جن کے نام مقدس کو لینے سے قبل (اول تولیا ہی نہ جائے تو تقوی ہے)آب احترام سے وضو واجب ہو،جو اولادِ نبیﷺ پرحجت ہوں، جنھیں افتخار حوا کی سند حاصل ہو، مالک تطہیر بنا کر جنھیں خالقِ کائنات نے چادر تطہیرکا امین بنا دیا ہو…… افضل النسا کہلوا کر جن کے بابا جان نے اُمت کو دائرہ ادب میں سفرکرنے کے آداب سکھلائے ہوں۔
بہترین، مہذب، عمدہ اور خوبصورتی کے سبب جوحسان کہلاتی ہوں، جن کے بابا،شوہر اور بچوں کے احسانات تلے دبی اُمت آنکھیں اُٹھانے سے بھی کتراتی ہو، جو صاحبانِ علم کی معلمہ وصاحبہ ہوں،مبارک ایسی کہ ’’صنفِ مبارکہ‘‘ ہوں،حلم اتناکہ حلیمہ بھی کہہ اُٹھیں کہ حلیمہ توآپ ہیں، سچی اس قدرکہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ بھی آپ کو صادقہ کہہ کر پکاریں، محدثہ ایسی کہ آقا جب پردہ فرماتے ہیں توآپ کے عطا کردہ جملوں کے مکھڑوں کی تشریح ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں…..ائمہ نے جن کے سبب حق وصداقت کے پرچار کے لیے آنکھیں کھولی ہوں اور آپ ام الائمہ قرار پائیں،جنت کو جس خاتون کی تلاش تھی وہ مالکِ جنت نے مختارِجنت کو یہ کہہ کر پوری کر دی ہو ’’ پیارے خاتونِ جنت بھی تیرے ہی گھر میں موجود ہیں‘‘،ام ابیہا کی بازگشت سُن کر جو اپنے بابا کے لیے سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا جیسا خیال رکھنے کی کوشش فرمائیں۔
جبرئیل جن کے گھر بے تکلفی سے آئیں، بچوں کو جھولا جھلائیں اور چلے جائیں…..اعمال صالحہ ایسے گورے چٹے کہ صحابیات آپ کو ’’صبیحہ‘‘ کہہ کر پکاریں، میرے آقاﷺ جنھیں خیر النسا اور ام الحسن و ام الحسین کہیں،جو مرج البحرین یلتقیان ہوں، صورت ایسی کہ صورتِ نفس کلی کہا جائے، راضیہ ایسی کہ مرضیہ بھی اِس نسبت سے جُڑنے پر فخر محسوس کرے…..اِس قدر مخیرہ کہ خیراتیوں کے بھی بہتے آنسوؤں کے ساتھ ہاتھ یہ کہتے ہوئے رُک جائیں ’’کچھ گھرکے لیے بھی بچا رکھیے‘‘…..یہی تومخدومہ، دانیہ اور درۃ النور ہیں، یہی تو طاہرہ، زاہدہ، عابدہ اور عادلہ ہیں، اِن ہی کو تو عارفیہ،عالمہ، عالیہ اور ذکیہ کہا جاتا ہے، یہی تو راجح ہیں،ام السبطین اور مریم کبری ہیں اور یہی تو ام المصائب، بتول عذرا اور ناصبہ ہیں۔
یا اللہ! لڑکھڑاجائے وہ زبان جو شانِ زہرا میں تشکیک کی رگوں سے لہو پاتی ہو،کٹ جائے منہ میں گھومتا گوشت کا وہ ٹکڑا جسے شافع کی پیاری شافعہ کی تنقیص میں (معاذ اللہ) لطف آتا ہو، ڈھل جائے وہ نام جسے سب سے بڑے نام کے ادب کا پاس نہ ہو۔ اے میرے پروردگار زمین پر وہ سب ظالم ہیں جو ’’اپنے کہے سے رجوع نہیں کرتے‘‘ یہ اکڑ ہی تو تھی نا مالک! جس نے پہلے، دوسرے اور تیسرے آسمان پر لکھے عابد ، زاہد اور ساجد کو ہر آسمان پر ’’ابلیس‘‘ لکھوا کر راندہ درگاہ کرایا….. برسوں برس بیتنے کے بعد یہ جرات کس طرح آئی کہ محافظ ختم نبوت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اور صدائے تحفظ ناموسِ رسالت سیدنا فاطمۃ الزہرا ابیہا وعلیہا افضل الصلوۃ والسلام کے درمیان ’’امام شہاب زُہری‘‘ کی خودساختہ اگلی سطر کو قرآنی آیت کی طرح پڑھ کر صحابہ واہل بیت کے درمیان اختلاف کا ’’نیا ڈیزائن‘‘ متعارف کرائے….. بزرگوں نے بارہا سمجھایا ’’کم کھانا،کم بولنا اورکم سونا عبادت ہے‘‘ لیکن جہاں زبان توجہ دلائے جانے کے باوجود رکنے کو تیار نہ ہو۔
جہاں ایک مسلک سے نفرت بنیاد پرہم اپنے ہی شجر عشق کو جملوں کی تیزدھاری کلہاڑی سے کاٹنے کے درپے ہوں وہاں غیروں سے کیا شکوہ کیجے؟ہمارے ہاں احترامات فراواں کی بنا پر نام تو ’’فاطمہ‘‘ ہی لیاجاتا ہے اور چونکہ آپ امہات المومنین میں شمار نہیں کی جاسکتیں، اِس لیے آپ کو اُس طرح تو ہم ماں نہیں کہہ سکتے مگر اے خاتون جنت ! اے حسنین کریمین کی امی جان! اے مولائے کائنات کی کائنات ہم آپ کو ’’فاطی ماں‘‘ کہہ کر تو مخاطب کرسکتے ہیں نا ! اور کوئی بھی بیٹا اپنی ماں کی دانستہ و نادانستہ تضحیک برداشت کرے وہ بیٹا نہیں بلکہ جہالت کی سیج پر لیٹا وہ قسمت کا ہیٹا ہے جسے ماں کی نسبت کا واسطہ دینے کا بھی کوئی حق نہیں۔
میں جمالی ہوں نا جلالی، عالم ہوں نا فاضل لیکن 30 برسوں سے علما کے ساتھ محافل کرتے کرتے اتنا ضرورجان چکا ہوں کہ ’ نوکروں کوگھر کے معاملات میں بولنے کا اختیار نہیں، ہمیں اپنی اوقات میں رہنا چاہیے اوراوقات سے باہر نکل کر اپنی اوقات نہیں دکھانا چاہیے‘‘ تحدیث نعمت کے لیے عرض کیے دیتا ہوں کہ جہاں میڈیکل سائنس پڑھی ہے وہیں بعد میں تاریخ اسلام میں ماسٹرز بھی کیاہے،اُصول یہ نہیں کہ ایک حدیث پر اپنی علمیت کے پہاڑوں سے پتھر برسانے شروع کر دیے بلکہ اُصول یہ ہے، ذخائر احادیث کو سامنے رکھ کر تاریخی واقعات کے اسلوب میں ادب کی گرہیں لگا کر قربتیں بڑھائی جائیں اور فاصلے کم کیے جائیں….. دُرودی کبھی بارودی نہیں تھے نا جیکٹ سے نا زبان سے البتہ اب ہم میں اس قدر ’’جلالی‘‘ پیدا ہوگئے ہیں کہ ’’کافر‘‘ سے شروع ہوتے ہیں اور وافر مقدار میں جملے منہ میں بھر کر دھبڑدوس شروع کردیتے ہیں…..
خیال رکھنا! شہزادی کونین،کوکب دری، ولیہ، حاکمہ،حبیبہ، وافیہ، شاہدہ،شجر طیبہ،شفیقہ اور حجازیہ کی عزت کے تحفظ کے لیے ’’فاطمہ‘‘ کے نہیں ’’فاطی ماں‘‘ کے بیٹے آج بھی سر بہ کفن ہیں….. نہ اہل بیت کے خلاف سنیں گے اور نا ہی صحابہ کی توہین ہماری سماعتوں کے لیے قابل قبول ہے….. رجوع کرنا بڑے پن کی نشانی ہے، رجوع کرلیجیے تا کیونکہ آگے بیگم سے بھی رجوع کرنا ہے۔
The post فاطمہ …فاطی ماں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3f2ke6R
via IFTTT
No comments:
Post a Comment