موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی سانپ اپنے مسکن سے باہر نکل آتے ہیں، جس کی وجہ سے سانپ کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے، اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مکمل اور جامع تحریر قارئین کی نظر کی جارہی ہے، جس سے استفادہ کرتے ہوئے سانپ کے کاٹنے کے واقعات میں نمایا کمی لائی جاسکتی ہے اور قیمتی جانو کو بچانے کے علاوہ سانپ کے متعلق معلومات میں بھی اضافہ ممکن ہے۔
عصر حاضر میں کرہ ار ض پرسا نپوںکی تقریباً 3 ہزار اقسام پائی جاتیں ہیں، جن میں 375اقسام زہریلے سانپوں کی ہے اور ان میں 45ایسی اقسام ہیں، جن کے ایک ہی بار ڈسنے سے انسان مر سکتا ہے۔ سانپ ہر قسم کے ماحول میں موجود ہیں، یہ جنگلوں، صحراؤں، پانی اور پہاڑوں پر موجود ہوتے ہیں، تاہم زیا دہ تر سانپ زمین میں بل بنا کر رہتے ہیں۔
سا نپوں کی تمام اقسام گو شت خور ہو تی ہیں۔ یہ اپنی خوراک کو چبا نہیں سکتے بلکہ نگلتے ہیں اور ان کی خوراک معدے میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ سانپ قدرت کی ایک بہت پرانی تخلیق ہے، جس کا ذکر الہامی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ خاص طور پر انجیل مقدس اورقرآن ِپاک میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علا وہ سانپ کو مختلف کہانیوں، داستانوں، ناولوں میں بھی موضوع بنایا گیا ہے۔
دنیا کی مختلف تہذیبوں میں مختلف حوالوں سے اس کا تذکرہ موجود ہے۔ دنیا کے بعض مذاہب میں اس کی پوجا کی جاتی ہے اور اس کو دیوتا کا رتبہ دیا جاتا ہے۔ بعض تہذیبوں میں اس کو بطور خوراک استعمال کیا جاتا ہے، خاص کر سوپ بنا کر پیا جاتا ہے ہے،اس کی شراب بھی بنائی جاتی ہے۔ کچھ تہذیبوں میں اس کو پالتو جانور کے طور پر بھی پالا جاتا ہے۔ ملکہ قلوپطرہ واحد ملکہ تھیں، جنھوں نے خود کو سانپ سے ڈسوا کر خود کشی کی۔ موجودہ ترقی کے دور میں سانپ کی جلد کے جوتے، پرس، بیگ، بیلٹ اور لباس تیار کیے جاتے ہیں۔
سانپ ایک صفائی پسند رینگنے والا (Repitile ) جانور ہے، جو وقتاً فوقتاً اپنی جلد کو تبدیل کر تا رہتا ہے۔ جلد کی تبدیلی کے اس عمل کو Molting (مولٹینگ )کہتے ہیں۔ سانپ سال میں تین سے چھے بار اپنی کھال تبدیل کر تے ہیں ۔ یہاں یہ بات بتانا نہایت ضروری ہے کہ ہر سانپ زہریلا نہیں ہوتا اور کچھ سا نپ تو زہر بناتے ہی نہیں۔ سا نپ کا زہر یعنی Venom (وینم) سانپ کا تھوک ہو تا ہے جو اس کے زہریلے دانتوں Fangs (فینگس) کے ذریعے دوسرے جانوروں یا انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ عموماً سانپوںکی خوراک میں دیمک ، چو ہے ، پرندے اور ان کے انڈے، مینڈک سے لے کر چھوٹے بکر ے یا ہرن وغیرہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ سانپ عمو ماً اپنے منہ کے سائز سے تین گناہ زیادہ بڑا شکا ر ہڑپ کر سکتا ہے کیوںکہ سانپ کے جبڑوں میں بہت زیادہ لچک ہوتی ہے۔ زہریلے سا نپ عمو ما اپنے شکا ر کو زہر کے ذریعے قابو کر تے ہیں جبکہ بڑے سانپ اپنے شکار کو اپنی لپیٹ میں لے کر قابو میں کر تے ہیں۔
تمام سانپ پیدائشی طور پر تیرنا جانتے ہیں اور یہ عموماً روزانہ کی بنیاد پر شکار نہیں کر تے۔ مثال کے طور پر (اینا کونڈ ا ) Anaconda (پائتھن)Python ایک بار اپنی بھر پور خور اک کھانے کے بعد تقریبا ایک سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس وقت سانپ دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں سوائے انٹارکٹکا، آئس لینڈ ، نیو زی لینڈ اور گرین لینڈ۔ سانپ عمو ما گر میوں میں نکلتے ہیں اور سر دیوں میں یہ زیرِ زمیں چلے جاتے ہیں۔ سانپوں کی زیادہ تر اقسام انڈے دیتی ہیں لیکن کچھ اقسام ایسی بھی ہیں جو براہِ راست بچے پیدا کرتی ہیں۔ سا نپ ایک پُر امن جانور ہے، جو حملہ کرنے میں عموما پہل نہیں کر تے، لیکن انسان فطر ی طور پر سانپ سے خو فزدہ پایا گیا ہے۔ اس خو ف کو نفسیات کی زبان میںOphidiophobia کہتے ہیں ۔ یہ با ت بڑ ی دلچسپی کی حامل ہے کے انسان جتنا سانپ کو دیکھ کر خو فزدہ ہو تا ہے، سانپ اس سے تین گنا ہ زیادہ انسان کو دیکھ کر خوفزدہ ہو تا ہے۔
سانپ عموماً چار انچ سے لے کر تیس فٹ تک لمبے ہو سکتے ہیں اور یہ وزن میں ایک گرام سے لے کر 227کلو گرام تک ہو سکتے ہیں۔ سانپوں کی آ نکھوں کی پتلی سے ان کے زہر یلے اور غیر زہریلے ہو نے کا پتہ چل سکتا ہے۔ عموما زہریلے سانپ کی پہچان ان کی بیضوی آنکھ کی پتلی سے ہوتی ہے اور یہ عموما عمودی ہو تی ہے۔ سا نپ رنگوں کی تمیز نہیں کر سکتے ۔
سانپوں کے بیرونی کان بھی نہیں ہو تے اور نہ ہی ان کے کان کا پردہ ہو تا ہے۔ البتہ ان کے کان میں چھوٹی سی ہڈی ہوتی ہے۔ جس سے زمین کی تھر تھرا ہٹ ان تک منتقل ہو تی ہے۔ اس کے علا وہ سانپ ہو اکے ذریعے سے بھی آ وازکی لہر وں کو پکڑ لیتا ہے لیکن یہ انسانی کان کی طرح سُن نہیں سکتا۔ ہر سانپ کی دو دھار ی زبان ہوتی ہے جس کی حر کت منہ کے اندر باہر جا ری رہتی ہے اور یہ زبان سے اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیتا ہے۔
سا نپ عمو ما دس سے چا لیس سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ سانپ کے شکار کو پکڑنے والے اور زہر والے دانت الگ الگ ہوتے ہیں ۔ سا نپ کے زہریلے دانت اس کی آنکھوں کے پیچھے ایک تھیلی سے جڑے ہوتے ہیں جس میں زہر ہوتا ہے اور یہ زہرمائع کی شکل میں مو جود ہوتا ہے۔ جیسے ہی سانپ کسی کو کا ٹتا ہے تو یہ زہریلے دانتوں کے ذریعے دوسرے جاندار کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے جو شکا رکو یا تو مفلو ج کر دیتا ہے یا مار دیتا ہے۔ اگر سانپ کے زہریلے دانتو ں کو تو ڑ دیا جائے تو کچھ ہی عر صہ کے بعد یہ دانت دوبارہ ظاہر ہو جاتے ہیں۔
اس بات کو انتہائی توجہ کے سا تھ پڑھنا چاہیے کے اگر سانپ کو مار دیا جائے یا اس کے سر کو کاٹ کے الگ کر دیا جائے تو پھر بھی یہ کاٹ سکتے ہیں حتٰی کے مرنے کے کئی گھنٹے بعد بھی ان میں انسانوں اور دیگر جانوروں کے کاٹنے کی صلاحیت موجو د رہتی ہے اور مرنے کے بعد یہ عموما زیادہ زہر چھو ڑتے ہیں۔ چند جانور خاص طور پر نیولا سانپ کے زہر کے اثر سے قدرتی طور پر محفوظ رہتا ہے۔
ان پر سانپ کا زہر کوئی اثر نہیں کرتا۔ زمینی، بحری، جنگلی سانپوں کے علا وہ اُڑنے والے سانپوں کی اقسام بھی پائی جا تیں ہیں۔ جو کے 300 فٹ سے زیادہ بلند ی تک ہو ا میں اُڑ سکتے ہیں۔ سانپ پتھروں، درختوں اور اینٹوں میں عمو ما اس لئے رہتے ہیں کیو نکہ یہ اشیا سورج کی روشنی کو جذب کرتیں ہیں اور یہ ان کو گرم رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس کے علا وہ سانپ کی چند مخصوص اقسام ایسی بھی ہیں جو منہ سے زہر کو برا ہِ راست ہو ا میں پھینکتے ہیں اور اس کی رینج آٹھ فٹ تک ہو سکتی ہے۔ یہ کسی بھی پوزیشن میں زہر پھینک سکتے ہیں ۔ خا ص طور پر یہ شکار کی آ نکھو ں میں زہر پھینکنے کی کو شش کر تے ہیں۔ اگرچہ اژدھا دنیا میں سب سے بڑا سانپ ہے لیکن زہریلے پن کے حوالے سے دنیا کا لمبا ترین زہریلا سا نپ کنگ کوبرا ہے جو کہ ایشیا میں پایا جاتا ہے۔ اس کی لمبائی اٹھارہ فٹ تک ہو سکتی ہے۔
یہ بڑی خطر ناک پھنکار منہ سے نکالتا ہے۔ اور اسکا زہر ایک ہاتھی تک کو بھی مار سکتا ہے۔ دنیا کے زہریلے ترین سانپوں میں Pit Viper , King Cobra اور Python شامل ہیں ۔ دنیا میں دو سروں والے سا نپ بھی پائے جا تے ہیں لیکن ان کی تعدا د بہت کم پائی جاتی ہے۔ سانپوں کی یہ قسم زیا دہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتی ۔ دنیا میں 70 فیصد سانپ انڈے دیتے ہیں اور 30 فیصد سا نپ زندہ بچو ں کو جنم دیتے ہیں ۔اس وقت کرہ ارض پر سانپوں کی تیزی سے ختم ہونے والی قسم کو St. Losia Racer کہتے ہیں اور اس وقت ان کی تعداد 18سے 100 کے درمیا ن پائی گئی ہے۔ اس وقت دنیا میں سالانہ ایک لاکھ کے قر یب افراد کی اموات سانپ کے کاٹنے سے ہو رہی ہے، جن میں آ دھے سے زیادہ افرادکی تعداد جنوب و مشرقی ایشیا میں ہے۔
Black Mumba دنیا کا تیز رفتار ترین سانپ ہے جو کہ مشر قی افریقہ میں پایا جاتا ہے۔ اس کی رفتا ر تقریبا 19کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ اس سانپ کا نام اس کے کالے رنگ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کی جلد کا رنگ گہر ا سبز ہو تا ہے۔ اس کے منہ کے اندرونی حصے کا رنگ گہر ا کا لا ہو تا ہے ور اسی وجہ سے اس کو Black Mumba کہا جاتا ہے۔ اس کا شمار انتہائی زہریلے سانپوں میں ہوتا ہے۔ اس کے کا ٹنے کے بعد تقریبا 7 سے 15 گھنٹے کے اندر اندر انسان کی مو ت ہو سکتی ہے۔ سا نپ کا بین کی آواز پر نا چنے کا کھیل حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ سا نپ بین کی آ واز کے بجائے سپیرے کی بین کی حرکات کی وجہ سے ناچتا ہے۔
اب ہم قارئین کو بتاتے ہیں کہ سا نپ اگر کا ٹ لے تو ایسی صو رت میں کیا کیا جا ئے؟
اس صور ت میں ہسپتا ل کا رخ کر نا چا ہیے اور فرسٹ ایڈ کے طور پر مزید احتیاطی تدا بیر اختیا ر کرنی چاہیں، جن میں اگر مر یض نے کو ئی جیو لر ی وغیرہ پہنی ہوئی ہے تو و ہ اسے فوراً اُتار دے کیوںکہ سوجن کی صورت میں خون کی روانی متا ثر ہو سکتی ہے۔ ڈسنے والی جگہ کو دل کی سطح سے نیچا رکھیں۔ اپنے ہو ش و حواس کو قابو میں رکھیں اور چلنے پھرنے سے گر یز کر یں کیو نکہ اگر آپ چلیں گے تو پھر اس صور ت میں خون کی گر دش تیز ہو گی جس کی وجہ سے سا نپ کا زہر پور ے جسم میں پھیل سکتا ہے۔ زخم کو سانپ اور خشک پٹی سے ڈھانپ کر رکھیں اور جتناجلدی ہو سکے ہسپتال پہنچ کر Anti Venom ویکسین کا استعمال کر یں۔ ہر سانپ کے لئے مخصو ص ویکسین بنائی جاتی ہے اور اگر سانپ نامعلوم ہو تو Poly Anti Venom ویکسین لگائی جاتی ہے۔ جو ہر طرح کے سانپ کے زہر کے خلا ف موثر کام کر تی ہے۔
اگر خدا نخواستہ سانپ کاٹ لے تو سا نپ کو پکڑنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اور نہ ہی اس کو بند یا مارنے کی کوشش کرنی چا ہیے۔ اس طر ح کر نے سے سا نپ کے ڈسنے کے مزید امکانا ت بڑھ سکتے ہیں۔ سانپ کے ڈسنے والی جگہ پرنہ ہی کو ئی رسی باندھی جائے اور نہ ہی زخم کو چوسنے کی کوشش کی جائے، متاثرہ جگہ کو کٹ لگانے سے بھی گر یز کیا جائے۔ متاثرہ حصے کو نہ ہی پانی میں ڈبویا جائے اور نہ ہی اس پر کوئی بر ف وغیرہ لگائیں ۔ اس کے علا وہ نہ ہی مر یض کو کو ئی مشر وب مثلاً کافی وغیرہ دیں۔ مر یض کو ہسپتا ل کے اندر کم از کم چو بیس گھنٹے انڈر آبزرویشن (Under Observation) رکھنا چاہیے۔ خا ص طور پر ایسے مر یض جن کو اینٹی سنیک وینم (Anti Snake Venom ) ویکسین لگائی جا تی ہے کیوں کہ ان میں شدید الرجی کے ری ایکشن کے ا مکانات ہو سکتے ہیں ۔سا نپ کے ڈسنے کے بعد بحالی صحت میں عام طور پر 3 سے 9ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
سا نپ کے ڈسنے کی صور ت میں در ج ذیل چند علا مات ظا ہر ہو سکتی ہیں۔ جن میں متا ثرہ جگہ پر دانتو ں کے دو نشانات ، سوجن ، درد ، زخم کے گر د جگہ کا سر خ ہو جانا ، اُلٹی یا متلی کی کیفیت، پسینہ اور لعاب کا زیادہ بننا، بینائی کا دھندلا جانا، با زو اور ٹانگو ں کا سُن ہو جانا، مر یض کا غشی اور بے ہو شی کی حا لت میں جانا وغیرہ شامل ہیں۔
سانپ کا زہر خون کے نظام، پٹھوں، اعصابی نظام کو شدید متاثر کرتا ہے۔ سانپ کے زہر کو پینے سے زہر اثر نہیں کرتا۔ اس تصوراتی خیال کہ ساون کے مہینے میں سانپ کو مارنے سے سانپ “ویر‘‘دشمنی رکھتا ہے اور سانپ کو مارنے والے شخص کو سات سمندر پار تک پیچھا کرتا ہے اور اس کو ڈسنے تک سکون سے نہیں بیٹھتا ، کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے سانپ کے ڈسنے سے ہونے والی اموات اور معذوری کو تقریباً 50 فیصد تک کم کرنے کے لیے 2030ء کا ہدف مقرر کیا ہے اور اپنی کاوشوں میں مصروف ہے۔
The post سانپ:جس کا ذکر الہامی کتابوں سے مختلف تہذیبوں تک میں موجود appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3hzAhL0
via IFTTT
No comments:
Post a Comment