عمران خان کا خطاب لاکھ پرخلوص، دل سے نکلا ہوا، دلوں کو گرمانے والا، غریبوں کی ترجمانی کرنے والا سہی لیکن نہ بھولیے کہ یہ ابھی صرف خطاب تھا۔ بلاشبہ یہ خطاب بھی ایسا تھا جو آج تک کسی وزیراعظم نے نہ کیا ہوگا۔ جن مسائل اور نکات پر موجودہ وزیر اعظم نے روشنی ڈالی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عام آدمی کے مسائل سے کتنے آگاہ ہیں۔ وگرنہ اس سے پہلے تو ’’دلوں کے وزیراعظم‘‘ بھی ایسا دلوں کو نہ گرما سکے کہ جیسے خان کا خطاب سن کر لوگ اش اش کر اٹھے ہیں۔ لیکن مکرر ارشاد ہے کہ یہ ابھی صرف خطاب ہے۔ اور سچ پوچھیے تو امید و آس کی اب اتنی ہمت نہیں کہ وہ پھر سے کسی خطاب پر بھروسہ کرکے خوشی منانے کے متحمل ہوسکیں۔
جو کچھ ماضی میں دیکھ چکے یا جو خطابات اور دعوے سنے اور پھر کام کچھ نظر نہ آیا، نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات دیکھا تو وہی تجربہ اس بار مجبور کرتا ہے کہ اعتبار کسی کی بات کا نہ کیا جائے کہ جب تک وہ اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی نہ دیکھ لی جائے؛ اور پھر وعدوں کا اعتبارکیا ہی کیجئے۔ مشہور مقولہ ہے ناں کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے، بس وہی حال ہمارا بھی سمجھیے۔
اس بے اعتباری کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ ذرا باتوں، دعووں اور موجودہ حالات کا اگر بغور جائزہ لے لیا جائے تو کئی کام ایسے ہیں جو آئیڈیئلسٹ تو ہیں لیکن ریئلسٹ نہیں۔ یہ نظریہ بھی درست کہ کچھ بڑا کرنے کےلیے بڑا سوچنا اور آئیڈیئلسٹ ہونا ضروری ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آئیڈیل سچویشن جزوی طور پر تو حاصل کی جاسکتی ہے، کلی طور پر اسے حاصل کرپانا ممکن نہیں۔ چناچہ بصد احترام، خان صاحب کی ہزاروں خواہشات ایسی ہیں کہ ہر خواہش پر دم نکل جائے۔ مثلاً وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا عزم، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکان دینے کا وعدہ، بیرون ملک گئی لوٹی دولت واپس لانے کا ارادہ۔ یہ سب سوچنے میں تو بہت اچھا لگا لیکن کیا یہ کر پانا ممکن بھی ہے؟
وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ تمام اہم عمارتوں اور اہم وزارتوں اور اراکین کی سیکیورٹی کمپرومائز کردیں کیوں کہ یونیورسٹی جانے والے ہزاروں طلباء کی روز کڑی تلاشی لینا تو بظاہر ممکن نہیں۔ اور پھر ہزاروں طلباء کا حساس علاقے میں داخلہ اور ان پر نظر رکھنا، بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔ سمجھ سے ماوراء ہے کہ ایسا ہوگا تو کیونکر ممکن ہوگا؛ اور نہیں ہوا تو دعوے کا کیا بنے گا؟
کچھ یہی صورتحال پچاس لاکھ گھروں کی بھی ہے۔ جناب چلیے ایک کروڑ لوگوں کو تو آپ نے پچاس لاکھ گھر بنانے کی نوکری دے بھی دی تو پیسے کا کیا؟ گھر بنانے کا پیسہ کہاں سے آئے گا؟ قرضوں کی ادائیگی کے بھنور میں پھنسا ملک اور حکومت کیسے اتنا پیسہ اس میگا پروجیکٹ پر لگانا افورڈ کرسکیں گے؟ اور اگر ایسا نہ ہوا تو معلوم ہے ناں کیا ہوگا؟ عوام کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا… اور اس بار اگر عوامی امیدیں ٹوٹیں تو شاید پھر وہ خود پر اعتبار کرنے سے بھی کترائیں۔
خان صاحب کی نیت پر کوئی شک نہیں لیکن ان کے دعوے اور وعدے ابھی تو صرف خواب ہی لگتے ہیں۔ انہوں نے جن نکات پر بات کی، ان کے قریب سے گزرنا بھی کسی اور نے گوارا نہیں کیا۔ اسی لیے ایک موہوم سی امید اب بھی ہے کہ ہر چیز کےلیے انتھک محنت کرنے والا اور ہر چیز کے حصول کےلیے اس کے پیچھے پڑجانے والا خان اپنے اس عظیم مقصد میں بھی کامیاب ہوجائے گا، ان شاء اللہ۔
اللہ تعالی جناب عمران خان کو توفیق اور ہمت عطا کرے کہ وہ اپنے خطاب میں کہی گئی باتوں کا پاس رکھتے ہوئے قوم کو ترقی کی راہوں پر ڈال سکیں، آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post کیا تبدیلی آئے گی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PWVtOb
via IFTTT
No comments:
Post a Comment