رگھوجی بھوسلے ناگ پورکا مرہٹہ حکمران تھا۔ ازلی طورپر سفاک اوربے حس انسان۔ لوگوں پر ایسے ایسے ظلم ڈھاتاتھاکہ تاتاری بھی پناہ مانگتے۔ اس کے پاس انتہائی تیزحرکت کرنے والا لشکر تھا۔ فوج کی تربیت حیرت انگیزطرزپرکررکھی تھی۔ فوری حملہ پرحدرجہ توجہ دیتاتھا۔اس کے ایک کمانڈر کا نام بھسکرپنڈت تھا۔تمام فوجیوں کی ظالمانہ تربیت کی ذمے داری اسی شخص کی تھی۔یہ کرتے کیا تھے، جاننا ضروری ہے۔
بنگال کے شہروں، قصبوں اور دیہات پربجلی کی طرح حملہ آور ہوتے تھے۔تمام انسانوں کوکھڑے کھڑے قتل کر دیتے تھے۔ بچے، عورتیں، مرد،جوان،بوڑھے،کسی قسم کی تفریق کیے بغیر تمام کی گردن اُڑادیتے تھے۔ کیا ہندو اور کیا مسلمان۔ کوئی بھی محفوظ نہیں تھا۔سن 1740 زیادہ دور نہیں ہے۔صرف پونے تین سو برس پہلے کی بات ہے۔ لشکر انتہائی چابکدستی سے لوٹ مار کرتا تھا۔جس سرعت سے حملہ آورہوتے تھے اسی رفتار سے غائب ہوجاتے تھے۔بنگال میں لوگ رگھوجی بھوسلے کے نام سے کانپتے تھے۔اس لوٹ مار اور حملہ آوری کومقامی زبان میں بارگرگری کہا جاتا تھا۔
بنگال کاگورنر،نواب علی وردی خان بھی انکے سامنے بے بس نظرآتاتھا۔اس کی فوج نے کئی بار رگھوجی بھوسلے کے لشکرکوہرایا مگربھرپورشکست نہ دے سکا۔ مرہٹہ لشکر،یک دم یلغار کرتا تھا اور لوٹ مارکرکے غائب ہوجاتا۔ انتہایہ تھی کہ اگر معلوم ہوجائے کہ فلاں شہریاشخص کے پاس مال ودولت ہے تویہ فوراً حملہ کرکے شہرکے شہر اُجاڑ دیتے تھے۔ امیرلوگوں کے سرکاٹ کر دروازوں پر لٹکادیتے تھے۔بنگال کا دارالحکومت مرشدآبادبھی ان کی لوٹ مارسے نہ بچ پایا۔
بنگال کے امیرترین شخص کانام جگت سیٹھ تھا۔اس نے ساہوکاری اورسودکا زبردست نظام بنایاہواتھا۔اس کی ذاتی دولت، بینک آف انگلینڈکے اثاثوں سے زیادہ تھی۔ مارواری سیٹھ بھی بھوسلے کے ہاتھوں لُٹ گیا اوراس کی آنکھیں نکال کرقتل کردیاگیا۔مارشل نامی محقق نے لکھاہے کہ بھوسلے کے لشکرنے چارلاکھ انسانوں کوقتل کیا۔جولوگ اپاہج کیے گئے ان کا کوئی شمار موجود نہیں ہے۔بنگالی زبان میں ایک نظم تھی۔ جسکاترجمہ کچھ اس طرح کاہے۔
چڑیاں اناج کھاگئیں۔اب رگھوکوٹیکس کہاں سے دینگے!
ہماری تمام گندم توختم ہوگئی۔اب رگھوکوٹیکس کہاں سے دینگے!
کلکتہ جیسے شہرکولوٹ مارسے بچانے کے لیے اس کے اردگردکھڈاکھوداگیاتھاتاکہ مرہٹہ لشکرلوٹ مارکے لیے آبادی میں داخل نہ ہوسکے۔بہرحال کوئی بھی احتیاطی تدبیر،بنگال کورگھوجی بھوسلے سے محفوظ نہیں رکھ پائی۔دس برس میں اس معاشی دہشت گردنے بنگال کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔حدتویہ تھی کہ انگریز حکمران تک اسے پیسے دیکراپنے آپکو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔
شایدذہن میں ہوکہ یہ مرہٹوں کے لشکرکی لوٹ ماراورایک رہزن کے قصے سے ہماراکیا واسطہ۔ ہو سکتاہے کہ آپ درست سوچ رہے ہوں۔ پرعجیب بات ہے کہ مجھے تہترسالہ پاکستان کے استحصالی نظام اوررگھوجی کی لوٹ مارمیں حددرجہ مماثلت نظرآتی ہے۔مماثلت نہیں۔بلکہ حیرت انگیزیکسانیت نظرآتی ہے۔قیام پاکستان کے وقت، سیٹلمنٹ کے ذریعے جوڈاکہ زنی برپاکی گئی،اسے مجبوری میں نظر انداز کرکے گزشتہ تیس پنتیس برس کے طرزِحکمرانی کو پرکھیے۔
ہرسیاسی یاغیرسیاسی حکمران ہمیں انتہائی کامیابی سے بیوقوف بناکراپنے اثاثوں میں محیرالعقول اضافہ کرتا رہا ہے۔ہرطرح کی جذباتی فضاقائم کرکے، بھرپور طریقے سے پاکستانیوں کو لوٹتا رہا ہے۔ آخر میں خاموش ہوکر یا تو ملک سے باہر چلا گیا۔یا پاکستان ہی کے کسی بڑے شہرمیں گمنامی کی پُرتعیش زندگی گزارنی شروع کردی۔ویسے بادشاہ زیادہ بدنام ہوئے۔
مگر مصاحب اوردرباری سپھل رہے۔کسی بھی جگہ نام آئے بغیر،پردہ داری سے حلوامانڈا چلتا رہا جو ہنوز قائم ہے۔صرف یاددہانی کے لیے عرض ہے ہر واقعہ، ہرجزو تمام صاحبِ علم لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہے۔ کہاں سے شروع کروں۔خیالات کااسپِ عربی پتہ نہیں کس کس نامعلوم جنگل میں زبردستی لیجاتا ہے۔
1988کے الیکشن کو یاد کیجیے۔ لگتاتھاکہ ملک کی قسمت بدلنے والی ہے۔قوم کی تقدیر،مسلمان دنیاکی پہلی خاتون وزیراعظم کے سپردکردی گئی۔ پرہوا کیا۔ بات کرتے ہوئے مغموم ہو جاتا ہوں۔ مردِاول پر مالیاتی بے ضابطگیوں کے الزامات پہلے بیس پچیس دن میں لوگوں کے سامنے آنے شروع ہوگئے۔ 1977 سے1988 تک کاجبری روزہ جب توڑا گیاتوقوم کی چیخیں نکل گئیں۔
اپوزیشن اور میڈیا کی جانب سے حکومت پر کرپشن کے الزامات لگنے لگے۔ ہمارے جیسے آئیڈلسٹ لوگ گنگ ہوکررہ گئے۔ایوان وزیراعظم میں ایسے ایسے سوداگروں کی آمدورفت شروع ہوگئی جوکسی قسم کی تکریم کے قابل نہیں تھے۔یہ خبریں بھی اسی دور میں سننے میں آئیں کہ ایک شخص سے پیسہ وصول کرنے کے لیے،اس کی ٹانگ پربم باندھ کر بینک بھیج دیاگیا۔لندن کا سرے پیلس بھی عوام کی آنکھوں کے سامنے آگیا۔
کبھی ملکیت سے انکاراور پھر اقرار، یہ سب کچھ تمام لوگ جانتے ہیں۔مگرصرف آپکے سامنے معاملات یادداشت کی تازگی کے لیے رکھ رہا ہوں۔پنجاب میں میڈاِن پاکستان نے بطور وزیراعلیٰ، کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ایل ڈی اے جو سونے کی چڑیا گردانا جاتا تھا،اسے پلاٹوں کی بندر بانٹ کا مرکز بنا دیا گیا۔ پردہ گرا تو90 کوذہن میں لائیے۔قوم سے کیا کیاوعدے کیے گئے۔ہم نقلی دودھ اورجعلی شہدکی نہریں بہادینگے۔معاف کیجیے اصلی دودھ اور اصلی شہدکی نہریں۔مگر’’قرض اُتارو، ملک سنوارو‘‘ کے ذریعے اکٹھی ہونے والی رقم کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کہاں گئی۔
موٹروے کااعلان ہواتو غیرملکی محققین نے کرپشن پرکتابیں لکھ ڈالیں۔ جنکا بہرحال جواب تیس برس گزرنے کے بعدآج تک سامنے نہیں آپایا۔ہرترقیاتی منصوبہ میں کرپشن اور کک بیکس کی باتیں بھی سننے میں آتی رہیں۔ سرکاری ملازمین میں پسندیدہ افسران کو من مانی کی کھلی چھٹی دیدی گئی۔نتیجہ پھر صفردرصفر۔ عوام، منہ کھول کر صاف پانی، معیاری تعلیم اورصحت کی سہولتوں کے لیے ہمیشہ کی طرح خوارہوتی رہی۔ قصے درقصے،کہانیاں در کہانیاں، 1985 سے لے کرآج تک ہماری کم نصیبی کے دروازے پر بال کھولے موجودہیں۔
گزشتہ دس بارہ سالوں میں بھی کمال کی بے ایمانیاں کی گئیں۔ ایک ایساشخص ملک کی تقدیرکا مالک بن گیا، جس نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ وہ ایسے اعلیٰ منصب پر پہنچ سکتا ہے۔ قصرِصدارت کے دروازے معاشی ’’دوستوں‘‘ کے لیے کھول دیے گئے۔کوئی لوہے کا بادشاہ بن گیا۔توکوئی چاول کی دنیاکا شہنشاہ۔ سرکاری جہازپر دبئی آنا جانا معمول بن گیا۔
ان دوروں کے بارے میں بھی بڑے قصے کہانیاں مشہور ہوئے۔ ایسے ایسے انکشافات سامنے آئیں گے کہ آپ انگشت بدنداں رہ جائیں گے۔ عوام کومکمل بدحالی تک پہنچا کر،اٹھارویں ترمیم کالالی پاپ دیدیا گیا۔ اندر کا مقصدصاف تھاکہ وسائل کارخ اپنے صوبوں کی طرف کردیا جائے،تاکہ مرکزسے کچھ مانگنانہ پڑے۔یہ سب کچھ،اُصول پسندی،جمہوریت پرلازوال ایمان اورلوگوں کی بھلائی کے نام پرکیاگیا۔
اس دور میں بعض وزراء نے حیرت انگیز حد تک گل کھلائے اس میں میرے پیٹی بھائی یعنی سرکاری ملازم بھی شامل تھے۔ خوبصورت ماڈل سے ایئرپورٹ پر برآمد ہونے والی غیرملکی کرنسی کی اسمگلنگ کے قصے بھی حکومتی شخصیات سے جوڑے گئے۔ پنجاب میں برادرخورد نے بھی طوفانی طریقے سے اپنامیرٹ نافذکرڈالا۔ لاڈلے افسروں کی ٹیم بنائی۔
ان کی تنخواہ،دس سے بیس لاکھ ماہوارمقررکی گئی۔ پھر انھی کارندوں کے ذریعے بجلی کے کارخانوں، سڑکوں،گندم،بلکہ ہرشعبہ میں مال کمانے اور جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے کھربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے قصے بھی منظرعام پر آئے۔ ہر دور میں تمام غیرقانونی کام شفاف میرٹ کے تحت ہی ہوتے ہیں۔ یہ سب حرکات لوگوں کی فلاح کے لیے کی جاتی ہیں۔
اب تحریک انصاف کے لوگوں کی باری ہے۔ ان کی کرپشن اورانکے ساتھ منسلک افسروں کی انتہائی منصفانہ کرپشن کے چرچے ہرطرف ہیں۔ ہر روز، کوئی نہ کوئی بھیانک بات سامنے آتی ہے۔غربت مٹاؤپروگرام عروج پرہے۔ویسے ایک عرض ہے۔ رگھوجی بھوسلے لوٹ مارسے پہلے تمام لوگوں کو ایمانداری سے قتل کر دیتاتھا۔اسے صرف پیسے سے دلچسپی تھی۔مگرآج کے رگھوجی بھوسلے لوگوں کوپیسہ کمانے کے لیے زندہ رکھتے ہیں۔انھیں ظالمانہ طریقے سے سرکاری اور غیرسرکاری ٹیکس کانشانہ بناتے ہیں۔
عام لوگ اگرسانس لینگے توہی،آج کے مرہٹہ لشکرکی خواہشات پوری ہونگیں۔ اگریہ بیچارے عوام ظلم کے ہاتھوں مرگئے،تو پھر دہشت گردوں کایہ معاشی لشکرکہاں جائیگا۔ اس لیے، اس ملک میں سرجھکاکرصرف سانس لیتے رہیے۔ یہی آپکاادنیٰ سامقدرہے۔ویسے میری نظرمیں رگھوجی بھوسلے فکری طورپرحددرجہ ایماندارتھا؟کم از کم قتل کرکے قصہ توختم کردیتاتھا۔
The post رگھوجی بھوسلے حددرجہ ایماندارتھا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2OVD4C3
via IFTTT
No comments:
Post a Comment