Sunday, September 17, 2023

خطہ دل رُبا ایکسپریس اردو

آپ خوش قسمت ہیں اگر آپ ’’سوہا واہ‘‘ کے قریب کہیں رہتے ہیں۔ آپ خوش قسمت ہیں اگر آپ چکوال کے قریب کہیں رہتے ہیں، کیوںکہ چکوال، سوہا واہ روڈ بالکل موٹر وے ہے۔ میں جب جب چکوال، وادیِ سُون گیا ہوں، تب تب میں نے اس سڑک کے بارے لکھا بھی ہے اور اس کو انجوائے بھی بہت کیا ہے۔

66کلومیٹر لمبی یہ سڑک پوری کی پوری شان دار ہے، کیوںکہ دن کے اوقات میں بھی یہاں ٹریفک اتنی زیادہ نہیں ہوتی اور رات کو تو یہ سڑک آپ کو مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ملے گی۔ یہ سڑک یہ حق رکھتی ہے کہ بائیک رائیڈ سے لفظ اندوز ہونے والا ہر شخص اس سڑک پر خواہ مخواہ سفر کرے اور پھر یہ سفر خواہ مخواہ تو کسی صورت نہ ہوگا۔

چکوال میں ہی دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ خواہ وہ متروک شدہ چکوال کا ریلوے اسٹیشن ہو جو اپنے اندر عجیب سی کہانیوں کو دفن کیے ہوئے ہے یا پھر چکوال canyons کی صورت میں قدرت کے حسین نظارے۔ کانوں میں درمیانی آواز میں آپ کا پسندیدہ میوزک چل رہا ہو تو کیا ہی بات ہے۔ بس ہو وہی جو آپ کا پسندیدہ ہو کہ من پسند چیزیں خوش قسمت لوگوں کو ہی میسر آتی ہیں۔

آپ یقین مانیں بائیک رائیڈنگ ایک نشہ ہے اور سوہا واہ چکوال روڈ اس نشے کو پورا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔

سردیاں ساری گزر گئیں اور میں گھر سے باہر قدم نہ رکھ سکا تھا۔ وجہ یقیناً موسم ہی تھا کہ بائیک کے لیے آپ کو سازگار موسم مطلوب ہے۔

آپ سخت گرمی میں تو بائیک چلا سکتے ہیں مگر جب موسم سرما میں آپ بائیک ذرا تیز کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کے اس اس حصے میں سے ہوا گزرتی ہے جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ایسے میں گھر میں سکون سے بیٹھنا مجبوری تھی مگر جوں ہی ذرا موسم کُھلا تو سوچا کہ اپنے اوپر چڑھے زنگ کو اتارا جائے۔

منصوبہ بندی تو بہت سی جگہوں کہ تھی مگر بات یہ ہے کہ جو پیا من بھائے، وہی سہاگن کہلائے۔ قرعہ اس طرف کا نکلنا تھا جہاں کے لیے سب احباب راضی ہوتے اور اس بار تو خوش گوار اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ میری ٹیم میں کُل آٹھ افراد اور چار بائیکس تھیں اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ آخری دم تک سب جانے کو تیار تھے۔

نہ تو کوئی پیٹ درد کا بہانہ بنا رہا تھا اور نہ ہی کسی نے سگریٹ کا لمبا سا کش لگا کر، آسمان کی منہ کر کے دھواں چھوڑتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ’’ابا نہیں مان رہا۔‘‘ اس پلان پر کام شروع کرتے وقت آٹھ افراد تھے۔ مجھے اندازہ تھا کہ آخری وقت آنے تک کم از کم دو افراد تو ساتھ چھوڑ ہی جائیں گے۔ کسی کا دادا یا نانا اللہ کو پیارا ہوجائے گا اور کسی کی گائے ایک نیا بچھڑا دنیا میں لانے کے بالکل قریب ہوگی۔

مگر نا قابلِ یقین بات یہ ہوئی کہ نہ تو کسی کے ہاں کوئی مرگ ہوا اور نہ کسی کی گائے یا بھینس ایک نیا جانور دنیا میں لانے کی وجہ بنی۔ گائے یا بھینس کی مثال اس لیے بھی دی کہ ہمارے ساتھ اس بار ایک گجر بھی جا رہا تھا اور مجھے پورا یقین تھا کہ ہمارا یہ گجر گائے بھینس کا کوئی بہانہ ضرور بنائے گا مگر میں غلط ثابت ہوا۔ ہاں میرا دل البتہ ضرور ڈگمگا رہا تھا کہ میں بھاگ جاؤں۔ کوئی بہانہ کردوں مگر نہ کرسکا اور عید کی دوسری رات مجھے احباب کے ساتھ وادیِ سُون کے لیے نکلنا ہی پڑا۔

سیاحت کے لیے نکلنا ہو تو سب سے مشکل کام اپنے گھر سے باہر پہلا قدم نکالنا ہی ہے، مگر اس پہلے قدم کو باہر نکالنے کے لیے ایک بڑی زنجیر آپ کی اولاد ہے اور اولاد بھی وہ جو چھوٹی ہو۔ مجھے رہ رہ کر اپنے ڈیڑھ سالہ ابراہیم پر بڑی شدت سے پیار آ رہا تھا۔ سفر تو پھر سفر ہے۔

آپ سفر سے واپس آپاتے ہیں یا نہیں، یہ کوئی نہیں جانتا۔ دورانِ سفر پیش آنے والے حادثات سے خبریں بھری ملتی ہیں۔ کبھی کوئی بائیک کسی ٹرک کے ساتھ ٹکرا جاتی ہے تو کبھی کوئی ٹرالر والا بائیک کو روند کر آگے نکل جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں انسانی جان کی قیمت ہے ہی کیا۔ شاید ایک چیونٹی سے بھی کم۔ میرا ماننا ہے کہ سڑک پر زیادہ تر حادثات آپ کی غلطی سے نہیں بلکہ دوسروں کی غلطی سے ہوتے ہیں اور آپ کے پیچھے رہ جانے والے آپ کو اور آپ کے شوق کو پھر ساری عمر روتے ہی رہتے ہیں۔

سڑک پر پیش آنے والے حادثات حقیقت ہیں اور ان سے نہ تو انکار ممکن ہے اور نہ فرار، اسی لیے حد درجہ احتیاط اور فقط احتیاط ہی اس کا واحد حل ہے۔ ہیلمیٹ تو ضروری ہے ہی مگر ساتھ ہر بائیک پر سیروسیاحت پر جانے والوں کو کم از کم گھٹنوں اور کہنیوں پر حفاظتی کٹس ضرور لگانی چاہیں کیوںکہ لاشعوری طور پر کسی بھی قسم کے حادثے کی صورت میں آپ اپنے گھٹنے اور کہنیوں کو موڑ لیتے ہیں۔

ایسے بھی چوٹ زیادہ پر گھٹنے اور کہنی پر ضرور لگتی ہے۔ اگر ان دونوں جگہوں کو اچھی طرح حفاظتی کِٹ سے کور کرلیا جائے تو بہت سی چوٹوں سے بچا جاسکتا ہے۔ اجتماعی طور پر سفر کی دعا اور مصیبت سے بچنے کی دعا بھی ضرور پڑھیں۔ میں نے گروپ کے آٹھوں افراد کو ایک دائرے میں کھڑا کروا کے اسد بھائی سے دونوں دعائیں پڑھائیں اور ہمارا قافلہ وادیِ سُون کے لیے نکل پڑا۔

ہم سب مسافر نہیں تھے، بلکہ سیاح تھے۔ ہم سفر نہیں کر رہے تھے بلکہ suffer کرکر کے سیاحت کر رہے تھے اور اس suffer کرنے کی واحد وجہ ہماری سڑکیں ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہم ابھی تک سڑک جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں۔

نہ جانے کیا معاملات ہیں کہ ٹھیکے دار سڑک کو درمیان میں لٹکا کر اپنا سازو سامان لے کر ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ بلکہ سینگ بھی غائب ہونے میں شاید وقت لیتے ہوں گئے۔ سمبڑیال تا وزیر آباد روڈ ایک عرصے سے خراب تھا اور اب خراب تر ہے۔ شاید سڑک بنانے کے لیے کسی کو ٹھیکا ملا ہو مگر اب حالات یہ ہیں کہ سمبڑیال تا وزیرآباد کا آدھے گھنٹے کا سفر، سفر نہیں رہا بلکہ suffer بن چکا ہے۔

سڑک کے بہتر حصے کو بھی توڑ کر اس پر پہلے پتھر ڈالے گئے، پھر باریک بجری اور پھر ٹھیکے دار کمپنی اپنا سازوسامان اٹھا کر بھاگ گئی۔ شاید ان کا بجٹ ختم ہوگیا ہو گا یا پھر انھیں حکومت کی جانب سے مزید فنڈز نہیں مل رہے ہوں گے۔

وجہ جو بھی ہو، کیا عوام، کیا مسافر اور کیا ہی سیاح ہم سب suffer کر رہے ہیں۔suffer کر رہے ہیں ان نکمے حکم رانوں کو، ان کی سن ’’انیس سو پتھر‘‘ کی ناکام پالیسیوں کو۔ ہر سیاحت سے واپسی پر توبہ تائب ہوتے ہیں کہ بس اب نہ تو سفر کرنا ہے اور نہ ہی suffer  مگر ہم اپنی ہی توبہ پر قائم نہیں رہ پاتے اور پھر چل پڑتے ہیں کسی نئی منزل کی جانب۔

چار دریاؤں کے بارے یہ کہاوت مشہور ہے کہ

راوی راشکاں ، چناب عاشقاں،  سندھ صادقاں ، جہلم منافقاں

سوہنی کا چناب کیا گزرا، منافقوں کے جہلم نے آنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی۔ چناب کو عاشقوں سے منسوب کیا جائے، اس کی تو سمجھ آتی ہے مگر جہلم کو منافقوں کے ساتھ کیوں جوڑا جاتا ہے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ عید کا دوسرا روز تھا بلکہ دوسری رات تھی، اس لیے پوری جرنیلی سڑک خالی تھی۔ میں نے جو سوچ رکھا تھا کہ فجر سے ذرا پہلے ہم چکوال پہنچ جائیں گئے، ہوا کچھ یوں کہ رات تقریباً تین بجے تک ہم چکوال میں تھے۔

عید کی وجہ سے چند دکانیں کھلی تھیں۔ بار بی کیو پراٹھا انجوائے کرنے کے بعد طے یہی پایا کہ کسی گیسٹ ہاؤس میں استراحت کی جائے۔ دو ہزار میں دو کمرے مل گئے۔ گیسٹ ہاؤس کا چاچا وقت کا بڑا پابند تھا۔ ہم نے اسے ساڑھے سات بجے اٹھانے کا کہا تو اس نے ٹھیک ساڑھے سات بجے ہمارا دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔ قریبی کوئٹہ ہوٹل پر ناشتہ کیا اور ٹھیک نو بجے اجتماعی دعائے سفر پڑھنے کے بعد ہم سب چل پڑے وادیِ سُون کی جانب۔ میں راستوں کے بارے بہت کم زور ہوں یا پھر یوں سمجھ لیں کہ میں بہت سہل پسند ہوں۔

جب گوگل میپ ہے تو پھر راستے یاد رکھنے کی کیا ضرورت ہے، مگر ضرورت ہے، اس بات کا شدت سے احساس اب ہوا۔ گوگل میپ پر ہم نے کنہٹی گارڈن کا میپ لگایا تو تلہ گنگ شہر کے بیچ میں سے گزرے۔ دو بار وادیِ سُون جا چکا ہوں مگر تلہ گنگ شہر سے کبھی نہ گزرا۔ میں لاشعوری طور پر پیل چوک کا منتظر تھا، جس پر بابِ پشاور کی طرز کا ماڈل بنا ہے، جس پر ’’وادیِ سُون میں خوش آمدید‘‘ بھی لکھا ہے مگر اسے نہ آنا تھا، نہ آیا۔ ہمیں گوگل میپ نے مرکزی سڑک سے اتار کر ایک چھوٹی سڑک پر اتار دیا۔ تھوڑا آگے گئے تو ایک چھوٹا سا ’’سمال ڈیم‘‘ آ گیا۔ یہاں مجھے اندازہ ہو گیا کہ گوگل صاحب ہمیں ایک دوسرے راستے پر ڈال چکے ہیں۔

یہ ایک مکمل آف روڈ ٹریک تھا۔ اب ایک مکمل ایڈونچر ہونے والا تھا مگر ہر اچھی شے کی طرح اس ایڈونچر کی بھی ایک قیمت تھی جو ہم سب کو ایک مختلف صورت میں ادا کرنا پڑی۔ بلاشبہہ یہ آف روڈ ٹریک ایک زبردست اور یادگار ایڈونچر تھا مگر ہم میں سے کوئی بھی اس کے لیے تیار نہ تھا۔ چوںکہ ہم سب سیاح تھے، قدرت سے محبت رکھنے والے تھے، اسی لیے سب کو رفتہ رفتہ مزہ آنے لگا تھا۔ یہ مزہ تھوڑا سا کرکرا اس وقت ہوا جب زعیم کی موٹر سائیکل کا ٹائر پنچر ہوگیا۔ خوش قسمتی سے تھوڑا پیچھے ہی ایک پنچر لگانے والی دکان گزری تھی۔

ہم سب ساتھ والے کھیت میں سستانے کے لیے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں زعیم پنچر لگوا کر واپس آ گیا۔ ہم تھوڑا مزید آگے گئے تو یہ کچا پکا ٹوٹا پھوٹا راستہ بھی ختم ہوگیا۔

اب ہمارے سامنے ایک نالہ نما چھوٹا سا دریا تھا، جس کا پاٹ چوڑا ہونے کی وجہ سے پانی کافی کم تھا۔ پانی کم تھا مگر اس میں وہی چوڑے چوڑے پتھر تھے جو اس خطے کی پہچان ہیں، جن پر کھڑے ہونا، چلنا اور خاص کر بائیک کا چلنا بہت مشکل تھا۔ یہ گمبھیر نالہ تھا جسے بارشوں کے موسم میں پار کر مشکل ہوتا ہے مگر عام موسم میں اسے آسانی سے پار کیا جا سکتا ہے۔  پار کرتے ہوئے مسئلہ پانی نہیں بلکہ پتھر ہیں۔

نالہ پار کرچکے تو آگے کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ گوگل میپ کی جانب نظر کی تو وہ ایک تنگ پگڈنڈی کی جانب اشارہ کرنے لگا۔ پہلے تو اس راستے پر یقین نہ آیا، مگر جب اور کچھ سجھائی نہ دیا تو اسی پگڈنڈی پر چل پڑے۔ یہی درست راستہ تھا۔ قربان جاؤں میں اس شخص کے جس نے گوگل پر وہ آف روڈ ٹریک اپ لوڈ کیا ہوگا۔

ہم نے لوکیشن کنہٹی گارڈن کی ڈالی ہوئی تھی۔ جب بہت وقت بھی ہم سڑک پر نہ چڑھ سکے تو مجھے احساس کہ ہم مین روڈ پر آئیں گے ہی نہیں جیسے بڑی بڑی چٹانیں راستے میں آ رہی تھیں بالکل ویسی ہی میں تین سال پہلے کنہٹی گارڈن میں دیکھ چکا تھا۔

مجھے شک ہوا کہ یہ راستہ ہمیشہ کنہٹی گارڈن کی پچھلی طرف سے ہمیں گارڈن میں لے کر جائے گا اور سامنے کے گیٹ سے باہر نکالے گا۔ کچھ ہی دیر کے بعد میرا شک درست ثابت ہوا۔ سڑک کے ایک طرف کنہٹی گارڈن کا بورڈ تھا مگر یہ راستہ آگے سے بند کیا ہوا تھا۔ مقامیوں سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ اندر آبشار پر چند دن پہلے ایک نوجوان نہاتے ہوئے ڈوب گیا ہے، اس لیے آبشار کو جاتے راستے بند کردیے گئے ہیں۔

ہم پہلے ہی مشکل سے کنہٹی گارڈن پہنچے تھے اور اب آگے راستہ بند تھا۔ پھر مقامیوں کی مدد سے اصل سڑک کی طرف سفر شروع کیا مگر مرکزی شاہراہ آنے سے پہلے ہی زعیم کی بائیک نے ایک بار پھر دغا دے دی اور ٹائر پنکچر ہوگیا۔ اب نہ تو پیچھے 4 سے پانچ کلومیٹر تک ٹائر پنکچر والی کوئی دکان تھی، نہ آگے۔ پیچھے آف روڈ ٹریک تھا، آگے کم از کم سڑک تو تھی، لہٰذا آگے ہی جانے کا فیصلہ ہوا۔ چڑھائی اور اترائی نے یقیناً زعیم کا برا حال کیا ہوگا۔ اب فیصلہ یہی ہوا تھا پنکچر لگوانے کی بجائے ٹیوب نئی ڈلوائی جائے گی۔

ہمارا تقریباً سارا دن ضائع ہو رہا تھا۔ کنہٹی گارڈن سے کھبیکی جھیل کی اترتے ہوئے دوپہر بھی جھیل پر اتر چکی تھی۔ اگر موسم مناسب ہو تو کھبیکی جھیل بہت پیاری ہے۔ شاید ضرورت سے تھوڑا زیادہ پیاری۔ کھبیکی جھیل میں ایسی کچھ تو بات تھی کہ کملی جیسی خوب صورت فلم کو شمال یا کے پی کے کی کسی جھیل کنارے شُوٹ کرنے کی بجائے، اسے کھبیکی جھیل کے کنارے شُوٹ کیا گیا۔

میں تینوں فیر ملاں گی ، کِتھے؟ کس طرح؟ پتا نہیں

ایسا نہیں تھا کہ میں اس سے پہلے نہ ملا تھا۔ ہماری زیادہ نہ سہی تو چند ایک ملاقاتیں تو تھیں۔ مانسہرہ سے ناران جاتے ہوئے جب ہماری گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا تو وہ مجھے دور ایک پہاڑی پر کھڑی مسکراتی ہوئی نظر آئی۔

یقیناً میں اسے دیکھ کر ڈر سا گیا تھا۔ ہمارے ایک جانب پتھروں بھری پہاڑی تھی جب کہ دوسری جانب گہری کھائی۔ جوں جوں ہماری گاڑی کھائی کے قریب ہونے لگی، توں توں وہ مسکرانے لگی مگر ڈرائیور نے کمال مہارت سے گاڑی روک لی۔ ہم کھائی کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر ایک بار میں نے اسے دریائے سوات کے کنارے دیکھا تھا۔

وادیِ سوات جاتے ہوئے ہم کسی گاؤں میں محض ناشتے کی غرض سے رکے تھے۔ ہوٹل کے ساتھ ہی دریا سست روی سے بہہ رہا تھا۔ یہ نہ تو چڑھا ہوا تھا اور نہ ہی اس کی زیادہ گہرائی تھی۔ میں اسے دیکھ کر چونکا کہ وہ یہاں کیونکر آ سکتی ہے۔ حقیقت تب مجھ پر آشکار ہوئی جب ایک چھوٹے سے بچے کا پاؤں پھسلا اور وہ دریا میں جا گرا۔ قسمت اچھی تھی کہ اس بچے کو چند مقامی افراد نے بچا لیا۔ وہ دور سے مسکرائی اور پھر یک دم غائب ہوگئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسے ہی وادیِ سرِن میں بلیجہ جاتے ہوئے جب ٹریک ختم ہو گیا تو ہمیں چار ٹانگوں پر پہاڑ چڑھنا پڑا۔ میں نے اپنا بیگ اپنی پشت پر ڈالا اور کسی گدھے گھوڑے کی طرح دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر پہاڑ چڑھنے لگا۔ میں اور میرا ساتھی، ہم دونوں پہاڑ پر رینگ رہے تھے۔ یہاں وہ مجھے مل سکتی تھی۔ میں لاشعوری طور پر اس کا منتظر تھا مگر وہ مجھے دور دور تک دکھائی نہ دی۔

مگر وادیِ سُون کے کھبیکی گاؤں میں کھبیکی جھیل کے کنارے وہ مجھے سیاہ لباس میں ایک بار پھر دکھائی دی۔ حالاںکہ یہ کوئی مقام نہیں تھا اس کے ملنے کا مگر پھر بھی وہ وہاں تھی۔ عین جھیل کے وسط میں۔ میرا کشتی رانی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ جھیل کے وسط میں اسے دیکھ کر میرا ارادہ مزید پختہ ہوگیا کہ کشتی پر نہیں بیٹھنا۔ میں اس سے کلام کرنے کی جرأت کیسے کرسکتا تھا۔

اسے مجھ سے کلام کرنے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ جاتے جاتے مجھے دیکھ کر مسکرائی اور بولی۔

میں تینوں فیر ملاں گی

شاید کسی خوب صورت جھیل کے کنارے یا پھر نانگا پربت کی برفوں کے سرہانے یا پھر شمال کے کسی سخت ٹریک پر یا پھر تمھارے گھر کے پاس ہی کسی سڑک پر۔ ’’عین ممکن ہے کہ ہماری ملاقات تمھارے بستر پر ہو۔‘‘

’’موت‘‘ نے میرے کان میں پھر سرگوشی کی۔

میں تینوں فیر ملاں گی ، پتا نہیں کس طرح، کتھے پر تینوں ضرور ملاں گی۔

میں نے کچھ دیر کے لیے کھبیکی جھیل میں پاؤں ڈبوئے اور سب کو ہانک کر ڈیپ شریف کی جانب لے گیا۔

کھبیکی جھیل سے نکل کر اگر آپ نوشہرہ سے ہوتے ہوئے اچھالی جھیل کی جانب جائیں تو اچھالی گاؤں سے پہلے ہی ایک سڑک ڈیپ شریف کی جانب مڑ جائے گی۔ چوںکہ ڈیپ شریف کی لوکیشن گوگل میپ پر موجود ہے تو آپ کو کسی سے راہ نمائی لینے کی ضرورت نہیں، جہاں گوگل کی لوکیشن ختم ہوجائے، وہاں سے آگے چلتے جائیں، آپ کو پارکنگ مل جائے گی۔ لوگ یہاں تفریح کی غرض سے آتے ہیں اور زیادہ تر گند پھیلا کر چلے جاتے ہیں۔ پارکنگ سے ذرا پہلے ایک راستہ الگ ہوکر دائیں جانب مڑ جاتا ہے۔ یہ راستہ مسجد اور خانقاہ کی جانب جائے گا۔ یہاں پر ہی زیادہ تر سیاح اپنی گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں۔ یہاں فقط چالیس روپے کے عوض آپ کی سواری محفوظ ہے۔

ڈیپ شریف کی یہ مسجد کوئی نئی نہیں ہے۔ اسے سب سے پہلے اٹھارھویں عیسوی میں حضرت محمد عثمان دامانی نے تعمیر کروایا تھا۔ اسے دوسری بار 1961ء میں حضرت خواجہ محمد اسماعیل سراجی نے تعمیر کروایا، جب کہ موجودہ خانقاہ موسیٰ زئی شریف (ڈیرہ اسماعیل خان) سے منسوب ہے۔ مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد آپ ٹریک پر آجائیں۔ زیادہ سے زیادہ بیس یا پچیس منٹ کے بعد آپ ڈیپ شریف کے چشمے پر ہوں گے۔ چشمے کے ساتھ ایک ٹریک مزید اوپر کی طرف جاتا ہے۔ اس پر ضرور چڑھیں۔ اوپر چڑھنے کے بعد آپ کو بہترین نظارے ملیں گے۔

ڈیپ شریف کے چشموں کا پانی بہت گہرا ہے۔ اس لیے یہاں نہانے سے مکمل پرہیز کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھالی جھیل وادیِ سُون میں کھارے پانی کی سب سے بڑی قدرتی جھیل ہے۔ آس پاس کے قدرتی نالوں اور چشموں کا پانی اچھالی جھیل کو بناتا ہے۔ اچھالی جھیل کے درمیان بنائی گئی سڑک اس کی خوب صورتی میں اضافہ کرتی ہے۔ موسم سرما میں آئے مسافر سائبیرین پرندے اچھالی جھیل کی خوب صورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پڑھنے اور سننے میں یہ باتیں کتنی اچھی لگتی ہیں ناں مگر یہ مکمل حقیقت نہیں ہے۔ صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ ہر جھیل کو دیکھنے کا ایک خاص وقت ہوتا ہے۔ اگر جھیل کو اس خاص وقت میں نہ دیکھا جائے تو وہ صرف ایک پانی کا تالاب ہی ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ آپ جھیل سیف الملوک کو صبح سویرے دیکھیں، اس کی خوب صورتی اپنے جوبن پر ہوگی۔ جب سورج آپ کے سروں پر کھڑا ہو تو جھیل کے رنگ بھی پھیکے پڑجاتے ہیں۔

پنجاب اور شمال کی جھیلوں میں بنیادی فرق موسم کا ہے۔ شمال کی طرف جائیں تو جھیل کے پانی رواں ہونے کی وجہ سے یہ اپنی اصل حالت تقریباً بحال رکھتی ہیں جب کہ پنجاب میں یہی جھیلیں خاص کر وادیِ سُون کی جھیلیں بارشوں سے منسوب ہیں۔ ان جھیلوں کو آپ صرف موسمِ سرما میں ہی اچھی حالت میں دیکھ سکتے ہیں۔

اچھالی جھیل آپ کو تب ہی مزہ دے گی جب آپ اسے دسمبر تا مارچ دیکھیں گے، بصورتِ دیگر یہ گندے پانی کا تالاب ہی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں کسی بھی صورت ان جھیلوں کی جانب مت جائیں۔ اچھالی میں پاؤں ڈبو کر بیٹھنا تو دور کی بات، آپ اچھالی کے قریب کھڑے بھی نہیں ہوسکتے۔ پانی پر گندی اور بدبودار کائی آپ کو کھڑا نہیں ہونے دے گی۔

جیسا کہ اوپر بات کی گئی ہے کہ اچھالی جھیل سمیت تمام جھیلیں اپنے آس پاس موجود نالوں، چشموں سے وجود میں آتی ہیں۔ گرمیوں میں چوںکہ وادیِ سُون کے یہ چشمے خشک ہوجاتے ہیں، اسی لیے اچھالی میں پانی کی آمدورفت رک سی جاتی ہے۔ پانی ایک ہی جگہ کھڑا رہتا ہے اور کائی لگنے کے ساتھ ساتھ بدبو کا بھی باعث بنتا ہے۔ ویسے بھی مشہور بات ہے کہ کھڑا پانی ہمیشہ بدبو دیتا ہے۔

یہاں کچھ شکایت مجھے اپنے فوٹوگرافر دوستوں سے بھی ہے جو گرمیوں میں اچھالی جاتے ہیں اور اپنی تصاویر کو اچھا دکھانے کے لیے جھیل میں لگی کائی کے رنگ بدل دیتے ہیں، جس سے اکثر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں اور ان رنگوں کو اچھالی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ بلاشبہہ اچھالی اور کھبیکی ہی وادیِ سُون نہیں ہیں مگر ایک عام بندے کے لیے وادیِ سُون کا مطلب اچھالی اور کھبیکی ہی ہے۔

وہ شخص جو اپنی فیملی کے ساتھ گاڑی پر وادیِ سُون کے لیے نکلا ہو تو کہیں اور جائے یا نہ جائے، کھبیکی اور اچھالی ضرور جائے گا۔ فوٹوگرافر حضرات پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گرمیوں میں اچھالی کی بدصورتی اور بدبو کو مت چھپائیں بلکہ لوگوں کو صاف بتائیں کہ اچھالی جون جولائی میں اپنی گندگی کے عروج پر ہوتی ہے، اس لیے کسی بھی صورت فیملی کے ساتھ اس طرف مت جائیں۔ البتہ موسمِ سرما کی چھٹیوں میں کھبیکی اور اچھالی کی جھیلوں سے بہتر پنجاب میں شاید ہی کوئی بہتر جگہ ہو۔

ڈیپ شریف کی طرح سلطان مہدی واٹر فال یا سلطان مہدی چشمہ بھی ایک بزرگ سے منسوب ہے بلکہ اس چشمے کو ان ہی بزرگوں کی کرامات کا کوئی کرشمہ کہا جاتا ہے۔

سلطان مہدی چشمہ تک پہنچنے کے دو راستے ہیں۔ اگر آپ وادیِ سون کے ابتدائی چوک، پیل چوک کی طرف سے آئیں تو مرکزی سڑک پر چلتے چلتے تقریباً چھے یا سات کلومیٹر کے بعد ایک سڑک بائیں جانب مڑے گی۔ بائیں جانب والی سڑک پر نیلے رنگ کے دو بڑے بڑے بورڈ لگے ہیں:

1۔ سلطان مہدی واٹر فال      2 ۔ چانبل

آپ اسی سڑک پر مڑ جائیں۔ چانبل ایک گاؤں کا نام ہے جہاں کا چانبل مندر جسے نرسنگھ پھوار مندر بھی کہا جاتا ہے، نہ صرف وادیِ سُون کا سب سے خوب صورت مندر ہے بلکہ اس کا چشمہ یا اشنان گاہ بھی سب سے خوب صورت ہے اور اس کی خوب صورتی صرف اور صرف قدرتی طور پر اس کا چلنے والا چشمہ ہے۔ پانی بلندی سے آتا ہوا، اشنان گاہ میں سے گزرتا ہے۔ اشنان گاہ میں سے ہوتے ہوئے یہ نیچے بہہ جاتا ہے۔

کچھ آگے جا کر یہ نیچے ایک پھوار کی صورت میں گرتا ہے۔ پانی کی اس منفرد پھوار بننے کی وجہ سے اسے نرسنگھ پھوار مندر بھی کہا جاتا ہے۔ نرسنگ پھوار مندر آپ کسی بھی مقامی کی راہ نمائی کے بنا نہیں جا سکتے کیوںکہ راستہ سڑک سے ہٹ کر نیچے کی جانب اترتا ہے، جہاں تک بائیک جا سکے، اسے لے جائیں اور آگے کا سفر پیدل کریں۔ چانبل مندر سے تقریباً دس بارہ کلومیٹر اسی سڑک پر اگر آپ سیدھا چلتے جائیں تو دائیں جانب ایک بڑا دربار آئے گا دربار کے بالکل سامنے پارکنگ ہے جہاں آپ اپنی سواری کھڑی کر کے چشمہ کی جانب اپنا سفر شروع کریں گے۔

چشمہ تک پہنچنا آسان ہے، واپس آنا تھوڑا سا مشکل ہے، کیوںکہ چشمے تک صرف اترائی ہی اترائی ہے اور واپسی پر چڑھائی ہی چڑھائی۔ آپ کو بیس سے پچیس منٹ چشمے تک پہنچنے میں لگ سکتے ہیں۔ چشمے تک پہنچنے کا راستہ ڈرامائی سا ہے۔ بڑے بڑے پتھر ہیں اور کوئی راستہ نہیں۔ بس لوگوں کے گزرنے کی وجہ سے ایک راستہ سا بن گیا ہے۔ آپ اسی راہ پر چلتے جائیں اور اسے کسی صورت مت چھوڑیں، کچھ وقت کے بعد آپ چشمے تک پہنچ ہی جائیں گے۔ چشمے کے بالکل پاس ہی ایک خانقاہ اور مسجد ہے۔ پتھروں میں دو تین چلہ گاہیں بھی بنی ہوئی ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہاں آج بھی لوگ منتیں ماننے آتے ہیں۔ چلہ گاہ کے پاس بنے درخت کے ساتھ ایک کپڑے میں پتھر باندھ کر چلے جاتے ہیں۔

سلطان مہدی واٹر فال تک پہنچنے کا راستہ نوشہرہ شہر سے بھی ہے۔ یاد رہے کہ یہ خوشاب والا نوشہرہ ہے، خیبر پختونخوا والا نوشہرہ نہیں۔ اگر آپ نوشہرہ شہر کے قریب ہیں تو پیل چوک والا راستہ اختیار مت کریں۔ یہ آپ کو بہت دور پڑے گا۔ اگر آپ نوشہرہ شہر کے قریب ہیں تو جی پی ایس کی مدد سے چشمہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ گوگل آپ کو اسی سڑک کی دوسری جانب سے اسی سڑک پر لے کر آئے گا۔ سڑک بہترین ہے۔ نوشہرہ کی جانب سے آنے پر آپ کو بہترین قدرتی نظارے دیکھنے کو ملیں گے۔

اگر نرسنگھ پھوار مندر وادیِ سُون کا سب سے خوب صورت مندر ہے تو سویک لیک پوٹھوہار کی نہ صرف سب سے خوب صورت جھیل ہے بلکہ شاید اس کی پہچان بھی ہے۔

سویک لیک جسے کھنڈوعہ گاؤں کی وجہ سے کھنڈوعہ جھیل بھی کہا جاتا ہے، موٹر وے پر کلر کہار انٹر چینج کے پاس ہی ہے۔ اگر آپ گوگل میپ پر اس کی لوکیشن لگا کر نکلیں گے تو گوگل صاحب آپ کو پھر غلط سلط راستے پر ڈال دیں گے۔ درست سمت میں جانے کے لیے آپ کو بیسٹ وے سمیٹ والے روڈ پر آنا پڑے گا۔ یہاں سے گوگل میپ بھی آپ کی درست راہ نمائی کرے گا۔ سویک لیک کی پارکنگ میں آپ اپنی گاڑی پارک کریں۔

یہاں آپ کو جیپ کھڑی ملیں گی۔ یہاں سے سفر جیپ پر شروع ہوگا۔ راستہ مکمل طور پر پتھریلا ہے اور اترائی ہی اترائی ہے۔ عام گاڑی اس راستے پر نہیں چل سکتی۔ جیپ والے دو سے تین ہزار میں آپ کو آگے لے جائیں گے اور واپس بھی لے آئیں گے۔ پہلی پارکنگ جو آپ کو ملے گی وہ فقط گاڑیوں کے لیے ہے۔ اگر آپ بائیک پر ہیں تو یہاں مت رکیں، اپنا سفر جاری رکھیں۔ کچھ کٹھن سفر کے بعد آپ کو ایک اور پارکنگ ملے گی، یہ بائیک کے لیے ہے۔

اس سے آگے بائیک نہیں جا سکتی۔ یہاں سے ایک تنگ ٹریک سفر ہوجائے گا جس پر یقینی طور پر آپ کو پیدل ہی چلنا پڑے گا۔ یہ کوئی مشکل ٹریک نہیں ہے۔ جاتے ہوئے تو صرف اترائی ہی اترائی ہے۔ یعنی کہ مکمل طور پر تفریح ہے۔ واپسی پر یقیناً آپ کا زور لگے گا۔ لوگ یہاں فیملی کے ساتھ آتے ہیں، کوکنگ کرتے ہیں، جی بھر کے نہاتے ہیں اور اچھے لوگ اپنا گند اپنے ساتھ لے کر واپس چلے جاتے ہیں۔

پوٹھوہار کی باقی جھیلوں کی طرح یہاں کا پانی بھی چٹانوں سے نکل کر آتا ہے اور آبشار کی صورت بناکر سویک لیک میں گرتا ہے۔ سویک لیک گہری ہے، اس لیے اگر آپ تیراک نہیں تو میری طرح بس کونے پر ہی کھڑے ہو کر لطف اندوز ہوں۔ البتہ یہاں لائف جیکٹس بھی میسر ہیں جو کہ خوش قسمتی سے کام بھی کرتی ہیں۔ آپ انھیں پہن کر جھیل سے مکمل طور پر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

The post خطہ دل رُبا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/te2PKg1
via IFTTT

No comments:

Post a Comment