سپریم کورٹ نے تھرپارکر میں صحت کی سہولیات سے متعلق رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ سندھ حکومت نے اپنی بنیادی ذمے داری بھی ادا نہیں کی۔
سیکریٹری صحت نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ خود جا کر اقدامات کروں گا۔ عدالت نے لیڈی ہیلتھ ورکر اور صحت کے دیگر عملہ کو بھی فعال کرنے کی ہدایت دیں اور غیر حاضر اور غیر فعال ڈاکٹرز اور عملے کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔
تھر میں غیر انسانی صورتحال پر سپریم کورٹ کے ریمارکس اور اقدامات چشم کشا ہے، تھری عوام کی صحت، بچوں کی صحت کو لاحق امراض اور غربت اور لاچاری کا منظر نامہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ تھرپارکرکو آفت زدہ علاقہ نہ قرار دیا جائے، اربن ماہرین بشریات اور سول سوسائٹی کے ڈیموگرافک سروے رپورٹوں کے مطالعے سے تھرکے عوام کی مجبوری کی درد ناک تصویریں نظروں کے سامنے آجاتی ہیں، جن سماجی تنظیموں نے اب تک تھر کے بارے میں جتنا کچھ تحقیقی مواد جمع کیا ہے وہ انسانی بے بسی کی داستان ہے۔
تھر کی سماجی بدقسمتی تاریخی ہے، کسی حکومت نے اس علاقے کو رحم کے قابل نہیں سمجھا، بیوروکریسی نے تھر کو ہمیشہ ایک نوآبادیاتی تناظر میں دیکھا اور حکومتوں نے سڑکوں، شاہراہوں کی تعمیر، رہائشی، تعلیمی، اقتصادی اور تفریحی سہولتوں کے حوالے سے صرف ان ہی سرکاری اقدامات پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت محسوس کی جس میں وفاق یا سندھ حکومت نے دلچسپی لی۔
تھر سے بے توجہی وفاقی حکومت کے طرز عمل تک محدود نہیں، تھری عوام کی بنیادی شکایت اجتماعی حکومتی پالیسیوں کے خلاف ایک فرد جرم ہے، تھری عوام کے دل زخمی ہیں، صحرائے تھرپارکر کے مسائل ایک دور افتادہ علاقے کے ہیں۔
لوگ خود کو بیگانے سمجھتے ہیں، شہری علاقے سے جو گروپ تھر کے سماجی مطالعے کے لیے آتے رہتے ہیں، وہ عوام سے جزوی معمولات لیتے ہیں، ان کی زیادہ تر توجہ خواتین اور بچوں کی صحت، روزگار اور انسانی مسائل سے متعلق ہوتی ہے۔ تھر کے عوام کے دکھ بھی علاقے کے محل وقوع کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔
کسی کو اس حقیقت کا علم نہیں کہ تھر کے عوام کے دل ملکی سسٹم کے ہاتھوں کتنے مغموم ہیں، یہ خواتین پاکستان کی جمہوری فضا میں مسرتوں سے کب معمور ہوتی ہیں۔
ایک آزاد زندگی کی جدید ترین نعمتوں کو پانے کی خوشی میں خواتین، مرد اور بچے کب اس حقیقت پر اجتماعیت، مروت اور آفاقی دوستی، تمدنی قربتوں میں فاصلوں سے دل فگار ہوتے ہیں، تھر کے مردوں اور بوڑھوں کا المیہ مشترک ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی انھیں دھرتی سے جڑا ہوا محسوس نہیں ہوتا، سب اجنبی لگتے ہیں، آتے ہیں، تھری نوجوان لڑکیوں کے انسانی رشتوں کی کہانیوں کی کھوج میں لگ جاتے ہیں، کسی کو بچوں کی ہلاکتوں کی فکر نہیں، مور مرجائیں یا روز معصوم بچے ہلاک ہوں، سنگدل حکومتوں کو کوئی پروا نہیں۔
یہ وہ المیہ ہے جس پر عدالت عظمیٰ بار بار انسانی اور حکومتی ضمیر پر نشتر زنی کرتی ہے اور نوکر شاہی اور جمہوری سسٹم کی بے حسی، سنگدلی کو طشت از بام کرتی ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے سسٹم کی بے رحمی پر متعدد بار درد انگیز ریمارکس دیے، تھر کے بچوں، خواتین، لڑکیوں کو درپیش انسانی مسائل کا حوالہ دیا، لیکن تھر کو ایک مربوط جمہوری سسٹم کی ضرورت ہے، انھیں ایک ایسا ریاستی انتظام درکار ہے جو تھر کو موئن جودڑو جیسی اہمیت دے، بیوروکریسی کے انسانیت بے زار رویے سے تھری عوام کو جو خدشات لاحق ہیں وہ انسانی نوعیت کے ہیں، باقی جتنے مسائل ہیں وہ وفاقی اور صوبائی دائرہ اختیار کے ہیں، صحت سسٹم تھر سے اب تک کسی بریک تھرو سے آشنا نہیں ہوا، ڈاکٹر آتے ہیں جب انھیں بھیجا جاتا ہے۔
سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے معاملات وفاقی اداروں اور سندھ حکومت کے محکموں سے متعلق ہیں، ترقیاتی کام بھی ہوتے ہیں لیکن ان کا تعلق کسی ماسٹر پلان سے نہیں ہوتا، کوئی ایسا پروگرام، جامع پالیسی جو علاقے کی بنیادی تبدیلی سے متعلق ہو، کبھی بھی تھر کی سماجی، ثقافتی، تفریحی پلاننگ کے تحت خوبصورتی کے نیشنل سناریو کو گل رنگ بنائے تھر کے نصیب میں نہیں آیا، تھری لوگ ’’سندھ کے ریڈ انڈینز ‘‘ ہیں۔
یاد کیجیے جن ہندو فیمیلیز کو بھارت پہنچنے پر بے دردی سے قتل کیا گیا ان کی تشہیر میڈیا پر خوب ہوئی، لیکن جن بچوں اور لڑکیوں کو تھر میں ہلاک کیا جاتا رہا، ان کا خون نا حق رزق خاک ہوا، عدلیہ نے سوال کیا کہ تھر کی بدحالی کب ختم ہوگی، کسی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے، کوئی واقعہ ہوجائے تھر سب کو یاد آجاتا ہے۔
کسی ہندو کے اغوا، ہلاکت یا خود کشی کی خبر زینت بن جائے۔ سوشل میڈیا میں ہر طرف سے تنظیموں کے سیل فون بجنے لگتے ہیں، لیکن سندھ حکومت کے لیے تھر ایک درد سر ہی سمجھا جاتا رہا۔ کبھی تو ایسا ہو کہ وزرا کبھی کبھار سیر وتفریح کے لیے ہی سہی تھر کے دورے پر نکلیں۔
وزیراعلیٰ تھر کی حالت کی تبدیلی کا کوئی معرکتہ الآرا منصوبہ لائیں، کیا کبھی تھر کے کسی فٹبالر، باکسر یا کرکٹر کی کوئی خبر کسی نے دیکھی ہے، کیا ایسے انڈور گیمز کبھی تھر میں نہیں ہوتے، تھری خواتین جفاکش، اور کلچرل سنگھار کے لیے اپنے علاقوں میں شہری زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے لیے فیشن کا کوئی صائب حوالہ بن جائیں، کسی وزیر نے نہیں سوچا ہوگا۔ سوال اٹھتا ہے کہ تھر کی انسانی آبادی پاکستان کی دیگر شہری اور دیہی آبادیوں سے یک جہتی کا کوئی میلہ لگا لیں۔
یہ بیگانگی، اکیلے پن کا روگ اور اجنبیت کا خاتمہ ہونا چاہیے، ایک بار ایک تھری خاتون کی ٹرک ڈرائیور بننے کی خبر آئی تھی کتنی خوشی منائی گئی لیکن حکومت تھر کے علاقے میں ترقیاتی منصوبوں کی تشہیر پر کبھی سنجیدہ ہو تو نوجوانوں، خواتین کے لیے فن میلہ منعقد کیا جاسکتا ہے، تفریحی مواقعے مہیا کیے جانے چاہئیں، تھر کے لوگوں میں زندگی کی رمق پیدا کرنے کی ضرورت ہے، انھیں پتھر کے زمانے سے نکالا جائے، عوامی زندگی میں سماجی تعلقات میں خوشیاں تھری عوام کے نصیب میں کب آئیں گی؟
تھرپارکر میں غذائی قلت سے بچوں کی ہلاکتوں سے متعلق سماعت میں جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہم نے خود سول اسپتال مٹھی کا دورہ کیا۔ کوئی سہولت نہیں تھی، آپریشن تھیٹر مارچری لگ رہا تھا۔ ڈاکٹرز بھی نہیں تھے ایک ڈاکٹر تھا جس نے کہا رات کو بتایا گیا ہے کل آجانا۔
سپریم کورٹ نے تقرری پانے والوں کے تبادلے روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تھرپارکر میں تعینات ہونے والے ڈاکٹرز اور عملے کا دوسرے ضلع میں تبادلہ نہ کیا جائے۔ ڈاکٹرز کو کم از کم تین سال سے قبل دوسرے ڈسٹرکٹ میں ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بہت برا حال ہے وہاں، یہ لوگ اللہ کے سہارے پڑے ہوئے ہیں۔ بجلی بھی دو گھنٹے کے لیے آتی ہے پانی کے لیے بارش کا انتظار کرتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا آر او پلانٹس پر کروڑوں روپے لگا دیے سب خراب ہیں۔ صرف بھرتیاں ہورہی ہیں وہاں کوئی کام کرنے والا نہیں۔ یہ تو مکمل لا تعلقی ہے اس علاقے سے۔ عدالتی معاون فیصل صدیقی نے بتایا کہ تھر میں 2018 میں 400 بچوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ کمیشن رپورٹ میں بتایا گیا ہے،کچھ نہیں ہو رہا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تھر کو پاکستان کی تاریخ سے جوڑ دیا جائے، عدلیہ نے جن حقائق کی نشاندہی کی ہے، سندھ حکومت نام نہاد سرکاری رپورٹوں کی تیاری کی حوصلہ شکنی کرے، جھوٹی رپورٹوں کو کبھی پذیرائی نہیں مل سکے گی، لازم ہے کہ تھر کے عوام کو انسان سمجھا جائے، تھری خواتین کی حالت زار پر رحم کیا جائے، معصوم بچوں کو بیماریوں سے نجات دلانے کے لیے صحت کا نظام پورے تھر میں پھیلایا جائے، دنیا کو بتایا جائے کہ تھرپارکر میں بھی انسان بستے ہیں، وہ مور یا تلور سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
سندھ حکومت کے لیے یہ زریں موقع ہے کہ تھر میں ترقیاتی منصوبے تیارکیے جائیں، اور متعلقہ محکمے ان منصوبوں کی مقررہ مدت میں تکمیل کو یقینی بنائیں، تھر میں تفریحی مقامات کی زیب و زینت اور تزئین و آرائش پر بھر پور توجہ دی جائے اور پانی کی فراہمی کا فالٹ فری نظام متعارف کرایا جائے، نوجوانوں کو گیمزکے لیے ہر ممکن سہولت مہیا کی جائے، تھر کو تعلیم کی اشد ضرورت ہے، خواتین کو تعلیمی سہولتیں مہیا کی جائیں،غربت کے خاتمے کے لیے روزگار اور بچوں کی صحت کے لیے جدید اسپتال تعمیر ہوں، صحت نیٹ ورک کی فعالیت یقینی بنائی جائے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ وفاق اور صوبائی حکومت کے منصوبے بغیر کسی تنازع اور خوش اسلوبی سے مکمل ہوں۔
سندھ میں ہمہ گیر ترقی ہو، جمہوری اسپرٹ کے ساتھ مرکزی و سندھ حکومت تھری عوام کی سماجی ومعاشی بہتری کے لیے جدید ترین سہولتیں دے، مواصلات اور کاروبار میں عوام کو بنیادی انفرا اسٹرکچر سے مکمل سہولتیں فراہم کی جائیں۔
تھر کو سندھی ثقافت میں ایک منفرد مقام ملے گا، امید کی جانی چاہیے سندھ حکومت تھری عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریگی۔ ’’کارونجھر‘‘کے تفریحی علاقے پر توجہ دی جائے گی اور تھر کے عوام کو نظرانداز ہونے کا گلہ نہیں رہے گا بلکہ وہ ترقی و خوشحالی کے قومی عمل میں شانہ بشانہ رہیں گے۔
The post تھرکی بدحالی ایک المیہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cST6IN
via IFTTT
No comments:
Post a Comment