خیرہ کن سائنسی ترقی نے جہاں انسان کی زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے وہیں دنیا کی تباہی کے ممکنہ طریقوں کے امکانات کو بھی بہت حد تک بڑھا دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے لے کر ایٹمی اسلحہ تک، انسان یقینا اپنے آپ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے بہت سے طریقوں سے واقف ہوچکا ہے۔
حالیہ برسوں میں سائنس دانوں نے متعدد بار خبردار کیا ہے کہ دنیا کا خاتمہ قریب ہے اور شاید اگلے سو سال تک ہماری یہ دنیا اور اس کے ساتھ ساتھ ہم خود یعنی انسان بھی نیست و نابود ہوجائیں۔ کہا جاتا ہے کہ تیسری جنگ عظیم جو ایک ایٹمی جنگ ہوگی، اس دنیا اور انسانوں کو ختم کردے گی۔ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک کے پاس 15,000 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جبکہ دنیا کو تباہ کرنے کے لیے صرف 50 تا 100 ایٹم بم ہی کافی ہیں۔ تو کسی ایٹمی حملے کے نتیجے میں یا فصلوں کو تباہ کرنے والے کسی وائرس اور یا پھر کسی وبائی مرض، آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ کی وجہ سے یا پھر بدلتے موسموں اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پڑنے والا قحط اس تباہی کے باعث ہوں گے؟ خوراک اور پانی کے ذخائر اگر ختم ہوجائیں تو لازماً قحط پھوٹ پڑے گا جو انسانیت کے خاتمے کا باعث بن جائے گا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا اور یہاں موجود زندگی کے اختتام کو صرف یہی خطرات لاحق ہیں یا ان کے علاوہ بھی کچھ ایسے امکانات موجود ہیں جو ایسی ہی تباہی لاسکتے ہیں۔ آئیے آج ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔
-1 غیر ارضی مخلوق سے رابطےCantacting Extraterrestrial Life)
SETI مخف ہے The Search For Extraterrestrial Life کا، جس کا مطلب ہے ’’غیر ارضی مخلوق کی تلاش‘‘۔ سائنس دان کسی دوسرے سیارے کی خلائی مخلوق سے رابطہ قائم کرنے کے لیے مسلسل خلا میں ریڈیائی سگنلز بھیج رہے ہیں۔ تاہم اسٹفن ہاکنگ جیسے چند سائنس دان اس عمل کو ایک خطرناک کھیل سمجھتے ہیں جو تمام نوع انسانی کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کولمبس امریکہ پہنچا تو اس نے وہاں کی مقامی آبادی کے بڑے حصے کا صفایا کردیا۔ اگر کوئی خلائی مخلوق زمین پر آتی ہے تو غالب امکان یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی کرسکتی ہے۔
-2 زمبی اپوکلیپس (Zombie Apocalypse)
’’زمبی‘‘ اس مردے کو کہتے ہیں جو زندہ ہوگیا ہو۔ اس موضوع پر ہالی وڈ نے کئی فلمیں بھی بنائی ہیں۔ گو یہ خیال کہ مردے زندہ ہوکر آگئے اور انہوں نے باقی زندہ انسانوں کو مارنا شروع کردیا، محال ہی لگتا ہے تاہم ایسی سائنسی توجیہات موجود ہیں جن کے مطابق ’’زمبی‘‘ کی طرح کا خیالی تصور حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ ’زندہ لاشوں‘ کے اس تصور کو سمجھنے کے لیے متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں، جیسے دماغ کے طفیلی کیڑے (جس کی ایک مثال گائیوں میں پائی جانے والی ’’میڈکاؤ‘‘ کی بیماری ہے)، نینوبوسٹس یعنی انسانی خلیے کے حجم کا وہ خود مختار روبوٹ جو اکیلا یا بہت بڑی تعداد میں انسانی جسم میں داخل کرکے اس سے کوئی اہم کام سرانجام دلوایا جاسکے۔ (ایسے روبوٹس کا ابھی باقاعدہ استعمال شروع نہیں ہوا) اور نیوروٹاکسن یعنی عصبی خلیوں میں پیدا ہوجانے والے زہریلے مادے۔ یہ وہ حقیقتوں ہیں جن کے ذریعے اس معاملے کو آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے۔ ان تینوں چیزوں میں سے کوئی ایک شے بھی انسان کو پاگل بنانے کا باعث بن سکتی ہے اور پھر ایسا انسان طیش میں آکر دیگر انسانوں کو قتل کرنا شروع کرسکتا ہے۔ سو، ضروری نہیں کہ یہ تصور محض تخیل ہی ہو، بلکہ یہ حقیقت بھی بن سکتا ہے۔
-3 کرہ ارض کے قطبین کی تبدیلی(Earth Pole Shift)
چند سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اگر زمین نے کبھی اپنے قطبین یعنی قطب شمالی اور قطب جنوبی کی پوزیشنز کو تبدیل کیا تو یہ عمل انسانوں کو خلا سے آنے والے مردہ ذرات کے سامنے غیر محفوظ بنادے گا اور یہ چیز انسانیت کی مکمل تباہی کے لیے کافی ہے۔ خیال یہ کیا جاتا ہے کہ یہی عمل مریخ پر بھی وقوع پذیر ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں اس کا مقناطیسی میدان کمزور پڑگیا اور یوں اس کا کرۂ فضائی شمسی ہواؤں سے بھرگیا۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ایسا ہی ہماری زمین کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
-4 خلائی بستیوں کی بغاوت(Space Colony Uprising)
امید ہے کہ خلائی بستیاں انسانوں کا ممکنہ مستقبل ہیں۔ ناسا (NASA) پہلے ہی سے اس پروجیکٹ پر کام کررہا ہے اور اس مقصد کے لیے مریخ کو چنا گیا ہے۔ چاند پر بستی بسانا بھی اسی منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ یہ خلائی بستیاں زمین پر انسانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور کوڑے کرکٹ کو کم کرنے کا ایک بہترین حل ہوسکتی ہیں مگر یہ کرۂ ارض کے لیے ایک مسئلے کا باعث بھی بن سکتی ہیں اور وہ یہ کہ اگر کسی خلائی بستی نے بغاوت کردی اور زمین پر ایٹمی حملہ کردیا تو پھر کیا ہوگا؟ کیونکہ ان خلائی بستی والوں کو تو اپنے ناپید ہوجانے کا کوئی اندیشہ یا ڈر خوف ہوگا نہیں۔ کیا خیال ہے یہ ملین ڈالر کا سوال ہے یا نہیں؟
-5 مصنوعی ذہانت(Artificial Intelligence)
کمپیوٹرز اور مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس پہلے ہی ہزاروں انسانوں کی نوکریوں پر قابض ہوچکے ہیں اور دکھائی یہ دیتا ہے کہ مستقبل میں انسانوں کے لیے زیادہ نوکریاں نہیں بچیں گی۔ بس ایک مرتبہ کمپیوٹرز کے ذی شعور اور انسانوں کی طرح جذبات اور محسوسات کو سمجھ سکنے کے حامل ہونے کی دیر ہے پھر بقول ’’ایلون مسک‘‘ (Elon Musk) اور اسٹیفن ہاکنگ جیسے دوعظیم سائنس دانوں کے، اس وقت انسانیت کا خاتمہ ہوجانے کا قوی خطرہ موجود ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے موٹر گاڑیوں کے آنے سے گھوڑے کی مسلمہ اہمیت ختم ہوکر رہ گئی تھی۔ اس بارے میں نظریہ یہ ہے کہ انسانوں اور مصنوعی ذہانت کے حامل کمپیوٹرز کا باہمی ملاپ ہوجانے سے یہ کمپیوٹرز ہم انسانوں سے زیادہ طاقتور اور ذہین ہو جائیں گے اور یہ انسانوں کو اپنے ساتھ ایک وسیع تر جنگ میں جھونک دیں گے۔
-6 مسکنوں کی تباہی(Habitat Destruction)
انسانی آبادیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی کھپت، جنگلی حیات کے مسکنوں کو مسلسل تباہ و برباد کررہی ہے۔ اس میں سمندر، جنگل، صحرا اور پہاڑ سب جگہیں شامل ہیں جو انسانی دست برد سے بچ نہیں پارہیں۔ جنگلی حیات کے ان مسکنوں کی تباہی کے ذریعے ہم انسان بڑی تیزی سے جنگلی حیات کی بہت سی اقسام اور نسلوں کو معدوم ہو جانے کے خطرے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اس سے قدرت کی طرف سے ہمارے کرہ ارض میں قائم شدہ حیاتیاتی سائیکل کا توازن بگڑنے کا اندیشہ ہے جویہاں پر زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اگر یہ توازن خراب ہوجاتا ہے تو یہ مشکلات اور مصیبتوں کی ایک پوری پوٹ کو دعوت دینے کے مترادف ہے، جن میں قحط سالی سے لے کر عالمی معیشت کے انہدام تک بہت سی چیزیں شامل ہیں۔
-7 سورج کا بجھ جانا (Solar Shut Down)
ویسے تو سائنس دانوں کا ماننا یہ ہے کہ سورج پانچ بلین سال تک یونہی چمکتا دمکتا رہے گا اور دوسرے سیاروں کے ساتھ ساتھ ہماری زمین کو بھی ایک بلین برس تک حرارت مہیا کرتا رہے گا جو یہاں پر موجود زندگی کی بقا کے لیے ازحد ضروری چیز ہے۔ تاہم یہ امکانات بھی ہمیشہ سے موجود رہے ہیں کہ اندازوں کے برعکس سورج کی موت قبل از وقت ہی وقوع پذیر ہوجائے۔ اس خطرے کی وجہ یہ ہے کہ سورج اکثر و بیشتر اچانک ہی اپنے اوسط درجہ حرارت کی نسبت کچھ ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ اگر کبھی ایسا ہوا کہ سورج ٹھنڈا ہی ہوتا چلا گیا اور دوبارہ گرم نہ ہوا تو یقینا زمین پر حیات منجمد ہوکر رہ جائے گی اور یوں سورج کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ پیارا سیارہ بھی بجھ کر رہ جائے گا۔
-8 عظیم الشان آتش فشاں(Super Volcano)
ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک ٹک ٹک کرتے ہوئے ٹائم بم پر بیٹھے ہیں جس کا نام ’’ارتھ کور‘‘ (Earth’s Core) یعنی زمین کا اندرونی مرکزی حصہ ہے جو ابھی بھی انتہائی گرم ہے۔ آج سے تقریباً 75,000 سال پہلے زمین کے اس مرکزی حصہ سے گرم گرم لاوا بہت شدت کے ساتھ زمین کی بیرونی سطح (جو اس وقت زیادہ تر سمندری پانی پر مشتمل تھی) کو پھاڑ کر باہر نکلا اور اس نے ٹھنڈا ہونے پر سخت ہوکر زمین کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اسی جگہ
پر آج کل موجودہ بھارت واقع ہے۔ اس واقعہ نے مگر زمین پر بسنے والی تقریباً 95% انواع کا صفایا کردیا۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ اگلے 80 سالوں میں ایسا ہی ایک اور واقعہ رونما ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ خوش قسمتی سے آج ہم سائنسی لحاظ سے اس قابل ہیں کہ اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو ہمیں قبل از وقت ہی اس کے متعلق پتا چل جائے گا کیونکہ امریکا کا جیولاجیکل سروے ڈیپارٹمنٹ اس تمام تر صورت حال پر پوری طرح سے نظر رکھے ہوئے ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ آئندہ اس طرح کے کسی واقعہ کے رونما ہونے کی صورت میں بہرحال زمین پر موجود زندگی بڑے پیمانے پر اجڑ جائے گی۔
-9 روکے نہ جاسکنے والے وبائی امراض (Unstoppable Panemic)
چاہے یہ SARS (سانس گھٹنے کی وبائی بیماری) ہو یا H1 N1 (زکام کی ایک شدید قسم)، ’’ایبولا (Ebola) (اندرونی و بیرونی اخراج خون کا وبائی مرض جس کا اثر گردوں اور جگر پر ہوتا ہے) ہو یا ’’زیکا‘‘ Zika وائرس (جو ڈینگی کی طرح کا ایک وبائی بخار ہے) ہو، اس بات کا قوی امکان ہے کہ کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑے جسے بدقسمتی سے ہم روکنے کے لیے پوری طرح تیار ہی نہ ہوں۔
آج اکثر امراض انٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بالفرض کوئی مرض ہماری ادویات کے خلاف مدافعتی نظام بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور وہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلانا شروع ہوجاتا ہے تو یقینا وہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر اتھل پتھل کر دے گا۔ اس کی وجہ سے معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے گا اور سماجی زندگی کا بیڑا غرق ہوجائے گا۔ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں محصور اور اپنے گھروں میں قید ہوکر رہ جائیں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس مرض کے متاثرین کے علاوہ ان دیگر عوامل کی وجہ سے فسادات پھوٹ پڑیں گے، ہر طرف افراتفری اور بے چینی پھیل جائے گی اور جنگیں شروع ہوجانے کا بھی اندیشہ ہے جن کی وجہ سے مزید لوگ موت کا شکار ہوجائیں گے۔
-10 بڑھتی ہوئی آبادی (Overpopulation)
ہماری زمین پر پائے جانے والے وسائل محدود ہیں، جنہیں انسان بڑی بے دردی کے ساتھ بے دریغ خرچ کررہا ہے۔ ایک ایوارڈ یافتہ سائنس دان کا دعویٰ ہے کہ زمین پر بڑھتی ہوئی آبادی یقینا ہمیں لے ڈوبے گی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی روز افزوں ترقی اس کی ایک اہم وجہ ہے، جس کی بدولت انسانوں کی اوسط عمر میں کافی اضافہ ہوگیا ہے۔ دنیا کی کل آبادی اس وقت تقریباً سات ارب کے قریب ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ جب نو ارب سے تجاوز کرجائے گی تو ہر انسان کے لیے خوراک مہیا ہونا بہت مشکل ہوگا۔ وسائل کی کمی کے باعث معیشت مفلوج ہوجائے گی اور یہ صورتحال بالآخر دنیا بھر میں بھوک کے ایک بھیانک عفریت کو جنم دے گی جو دنیا کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔
-11 نینوٹیکنالوجی کی آفت(Nanon Technology Disaster)
نینوٹیکنالوجی وہ صلاحیت ہے کہ جس کے ذریعے ایک ایٹمی ذرے جتنے چھوٹے کمپیوٹرز بنائے جاسکتے ہیں۔ سائنس دان اس ٹیکنالوجی کو مزید بہتر بنانے پر کام کررہے ہیں تاکہ ان کمپیوٹرز کو انسانی جسم میں داخل کر کے اس کے امیون سسٹم یعنی مدافعتی نظام کو مدد دے کر کینسر اور دیگر موذی امراض کا علاج کیا جاسکے۔ دوسرے کئی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ ننھے کمپیوٹرز اور بھی کئی مقاصد اور چیزیں بنانے کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ابتدائی کام اور تحقیق جاری ہیں۔
دوسری طرف بہت سے سائنس دان ایسے بھی ہیں جن کا ماننا یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی سب کچھ لپیٹ دے اور اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو بھسم کردے کیونکہ جس طرح انسان مصنوعی ذہانت والے روبوٹس اور کمپیوٹرز بنانے کے لیے کوشاں ہے اور نت نئے تجربات اس ضمن میں کیے جارہے ہیں ان میں یہ تجربہ بھی شامل ہے کہ انسانی جین اور مشین کے اختلاط سے ایک انسان نما روبوٹ یا کمپیوٹر تخلیق کیا جائے جس میں انسان اور کمپیوٹر دونوں کی خصوصیات ہوں اور وہ باقاعدہ اپنی نسل کو بھی آگے بڑھاسکے۔ سو، خطرہ یہ ہے کہ یہ انسان نما کمپیوٹر خودمختار ہو کر بے قابو ہو جائے اور یہ تمام عمل دنیا کی تباہی کا سبب بن جائے۔ تاہم سائنس دان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظریہ تکنیکی طور پر ممکن ہے اور یقینا ٹیکنالوجی انسانی زندگی کے لیے آسانیوں کی حامل ہوسکتی ہے۔
-12 شہاب ثاقب کے اثرات(Asteroid Impact)
کسی شہاب ثاقب کا زمین سے ٹکرا جانا دنیا کے خاتمے کا وہ پہلا حقیقی خطرہ ہے جو اس امکان میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی موثر صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ خلا کے اندر تیرتے بے شمار شہاب ثاقب کسی بھی وقت ہماری زمین کا رخ کرسکتے ہیں اور ان کو روکنے کا کوئی بھی طریقہ موجود نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے شہاب ثاقبوں کے زمین پر گرنے کی وجہ سے ہی ڈائنوسارز کی نسل دنیا سے نیست و نابود ہوگئی تھی۔ اسی لیے اب بھی اگر کوئی شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا تو یہ نا صرف انسان بلکہ یہاں بسنے والی دوسری مخلوقات کو بھی تباہ و برباد کردے گا۔
بدقسمتی سے ہالی وڈ والے ایسے موضوعات پر فلمیں بنانا تو بہت پسند کرتے ہیں لیکن ان فلموں میں وہ اس خطرے کا حل یہ دکھاتے ہیں کہ ان شہاب ثاقبوں کو خلائی اسٹینوں میں موجود خلا بازوں کی مدد سے یا پھر زمین سے خلا میں مار کرنے والے ایٹمی میزائلوں کے ذریعے خلا میں ہی تباہ کرکے اس مسئلے کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ’’ناسا‘‘ کے پاس زمین کی طرف بڑھتے ہوئے کسی شہاب ثاقب کو روکنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔ اگر کوئی شہاب ثاقب زمین کی طرف بڑھے تو پھر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ ہاں، اچھی بات مگر یہ ہے کہ کسی شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔
-13 گاما شعاعوں کا پھوٹ پڑنا (Gamma Ray Burst)
گاما شعاعوں کی پھوار توانائی کی ایک انتہائی تیز رفتار، طاقتور اور منہ زور ندی کی مانند ہوتی ہے جو ایٹمی ذرات تک کو تباہ کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر اپنے راستے میں آنے والی کسی بھی چیز کو ختم کردینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ سورج سے گاما شعاعوں کی ہلکی ہلکی پھوار ہر وقت پھوٹتی رہتی ہے مگر زمین کے اردگرد موجود غلاف، جسے ’’اوزون‘‘ کہتے ہیں اس پھوار کو روکنے کے لیے ایک عمدہ ڈھال کا کردار ادا کرتی ہے۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ انسان اپنی صنعتی ترقی اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی تعیشات کے حصول کے لیے اس انتہائی ضروری اور اہم حفاظتی حصار یعنی اوزون کو کمزور کرنے پر تلا ہوا ہے۔
فرض کریں کہ اگر ہم سے ایک ہزار نوری سالوں کے فاصلے پر موجود کوئی ستارہ ٹوٹ کر کسی بلیک ہول میں جاگرتا ہے تو اس کے نتیجے میں گاما شعاعوں کا بڑے پیمانے پر اخراج ہوسکتا ہے اور اگر ان شعاعوں کا رخ ہماری زمین کی طرف ہوجائے تو یہ ناصرف ہماری زمین بلکہ ہماری پوری کہکشاں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کافی ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ ایسا کچھ ہوتا ہے تو ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے جو ہمیں بروقت اس خطرے سے آگاہ کرسکے۔ جب تک ہمیں اس بات کا علم ہوگا اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی لیکن خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات رونما ہونے کے امکانات بھی بہت قلیل ہیں۔
-14 جنیاتی طور پر ترمیم شدہ غیر معمولی انسان (Genetically Modified Superhumans)
جنیاتی انجینئرنگ کے کمالات کا سورج طلوع ہوتے ہی سائنس دان تمام نومولود بچوں میں جیناتی تبدیلی کرکے انہیں آج کے انسان کے مقابلے میں مزید ہوشیار تر، تیز و طرار، ذہین و فطین اور مضبوط ترین روپ دینا شروع کردیں گے۔ یہ نئی نسل انسانی جو بہت ذہین اور غیر معمولی ہوگی، یقینی طور پر نوع انسانی کے اپنے ان ہم نسلوں کو جو ان کے مقابلے میں پسماندہ ہوں گے، ناکارہ اور دھرتی پر بوجھ سمجھتے ہوئے آہستہ آہستہ ختم کردیں گے تاکہ ان جیسی غیر معمولی صلاحیتیں رکھنے والی نئی نسل انسانی کے لیے جگہ بن سکے اور صرف وہی زمین کے وسائل سے فائدہ اٹھاسکیں کہ یہی نظر ارتقاء کا اصول ہے۔
-15 موسمیاتی تبدیلیاں (Climate Change)
اچھی بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مضمرات کا ادراک دنیا کے بیشتر سائنس دانوں کے علاوہ عالمی لیڈروں کے دل و دماغ میں موجود ہے۔ دنیا کو لاحق خاتمے کے خطرات کی فہرست میں سب سے پہلا نمبر موسمیاتی تبدیلیوں کو حاصل ہے۔ تاہم چند سائنس دان پر امید ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اس عمل کو دھیما یا کم کیا جاسکتا ہے اور شاید ممکنہ طور پر الٹ یا واپس بھی کیا جاسکتا ہے جبکہ دوسرے سائنس دانوں کے خیال میں یہ سب کچھ عبث ہے اور بہت دیر ہوجانے کی وجہ سے اب اس معاملے کو سدھارنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کی کوششیں نہ کی گئیں تو موسموں کے مزید شدید ہونے، خشک سالی، قحط اور ان سب کے نتیجے میں ہونے والی جنگلوں سے بچنا محال ہوگا اور یہ سب بد سے بدتر ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ نسل انسانی اس کرۂ ارضی سے معدوم و ناپید ہوجائے گی۔
zeeshan.baig@express.com.pk
The post اگلے 100 سالوں میں دنیا تباہ ہو جائے گی ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KqWkYo
via IFTTT
No comments:
Post a Comment