Saturday, July 25, 2020

وہ ’پرائمری اسکول‘ میں ہمارا آخری برس تھا۔۔۔ ایکسپریس اردو

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

پانچویں کلاس میں ہمارے چھے سالہ ’پرائمری اسکول‘ کے دور میں تیسری مرتبہ مس شہلا قیصر ہماری کلاس ٹیچر تھیں۔۔۔ ہمیں بہ خوبی اندازہ تھا کہ یہ دوپہر میں لگنے والے ہمارے پرائمری اسکول میں آخری برس ہے۔۔۔ یہ اتفاق تھا کہ پرائمری اسکول کے آخری برس بھی ہمارا کمرا وہی تھا، جو پورے پانچ برس قبل ہمارا ’کے جی ٹو اے‘ کا کمرا قرار پایا تھا۔۔۔ یعنی کمرا نمبر 10۔ ایک دن کیا ہوا۔۔۔ صبح کی شفٹ کے کچھ اوباش لڑکوں نے دائیں طرف کھلنے والی کھڑکیوں سے باہر کے برآمدے یا آپ اسے اسکول کی گندی گلی کہہ لیں، (اس کے ساتھ اسکول کی چار دیواری تھی، ’بریک‘ میں بچے کھیلتے ہوئے کھڑکیوں سے کود کر وہاں چلے جاتے تھے) وہاں مس شہلا کے نام سے کوئلے سے کوئی نازیبا جملے لکھ دیے۔۔۔!

دراصل اسکول کے برابر میں ہی کوئلے کا ٹال تھا، اس لیے دیوار سے اونچے رکھے ہوئے کوئلے کے ذخیرے سے اکثر کوئلے کے ٹکڑے وہاں آن پڑتے تھے۔۔۔ اب وہ کیا برے کلمات تھے، ہماری تو دیکھنے کی بھی ہمت نہ ہوئی، تاہم کان میں بھی نہ پڑے کہ کیا لکھا تھا۔۔۔ اگر فقط نام بھی لکھ دیا تھا، تو یہ بھی کوئی کم بات تو نہ تھی، بس اس روز اسکول کی اسمبلی کے بعد جب مس شہلا کلاس میں آئیں، تو ان کا پارا بہت بلندیوں کو چھو رہا تھا۔۔۔ اور کھڑکیوں کے پار ’گندی گلی‘ میں اسکول کا بابا یا کوئی صفائی والا پانی کی بالٹی لیے دیوار سے ان فقروں کو مٹا رہا تھا۔۔۔

مس شہلا غصے میں لال پیلی ہو رہی تھیں اور ان کی ساری برہمی کلاس پر نکل رہی تھی کہ یہ آپ ہی لوگ ہوتے ہیں، جو پھر صبح کی شفٹ میں جاتے ہیں، تو پھر ایسی حرکتیں کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ان کے اس برہم لیکچر کے دوران بار بار ہمارے ذہن میں یہ بات آتی رہی کہ ان سے کہیں کہ مس، صبح کی بدنام شفٹ کے لفنگے دراصل نئے داخلہ لینے والے لڑکے ہوتے ہیں، دوپہر کی شفٹ والے لڑکے ہر گز ایسے اوباش نہیں نکلتے۔۔۔ لیکن یہ کہہ کیسے سکتے تھے، پرائمری تک کلاس میں تو ہماری آواز ہی نہیں نکلتی تھی۔۔۔

خیر یہ پرائمری اسکول میں الوداعی برس تھا۔۔۔ میں اسے محسوس کر سکتا تھا۔۔۔ وقت سِرکتا رہا اور پھر اسکول کی روایتی ’الوداعی پارٹی‘ کا دن بھی آگیا۔۔۔ لیکن یہ پارٹی پتا نہیں کیوں نہایت ہی سادہ طریقے سے منعقد ہوئی تھی۔۔۔ بس پارٹی کیا تھی ہمارے لیے دوپہر میں ایک کھانے کا اہتمام تھا۔۔۔ یہ ہمارے اسکول کی وہی روایتی پارٹی تھی، جو چوتھی کلاس کی جانب سے پانچویں کلاس کو دی جاتی تھی، اب ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ جب ہم چوتھی میں تھے، تو پانچویں کلاس کو دی جانے والی پارٹی میں شریک نہ ہوئے۔ ہمیں آدھا کلو گلاب جامن لانے کو کہا گیا تھا، پہلے ہمیں بیکری کے جیلی والی ختائیاں بتائی گئی تھیں، مگر وہ مس افشاں نے کچھ ایسے بتائے ’ٹِپکے والے بسکٹ‘ ہمارے کچھ پلے ہی نہ پڑا کہ یہ کیا بلا ہے۔

اس لیے پھر گلاب جامن کہہ دی گئی۔۔۔ ہم اپنے مزاج اور طبیعت سے مجبور ہو کر پارٹی کو خاطر میں نہیں لائے اور اُس روز اسکول سے ہی گُل ہوگئے۔۔۔ اب پانچویں میں بھی مکمل طور پر یہی خیال تھا کہ کیا ان ’فضولیات‘ میں پڑنا۔۔۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ یہ پرائمری اسکول کے آخری دنوں میں سے ایک تھا، اور دن تھا جمعہ۔۔۔ ہاں شاید جمعہ ہی۔۔۔ ہمیں ہدایت کی گئی کہ آج الوداعی پارٹی ہوگی، اس لیے جو بچے اسکول سے قریب رہتے ہیں، وہ گھر جائیں اور جلدی سے پارٹی کے لیے کپڑے تبدیل کر آئیں۔۔۔ کچھ بچے آمادہ ہوگئے، مگر ہم چُپکے رہے، تو مس شہلا نے آواز دے کر ہمیں مخاطب کیا تھا کہ آپ کیوں نہیں جا رہے، جائیے، آپ کا گھر قریب ہے۔۔۔ اب فرار کا تو کوئی راستہ تھا ہی نہیں، اس لیے چاروناچار یونیفارم کی جگہ گھر کے کپڑے پہن کے آئے۔۔۔ پرائمری اسکول کے پورے چھے سال پڑھائی میں ہمارا بھرپور ساتھ دینے والا یار، عاطف الرحمن بھی اس ’پارٹی‘ میں ہمارے ساتھ شریک ہوا۔۔۔ جمعہ تھا، تو یاد پڑتا ہے کہ جمعے کی نماز سے نمٹ کر ہم دوبارہ اسکول آگئے، اور جو اسکول سے دور رہنے والے بچے تھے۔

وہ اسکول میں ہی ٹھیرے رہے۔۔۔ پھر ہمارے لیے اسٹیج کے بالکل سامنے پڑنے والی راہ داری، (پانی کے کولروں کے بالکل عقب میں) جہاں ہماری ’فور‘ اور پھر برابر میں ’ٹو‘ کلاس والے کمرے تھے، وہاں ہماری کلاس نے دوپہر کا کھانا کھایا۔۔۔ ہم تو گھر سے باہر کا پانی بھی نہیں پیتے تھے، دل نہیں مانتا تھا، کہ پتا نہیں پانی اور گلاس وغیرہ کیسے کیسے ہوں، لیکن اس بار صورت حال ایسی ہوئی تھی کہ ہمیں ہتھیار ڈالنا پڑے تھے۔۔۔ ہمارے اساتذہ پوری طرح ہماری میزبانی کر رہے تھے۔

’کے جی‘ میں ہمیں پڑھانے والی سادہ سے مزاج کی مس راحت کا روٹیاں لا لا کر ہمیں دینا، مہمانوں کی طرح خاطر مدارت کرنا اور کہنا ’کھاؤ!‘ مجھے خوب یاد ہے۔۔۔! شاید اس وقت تک سب اساتذہ نہیں ٹھیرے تھے اور بچے بھی ہم دو کلاسوں کے ہی تھے۔۔۔ کھانے کے بعد ہم اسی سے جڑی ہوئی دائیں طرف کی راہ داری میں زمین پر اور کچھ اکڑوں بیٹھ گئے تھے، وہیں پھر کچھ دیر کو ہنسنے ہنسانے اور ’ہَلّا گُلا‘ کرنے کا اہتمام کیا گیا۔۔۔ لیکن ہوا کیا کیا تھا یہ بالکل یاد نہیں آرہا، البتہ ایک الگ سی آواز کے مالک ’فورتھ‘ کلاس کے بھوری سی آنکھوں والے لڑکے، کا گانا گانا یاد ہے، جس کا نام مجھے تب بھی شاید معلوم نہیں تھا۔

اس نے اس وقت شاہ رخ خان کی نئی نئی آنے والی فلم ’’دل تو پاگل ہے‘‘ کا مقبول گانا ’بھولی سی صورت آنکھوں میں مستی، دور کھڑی شرمائے۔۔۔!‘ گایا تھا اور پھر اس کی آواز میں ’آئے ہائے۔۔۔!‘ کہنے پر سبھی کے بے ساختہ قہقہے گونج گئے تھے۔۔۔ عموماً یہ لڑکا اسکول کی اسمبلی میں نعتیں پڑھنے لگا تھا اور ہماری کلاس کے ’بی‘ سیکشن والے شاہ نواز کی طرح اس حوالے سے بہت پکا ہو گیا تھا۔۔۔ الوداعی پارٹی میں اس کے گانے پر جب ہم لوگوں کی ہنسی شاید مذاق اڑانے کا رخ اختیار کرنے لگی، تو اس وقت کی ہیڈ مسٹریس نے ہمیں ٹوکا تھا کہ یہ بری بات ہے، وہ آپ کے لیے گانا گا رہا ہے، اور آپ مذاق اڑارہے ہیں۔۔۔! بس الوداعی پارٹی کی کُل یہی یادیں ہمارے ذہن میں باقی ہیں، پھر ہم چَھٹی کلاس میں آگئے، اسکول کی عمارت تو یہی تھا، لیکن شفٹ دوپہر کے بہ جائے صبح کی تھی اور تمام اساتذہ اور عملہ مکمل طور پر الگ تھا۔۔۔ لیکن ’پرائمری اسکول‘ کے ’بَچپنے‘ کا ایک بڑا باب بند ہوگیا۔۔۔

۔۔۔

چائے اور ’چائے پانی‘
فاطمہ بنتِ علی، کراچی

بچپن میں مجھے یہ لگتا تھا کہ جو چیزیں لوگ زیادہ استعمال کرتے ہیں یا پسند کرتے ہیں، وہی ملک کی قومی شناخت بنتی ہے، اس لیے قومی کھیل کرکٹ اور قومی کھانا دال روٹی لگا، لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے، تو معلوم ہوا کہ قومی کھیل تو ہاکی اور غیر سرکاری طور پہ قومی سالن نہاری ہے، خیر ہم نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا، لیکن جب قومی مشروب کا نام پڑھا تو پیروں تلے زمین نکل گئی آسمان ٹوٹ پڑا، جب معلوم ہوا کہ گنّے کا رس قومی مشروب ہے۔

یہ حقیقت ہم جیسوں کو جب پتا چلتی ہوگی دل پہ چُھریاں چلتی ہوںگی، کیوں کہ ہم نے تو ہمیشہ چائے کو ہی قومی مشروب سمجھا، کیوں کہ صبر کے گھونٹ کے بعد یہاں جو گھونٹ سب سے زیادہ پیا جاتا ہے وہ چائے کا ہی ہے۔

اردو زبان میں چائے کا لاحقہ پانی ہے، اسی لیے پاکستان میں چائے اور پانی لازم و ملزوم بھی سمجھے جاتے ہیں، عموماً لوگ کسی کی بے مروتی کا ذکر بہت دکھ بھرے انداز میں کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس نے ہمیں چائے پانی تک کا نہیں پوچھا حالانکہ چائے میں پانی بھی شامل ہوتا ہے، اگر صرف چائے کے لیے کہہ دیا جائے تب بھی دکھ اتنا کم نہیں ہوتا۔

لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہے، لیکن ہم کہتے ہیں کہ ہم نے گھر گھر کی چائے پی ہوئی ہے کیوں کہ پہلے جہاں جاتے تھے لوگ اخلاقاً چائے اور مروتاً بسکٹ ضرور پیش کرتے تھے، لیکن اب جب سے کولڈرنک آئی ہے اس نے چائے کی قدروقیمت ہی کم کر دی ہے، ہمیں کولڈرنک دو وجوہات کی بنا پہ اچھی نہیں لگتی ہے، ایک تو اس کے ساتھ کبھی بسکٹ نہیں پیش کیے جاتے عموماً لوگ اسے مکمل ناشتا سمجھ لیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ بسکٹ کو کولڈرنک میں ڈبو کر نہیں کھایا جا سکتا۔۔۔

ہمارے گھروں میں چائے پانی ایک مشروب کے طور پر لیا جاتا ہے، لیکن سرکاری دفاتر میں یہ ایک اصطلاح کے طور پہ رائج ہے، بلکہ اس اصطلاح کو تنخواہ کے برابر عزت دی جاتی ہے بلکہ کہیں کہیں اس کی عزت تنخواہ سے بھی زیادہ ہے، اسی لیے ہر اچھے برے کام کو جلد کرانے میں بے حد معاون ثابت ہوتی ہے۔۔۔

لیکن پتا نہیں کیوں شعرا حضرات کو چائے جیسا اہم مشروب پسند نہیں ہے، کیوں کہ ہم نے بڑے سے بڑے شاعر کے دیوان کے دیوان کھنگال لیے ہمیں چائے پہ شراب کے مقابلے میں کم کلام ملا، حالاں کہ چائے کی تاریخ سینکڑوں سال پرانی ہے، یقیناً شعرا حضرات چائے سے زیادہ تلخ مشروب پینا پسند کرتے ہیں، اسی لیے جا بجا چائے نوشی کے بہ جائے ’مے‘ اور ’نوشی‘ اور ’مے نوشی‘ پر بڑے بڑے شعرا کے کلام ملتے ہیں۔

شاید چائے صرف جسمانی محنت کرنے والوں کا مشروب ہے، کیونکہ چائے پینے سے لوگ چاق و چوبند ہو جاتے ہیں، اپنا کام بہتر انداز میں کرنے لگتے ہیں، لیکن شعرا حضرات کے لیے چائے ان کی ذہنی صحت اور شاعری دونوں کے لیے موزوں ترین مشروب نہیں ہے، بلکہ نقصان دہ ہے اسی لیے نہ چائے پیتے ہیں اور نہ اس پہ لکھتے ہیں۔

ریاض خیر آبادی نے شراب پر بہت بہترین غزلیں لکھیں، لیکن ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے کبھی ’مے نوشی‘ نہیں کی، بلکہ ہاتھ تک نہیں لگایا لیکن ان کے کلام میں مے نوشی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے جس سے پڑھ کر ہمیشہ یہی تاثر ملتا ہے کہ شاعری کی بنیاد تجربہ ہے، لیکن درحقیقت شاعری کی بنیاد صرف مشاہدہ ہی ہوگا۔

ہم بھی کسی ایسے ہی شاعر کی تلاش میں ہیں، جس سے بھلے زندگی بھر چائے نہ پینے کا گناہ سرزد ہوگیا ہو، لیکن کم ازکم ریاض خیرآبادی کی پیروی کرتے ہوئے چار چھ غزلیں چائے پہ ہی لکھ دیں، کیوں کہ اگر ہم نے چائے پر کوئی غزل یا نظم لکھ دی تو لوگ کہیں چائے پینا ہی نہ چھوڑ دیں۔

ہمارے نزدیک شعرا کی چائے کی بے رغبتی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں کہ ایک تو یہ گرم ملتی ہے اور دوسری یہ کہ بوتلوں میں بند نہیں ملتی ہے پھر چائے ٹھنڈی ہو جانے کے بعد اپنا رنگ ذائقہ اور خوش بو سب کھو دیتی ہے اور چائے کو کوٹ کی جیب میں بھی نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے آمدورفت میں خلل پڑنے کے باعث چائے کبھی بھی پہلی ترجیح نہیں رہی ہوگی۔

چوں کہ چائے عوام الناس میں بہت مقبول ہے اسی لیے چائے کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر وہ افراد جن کا شاعری سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ان کے بھی اشعار چائے سے متعلق پڑھنے کو ملتے ہیں، لیکن ان اشعار کو پڑھنے سے زیادہ اچھا یہ ہوتا کہ وہ لکھے ہی نہیں جاتے۔

ہمارے یہاں چائے نہ صرف ہر موسم میں مقبول ہے بلکہ کئی بیماریوں کا حل صرف ایک پیالی چائے میں پوشیدہ ہے، اگر تھکن محسوس ہو رہی ہے، تو چائے پی لو۔ گلا خراب ہے تو چائے میں نمک ڈال کر نوش کرلو، نیند کو بھگانا ہے تو چائے، سر میں درد ہو تو چائے، اسی لیے دفتر سے واپسی پہ حضرات کو گھر میں سب سے پہلے چائے ہی پیش کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سر درد نہیں ہوتا ہے بلکہ وجہ دردِ سر ہوتی ہے، جسے عرف عام میں بیوی کہا جاتا ہے، وہ احتیاطی تدابیر کے طور پہ پہلے ہی چائے پلا دیتی ہے کہ سر میں درد ہو ہی نہیں۔

لیکن اس دنیا میں ابھی بھی کچھ عجیب و عجیب افراد موجود ہیں جو کسی قسم کی بھی نوشی بالخصوص چائے نوشی سے کوئی رغبت ہی نہیں رکھتے۔۔۔ ایسے افراد کا تو الگ سے حساب ہونا چاہیے کہ وہ کفران نعمت کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس کے لیے ان کے گھر والے دوست احباب سب قصور وار ہیں جن کی سنگت میں بھی وہ اس سنگین جرم کے مرتکب ہوئے، ویسے چائے نہ پینے والوں کے یہ سزا بھی کم ہے کیا کہ وہ چائے نہیں پیتے !۔

۔۔۔

ہندوستان کا صدیوں سے الگ تھلگ قبیلہ
امجد محمود چشتی، میاں چنوں

سائنس اور ٹیکنالوجی کی معراج اور انسانی ترقی کے باعث دنیا ’گلوبل ویلیج‘ بن گئی ہے، مگر آج بھی دنیا میں کئی قبائل، شہروں اور آبادیوں سے الگ تھلگ آباد ہیں اور ان کا دنیا سے کوئی واسطہ نہیں۔ ایسا ہی ایک قبیلہ بھارت میں جزائر انڈیمان اور نکوبار کے ساتھ ’’ sentinel island‘‘ میں آباد ہے۔ مورخین کے مطابق سولہ ہزار سال قبل یہ لوگ افریقا سے یہاں آئے اور اب تک ’قرنطینہ‘ کی زندگی بسر کر رہے ہیں، جب کہ بعض اسے 60 ہزار سال قدیم قبیلہ بھی قرار دیتے ہیں۔ اس قبیلے کا ذکر مشہور سیاح مارکو پولو نے بھی کیا ہے۔ جزیرے کا رقبہ ساٹھ مربع کلومیٹر اور آبادی بمشکل دو تین سو افراد پر مشتمل ہے۔

کئی بار حکومتوں، تنظیموں، سیاحوں اور عوام کی جانب سے قبیلے کے لوگوں سے رابطے اور معلومات کی کوششیں کی گئیں، مگر ہر بار ہی تیروں اور نیزوں سے جواب ملا، کیوں کہ وہ لوگ انسانوں سے خائف ہیں اور دنیا سے قطعاََ رابطہ نہیں چاہتے۔ آزادی سے قبل کمپنی سرکار نے جزیرے میں مداخلت کی اور یہاں چار بچے اور دو مرد بھی اٹھا لائی، جب کہ باقی لوگ جھونپڑیاں چھوڑ کر جنگل میں چھپ گئے۔ دو دن میں دونوں مرد مر گئے تو بچوں کو واپس وہیں چھوڑ دیا گیا۔

ڈاکٹرز کے مطابق وہ لوگ ہزاروں برس سے الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے ہماری آبادیوں میں نہیں رہ سکتے۔ ان کا اپنا طرزِحیات اور بہت محدود قوت ِ مدافعت ہے، پھر ایک عیسائی مبلغ نے جزیرے میں جانے کی کوشش کی، جسے جنگلی باشندوں نے پکڑ کر ہلاک کر دیا۔ تاہم انہوں نے بلا وجہ کسی شخص یا کسی آبادی کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا ۔ وہ صرف اپنا دفاع کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ 1990ء کی دہائی میں وہاں جا کر قبیلے سے رابطوں پر پابندی لگا دی گئی، پھر بھی دور ساحل سے سیاح دوستانہ رابطوں کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اکثر وہاں جا کر پھل اور تحائف پھینک آتے ہیں، جنہیں وہ لوگ جنگل سے نکل کر اٹھا تے، ناچتے اور ننگ دھڑنگ بھاگتے دیکھے جاتے ہیں۔

ان لوگوں کی زبان، رسومات، لباس اور مذہب کا کچھ علم نہیں ہو سکا۔ صرف ایک بار 20 سال پہلے مدھومالا خاتون نے حیرت انگیز طور پر اس جزیرے کے لوگوں سے کام یاب دوستانہ رابطہ کیا اور کافی دیر جنگل میں رہی اور بہت سا سامان بھی انہیں دیا۔ تاہم بعد ازاں وہ لوگ ایسے رابطوں پر آمادہ نہ ہوئے، حتٰی کہ نیشنل جیوگرافک جیسے چینل بھی اس جنگل کے اندر جانے میں کام یاب نہیں ہوئے۔ ہمارے نزدیک وہ جنگلی، پس ماندہ اور وحشیانہ زندگی گزار رہے ہیں، مگر وہ اپنی زندگی سے خوش ہیں۔

The post وہ ’پرائمری اسکول‘ میں ہمارا آخری برس تھا۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3jzZCq5
via IFTTT

No comments:

Post a Comment