دنیا کی معلوم تاریخ دس پندرہ ہزار سال ہے، نامعلوم تاریخ کا اندازہ لگانا بھی ایک مشکل کام ہے لیکن ماہرین ارض اس حوالے سے اندازے قائم کرتے رہے ہیں۔ ہم دنیا کی معلوم تاریخ پر نظر ڈالیں تو جو پہلا تاثر ابھرتا ہے وہ طبقاتی نظام کا جنگوں ، نفرتوں خونریزیوں کا ہوتا ہے ایسے دورکا دور، دور تک پتہ نہیں چلتا جس میں امن، معاشی مساوات، رواداری، انسانوں کے درمیان محبت، بھائی چارہ رہا ہو۔
ہم دنیا کی تاریخ کی انتہائی ترقی یافتہ صدی یعنی بیسویں صدی سے گزر رہے ہیں لیکن غیرترقی یافتہ دنیا میں انسانوں کے درمیان فاصلوں، نفرتوں، تقسیم اور جہل کے جو نظارے تھے بدقسمتی سے یہ سب ہماری ترقی یافتہ دنیا کے اثاثے بنے ہوئے ہیں لیکن اس امید افزا حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر دور میں انسان اور انسانیت کا بھلا چاہنے والے نہ صرف موجود رہے بلکہ انسانوں کے درمیان محبت ، بھائی چارہ قائم کرنے کے لیے کوشاں بھی رہے یہ الگ بات ہے کہ انھیں زیادہ کامیابیاں نہیں ملیںکیونکہ ہر دور میں برے لوگ طاقتور رہے۔
ماضی قریب اور بعید کی باتوں کو جانے دیں، ان ادوارکے انسانوں کو جہل کا تمغہ ملا ہوا تھا۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو خراب ماضی بھی آج کی ترقی یافتہ دنیا سے بہتر نظر آتا ہے۔ جنگیں حال ہی کا عطیہ نہیں ، ماضی کی دنیا بھی جنگوں اور نفرتوں سے بھری ہوئی تھی ، ماضی کی جنگوں میں انسانی جانوں کا زیاں کم ہوتا تھا بلکہ بہت کم ہوا کرتا تھا کیونکہ ماضی کا انسان جاہل تھا۔ تیر ، تفنگ اور توپوں سے جنگیں لڑتا تھا جس کا نقصان آج کے نقصان کے حوالے سے بہت محدود ہوتا تھا، آج کے ترقی یافتہ انسان نے زندگی کے ہر شعبے میں ترقی بلکہ ناقابل یقین ترقی کی ہے جس میں ہتھیاروں کا شعبہ بھی شامل ہے۔
آج ترقی یافتہ انسان نے ہتھیاروں کی صنعت کے شعبے میں جو ناقابل یقین ترقی کی ہے، اس کا ایک ’’فائدہ‘‘ یہ ہے کہ اب جنگ لڑنے والوں کو گھوڑوں، گدھوں اور ہاتھیوں وغیرہ پر سوار ہوکر تیروں ، تلواروں، نیزوں، بلموں سے لڑنا نہیں پڑتا بلکہ ٹینکوں، ہوائی جہازوں، راکٹوں اور میزائلوں کے علاوہ جوہری ہتھیار بھی اس کی دسترس میں ہیں۔ دوسری عالم جنگ میں صرف جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم استعمال ہوئے تھے، جن کی تباہی کا عالم یہ تھا کہ آبادیاں جل کر تباہ ہوگئیں اور لاکھوں انسان جل کر کوئلہ بن گئے۔
دوسری جنگ عظیم میں جو ایٹم بم استعمال ہوئے وہ بہت کم طاقت کے تھے آج کے نئے جوہری ہتھیار 1945 کے جوہری ہتھیاروں کے مقابلے میں سیکڑوں گنا زیادہ طاقتور ہیں اور کئی ملکوں کے پاس ہزاروں کی تعداد میں ذخیرہ ہیں ان میں سے صرف چند ایٹمی ہتھیار پوری دنیا کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔ کیا ایسے خوفناک ترقی یافتہ ہتھیاروں کے بنانے والے ’’انسانوں کا فخر‘‘ نہیں کہلاسکتے کیا ان کاریگروں کو فخر انسانیت ایوارڈ سے نہیں نوازا جانا چاہیے؟ بغیر پائلٹ کے جنگی ہوائی جہاز بنانے والے کیا مبارکباد کے مستحق نہیں کہ انھوں نے خودکار جنگی جہاز بنائے جو پائلٹ کے بغیر اپنے نشانے پر سو فیصد کامیابی سے حملے کرتے ہیں اور پلک جھپکتے میں بڑی بڑی عمارتوں کو زمین بوس اور ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ ہمارا میڈیا اس قدر ترقی یافتہ ہے کہ بموں اور راکٹوں کو نشانے پر جاتے ہوئے ہی نہیں دکھاتا بلکہ ان کی تباہ کاریوں کی تصویریں بھی عوام کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔
آج کی ترقی یافتہ دنیا کی ترقی پر ایک نظر ڈالنے کے لیے اخبار کی خبروں کا ایک سرسری جائزہ۔ (1)۔ گزشتہ 7 سال سے اسرائیلی فوج کی جارحیت کا شکار ہونے والا العراقیب گاؤں کو ایک بار پھر اسرائیل نے مسمار کردیا۔ فلسطینی قصبے العراقیب کی مسماری کا سلسلہ جولائی 2010 کے بعد سے جاری ہے اور اب تک اسے 172 بار مسمار کیا گیا ہے۔
گزشتہ روزکی انہدامی کارروائی میں صیہونی فوجوں نے العراقیب گاؤں کے باشندوں کے عارضی خیمے بھی اکھاڑ پھینکے اور خیموں میں موجود سارا سامان بھی لوٹ لیا۔ مرکز اصلاحات فلسطین کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا کہ اسرائیلی فوج ، پولیس اور اسپیشل فورسز کے سیکڑوں اہلکاروں نے بھاری مشینری اور بلڈوزروں کی مدد سے شہریوں کے مکانات کی مسماری شروع کی اور سیکڑوں فلسطینیوں کو ایک بار پھر سخت سردی کے موسم میں کچی جھونپڑیوں سے بھی محروم کردیا۔ اسرائیلی فوج نے وادی اردن کی المالح وادی میں فوجی مشقیں شروع کردی ہیں۔
دوسری خبر کے مطابق شام کے صوبے ادلب میں ہونے والی شدید لڑائی میں 50 فلسطینی مارے گئے۔ روسی وزارت دفاع اور شام میں روسی مصالحتی مرکزکے چیئرمین کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوجوں نے جنگی مشقوں کی آڑ میں 50 جنگجو اور 12 شامی فوج کے اہلکار مار دیے جب کہ جمعرات کو روز الاذقیہ، حلب اور حماء میں 24 شامی فوجی ہلاک اور 24 زخمی ہوگئے۔ علاقے میں جنگجوؤں اور شامی فوج کے درمیان جھڑپوں میں 12 شامی فوجی ہلاک اور 12 شامی فوجی زخمی ہوگئے۔
ایک اور خبر کے مطابق بھارتی ریاستی دہشت گردی میں دو کشمیری جاں بحق ہوگئے، اس ہفتے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 7 ہوگئی۔ بغداد فورسزکی مظاہرین کے خلاف کارروائی میں 4 افراد جان بحق اور درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔
ایکسپریس کی یہ چند خبریں ہیں اگر اس حوالے سے شایع ہونے والی خبروں کو کوڈ کیا گیا تو سارا عالم انھی خبروں سے بھر جائے گا۔ ماضی میں بھی نفرتیں جنگیں انسانوں کا بہت بڑا لیکن شرمناک سرمایہ بنی ہوئی تھیں اور آج بھی انسان کا شرمناک سرمایہ غربت، بھوک، بیماری، بے روزگاری ہی ہے۔
ہماری دنیا ہے کیا، کہاں سے آئی ہے اور بھوک، بے کاری، بیماری جیسی لعنتیں انسانوں سے کیوں چمٹی ہوئی ہیں، ماضی کا انسان جاہل تھا، اس لیے ایک دوسرے سے نفرت کرتا تھا لڑتا جھگڑتا رہتا تھا آج کا انسان اعلیٰ تعلیم یافتہ مہذب ہے۔ پھر ماضی کے جاہل انسان سے زیادہ بڑا جاہل کیوں بنا ہوا ہے۔ اس سوال کا جواب ہمارے دانشوروں، مفکروں، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو تلاش کرنا چاہیے۔ تعویذ گنڈوں اور پرفریب مذاکرات سے یہ مسائل یہ ناانصافیاں حل ہونے والی نہیں ہیں۔
اگر انسان ان لعنتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اپنے نام کے ساتھ لگی ہوئی اضافتوں سے چھٹکارا پاکر آدم کی اولاد بننا پڑے گا۔ انسانوں کی تقسیم کے ہر حوالے کو نفرتوں اور عداوتوں کے بجائے محبت رواداری سے پر کرنا ہوگا یہ کام سیاستدان ہرگز نہیں کرسکتے کیونکہ یہ تو ان کا کاروبار ہے یہ کام اہل علم ، اہل فکر ہی کرسکتے ہیں۔
The post ترقی یافتہ دنیا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/31iXf2e
via IFTTT
No comments:
Post a Comment