پاکستانی دفترِ خارجہ نے ان افواہوں کی تردید کی ہے کہ آزاد کشمیر کے بارے میں بھارت کی جانب سے مسلسل خطرناک ارادوں کے اظہار کے بعد اعلیٰ سطح پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان میں باقاعدہ ضم کر لیا جائے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق یہ افواہیں پچھلے دو تین ہفتوں سے گردش کر رہی ہے اور آزاد کشمیر کے موجودہ وزیرِ اعظم سردار فاروق حیدر سے یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ انھیں اعلیٰ سطح پر سمجھایا گیا ہے کہ شائد وہ کشمیر کے آخری وزیرِ اعظم ہیں۔
پاکستانی دفترِ خارجہ نے ایسے تاثرات کو مسترد کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں حل کرنے کے بارے میں پاکستان کے روایتی موقف کا بھی اعادہ کیا ہے۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ آزاد کشمیر ہو کہ گلگت بلتستان، یہ تینوں خطے اس ڈوگرہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں کہ جس کی حیثیت گزشتہ بہتر برس سے اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں متنازعہ ہے اور اس تنازعے کو محض انڈیا اور پاکستان کے بجائے سہہ فریقی سطح پر کشمیریوں کی مرضی سے حل کرنے کے فارمولے سے نتھی کیا گیا ہے۔
گزشتہ برس پانچ اگست کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کمشیر کی اپنے ہی آئین میں آرٹیکل تین سو ستر کے تحت دیے گئے نیم آئینی درجے کو بھی ختم کر کے اس کی سیاسی و جغرافیائی حیثیت میں جس من مانے طریقے سے تبدیلی کی ہے۔ اس تبدیلی کو انڈیا کے دوست ہوں کہ دشمن یا سرکردہ بین الاقوامی ادارے، کسی نے بھی تسلیم کرنے یا اسے بھارت کا اندرونی معاملہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پچھلے چھ ماہ کے دوران مقبوضہ جموںو کشمیر کے بارے میں یکطرفہ بھارتی اقدامات پر دو بار غور کر چکی ہے۔ جب کہ یورپی پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی تائید سے کشمیر کے بارے میں یکطرفہ اقدامات کی مذمت اور متنازعہ شہریت قانون میں ترامیم کو بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے انھیں واپس لینے سے متعلق کل ملا کے چھ قرار دادیں پیش کی گئی ہیں۔ ان پر رائے شماری دو روز ( تیس جنوری) قبل ہونی تھی مگر اب اسے بھارتی لابی کے بے پناہ دباؤ پر ڈیڑھ ماہ آگے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ بھارت نے یورپی پارلیمنٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ کشمیر اور متنازعہ شہریت بل پر بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کا انتظار کر لے۔
بقول بھارتی اہلکاروں کے یہ عدالتی فیصلے فروری کے آخر تک متوقع ہیں۔ حالانکہ یورپی پارلیمنٹ کو اپنی کسی قرار داد یا فیصلے کی بابت کسی دوسرے ملک کی سپریم کورٹ کے فیصلوں کا محتاج نہیں ہونا چاہیے۔ مگر چونکہ بھارت یورپ کے لیے اقتصادی طور پر بھی اہم طاقت ہے لہٰذا خالص انسانی سطح پر کسی معاملے کو پرکھنا بہت مشکل ہے۔ پھر بھی یورپی یونین کا موقف بہت سے برادر اسلامی ممالک کے موقف سے زیادہ واضح اور جارحانہ ہے۔
مودی حکومت کو کشمیر اور متنازعہ شہریت قانون پر اندرونِ ملک مسلسل اور بے پناہ دباؤ کا سامنا ہے۔ اور جب بھی ایسی کوئی صورت درپیش ہوتی ہے تو سب سے آسان نسخہ یہ ہوتا ہے کہ کشمیر میں مبینہ دہشت گردی سے لے کر کیرالہ میں شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف سیکڑوں کلو میٹر کی انسانی زنجیر اور شاہین باغ دلی میں ہمہ وقت لاکھوں کے مجمع کی مبینہ فنڈنگ اور جامعہ ملیہ کے طلبا و طالبات کے جلوس تک ہر شے کو پاکستان یا بھارت میں موجود نام نہاد پاکستانی ایجنٹوں سے جوڑ دیا جائے۔ یعنی گرنا گدھے پر سے اور غصہ کمہار پر۔
مگر اس بار مودی حکومت خود کو دباؤ سے نکالنے کے لیے روایتی پاکستانی چیک بھی کیش نہیں کر پا رہی۔ لہٰذا متبادل طریقہ یہ ہے کہ اندرونی و بیرونی دباؤ سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کو کھل کے دھمکیاں دی جائیں اور ایک مسلسل نفسیاتی دباؤ میں رکھا جائے تا کہ پاکستان عجلت یا بے صبری میں کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر جائے کہ پھر ساری توجہ پاکستان پر مرکوز ہو جائے اور اس بہانے مودی اندرونِ بھارت طاقت کے اندھے استعمال سے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے انھیں پانے کے لیے پوری ریاستی فسطائی توانائی لگا دے اور ہر مخالف آواز کو غدار قرار دے کر کچل دے۔
کرکٹ میں جب کوئی کھلاڑی کریز پر جما رہے اور مخالف ٹیم کا کوئی باؤلر اسے آؤٹ نہ کر سکے تو پھر آخری حربے کے تحت بلے بازکے گرد گھیرا تنگ کر دیا جاتا ہے۔ آوازے کسے جاتے ہیں، فحش اشاروں کنایوں کے ذریعے مشتعل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ بلے باز نروس ہو کر یا طیش میں آ کر یا بوکھلا کر الٹا سیدھا شارٹ کھیل جائے اور وکٹ دے دے۔
مودی حکومت پاکستان کے ساتھ پوری طرح سے یہی نفسیاتی کھیل کھیل رہی ہے۔ ہر ہفتے کوئی بھارتی جرنیل دھمکی دیتا ہے کہ جب بھی حکم ہوا آزاد کشمیر چھین لیں گے ، یا آیندہ جنگ ہوئی تو پاکستان کو سات سے دس دن میں خاک چٹا دیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ پاکستان اس نفسیاتی دباؤ میں آ کر کشمیر کے بارے میں کوئی ایسی غلط بال کھیل جائے کہ جس کے بعد پاکستان کا کشمیر مقدمہ ملبے کی صورت خود پاکستان پر ہی آن گرے۔ اگر پاکستان اپنے اعصاب قابو میں نہ رکھ سکے اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو پاکستان میں ضم کر لے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کشمیر پر بھارت کا قبضہ بھی جائز اور قانونی ہو گیا۔ اس کے بعد بھارت کو کھلی چھوٹ ہو گی کہ وہ ہر طرح کے بین الاقوامی دباؤ سے آزاد ہو کر کشمیریوں کے ساتھ جو چاہے کر گزرے اور پاکستان شور مچانے کی پوزیشن میں بھی نہ رہے۔
اسی طرح مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی اسرائیلی پالیسی کے بارے میں بھی پاکستان نے پچھلے تریپن برس سے بالحضوص جو اصولی موقف اپنایا ہے کہ دو ریاستی حل انیس سو سڑسٹھ میں قبضہ کیے گئے فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی انخلا کے بعد اقوامِ متحدہ کی قرار داد نمبر دو سو بیالیس کے تحت ہی ممکن ہے۔ آزاد کشمیر کو ممکنہ طور پر پاکستان کا حصہ بنانے کے بعد پاکستان کا اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہ کرنے کا کوئی جواز بھی باقی نہیں رہے گا۔
لہٰذا امید ہے کہ پاکستان کشمیر کی بابت کسی اضطراری اقدام سے باز رہتے ہوئے اسی مثالی تحمل کا مظاہرہ کرتا رہے گا جس کے سبب اسے تنازع کشمیر میں اب تک بھارت پر اخلاقی و سفارتی برتری حاصل ہے۔ بھارت جس طرح فسطائیت کی راہ پر چل نکلا ہے پاکستان کا صبر اور بردباری اس تناظر میں جلد ہی بارآور ثابت ہوں گے۔ جس طرح بھارت نے اپنے اقدامات کے ذریعے دنیا پر خود کو آشکار کیا ہے۔ اتنا تو پاکستان بھی کبھی نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا مودی حکومت کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے کہ دنیا اسے چند ہی دنوں میں پہلے سے زیادہ بہتر سمجھنے لگی ہے۔ ایسے میں پاکستان کو کسی جوابی مہم جوئی کے جال میں پھنسنے کے بجائے بھارت کو اپنے ہی جال میں پھنستے ہوئے دیکھ کر انجوائے کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر کھلی آنکھوں کے ساتھ۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
The post اس ٹریپ میں مت آئیے گا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3aUaqLc
via IFTTT
No comments:
Post a Comment