وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے کا مقصد لوگوں کو غربت سے نکالنا ، دولت پیدا کرنا، اسے پھیلانا ہے۔ وسائل پر اشرافیہ اور مافیاز کی اجارہ داری ختم کریں گے۔
پاکستان میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں، ہمارے عوام بھی باصلاحیت ہیں، میرٹ اور قانون کی حکمرانی نہ ہونے سے اشرافیہ قابض ہو جاتی ہے، جس نے کوئی جدوجہد ہی نہیں کی ہوتی وہ بھی اہم عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں۔
معروف اسلامی اسکالر شیخ حمزہ یوسف سے آن لائن گفتگو میں وزیر اعظم نے ملکی سسٹم ، عالم اسلام میں قیادت کے معیار، اہمیت، کردار کے علاوہ انھوں پاکستان کی سیاست پر تقریباً یکساں خیالات کا حوالہ دیا ہے جن کا وہ ملکی، غیر ملکی میڈیا اور ماہرین سے مکالمہ اور بات چیت کی صورت میں اظہار خیال کرتے رہے ہیں، البتہ ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جو سیاسی وژن اور طاقت وزیراعظم کو اپنے پولیٹیکل فلاسفی میں ظاہر کرنی چاہیے، وہ حکمرانی کو اپنے علمی خیالات کا عکس بنا کر پیش کررہے ہیں جب کہ عوام کو آپ کی حکومت کی کارکردگی سے فیض یاب ہونا ہے، لوگ آپ کی حکمرانی میں ایک اسلامی فلاحی ریاست کی روح دیکھنے کے متمنی ہیں۔
صورتحال اس رخ پر جارہی ہے کہ عوام اب کسی فکر وفلسفے سے متاثر نہیں ہوں گے، وہ طیش میں ہیں ، انھیں کسی قسم کیا ریلیف نہیں ملا ، زندگی کے حوالے سے کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ وزیراعظم نے دولت لوٹنے اور ملکی سسٹم میں بے پناہ پیسے کی ریل پیل کا ذکر بہت کیا ، لیکن ایک شفاف سسٹم کے بنیاد رکھنے کے لیے جس پیسے کو لٹیروں سے لے کر ملکی خزانے میں شامل کرنے کا وعدہ تھا وہ بھی پورا نہیں ہوا، بہیمانہ جرائم بڑھ گئے، کورونا نے الگ آفت ڈھائی، اب اس کی نئی قسم آگئی ہے، عوام ابھی کورونا سے سنبھل نہیں پائے کہ ایک نئی مصیبت سر پر کھڑی ہو گئی، عوام کو دو وقت کی روٹی کے حصول نے پریشان کررکھا ہے، تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
بلاشبہ وزیراعظم کی گفتگو خالص علمی استدلال کے ساتھ پیش کی گئی، وہ ایک اسلامی دانشور سے گفتگو کررہے تھے، لیکن ان کی حکومت تین سال میں عوام کو اب تک کیا دے چکی ہے، عوام اس کا حساب مانگ رہے ہیں، وہ بے تاب ہیں، مہنگائی نے فی الواقع جو قیامت برپا کر رکھی ہے، اس بارے میں وزیراعظم قوم کے سامنے صحیح حقائق رکھیں، یہ بتائیں کہ بے لگام اشرافیہ اور مافیا کیسے انھیں بے بس کرچکی ہیں، وہ کون سے سرکش قوتیں ہیں جو فلاحی اسلامی ریاست کے قیام میں رکاوٹ بنی ہیں اور حکومت ان کے خلاف کارروائی سے معذور کیوں ہے، وہ ہاتھ اتنے لمبے کیسے بن گئے کہ تین سال ہوگئے۔
وزیراعظم عوام کو جمہوری ثمرات نہیں دے سکے، چینی، آٹا، گھی، دودھ، دالیں اور روزگار بھی نہیں ہے، عوام کی بے بسی کی تصویر سے قطعی مختلف تصویر شیخ حمزہ یوسف سے مکالمے میں پیش کی گئی، ایک درست تصویر بھی عوام کے سامنے آنی چاہیے۔ اس لیے عوام کی برہمی فطری ہوگی، حالات تاریخی حقائق، ملکی سیاست کی گراوٹ اور انتظامی انحطاط کی کوئی اور تصویر دکھا رہے ہیں، زمینی حقیقت اور علمی گفتگو میں کوئی ہم آہنگی نہ ہو تو عوام علمی گفتگو سے بھی تنگ آجاتے ہیں، موجودہ حالات میں چونکہ سیاسی صورتحال پر علمی گفتگو کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ محل وقوع ، تناظر اور وقت ایسی میڈیائی گفتگو پر سوالات اٹھا دیتا ہے، جب کہ ملکی ماحول علمی تناظر پر سیاسی حقائق کا غلبہ فکری طور پر ایسے مکالمے پر بحث کو متضاد سیاق و سباق کی نذرکردیتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ملکی وسائل پر اشرافیہ کے قبضہ کی وجہ سے پاکستانی عوام کی اکثریت صحت، تعلیم اور انصاف جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، لوگ یکساں سازگار ماحول کے لیے پاکستان سے باہر جاتے ہیں اور وہاں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان حقائق کا اظہار وزیر اعظم ساڑھے تین سال کی سیاسی کارکردگی کے بعد قوم کے سامنے کر رہے ہیں جب کہ ’’ پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے‘‘ وقت بدل گیا ہے، اگرچہ وزیر اعظم نے اپنے سیاسی سفر اور اقتدارکا آغاز تبدیلی کے وعدے سے کیا تھا، آج ان الفاظ کی کیا حرمت باقی رہ گئی ہے۔
اقتصادی حالات اور معاشی صورتحال نے پوری سیاسی فضا بدل چکی ہے، لیکن ملک میں وہ تبدیلی نہ آسکی جس کا وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا، تاہم جہاں تک اظہار رائے اور علمی سطح پر ملکی سیاست، سسٹم، مسائل، ریاستی معاملات اور سیاسی قیادت اور مسلم امہ کے فکری زوال اور طرز حکمرانی میں ابتذال اورکرپشن کا سوال ہے، اس کا شیخ یوسف نے صائب علمی جواب دیا ہے، وہ پاکستانی کمیونٹی کے امریکی میں کردار وکارکردگی کے معترف ہیں، اہلیت کے معترف ہیں، تاہم علمی حلقے ملکی سماجی صورتحال کے مخدوش ہونے کے حوالے سے وزیراعظم سے سوال کرنا چاہیں گے کہ وہ پیدا شدہ صورتحال میں سیاسی فکر اور فلسفے پر عملدرآمد کب کریں گے۔
ان کی گفتگو ایک وزیر اعظم کی ہونی چاہیے، ان سے عوام توقع رکھتے ہیں کہ جو وژن ان کا ہے، ملک کے 22 کروڑ عوام کو اسلام سمیت دنیا کی قیادت کے علمی و فکری استنباط سے آگاہ کرنا بھی ناگزیر ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کے لوگوں کی صلاحیتیں جدوجہد سے اجاگر ہوں گی تو انھیں غربت سے نکالا جا سکے گا۔ انھوں نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ عقیدہ انسان کو باوقار بناتا ہے اور اسی سے انسان کو آزادی ملتی ہے۔ مذہب کے معاملے پر کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کی جا سکتی اور اسلام بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا امیر وہ ہوتا ہے جس کا ضمیر خریدا نہ جا سکے، خود اعتمادی انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ انسان کے اندر غیرت بہت ضروری ہے، عزت دار شخص کو کبھی خود کو ذلت میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ سچا ایمان آپ کو اپنی انا پرکنٹرول کرنا سکھاتا ہے، انا کسی بھی شخص کو برباد کردیتی ہے، دوسرے انسانوں کا سوچنے والا اللہ کا ولی بنتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں ذاتی مفادات یا اقتدار کے فوائد حاصل کرنے کے لیے سیاست میں نہیں آیا بلکہ اپنے عقیدے کی وجہ سے سیاست میں آیا ہوں۔ جب میں نے سیاست شروع کی تو لوگ سیاست میں آنے سے ڈرتے تھے، سیاست میں آیا تو طاقتور لوگوں نے میری کردار کشی کی لیکن آپ اپنی ناکامیوں سے سیکھتے ہیں، انھوں نے کہا کہ ماضی میں سیاسی نظام کے ذریعے جو قیادت سامنے آئی وہ عقیدہ کے اصولوں سے بالکل الگ ہوگئی، وہ اقتدار کے لیے آئی اور اس نے اقتدار میں رہنے کے لیے سمجھوتہ کیا اور بیشتر سیاستدانوں نے اقتدار ذاتی فائدہ کے لیے حاصل کیا۔ ترقی پذیر دنیا میں زیادہ تر سیاستدان اپنے مفاد اور پیسہ کمانے کے لیے ہی اقتدار میں آتے ہیں۔
بدقسمتی سے بہت کم نیلسن منڈیلا کی طرح تھے جو کسی اعلیٰ مقصد کے لیے اقتدار میں آئے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح وہ شخصیت تھے جو ایک عظیم مقصد کے لیے آئے تھے۔ موجودہ دور میں سیاست دانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ وہ کہتے تو ہیں کہ ہم عوام کی خدمت کے لیے آئے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اپنی ذات کی ہی خدمت کرتے ہیں۔
پاکستان میں صرف ایک فیصد عوام کو معیاری تعلیم تک رسائی حاصل ہے جب کہ دوسروں کے پاس مواقعے ہی نہیں ہیں۔ اپنی حکومت کے بارے میں انھوں نے کہا موجودہ حکومت نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فلاحی پروگرام شروع کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آپ موجودہ وقت میں جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کے اثرات کے بارے میں سوچنا چاہیے جو انسانیت پر مزید ہزار سال تک مرتب ہوں گے۔
پاکستان کے عوام غربت، مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آگئے ہیں، وہ تنگ آمد بجنگ آمد کی دہلیز پر کھڑے ہیں، انھیں ایک تبدیل شدہ معاشی صورتحال ہی مطمئن کرسکتی ہے، اسی ایک نکتہ پر وزیر اعظم حکمرانی کی عملی تصویر دنیا کو دکھا سکتے اور پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ عوام ان سے عمل کی توقع رکھتے ہیں۔ کسی علمی شخصیت سے گفتگو بھی لازم ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ان حقائق سے آگاہی دلانا ماہرین اقتصادیات کا کام ہے، معاشی، سیاسی اور اقتصادی حالات کی سنگینی کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔
انتخابی معاملات پر بحث جاری ہے، الیکٹرانک ووٹنگ پر تنازعہ چل رہا ہے، مہنگائی عروج پر ہے، گیس نہیں مل رہی، بجلی کے بل ناقابل برداشت ہیں، غربت، افراط زر اور مہنگائی میں ایک جنگ جاری ہے، چنانچہ حکومت عوام کو بتائے کہ اصل جنگ غربت کی ہے، باقی سب اس کے ذیلی اثرات ہیں، لیکن یہ اطمینان صرف وہی معاشی مسیحا ہی دلا سکتے ہیں جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں۔
حکومت اپنے معاشی چارہ گروں سے مناسب کام لے، ان کو متحرک کرے، انھیں عوام کو مہنگائی، غربت اور افراط زر سے بچانا ہوگا، اپنے عوام کو مطمئن رکھنا اور سیاسی نظام کو بچانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
The post معاشی اطمینان اور علمی بحثیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3puPNh1
via IFTTT
No comments:
Post a Comment