پشاور: 2018کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے کئی نئے امیدوار خیبر پختونخوا اسمبلی کا حصہ بنیں گے ان تمام منتخب نئے امیدواروں نے اسمبلی میں پہنچ کر عوام کی خدمت کرنے کا عزم کیا ہے۔
کامران بنگش
خیبر پختونخوا اسمبلی میں تبدیلی آنے والی ہے درجنوں نئے چہرے صوبائی اسمبلی کی زینت بنیں گے، پشاور سے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے سرکاری نوکری چھوڑنے والے کامران بنگش کے پی اسمبلی کا حصہ بنیں گے نوجوان ایم پی اے کامران بنگش پشاور کے حلقہ پی کے 77 سے کامیاب ہو ئے ہیں۔
مومنہ باسط
ہزارہ ریجن سے پی ٹی آئی کارکن اور تحریک انصاف ہزارہ ویمن ونگ کی صدر مومنہ باسط بھی کے پی کے اسمبلی میں جلد قدم رکھیں گی، مومنہ باسط نے ابتدائی تعلیم ایبٹ آباد سے حاصل کی ہے اور سماجی خدمات انجام دینے کے علاوہ آٹھ سال سے پی ٹی آئی سے وابسطہ ہیں۔
نادیہ خٹک
تحریک انصاف کے جلسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی نادیہ خٹک بھی خیبر پختونخوا اسمبلی آنے کو بے تاب ہیں نادیہ خٹک پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم کی سرگرم کارکن ہیں اسلام آباد میں ہونے والے تاریخی دھرنے سے لے کر ملک بھر میں ہونے والے جلسوں میں نادیہ خٹک شرکت کرچکی ہیں۔
رابعہ بصری
پی ٹی آئی کی دیرینہ کارکن رابعہ بصری بھی خیبر پختونخوا اسمبلی کا حصہ بن گئیں ہیں، رابعہ بصری سماجی کارکن ہیں اور خیبرپختونخوا میں معزور افراد کے مسائل کو اجاگر کرنے میں ان کی بہت خدمات ہیں۔
شفیع اللہ خان
دیر سے تعلق رکھنے والے سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر چارسدہ شفیع اللہ خان نے بھی کے پی اسمبلی آکر عوامی خدمت کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
وزیر زادہ
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ چترال میں کیلاش کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر زادہ بھی اقلیتی ممبر صوبائی اسمبلی بن گئے۔ وزیر زادہ کے ایم پی اے بننے پر وادی کیلاش میں جشن کا سماں ہے۔
تیمور جھگڑا
پشاور سے تعلق رکھنے والے تیمور جھگڑا بھی پہلی مرتبہ خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی جائیں گے، تیمور جھگڑا یورپ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے حال پی میں پشاور آئے ہیں۔ تیمور جھگڑا سابق صدر غلام اسحاق خان کے نواسے ہیں اور وہ تحریک انصاف کی 100 دنوں کی حکمت عملی بھی تیار کر چکے ہیں، پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے ان کا نام خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کے لئے بھی نامزد کیا جاچکا ہے۔
The post خیبر پختونخوا اسمبلی میں نئے چہروں کی آمد appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mZsqMB
via IFTTT
No comments:
Post a Comment