Saturday, April 25, 2020

کورونا اور بھوک ایکسپریس اردو

ابھی تک تو عام لوگ ہی کورونا کا شکار ہو رہے تھے مگر اب تو ڈاکٹر اور نرسیں بھی اس موذی مرض کا شکار ہونے لگے ہیں، تو اب سوال یہ ہے کہ کورونا کے مریضوں کا کیا بنے گا ؟ان کا علاج اور تیمار داری کون کرے گا۔ یہ ہمارے مسیحاؤں کا ہی جگرا ہے کہ وہ کورونا جیسے خطرناک مرض میں مبتلا مریضوں کا اپنے عزیزوں کی طرح علاج اور تیمار داری کر رہے ہیں جب کہ خود مریضوں کے قریبی عزیز بھی ان سے پرہیز کر رہے ہیں اور یہی نہیں اپنے پیاروں کے مرتے وقت بھی ان کے قریب جانے سے ڈرتے ہیں اور پھر ان کی تدفین تک میں شرکت سے معذرت کرلیتے ہیں، ایسا شاید اس لیے ہو رہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کورونا کی عالمی خوفناک صورتحال کا پرزور پرچار کرنے کے علاوہ کورونا کے مریضوں سے چھ فٹ دور رہنے کی تلقین بھی کر رہی ہیں۔

بہرحال ہمارے مسیحاؤں کی اموات ہمارے ارباب اقتدار کے لیے لمحہ فکریہ ہے وہ ان کی خدمات کو خراج تحسین ضرور پیش کر رہے ہیں مگر ان کی جان بچانے کے لیے ضروری اقدام نہیں لے رہے اور اگر انھیں ان کا خیال ہوتا تو ان کی زندگیاں ضرور محفوظ رہتیں۔ ہمارے مسیحا شروع سے ہی حفاظتی سامان کی فراہمی کے لیے متعلقہ اداروں کی منت سماجت کر رہے ہیں مگر افسوس کہ اس مشکل وقت میں بھی ان کی نہیں سنی جا رہی ہے۔ وہ بڑی بے چارگی سے اپنی جانیں ضرور قربان کر رہے ہیں مگر اپنے فرائض سے ذرا غافل نہیں ہیں۔ کورونا کی سنگین صورتحال کا پرچار ضرور کیا جا رہا ہے مگر اس کے تدارک کے لیے موثر اقدامات لینے سے نہ جانے کیوں ہچکچاہٹ جاری ہے۔

وفاقی حکومت کا کورونا سے نبرد آزما ہونے کی تیاری کا یہ حال ہے کہ اس سلسلے میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا سے سپریم کورٹ میں پوچھے گئے سوالات میں سے وہ کسی کا بھی جواب نہ دے سکے۔ اس سے انھیں ہی نہیں وفاقی حکومت کو بھی ہزیمت اٹھانا پڑی۔ کچھ ایسا ہی حال سندھ حکومت کا ہے وہ صوبے میں سوائے لاک ڈاؤن کی تلقین کرنے اور اسے سخت اور مزید سخت کرنے کے اعلانات کے سوا کیا کر رہی ہے۔ جن علاقوں میں لاک ڈاؤن کیا جا رہا ہے ان کے بارے میں اس کے پاس کوئی جواز بھی نہیں ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کو کہنا پڑا ہے کہ صرف سنی سنائی باتوں پر کسی علاقے کو سیل کرنا وہاں کے لوگوں کو اذیت دینے کے مترادف ہے۔

سندھ حکومت سے عوام بھی یہ سوال کرنے میں بجا ہیں کہ کراچی کے جن علاقوں میں سخت لاک ڈاؤن کیا گیا ہے وہاں کس گلی اور کس مکان میں کورونا کے مریض موجود ہیں پھر وزیر اعلیٰ نے گزشتہ دنوں جن لاشوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے تو کسی کے بھی کورونا سے مرنے کے ثبوت نہیں ملے ہیں، کیا پتا ان میں سے کتنے ہی بھوک سے مر گئے ہوں۔ ہو سکتا ہے ان میں کچھ سفید پوش بھی ہوں اور وہ بھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنی عزت نفس کو برقرار رکھنے کی خاطر جان سے گزر گئے ہوں۔ لوگوں کوکورونا سے اس قدر خوفزدہ کردیا گیا ہے کہ وہ شدید بیماری کی حالت میں بھی اسپتال جانے سے گریز کر رہے ہیں کہ کہیں انھیں کورونا پازیٹیو قرار نہ دے دیا جائے اور یوں وہ جیتے جی ہی نہ مر جائیں۔ وہ اپنے قریبی عزیزوں کی بے حسی اور بے رخی کا شکار نہ ہوجائیں اور پھر ان کے مرنے کے بعد ان کے اپنے پیارے بھی ان کی تدفین تک میں شرکت سے گریز کرنے لگیں۔

عوام حکومت کے احکامات کی بجاآوری میں ایک مہینے سے بھی زیادہ عرصے سے اپنے گھروں میں بند بیٹھے ہیں مگر اس طرح بیٹھے رہنے سے کتنوں کی نوکریاں جاچکی ہیں اور کتنوں کے کاروبار ختم ہوچکے ہیں پھر دیہاڑی دار طبقے کا تو یہ حال ہے کہ وہ سڑکوں پر بھیک مانگتا نظر آرہا ہے۔ بڑے وثوق سے اعلان کیا گیا تھا کہ ہر پریشان حال کے گھر پر راشن پہنچا دیا جائے گا لوگ اب بھی اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ ادھر سپریم کورٹ بھی سندھ حکومت سے سوال کر رہی ہے کہ آخر دو ارب روپوں کی اشیا کن لوگوں کو کہاں تقسیم کی گئیں اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا ہے۔

اللہ کا بڑا احسان ہے کہ یہ مرض پاکستان میں اتنا خطرناک ثابت نہیں ہو رہا ہے جتنا کہ دوسرے ممالک میں ہوا ہے چنانچہ عوام کی ابتر معاشی حالت کے پیش نظر حفاظتی اقدامات کے ساتھ کاروبار اور فیکٹریوں کو کھولنے کی اجازت دینے میں دیر لگانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شمیم نقوی حکومت سندھ کی سنجیدگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت عوام کی خدمت کرے مذاق نہ کرے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سندھ کے 29 اضلاع میں سے گیارہ میں کورونا نہیں ہے چھ اضلاع ایسے ہیں جن میں اب تک صرف پانچ کیس رپورٹ ہوئے ہیں لیکن انھیں بھی لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم نے کہا ہے کہ حکومت سندھ عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

اس آزمائشی وقت میں بھی کچھ سیاسی پارٹیاں اور سماجی تنظیمیں راشن کی تقسیم فوٹو سیشن کے لیے کر رہی ہیں جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پاک سرزمین پارٹی کی عوامی خدمات مثالی ہیں اس کے کارکنان مستحقین کو تلاش کرکے خاموشی سے ان کے گھر راشن پہنچا رہے ہیں۔ ایسے مشکل وقت میں سب سے اچھی خبر یہ ہے کہ لگتا ہے کورونا کی بدولت شہر سے جرائم کا خاتمہ ہی ہو گیا ہے جب ہی تو تھانوں کی پوری نفری کو سڑکوں پر ناکے لگانے پر مامور کردیا گیا ہے اور بری خبر یہ ہے کہ اب بھی وفاق اور سندھ حکومت میں اختلافات کی خبریں آ رہی ہیں حالانکہ یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں ہے نہ ہی کورونا کی آڑ میں وفاق سے این آر او لینے کا کوئی موقع ہے۔

عمران خان کی طرف سے کورونا سے متاثرہ معاشی سرگرمیوں کو بحال کرانے کے واضح اشارے مل رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کورونا سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بے روزگاری اور بھوک سے بچانا بھی حکومتی اہم ذمے داری ہے۔ معاشی سرگرمیوں کی بحالی میں مزید دیگر لگائی گئی تو ملک کو دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ ملک کی معیشت تو پہلے ہی قرنطینہ میں ہے پھر معاشی سرگرمیوں کے تعطل سے کہیں یہ ہمیشہ کے لیے ہی قرنطینہ کی نذر نہ ہو جائے۔ اس میں شک نہیں کہ سندھ حکومت نے عوام کو کورونا سے محفوظ بنانے کے لیے سب سے پہلے لاک ڈاؤن کی ابتدا کی تھی اور اس کے اس عمل کو سراہا بھی گیا تھا مگر اب ایک مہینے کے لاک ڈاؤن نے مزدور پیشہ ہی کیا کھاتے پیتے لوگوں کو بھی قلاش کردیا ہے۔ اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ لوگ کورونا سے زیادہ بھوک سے نہ مرنے لگیں۔

The post کورونا اور بھوک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KyUu5l
via IFTTT

No comments:

Post a Comment