Saturday, December 30, 2017

سائنسی دریافتوں، ایجادات اور اختراعات کا ایک اور سال (آخری حصہ) ایکسپریس اردو

سال 2017 کی اہم اور قابلِ ذکر خبروں کا انتخاب و خلاصہ ابھی جاری ہے۔ اس سلسلے کا پہلا بلاگ پڑھنے کےلیے یہاں کلک کیجیے تاکہ بہتر طور پر مستفید ہوسکیں۔

 

توانائی

اگرچہ توانائی کے شعبے میں پاکستان کا مسئلہ اب بھی مکمل طور پر حل نہیں ہوا اور ہم اب تک صرف لنگڑی لُولی حکمتِ عملی ہی سے کام چلا رہے ہیں، البتہ دنیا میں اس حوالے سے کچھ اہم پیش رفت ضرور ہوئی۔ مثلاً سال کی ابتداء میں امریکا سے خبر آئی کہ وہاں کی ’’نیواسکیل پاور‘‘ نامی ایک کمپنی نے ایٹمی بجلی گھر کا ایسا ڈیزائن تیار کرلیا ہے جو 50 میگاواٹ بجلی بناسکے گا لیکن اتنا چھوٹا ہوگا کہ ایک ٹرالر میں آسانی سے سما جائے گا۔ تاہم اس کی اونچائی کسی 9 منزلہ مینار جتنی ہوگی۔ یہ تو معلوم نہیں کہ یہ ’’چھوٹُو‘‘ ایٹمی بجلی گھر غریب ممالک کے کسی کام آئے گا یا نہیں اور یہ کہ اس کا منصوبہ کب تک مکمل ہوگا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اب دنیا بھر میں مختصر جسامت والے ایٹمی بجلی گھروں کی جانب رجحان نمایاں طور پر بڑھ رہا ہے۔ مکمل خبر کےلیے یہاں کلک کیجیے۔

روایتی ذرائع سے بجلی کی پیداوار کے ذیل میں امریکا ہی سے ایک اہم خبر یہ آئی کہ وہاں کے فوجی سائنسدانوں اور انجینئروں نے ایلومینم نینو پاؤڈر استعمال کرتے ہوئے بجلی بنانے کا ایک کم خرچ طریقہ وضع کرلیا جو بہت تیز رفتار بھی ہے۔ اس طریقے کی خاص بات یہ ہے کہ صرف ایک کلوگرام ایلومینم نینو پاؤڈر سے 220 کلو واٹ بجلی صرف تین منٹ میں بنائی جاسکتی ہے۔ تفصیلی خبر پڑھنے کےلیے یہاں کلک کیجیے۔

ایک اور خبر سے پتا چلا کہ آئرلینڈ کے ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ آنسوؤں، پسینے اور تھوک میں قدرتی طور پر پایا جانے والا ایک مادّہ ’’لائسوزائیم‘‘ بجلی بھی بنا سکتا ہے۔ یہ پہلا نامیاتی مادّہ بھی ہے جو ’’پیزو الیکٹرک ایفیکٹ‘‘ کے تحت بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ تجربات کے دوران اس سے بجلی کی تقریباً اتنی ہی مقدار پیدا ہوئی جتنی کوارٹز قلموں سے ہوتی ہے۔ مکمل خبر اس لنک پر موجود ہے۔

 

آثارِ قدیمہ

تاریخ کی کتابوں میں عام طور پر بتایا جاتا ہے کہ علمِ مثلث یعنی ’’ٹرگنومیٹری‘‘ کی ایجاد قدیم یونانیوں نے کی تھی لیکن یونیورسٹی آف ساؤتھ فیلڈ، آسٹریلیا کے ایک تحقیق کار نے دریافت کیا ہے کہ یونانیوں سے بھی 1200 سال پہلے قدیم عراق کی تہذیب ’’بابل‘‘ کے رہنے والے نہ صرف اس علم سے واقف تھے بلکہ وہ باقاعدہ طور پر ٹرگنومیٹری کا استعمال بھی کیا کرتے تھے۔ البتہ ان کے یہاں 60 کی اساس پر قائم عددی نظام رائج تھا اور مثلث کے ذریعے تمام حساب کتاب اسی عددی نظام کے تحت کیا گیا۔ یہ انکشاف ’’پلمپٹن 322‘‘ نامی ایک چھوٹی سی لوح کے تفصیلی مطالعے کے بعد کیا گیا۔ مزید تفصیل اس لنک میں ملاحظہ کیجیے۔

آثارِ قدیمہ کی ایک اور دلچسپ خبر یہ ملی کہ مصری ماہرین نے ’’اسکین پیرامڈ‘‘ نامی منصوبے کے تحت خوفو کے ہرم میں ایک ایسا خفیہ مقام دریافت کیا ہے جس سے اب تک کوئی واقف نہیں تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ اس دریافت میں کائناتی شعاعوں (کوسمک ریز) میں موجود ’’میوآن‘‘ نامی ذرّات سے مدد لی گئی، جو اپنے آپ میں ایک نئی تکنیک ہے۔

فرعونِ خوفو کے ہرم میں، جسے ’’عظیم ہرم‘‘ (گریٹ پیرامڈ) بھی کہا جاتا ہے، یہ خالی مقام خاصی بلندی پر ہے جس کی چوڑائی 30 میٹر کے لگ بھگ ہے۔ پوری خبر کےلیے اس لنک پر کلک کیجیے۔

 

ارضیات (جیولوجی) اور رکازیات (Paleontology)

اس سال ارضیات (جیولوجی) کے شعبے میں علمی نقطہ نگاہ سے دو خبریں زیادہ اہم رہیں۔ پہلی یہ کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ماہرین نے سمندر کی تہہ میں پوشیدہ ایک نیا براعظم دریافت کیا ہے جسے ’’زی لینڈیا‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ زیرِ آب براعظم اتنا بڑا ہے کہ تقریباً 50 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اسی مناسبت سے ماہرین اصرار ہے کہ ’’زی لینڈیا‘‘ کو دنیا کے آٹھویں براعظم کا درجہ دیا جائے۔ دوسری خبر یہ ہے کہ امریکی ماہرینِ نے ایکواڈور کے ساحل سے کچھ دوری پر ایک نئی ارضیاتی پلیٹ دریافت کرنے کا اعلان کیا جو خاصی چھوٹی ہے یعنی یہ ایک مائیکروپلیٹ ہے۔ اس دریافت کے ساتھ ہی ہمارے سیارے زمین پر موجود ارضیاتی پلیٹوں کی تعداد 56 سے بڑھ کر 57 ہوگئی ہے جبکہ توقع ہے کہ ایسی مزید پلیٹیں بھی دریافت ہوسکتی ہیں۔

البتہ عملی طور پر یہ خبر اہم تھی کہ فرانسیسی ماہرین نے ایک ایسا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے جس کے ذریعے زمین کی کشش ثقل کے اثرات میں آنے والی تبدیلیوں کی مدد سے کسی زلزلے کی پیش گوئی دو سے تین منٹ پہلے کی جاسکتی ہے۔

بظاہر یہ وقت بہت کم ہے لیکن جب زلزلے کی بات ہو تو ایک ایک سیکنڈ اہمیت رکھتا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر ہم کسی زلزلے کی آمد کا صرف تین منٹ پہلے پتا چلا لیں تو فوری طور پر لوگوں کو عمارتوں سے کھلے مقامات پر پہنچایا جاسکے گا اور زلزلے کے نتیجے میں جانی نقصان خاصا کم کیا جاسکے گا۔

اطالوی ماہرین نے چند سال پہلے مڈغاسکر سے دریافت شدہ، مگرمچھ جیسے ایک معدوم جانور کی کھوپڑی اور دانتوں کے رکازات (فوسلز) کا تفصیل سے جائزہ لینے کے بعد بتایا کہ 17 کروڑ سال پہلے پائے جانے والے اس نما جانور کا جبڑا اور دانت غیرمعمولی طور پر طاقتور تھے اور ممکنہ طور پر یہ ڈائنوسار تک کا شکار کیا کرتا تھا۔ اس معدوم جانور کا سائنسی نام Razanandrongobe sakalavae ہے جسے مختصراً ’’رازانا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ مگرمچھ ڈائنوسار سے بھی زیادہ خطرناک تھا!

اسی طرح ماہرین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے ایسے دودھ پلانے والے جانوروں (ممالیہ) کی باقیات دریافت کرلی ہیں جن کے بازوؤں کے ساتھ لچک دار جھلیاں تھیں جنہیں استعمال کرتے ہوئے وہ اُڑنے جیسے انداز میں طویل چھلانگ لگاسکتے تھے۔ یہ جدید دور کی ’’اڑن گلہریوں‘‘ سے مشابہت رکھتے تھے اور آج سے 16 کروڑ سال پہلے پائے جاتے تھے۔ اس ’’اُڑن ممالیہ‘‘ کی تفصیلی خبر اس لنک میں ملاحظہ کیجیے۔

رکازیات ہی کے شعبے میں یہ خبر بھی ملی کہ امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری نے ایک بہت بڑے ڈائنوسار کے ادھورے رکازات (فوسلز) کو مختلف تکنیکوں کی مدد سے مکمل کرنے کے بعد دعوی کیا کہ یہ 122 فٹ لمبا اور 63 ٹن وزنی ڈائنوسار تھا؛ اور اسے اب تک دریافت ہونے والا سب سے بڑا ڈائنوسار بھی قرار دیا جائے۔

اس ڈائنوسار کو ’’پیٹاگوٹائٹن مایورم‘‘ (Patagotitan mayorum) کا نام دیا گیا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دس ہاتھیوں سے بھی زیادہ وزنی ہوا کرتا تھا۔ البتہ اس اعلان پر دوسرے کئی ماہرین کو شدید اعتراضات ہیں۔

 

زراعت اور ماحولیات

اس سال کی ابتداء ہی میں زراعت کے حوالے سے پاکستان کےلیے اچھی خبر یہ ملی یہاں پپیتے کی فصل پر حملہ کرنے والے ایک کیڑے ’’پپایا مِیلی بگ‘‘ کو ختم کرنے کےلیے پاکستانی اور برطانوی ماہرین نے ’’حیاتی انضباط‘‘ (بایولاجیکل کنٹرول) کے ذریعے اہم کامیابی حاصل کرلی ہے۔

اس حکمتِ عملی کے تحت ’’ایسروفیگس پپیائی‘‘ نامی ایک اور کیڑا آزمایا گیا جو پپیتے کے درخت کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا لیکن اس مضر کیڑے کا بدترین دشمن ہے۔ مکمل خبر اس لنک میں ہے۔

آسٹریلیا سے خبر آئی کہ وہاں کے سائنسدانوں نے ’’بایوکلے‘‘ (BioClay) کے نام سے ایک اچھوتا محلول ایجاد کیا ہے جس کا صرف ایک چھڑکاؤ کسی بھی فصل کو نہایت مختصر وقت میں بہتر اور سخت جان بناسکتا ہے۔ دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ اس پورے عمل کےلیے پودوں میں جینیاتی طور پر کسی تبدیلی کی کوئی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ پوری خبر پڑھنے کےلیے یہاں کلک کیجیے۔

ایک اور تحقیق میں آسٹریلیا کے نیو ساؤتھ ویلز دفتر برائے ماحولیات کے سائنسدانوں نے انکشاف کیا کہ آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمیٹ چینج) سے مٹی میں موجود نامیاتی کاربن کی مقدار کم ہورہی ہے جس کے نتیجے میں مٹی کی قدرتی زرخیزی بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ یہ خبر ایک طرف تو تشویشناک ہے تو دوسری جانب اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہماری روزمرہ زندگی کے علاوہ مٹی کی زرخیزی پر بھی شدید منفی انداز میں مرتب ہورہے ہیں۔ اس خبر کو ایک طرح کی تنبیہ سمجھتے ہوئے اب ہمیں ہوشیار ہوجانا چاہیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔

میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ماہرین نے تجرباتی طور پر ایک قسم کی سلاد یعنی ’’واٹر کریس‘‘ میں خاص طرح کا نینو مادّہ داخل کیا جس کی بدولت اس کے پتوں سے چار گھنٹوں تک روشنی خارج ہوتی رہی۔ پودے سے خارج ہونے والی روشنی اتنی تھی کہ اس میں کتاب بھی پڑھی جاسکتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اسی نوعیت کے پودے اور درخت تیار کرکے سڑکوں کو حیاتیاتی روشنی (بایو لیومنیسنس) خارج کرنے والے پودوں سے آراستہ کیا جاسکے گا اور اسٹریٹ لائٹس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مکمل خبر پڑھنے اور متعلقہ ویڈیو دیکھنے کےلیے اس لنک پر کلک کیجیے۔

لیجیے جناب! ایک اور دلچسپ لیکن مفید خبر ملاحظہ فرمائیے۔ خبر یہ ہے کہ امریکی کمپنی ’’ورل پول لیب‘‘ نے ’’زیرہ فوڈ ری سائیکلر‘‘ کے نام سے ایک ایسا آلہ ایجاد کرلیا ہے جو دیکھنے میں بڑے کچن ڈسٹ بن جیسا لگتا ہے جبکہ صرف ایک بٹن دبانے پر یہ غذائی فضلے کو صرف ایک دن میں کھاد میں تبدیل کرسکتا ہے۔

البتہ اس سال تشویشناک واقعہ یہ ہوا کہ برفانی براعظم انٹارکٹیکا کے علاقے ’’لارسن آئس شیلف‘‘ سے ہزاروں مربع کلومیٹر چوڑا برفانی تودہ ٹوٹ گیا۔ اس برفانی تودے کا رقبہ کراچی سے بھی دوگنا ہے۔

مکمل خبر پڑھنے کےلیے یہاں کلک کیجیے۔

دوسری طرف بھارت میں استعمال شدہ پلاسٹک سے سڑکیں بنائی جانے لگیں، کھارے پانی کو سیکنڈوں میں میٹھا بنانے والی ’سالماتی چھلنی‘ ایجاد کی گئی، ایک ایسی مشین سامنے آئی جو ہوا میں موجود نمی سے براہِ راست پانی بنا سکتی ہے۔

 

دریافتیں اور ایجادات ’’ذرا ہٹ کے‘‘

اب کچھ خبریں انتہائی اختصار کے ساتھ پیش کررہا ہوں جو کسی مخصوص زمرے کے تحت تو نہیں آرہیں لیکن دلچسپی سے بھرپور ہیں۔ جیسے کہ سائنسدانوں نے پکانے کا تیل فولاد سے 200 گنا مضبوط مادے میں تبدیل کرلیا، پالک کے پتوں میں دل کی بافتیں اگانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا، ماہرین نے شکر کے کیپسول میں بند دودھ تیار کرلیا، ایک ایسا لباس بنایا گیا جو ایک جانب سے ٹھنڈا اور دوسری جانب سے گرم رہتا ہے، مینڈکوں کی سات نئی اورانتہائی چھوٹی اقسام دریافت کرلی گئیں، تحقیق سے انکشاف ہوا کہ جو لوگ اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر کسی دوسری زبان کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں وہ بے رحم ہوجاتے ہیں، جبکہ ’’تاریک ڈی این اے‘‘ کی دریافت نے زندگی کا معما مزید الجھا دیا۔

… اور اس طرح سال بھر کی خبروں کا انتخاب اور خلاصہ اختتام پذیر ہوا۔ میں نے اپنے طور پر پوری محنت اور احتیاط سے کام لیا ہے لیکن اس معاملے میں اصل رائے آپ ہی کی ہوگی، جس کا مجھے شدت سے انتظار رہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post سائنسی دریافتوں، ایجادات اور اختراعات کا ایک اور سال (آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2pYNebs
via IFTTT

No comments:

Post a Comment