونے کی شرح دیگر تمام ملازمتوں سے 10 گنا زیادہ ہے، جس کی وجہ سے پائلٹ کی نوکری کو خطرناک ملازمتوں میں سرفہرست شمار کیا گیا ہے، جب کہ مسافر بردار طیاروں کے مقابلہ میں دیگر طیارے اُڑانے والے پائلٹ کے دوران پرواز ہلاک یا زخمی ہونے کے امکانات اور بھر بڑھ جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس چھوٹے پرائیویٹ طیارے اور کارگو طیارے چلانے والے 75 فیصد پائلٹ دورانِ پرواز کسی نہ کسی حادثے کا ضرور شکار ہوئے تھے۔
٭بُل رائڈر (Bull Riders)
بُل رائڈنگ یا بُل فائٹنگ سننے میں ایک دوسرے کا مترادف الفاظ لگتے ہیں لیکن معنی و مفہوم کے لحاظ سے یہ دو بالکل الگ الگ پیشہ وارانہ کام ہیں۔ بل فائٹنگ ایک ایسا کھیل ہے جس میں بل فائٹر ایک بھینسے کو ہلاک کرکے کامیاب و کامران قرار پاتا ہے جبکہ بل رائڈنگ میں ایک بل رائڈر کا بنیادی وظیفہ بھینسے پر سوار ہوکر60 سیکنڈ تک اُس کی سواری کرنا ہوتا ہے۔
ہم ایک مدت تک بل رائڈنگ کو بل فائٹنگ کی طرح کا صرف ایک کھیل تصور کرتے آئے تھے، لیکن اَب کہیں جا کر معلوم ہوا کہ اِس خونی کھیل کے ساتھ دنیا کے کئی ممالک کے ہزاروں افراد کا روزگار بھی وابستہ ہے۔ بُل رائڈنگ امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، جنوبی امریکا، فلپائن، جاپان اور یورپی ممالک میں ایک مقبول عام پیشہ ہے اور اِن ممالک میں سرفہرست بُل رائڈرز ایک سال میں ہزاروں ڈالر بہ آسانی کما لیتے ہیں۔ بُل رائڈنگ کو امریکا میں ’’ساٹھ سیکنڈ کا خونی کھیل‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتاہے اور ہر سال سیکڑوں بل رائڈر فقط چند سیکنڈ کے لیے بھینسے پر سواری کرنے کے شوق میں اپنی جان سے گزر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں بُل رائڈر بھینسے کے خوف ناک سینگ پیٹ، چہرے، کمر یا جسم کے اندر لگنے کے باعث زندگی بھر کے لیے معذور بھی ہوجاتے ہیں۔
حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا اور امریکا میں گزشتہ دس برسوں میں بل رائڈرز کے زخمی ہونے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ بل رائڈر کے پیشہ میں اتنے زیادہ جان لیوا خطرات ہونے کے باوجود بے شمار نوجوان بُل رائڈرز ہی بننا چاہتے ہیں اور وہ تمام ممالک جہاں بُل رائڈنگ کو ایک باقاعدہ پیشہ کا درجہ حاصل ہے، وہاں بل رائڈرز کی تربیت اور بھرتی کے لیے باقاعدہ نجی ادارے بھی قائم ہوچکے ہیں، جن کا بنیادی کام ہی بُل رائڈرز بننے کے شائق افراد کو پرکشش ملازمتیں فراہم کرنا اور عملی تربیت دینا ہوتا ہے۔
٭فورمین(Forman)
تعمیرات کی صنعت دنیا کے مشکل ترین شعبوں میں سے ایک ہے، کیوںکہ تعمیراتی جگہوں پر مہلک حادثات کا پیش آنا ایک معمول کی بات ہے۔ لہٰذا تعمیراتی پیشہ سے منسلک تمام ملازمین ہمہ وقت شدید خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔ خاص طور پر فورمین اور اُس کا معاون ویلڈر جن کا کام ہی بلندوبالا عمارات کا ڈھانچا تیار کرنا ہوتا ہے۔
بعدازاں اِن کے بنائے گئے ڈھانچے پر ہی دیگر تعمیراتی سرگرمیاں شروع کی جاتی ہیں۔ چوںکہ فورمین تعمیراتی صنعت کے پیشے میں تمام اُمور کا نگراں بھی ہوتا ہے۔ اِس لیے اِس کے ساتھ کام کرنے والے معاون ویلڈرز بے دھیانی میں ایک بھی قدم غلط اُٹھالیں تو وہ زمین پر آگرتے ہیں۔ گو کہ حالیہ وقتوں میں فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے کے لیے بے شمار حفاظتی تدابیر بھی اختیار کی جاتیں ہیں لیکن اِس کے باوجود اِس شعبے میں ملازمت کرنے والے افراد کی جان ہر وقت اُن کی ہتھیلی پر ٹکی ہوتی ہے کہ یہاں ذرا سی غفلت ہوئی نہیں اور وہ جان سے گئے نہیں۔ نیز اِس شعبے میں کام کرنے والے ملازمین کو بجلی کا جھٹکا لگنے، زیرزمین دفن ہونے، دھول اور گیسوں کا شکار ہونے کا بھی ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ فورمین کی زیرنگرانی کام کرنے والے اگر کسی بھی ملازم کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو اُس کا براہِ راست ذمہ دار بھی فورمین کو ہی ٹھہرادیا جاتا ہے۔
اِس لیے فورمین کو تعمیراتی سرگرمیوں کے دوران فقط اپنی ہی جان کی حفاظت کو یقینی نہیں بنانا ہوتا بلکہ اپنے زیرنگیں کام کرنے والے ہر ملازم کو کسی ممکنہ حادثہ سے بچانے کے لیے پیشگی اقدامات بھی کرنے ہوتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ فورمین اور اِس سے منسلک ذیلی ملازمتوں کو خطرناک ترین ملازمتوں کی فہرست میں شامل کیا جاتاہے۔ 2018 میں صرف امریکا میں ہر ایک لاکھ ملازمین میں سے 25 ملازمین کے دوران تعمیرات ہلاک ہونے کے خوف ناک اعدادوشمار پیش کیے گئے تھے۔ علاوہ ازیں 1970 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت کی تعمیر کے دوران 60 ملازمین ہلاک جب کہ دو درجن سے زائد چھوٹے بڑے حادثات میں سیکڑوں ملازمین بلندی سے گرنے، کرنٹ لگنے اور ملبے تلے دب جانے سے مستقل طور پر معذور بھی ہوگئے تھے۔
٭ویٹرنری ڈاکٹر(Veterinary Doctor)
شعبہ طب میں جانوروں کا علاج معالجہ کرنے والے طبیب کو ویٹرنری ڈاکٹر کہا جاتا ہے اور جانوروں سے خصوصی لگاؤ رکھنے والے طالب علم جانوروں کے علاج سے متعلق ضروری تعلیم و تربیت حاصل کرکے اِس پیشہ کو بطور خاص اختیار کرتے ہیں۔ چوںکہ ویٹرنری ڈاکٹر کو اپنے کام کی حساسیت کی بنا پر ہر وقت جانوروں کے اردگرد ہی رہنا ہوتا ہے، لہٰذا اِس ملازمت سے منسلک افراد کے جانوروں میں پائے جانے والے مختلف اقسام کے جراثیم اور وائرس سے متاثر ہونے کی خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں جب کہ ویٹرنری ڈاکٹر کا علاج معالجہ کے دوران جانوروں کے کاٹنے سے زخمی ہوجانا بھی ایک معمول کی بات ہے۔
خاص طور پر وہ ویٹرنری ڈاکٹر جو دیہی علاقوں یا چڑیا گھر میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں وہ اکثر و بیشتر مختلف خطرہ کے جان لیوا حادثات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ ویٹرنری ڈاکٹرز کو صرف جانوروں سے ہی خطرات لاحق نہیں ہوتے ہیں بلکہ 2018 میں آسٹریلیا میں کی جانے والی ایک مطالعاتی تحقیق کے مطابق اِس ملازمت سے منسلک اکثر افراد اپنے کام کی وجہ سے ڈپریشن، اینگزائٹی، مالیخولیا اور ایتھوینسیاEuthanasia جیسے ذہنی عوارض میں بھی مبتلا پائے گئے، جن میں سے چار فی صد افراد نے کام کی زیادتی و یکسانیت سے تنگ آکر ایک سے زائد بار خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ویٹرنری ڈاکٹر انسانوں سے زیادہ جانوروں کے قریب رہنے کی باعث غیرمحسوس طور پر سخت قسم کی سماجی تنہائی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ نیز اِن کے لیے اِس پیشہ کو ترک کرکے کسی دوسرے شعبے میں کام یاب ہونا بھی کم و بیش ناممکن ہی ہوتا ہے۔
٭آئل فیلڈ ورکرز(Oil Field Workers)
جدید دنیا میں تیل کو ’’بلیک گولڈ‘‘ یعنی ’’کالا سونا‘‘ کے نام سے بھی مخاطب کیا جاتا ہے۔ تیل کو اِس طرزِتخاطب سے پکارنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج کل دنیا کی تمام تر معیشت تیل کے اردگرد ہی گھومتی ہے۔ تیل کی روز بہ روز بڑھتی ہوئی عالم گیر ضرورت اور افادیت کی بنا پر تیل پیدا کرنے ممالک اور تیل کی ترسیل سے منسلک پیشے ایک خاص کشش رکھتے ہیں۔ جہاں سے تیل کو نکالا جاتا ہے اُن جگہوں کو آئل فیلڈز کہا جاتا ہے اور اِن آئل فیلڈ زمیں کام کرنے والے ملازمین کو آئل فیلڈ ورکرز کہتے ہیں۔ گوکہ آئل فیلڈز پر کام کرنے والے ملازمین کے ماہانہ مشاہرہ کسی بھی دوسری ملازمت کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ ہوتا ہے لیکن آئل فیلڈورکرز کے لیے جان لیوا خطرات اور حادثات کی بھی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔
شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آئل فیلڈ ورکرز کی ملازمت کو دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک ملازمتوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔ جولائی 1988 میں ایک آئل فیلڈ پائپر الفا جسے ’’آکساڈینٹل پیٹرولیم کیلیڈونا لمیٹڈ ‘‘ جیسی معروف کمپنی چلارہی تھی۔
اُس میں اچانک سے ایک دھماکا ہوگیا، جس کے نتیجے میں آئل فیلڈ پر کام کرنے والے سیکڑوں آئل فیلڈورکرز میں سے 167 جل کر خاکستر ہوگئے تھے اور صرف 61 ملازمین بروقت طبی امداد کی بدولت جان بر تو ہوگئے، لیکن مستقل طور پر معذور ہونے کے سبب اُن کی زندگی مردوں سے بھی بدتر ہوگئی تھی۔
ایسا ہی ایک واقعہ اپریل 2010 میں ’’ڈیپ واٹر ہوریزن‘‘ نامی آئل فیلڈ میں بھی پیش آیا تھا جس میں کم ازکم 11 اموات اور درجنوں ملازمین زخمی ہوگئے تھے۔ نیز اِس واقعہ کے نتیجے میں سمندر میں اتنا زیادہ تیل بہہ کر داخل ہوگیا تھا کہ آج تک تاریخ میں اِس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آئل فیلڈ ورکرز کو آگ لگنے کے علاوہ بلندی سے گرنے، بھاری مشینری کے نیچے دب کر مرنے، سمندر میں ڈوب جانے اور دم گھٹ جانے جیسے مہلک حادثات بھی پیش آتے رہتے ہیں، جب کہ آئل فیلڈ میں کام کرنے کے سخت اور طویل ترین اوقات کار ہونے کی وجہ سے بھی ملازمین کو اکثر و بیشتر شدید جسمانی و ذہنی تھکن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
٭ ’’لاگرز ‘‘ یا ’’لمبرجیکس‘‘
(Loggers & Lumberjack)
ماضی میں جنہیں ہم لکڑہارے کے نام سے جانتے اور پہچانتے تھے، آج کل انہیں ’’لاگرز‘‘ یا ’’لمبر جیکس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ لاگرز کا بنیادی وظیفہ درخت کو کاٹ کر انسان کی گھریلو اور صنعتی ضروریات کے لیے درکار لکڑی کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ درختوں کی کٹائی کرنا قدیم ترین انسانی پیشوں میں سے ایک ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ لکڑہارا بننے کے لیے صرف ایک کلہاڑے کی ضرورت ہوتی تھی اور ہر وہ شخص جسے روزگار کے تھوڑے سے بھی مسائل درپیش ہوتے تھے وہ کلہاڑا کندھے پر رکھتا اور درخت کی کٹائی کے لیے جنگل کی جانب چل پڑتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ماضی کا یہ محفوظ ترین پیشہ آج دنیا کے خطرناک ترین پیشوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔ کیوںکہ اِس پیشے میں جدید ترین آلات کے استعمال نے جہاں درخت کاٹنے کی رفتار میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے، وہیں اِس پیشے سے منسلک ملازمین کے لیے جان لیوا خطرات میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے۔
واضح رہے کہ اس کام میں خطرات پورے سال ہی پائے جاتے ہیں، لیکن موسم گرما اور خزاں کے اوقات میں یہ پیشہ زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے اور اس کام میں سب سے زیادہ اموات بھی جولائی، ستمبر اور اکتوبر میں واقع ہوتی ہیں۔ عام طور پر درختوں کی کٹائی کا کام انتہائی سرد موسم میں کیا جاتا ہے۔ لاگرز کے کام کے تین مرحلے ہوتے ہیں سب سے پہلے درختوں کو جڑ سے کاٹا جاتا ہے اور پھر جو درخت زیادہ بڑے یا طویل القامت ہوتے ہیں اُن کے دو یا تین بڑے بڑے ٹکڑے کیے جاتے ہیں اور اس کے بعد انہیں ہیوی ٹرکوں میں چڑھایا جاتا ہے۔ ہر مرحلہ لاگرز کے لیے حادثات کے زبردست امکانات رکھتا ہے۔ نیز اس روزگار میں ترقی کی رفتار بھی انتہائی سست ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ لاگرز کو درختوں کی کٹائی کے لیے جنگلات میں مقررہ حدود کا بھی بطورخاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ چوںکہ درختوں کی کٹائی آج کل صرف کمرشل صنعتوں کے لیے کی جاتی ہے، اس لیے لاگرز پر کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ درخت کاٹنے کا شدید دباؤ بھی ہوتا ہے، جس کے باعث اِس پیشے میں جان لیوا حادثات کا ہونا معمول کی بات ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں صرف امریکا میں ہر ایک لاکھ لاگرز میں سے 135 لاگرز مختلف طرح کے جان لیوا حادثات کا شکار ہوئے تھے، جن میں سے زیادہ تر واقعات فقط بھاری مشینوں کے استعمال میں بے احتیاطی کی وجہ سے رونما ہوئے تھے۔
٭کان کن (Miner)
کان کنی یعنی Mining کرنا ہماری زمین کے اندر یا پہاڑوں میں موجود قدرتی دھات، قیمتی جوہرات، مفید معدنیات مثلاً سونا، تانبہ، کوئلہ، ہیرا یا سنگ مرمر وغیرہ نکالنے کے عمل کا نام ہے اور اس اہم وظیفہ کو انجام دینے والے فرد کو اُردو میں کان کن اور انگریزی میں Miner کہا جاتا ہے ۔ آپ اکثر کان کے حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کے بارے میں افسوس ناک خبریں تو ضرور سنتے ہوں گے اور اسی سے آپ بخوبی اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ یہ ملازمت کتنی زیادہ خطرناک ہے۔
ذہن نشین رہے کہ انسانی غفلت سے رونما ہونے والے حادثات کے علاوہ بھی کان کن اپنے کام کے دوران دیگر مختلف وجوہات کی بنا پر ہر لمحہ خطرے کی زد میں رہتا ہے، جیسے کان کن زمین میں موجود زہریلی گیسوں کا اکثر شکار بنتے رہتے ہیں جو کہ اُن کے پھیپھڑوں میں سوزش کا باعث بن کر انہیں دائمی مریض بنادیتی ہے۔ اس کے علاوہ زلزلے جیسی قدرتی آفات کے باعث کان کے بیٹھ جانے کی صورت میں بھی متعدد کان کن چٹانوں کے عین درمیان میں پھنس جاتے ہیں اور اکثریت موت کا شکار ہو جاتی ہے۔
ہمارے اپنے صوبہ بلوچستان میں 2010 سے 2018 کے درمیانی عرصے میں تقریباً 45 مختلف واقعات میں 318 سے زائد کان کن دورانِ ملازمت جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں 93 کان کن تو صرف سال 2018 میں ہلاک ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں ہر سال دنیا بھر میں ہزاروں کان کن کا مختلف حادثات میں ہلاک ہوجانا ایک معمول کی خبر سمجھی جاتی ہے۔ کان کنی کے شعبے میں ہونے والی زیادہ تر ہلاکتیں چین اور بھارت میں ہوتی ہیں۔ چین میں کان میں دورانِ کھدائی ہونے والا اَب تک کا سب سے بڑا ہلاکت خیز واقعہ 10 اپریل 1942 کو پیش آیا تھا جس میں 1549 کان کن ہلاک ہوگئے تھے۔
٭ سیکیوریٹی گارڈ (Security Guard)
سیکیوریٹی گار ڈیا باڈی گارڈ کی ملازمت بھی دنیا کی مشکل ترین ملازمتوں میں سے ایک ہے جس میں ہر وقت جان جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے، کیوںکہ اِس ملازمت کو بطور پیشہ اختیار کرنے والے شخص کی بنیادی ذمہ داری ہی اپنی جان کے عوض دوسروں کے جان و مال کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔
مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سرکاری و نجی ادارے اور اہم سیاسی، سماجی و تجارتی شخصیات سیکیوریٹی گارڈ کی خدمات مخصوص رقم کے عوض حاصل کرتی ہیں اور آپ سوچ سکتے ہیں کہ کتنا مشکل ہے تھوڑی سی رقم کے عوض اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کسی پر چلائی جانے والی گولی کو اپنے سینے پر روکنا۔ سیکیوریٹی گارڈز پرائیویٹ کمپنیوں کے جزوقتی ملازم ہوں یا کسی سرکاری ادارے کے مستقل ملازم، بہرحال اِن کا بنیادی کام دوسروں کی حفاظت کرنا ہی ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ سیکیوریٹی گارڈ کی مناسب تربیت نہ ہونا بھی اِس ملازمت کے خطرات کو کئی بڑھا دیتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل کراچی میں فائرنگ کے ایک واقع میں بچے کی جان لینے والے سیکیوریٹی گارڈ کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اسلحہ چلانے کی بالکل بھی تربیت حاصل نہیں کی، میں تو ہوائی فائرنگ کرنا چاہ رہا تھا کہ سیدھی گولی چل گئی اور میری گولی سے ایک معصوم بچہ ہلاک ہوگیا۔‘‘ غیرتربیت یافتہ سیکیوریٹی گار صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی خطرے کا باعث ہوسکتا ہے۔
اِس کے باوجود سیکیوریٹی کمپنیاں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں سیکیوریٹی گارڈ کو مناسب تربیت فراہم کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بدامنی اور ہر وقت ذہن پر سوار خوف کی وجہ سے پرائیویٹ سیکیوریٹی کمپنیوں کے کاروبار نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ہے۔ کم تنخواہ، لمبی ڈیو ٹی اور ہتھیلی پر جان، کون خوشی سے ایسی نوکری کرے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ جس کے ہاتھ کوئی کام نہ آیا، وہ سیکیوریٹی گارڈ بن گیا، یوں ہی تو آئے دن سننے میں نہیں آتا کہ سیکیوریٹی گارڈ سے اتفاقیہ گولی چل گئی اور جب ڈاکو آئے تو گن چلی ہی نہیں، ڈاکو وں نے گارڈ کو یرغمال بناکر بینک لوٹ لیا یا گارڈ خود ہی ڈاکو بن گیا۔ جسمانی فٹنس، ذہنی حالت اور حفاظتی تیکنیک کی پروا کیے بغیر ہاتھ میں ہتھیار تھمادیے جائیں تو سیکیوریٹی گارڈ کی اپنی سیکیوریٹی ہی داؤ پر لگ جاتی ہے۔
٭فائر فائٹر(Firefighter)
جلتی ہوئی آگ پر پانی ڈالنے اور شعلوں میں گھرے ہوئے لوگوں کو بچانے والوں کو فائرفائٹر کہا جاتا ہے۔ جس طرح شہر کا نظم و نسق قائم رکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور دیگر عمال ِ حکومت کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اِسی طرح قدرتی و ناگہانی آفات سے نمٹنے کے لیے شہروں میں فائرفائٹرز کے ایک موثر محکمے کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں فائر فائٹر گھروں، چھوٹی دُکانوں، بڑے تجارتی مراکز، کارخانوں نیز ہر جگہ اور ہر قسم کی آگ بجھانے کے لیے سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ فائرفائٹر کا کام اُس وقت تک اختتام پذیر نہیں ہوتا جب تک کہ کسی عمارت یا جگہ پر لگی آگ مکمل طور پر بجھ نہیں جاتی۔ کبھی کبھار تو کسی بڑی عمارت میں لگی آگ کو بجھانے میں کئی کئی دن بھی لگ جاتے ہیں۔
ویسے تو فائرفائٹرز تربیت یافتہ امدادی کارکن ہوتے ہیں اس کے باوجود ان کی زندگی ہمہ وقت انتہائی خطرے میں ہوتی ہے۔ خاص طور پر جب یہ فائر فائٹر مختلف عمارات میں لگنے والی آگ یا ان کے گر جانے کی صورت میں اندر پھنسے ہوئے افراد کو بچانے کی کوشش میں عمارت کے اندر داخل ہوجاتے ہیں۔ بغیر اپنی جان کی پرواہ کیے خطرناک صورت حال سے دوچار بچوں اور بڑوں کے بچانے کے لیے آگ میں کود جانا ہی فائر فائٹر کا بنیادی وظیفہ ہوتا ہے، جب کہ آگ سے جلی ہوئی خستہ حال عمارتیں فائر فائٹرز کے لیے انتہائی خطرناک ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ تر فائر فائٹرز کی ہلاکتیں خستہ ہال عمارتوں کے گر جانے یا اُن میں موجود زہریلے دھویں میں دم گُھٹ جانے سے ہوتی ہیں۔
The post خطروں کے ملازم۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/317aT8Y
via IFTTT
No comments:
Post a Comment