Sunday, July 1, 2018

پہلے وزیراعظم کو غیرمعمولی چیلنجز کا سامنا تھا ایکسپریس اردو

25 جولائی 2018 کوپاکستان میں ایک بار پھر انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھر پور انداز میں ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دئیے جانے والے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ کے سابق صدر جو بہرحال مسلم لیگ ن کے قائد ہیں اور اپنی اس حیثیت میں الیکشن مہم چلا رہے اور یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ چاہے وہ جیل چلے جائیں یہ الیکشن بقول ان کے آئین کی بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر مسلم لیگ ن نے لڑنا ہے اور ووٹ کی بنیاد پر یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ ان کے خلاف کی جانے والی کاروائی درست تھی یا نہیں۔ اگرچہ اس انداز سے مسلم لیگ ن کے کچھ لیڈر توہین عدالت کے الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔

یوں انتخابات میں حصہ لینے والی مختلف جماعتوںکے ان انتخابات میںاپنے اپنے منشور بھی ہیں اور ایک دوسرے پر قومی دولت کو نقصان پہنچانے کے اعتبار سے الزامات بھی ہیں۔ ہمارے ہاں الیکشن اور وزیراعظم بننے کی تاریخ 1945-46 ء کے متحدہ برطانوی ہندوستان کے آخری انتخابات اور پھر اس کے نتیجے میں بر صغیر کی تقسیم پاکستان اور بھارت کے قیام اور پھر14 اگست 1947 ء میں پاکستان کے بننے اور پھر اس کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کے بننے اور اسکے بعد پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے پہلے وزیر اعظم منتخب ہونے کے دن سے شروع ہوتی ہے۔ یوں انتخابات کی تاریخ 72 سال کی ہے اور وزیراعظم بننے کی تاریخ کے حوالے سے ہماری تایخ71 سال پرانی ہے۔

عام انتخابات کے حوالے سے ہم اس تاریخ میں اس کا جائزہ لیں گے کہ انتخابات کے اعتبار سے ہماری تاریخ میں ہمارے منتخب ہونے والے وزرا اعظم نے انتخابات میں کیا کیا وعدے کئے ان کو کس حد تک پورا کیا ؟ لیڈروں نے حزب اقتدار اور حزب ِاختلاف میں رہتے ہوئے کیسے کیسے الزامات ایک دوسرے پر عائد کئے اور پھر اقتدار ملنے پر کتنی بار کرپٹ حکمرانوں کے خلاف پارلیمنٹ کی جانب سے اقدامات کئے گئے اور ملک میں بددیانتی ،،کرپشن ،،کو روکنے کے لیے کیا کاروائیاں عمل میں لائی گئیں۔

الیکشن کے لحاظ سے اگرچہ1937 کے وہ انتخابات بھی تاریخی اہمیت رکھتے ہیں جو 1935 ء کے قانون ہند کے تحت برطانوی ہندوستان کے پہلے انتخابات تھے جو اگرچہ ہند وستان کے گیا رہ صوبوں میں ہوئے تھے اور مرکزی قانون ساز اسمبلی کے لیے انتخابات نہیں ہوئے تھے لیکن ان انتخابات میںآل انڈیا کانگریس نے نو صوبوں میں واضح اکثریت حاصل کی تھی اور باقی دو صوبوں میں دوسری مقامی جماعتوں کے ساتھ مل کر وزارتیں تشکیل دی تھیں۔ ان انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو بد ترین شکست ہوئی تھی اور انتخابات میں کامیابی کے بعد کانگریس نے صوبوں میں مسلمانوں کے ساتھ ملازمتوں اور دیگر شعبوں میں نہایت متعصبانہ سلو ک روا رکھااور جب دوسری جنگ عظیم کے آثار نمایاں ہونے لگے تو انگریزوں پر دباؤ ڈالا کہ کانگریس سے انگریز یہ عہد کریں کہ جنگ کے بعد وہ ہندوستان کو آزاد کرکے کانگریس کے حوالے کردیں گے اور 1939 ء میں جب جنگ شروع ہو رہی تھی تو کانگریس نے وزارتوں سے استعفے دے کر پرتشدد تحریک شروع کردی۔

اس وقت ہندوستان کی برطانوی فوج تقریبا 32 لاکھ ہندوستانیوں پر مشتمل تھی جن میں ایک واضح اکثریت مسلمانوں کی تھی لیکن اہم یہ ہے کہ ہندوستان کے جن علاقوں سے یہ فوجی بھرتی کئے جاتے تھے وہاں ان جوانوں کو فوج میں بھرتی کروانے اور انگریز کی خاطر دنیا کے مختلف محاذوں پر لڑنے پر آمادہ زیادہ تر ان علاقوں کے جاگیر دار کیا کرتے تھے۔

یوںدوسری جنگ عظیم کے موقع پر جب کانگریس نے عدم تعاون کی تحریک شروع کی تو ایک جانب مسلم لیگ نے اس کا ساتھ نہیں دیا کہ مسلم لیگ یہ جانتی تھی اس کے نتیجے میں جب انگریز ہندوستان کانگریس دے جائے گا تو پھر کانگریس مسلمانو ں کے ساتھ وہی سلوک کرے گی جو اس نے 1937 ء سے 1939 ء تک کیا تھا۔ یوں جب لارڈ ویول نے 19 ستمبر1945ء کو برطانوی ہندوستان میں انتخابات کا اعلان اور پھر دسمبر1945 اور جنوری 1946 کے صوبائی اور مرکزی قانون سازی کے انتخابات ہوئے توان انتخابات سے صرف چھ سال پہلے ہی 23مارچ 1940 ء کو لاہور میں قرار داد لاہور جو بعد میں قرار داد پاکستان کہلا ئی منظور ہوئی اور پھر چھ سال کی بھر پور جدوجہد کے بعد مسلم لیگ نے بر صغیر کے مسلمانوں کی حمایت سے اس وقت کی دنیا کے اعتبار سے سب سے بڑی مسلم آبادی کا ملک بنا کر آزاد کروالیا۔

تحریک آزادی میں لیا قت علی خان نے اہم کردار اد اکیا۔ نوابزاد لیاقت علی خان 1926 میں مظفر نگر سے پرونشل لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتحب ہوئے۔ اسی دور میں ان کو پہلے آل انڈیا کانگریس نے پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی اس کے بعد قائد اعظم نے انہیں مسلم لیگ میں شمولیت کے لیے کہا تو وہ مسلمانوں کے مفاد کی خاطر فورا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔

یہ دور عجیب دور تھا اس وقت دنیا میں صرف تین اسلامی ملک آزاد تھے، ترکی جہاں 1918 ء میں پہلی جنگ عظیم کے خاتمے تک خلافت عثمانیہ تھی وہاں اتاترک مصطفی کمال پاشا نے انگریزوں کی پیش قدمی کو روک کر ترکی کی آزادی کو محفوظ کرلیا تھا، دوسرا ملک افغانستان تھا جسے روس اور برطانوی ہند کے درمیان بفر اسٹیٹ قرار دیا گیا تھا اور تیسرا ملک آج کا سعودی عرب تھا۔ انگریزوں کا خیال تھا کہ اگر مکہ اور مدینہ کی مقدس سر زمین پر کسی غیر مسلم ملک کا قبضہ ہوا تو اس سے دنیا بھر کے مسلمان اکھٹے ہوکر اس کا مقابلہ کریں گے۔ یہاں ہندوستان میں تحریک خلافت کے زخم ابھی تازہ تھے اورگاندھی کی بے رخی سامنے تھی۔ دنیا میں سیاسی، اقتصا دی تبدیلیاں آرہی تھیں۔

لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1895 ء کو بھارتی مشرقی پنجاب جو اب ہریانہ کا علاقہ ہے اس کی ریاست کرنال کے نواب رستم علی خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا نسلی تعلق ایران کے قدیم بادشاہ نوشیر وان سے تھا یہان ریاست کرنال میں ان کے 60 گاؤں تھے جب کہ اس کے علاوہ ان کی جاگیر میں 300 گاؤں ان کی ملکیت میں تھے۔ انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی لندن سے قانون اور سیا سیات میں ا علیٰ تعلیم حاصل کی۔

یوں لیاقت علی خان شروع ہی سے قائد اعظم محمد علی جناح کے دست ِ راست تھے۔ 1926 ء کے فورا بعد 1928 ء میں جب موتی لال نہرو نے اپنی مشہور نہرو رپورٹ پیش تو کانگریس کی جانب سے مسلم لیگ سے مشاورت کے بغیر ہی یہ رپورٹ پیش کی گئی تھی اور اس میں 1916 ء کے میثاق لکھنو کو سرے سے رد کر دیا گیا تھا۔ اس موقع پر قائد اعظم اور لیاقت علی خان نے یہ طے کیا کہ اس مسئلے پر نہرو سے ملاقات کی جائے اور دسمبر 1928ء میں قائد اعظم نے لیاقت علی کے ساتھ کانگریس کے موتی لا ل نہرو سے ملاقات کی اور پھر جب کانگریس کے فریب کو دیکھ لیا تو قائد اعظم نے لیاقت علی خان کی مشاورت ہی سے 1929 میں ا پنے مشہور چودہ نکات پیش کئے تھے۔

قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی نظریں عالمی سطح پر بدلتی ہوئی تبدیلیوں پر بھی تھیں اور اس کے مشاہد ے پر ہندو ستان میں کانگریس اور خصوصا موہن داس کر م چند گاندھی اور موتی لال نہرو کی پالیسیوں پر بھی نظر رکھے ہوئے تھے، عالمی سطح پر عالمی کسادی بازاری کا اثر اب نمایاں ہو رہا تھا اور یہ بھی معلوم ہو رہا تھا کہ دنیا پھر ایک بڑی جنگ کی طرف جا نے والی ہے اور انگریز یہ جانتا تھا کہ برصغیر کے معاملات اس طرح طے کرنے ہیں کہ ان کا اقتدار یہاں قائم رہے اور جب وہ رخصت ہوں تو ان کے لیے کوئی بڑی تباہی منہ کھو لے کھڑی نہ ہو۔ یوں 1930 ء میں جب رمزے میک ڈونلڈ بر طا نیہ کے وزیر اعظم تھے تو قائد اعظم نے اس وزیراعظم اور وائسراے کو لندن میں ہندوستان کے لیڈروں کی گول میزکانفرنس کروانے کا مشورہ دیا اور پھر اس پہلی گول میز کانفرنس میں لیا قت علی خان کے ساتھ شرکت کی مگر پھر یہ سال مسلم لیگ کے لیے تباہ کن ثابت ہوا کہ قائد اعظم نے ناراض ہو کر مستقل طور پر برطانیہ میں رہنے کا فیصلہ کرلیا۔

قائد اعظم کے اس فیصلے کی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں میں مایوسی اور بد دلی تھی تو اس دور میں لیاقت علی خان نے یہاں مسلم لیگ کی قیادت کی اور علامہ اقبال کی طرح ان کی بھی یہ کوشش رہی کہ قائد اعظم دوبارہ ہندوستان آئیں اور مسلمانوںکی قیادت کریں لیکن قائد اعظم کی عدم موجودگی میں مسلم لیگ کے امور اور دیگر معاملات کو لیاقت علی خان نے دیکھا۔ 1931 ء میں لیاقت علی خان کی ملاقات 26 سالہ نوجوان خاتون پروفیسر شیلا ایرنا پینٹ سے ہوئی جو خوبصورت ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ خاندانی پس منظر رکھتی تھیں، ان کے والد ہندو سے عیسائی ہوئے تھے، یوں لیاقت علی خان نے اس خاتون سے دوسری شادی کر لی اور اسلام قبول کرنے کے بعد وہ بیگم رعنا لیاقت علی خان ہو گئیں۔

بیگم رعنا لیاقت علی خان اپنے شوہر سے دس سال چھوٹی تھیں، انہوں نے کلکتہ کے ڈکوسیسان کالج اور لکھنو یونیورسٹی سے سوشیالوجی معاشیات،ایجوکیشن میں ما سٹر کی ڈگریاں حاصل کی تھیں، وہ ایک زبردست ماہر تعلیم اور ماہر اقتصادیات تسلیم کی جاتی تھیں، یوں یہ نوجوان تعلیم یافتہ جوڑا اپنی زبردست دانشورانہ اور قائد انہ صلاحیتوںکی وجہ سے بورے برصغیر میںجا نا پہچانا جاتا تھا۔1936ء میں قائد اعظم، علامہ اقبال کی درخواست پر ہندوستان واپس آئے۔

اگر چہ 1937 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو بری شکست ہوئی لیکن اس کے بعد 1939 ء میں مسلم لیگ برصغیر میں مسلمانوں کی نمائندہ اور سب سے بڑی جماعت بن چکی تھی 1940ء میں لیاقت علی وہ مسلم لیگ کے ڈپٹی لیڈر اورآنریری سیکرٹری بن گئے۔ اسی سال قرار داد پاکستان لاہور میں منظور ہوئی۔ 1940 ء ہی میں دوبارہ لیجسلیٹیو کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔

موسم سرما 1945-46 ء کے عام انتخابات میں لیا قت علی خان میرٹ سے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان الیکشن میں مسلم لیگ نے87% سے زیادہ مسلم نشستیں حاصل کیں تو ہندوستان میں حکومت کی تشکیل کے لیے لیاقت علی خان سمیت ابراہیم اسماعیل چندریگر، غضفر علی، سردار عبدالرب نشتر،اور جو گندر نا تھ منڈل کے نام مسلم لیگ کی جانب سے دئیے گئے۔

لیاقت علی خان کو کابینہ میں متحدہ ہندوستان کا وزیر خزانہ بنا یا گیا۔ وہ اس عہدے پر 1946 سے اگست 1947 ء فائز رہے۔ متحدہ ہندوستان کے آخری انتخابات میں 1585 نشستوں میں سے کانگریس نے 58.23% نشستیں یعنی کل 923 نشستیں حاصل کیں، مسلم لیگ دوسرے نمبر پر رہی جس نے 26.81% نشستیں یعنی کل425 نشستیں حاصل کیں۔ علاقائی مذہبی جماعتوں نے 123 نشستیں حاصل کیں جن میں کیمونسٹ پارٹی نے 108 حلقوں سے امیدوار کھڑے کئے تھے مگر صرف 8 نشستیں حاصل کر سکی۔

ان کے علاوہ 114 آزاد ارا کین کامیاب ہوئے چونکہ مسلم نشستوں پر مسلم لیگ نے 87 % سے زیادہ کامیابی پاکستان کے مطالبے پر حاصل کی تھی اس لیے یہی انتخابی نتائج قیام پاکستان اور ہماری آزادی کی بنیاد بنے اور اس کامیابی میں دو بنیادی نکات تھے، ایک یہ کہ1937 سے 1939 تک کانگریس کی حکومت کا وہ تجربہ جو ہندوستان کی مسلم اکثریت کے لیے بہت تلخ رہا تھا اور دوسرا نکتہ یہ تھا کہ مسلم لیگ نے حیرت انگیز طور پر کامیاب الیکشن مہم چلائی تھی۔ پنجاب میں علیگڑھ یونیورسٹی سے ڈھائی سو سے زیادہ مسلم لیگ اسٹوڈنٹس پنجاب آئے اور یہاں پنجاب کے پندرہ سو سے زیادہ مسلم لیگ اسٹوڈنٹس کو تیار کیا تھا۔

یوں بہت تھوڑے سے عرصے میں مسلم لیگ نے پورے ہندوستان میں الیکشن کی بہت اچھی اور کا میاب مہم چلائی، پاکستان نہ صرف انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا بلکہ یہ ایک نیا ملک بنا، اس کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ 14 اگست 1947 ء سے پہلے ہندوستان ایک ملک تھا جس کا دارالحکومت دہلی تھا اور مرکزی حکومت کے تمام ہیڈ آفسز دہلی میں تھے۔ مارچ 1947 ء کو وائسراے لارڈ ویول رخصت ہوئے اور ان کی جگہ ہندوستان کے آخری وائسراے لارڈ ماونٹ بیٹن ہندوستان آئے اور 3 جون کو اعلان آزادی کردیا جب کہ 18 جولائی 1947 کو برطانیہ کی پارلیمنٹ نے ہندوستان کے لیے قانون آزادی ہند منظور کر لیا۔ یوں پہلے تو نئے ملک پاکستان کا نیا دارالحکومت فوری طور پر کراچی بنایا گیا اور یہاں پہلے قائد اعظم نے پہلے گورنر جنرل کا عہدہ لارڈ ماونٹ بیٹن سے حاصل کیا۔ اس کے بعد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان ہوئے اور بیگم رعنا لیاقت علی خان ملک کی پہلی خاتون اول ہوئیں، قائد اعظم کی وفات11 ستمبر 1948 ء کے بعد خوا جہ ناظم الدین گورنرجنرل ہوئے اور 16 اکتوبر 1951 ء تک گورنر جنرل رہے۔

لیاقت علی خان کی کابینہ میں وزیر امور خارجہ سر ظفراللہ خان،خزانہ اقتصادیات کے وزیر ملک غلام محمد ،انصا ف،قانون اور محنت کے وزیر جوگنداناتھ منڈل، وزارت داخلہ فضل الرحمن، دفاع کے وزیر اسکند ر مرزا ہوئے۔ واضح رہے کہ 18 جولائی 1947 کے قانون ہند میں بھارت اور پاکستان ایک سال تک 1935 کے قانون ہند کو نافذالعمل کرنے کے پابند تھے۔ بھارت نے غیر تحریری معاہدے کے تحت لارڈ ماونٹ بیٹن کو اپنا گورنر جنرل بنایا اور ہمارے ہاں فوج کمانڈر انچیف پہلے جنرل سر فرنک میسوری اور ان کے بعد جنرل ڈیگلس گر یسی ہوئے، اس کے علاوہ چونکہ اس وقت بھارت اور پاکستان میں اعلیٰ سطح کے افسران کی قلت تھی اس لیے آزادی کے دس بارہ برس تک دونوں ملکوں میں بہت سے انگریز افسران رہے۔ نئے ملک پاکستان نے سب کچھ نیا بنانا تھا اور اس تعمیری عمل میں بھارت نے ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کیں۔

نہری پانی کو روک دیا گیا، اثاثوںاور فوجی سازوسامان کی تقسیم میں تاخیر اور انتہا درجے کی بددیانتی کی گئی یہاں تک ہندوستان کے مرکزی بنک کے پاس کل سرمایہ چار ارب روپے تھا جس میں سے پاکستان کا حصہ ایک ارب روپے بنتا تھا لیکن نہایت تاخیرسے اس میں سے صرف بیس کروڑ روپے دئیے گئے اور ساتھ ہی قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ بھی ڈال دیا گیا۔

قیام پاکستان کے فورا بعد مسئلہ کشمیر پر دونوں ملکوں کے درمیان 1947-48 میں پہلی جنگ ہوئی۔ قائد اعظم  وسط جولائی میں بیماری کی شدت کی وجہ سے زیارت منتقل ہوگئے تھے اور یہاں ان کے ساتھ انکی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ان کے معالج الہیٰ بخش تھے اور اس دوران ضروری امور کے لیے فائلیں کوئٹہ سے ہوتی ہوئی زیارت جاتی تھیں۔ اس زمانے میں بعض شخصیات کے مطابق قائد اعظم نے بطور وزیراعظم ان کے کچھ فیصلوں کو کمزور قرار دیا، خصوصا بھارت کے حوالے سے جو اقدامات جنگ کے دوران لیاقت علی خان نے کئے تھے۔

قائد کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نہ صرف تنہا رہ گئے تھے بلکہ قائد اعظم جیسی قد آور شخصیت کے چلے جانے کے بعد ان کو اعلیٰ سطح پر بھی بڑی شخصیات سے تنہا مقابلہ کرنا پڑا۔ پاکستان کو اس بیوروکریسی سے شدید خطرات تھے جو ملک غلام محمد اور سکندر مرزا کی صورت میں کابینہ کا اہم حصہ بن چکی تھی جہاں تک تعلق لیاقت علی خان کا تھا تو وہ امور خارجہ،اقتصادیات سمیت بہت سے شعبوں کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے اور اس سلسلے میں ان کو بیگم رعنالیاقت علی کی مشاورت بھی میسر تھی۔

یوں انہوں نے قائد اعظم کی وفات سے کچھ پہلے اور پھر وفات کے بعد اپنے طور پر اہم فیصلے کئے۔ پہلی قانون ساز اسمبلی میں آئین سازی کے اعتبار سے ان کی زیر نگرانی قرارداد مقاصد منظور ہوئی جسے بہت سے تجزیہ نگاروں نے پاکستان میں جمہوریت کے لحاظ سے میگناکارٹا قراردیا تھا۔ لیاقت علی کی بطور عالمی شخصیت یا لیڈر کچھ زیادہ اہمیت حاصل نہ ہو پائی تھی اس کی ایک بڑی وجہ قائد کی جلد وفات تھی۔ یہ بات اپنی جگہ محکم حیثیت رکھتی ہے کہ وژن کے اعتبار سے قائداعظم اپنے ہم عصر مسلم لیگی رہنماؤں پر غیرمعمولی برتری رکھتے تھے۔

موازنہ اگر بھارت کے پنڈت جواہر لال نہرو سے کیا جاتا تو بھارت میں بھی گاندھی جی جلد دنیا سے رخصت ہوگئے تھے مگر عالمی سطح پر نہرو نے خود کو خصوصا غیر جانب دار ممالک کی تحریک کے لحاظ سے منوایا تھا۔ یوں لیاقت علی خان کے سامنے اس وقت نہرو کے علاوہ دنیا کے بہت قدآور لیڈر تھے جن میں سابق سوویت یونین کے جوزف اسٹالن، چین کے ماوزے تنگ اور چواین لائی، انڈونیشیا کے سکارنو، برطانیہ کے چرچل، مصر کے جمال عبدالناصراور سرد جنگ کے آغاز پر امریکہ کے مشہور صدر ٹرو مین شامل تھے۔

ان حالات میں لیاقت علی خان کو ایک نئے ملک میں پارلیمانی جمہوریت کو مضبو ط کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی مستحکم کر نا تھا ان کی سب سے بڑ ی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے آزادی کے دوسرے سال ہی ملک کو معاشی اور اقتصا دی اعتبار سے مستحکم کردیا تھا کہ ہمارا پہلا قومی بجٹ مالی سال 1948-49 ء تو خسارے کا قومی بجٹ تھا مگر اس کے بعد لیاقت علی خان کی زندگی میں جتنے بھی قومی بجٹ آئے وہ سبھی خسارے سے پاک تھے۔ لیاقت علی خان نے ملک کی خارجہ، داخلہ اور دفاعی پالیسیوں کے اعتبار سے جتنے بھی اقدامات کئے اس وقت ملک کے سازشی ماحول میں ان کو غلط ثابت کرنے کے لیے بہت سے حقائق کو چھپایا گیا یا ان کو غلط انداز سے پیش کیا گیا، یہاں تک کہ بعض ماہرین کے مطابق زیارت میں قائد اعظم کو بھی لیاقت علی خان کے بارے میں بہت سی اطلا عات غلط انداز سے پیش کی گئیں۔

پاکستان کا قیام اور آزادی، جنگ عظیم اول میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ایک بہت بڑا بلکہ عظیم واقعہ ہے۔ اس وقت جب سابق سوویت یونین سمیت پورا مغربی اور مشرقی یورپ جاپان اور دنیا کے دیگر ممالک دوسری جنگ عظیم میں تقریبا ساڑھے چار کروڑ افراد کی ہلاکتوں اور اس سے کہیں زیادہ تعداد میں زخمیوں اور معذوروںکی صورت میں جنگ کو انسانی ایندھن دے کر فارغ ہوئے تھے اور یہ دنیا اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے اعتبار سے دو طاقتی بنیاد پر تقسیم ہو کر ایک نئی عالمی سطح کی سردجنگ کا آغاز کر چکی تھی، اسلام کے نام اور نظریئے پر قا ئم پاکستان جیسے ملک کو کیمونزم اور سرمایہ دارانہ ممالک پر مشتمل دونوں بڑے گروپوں سے مقابلہ کرنا تھا۔

یہ مقابلہ بنیادی طور پر نظریاتی تھا اس لیے ایک جانب تو سابق سوویت یونین پہلے دن ہی سے نظریاتی اعتبار سے پاکستان کے نظریے کے خلاف تھا اور جہاں تک تعلق بھارت کا ہے تو بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو جب شادی کے بعد1927 ء میں اپنی اہلیہ کے ساتھ یورپ کے دورے پر تھے تو ان کو سوویت یونین کے اسٹالن کی جانب سے سوویت یونین میںاشتراکی انقلاب کی دسویں سالگرہ پر شرکت کی دعوت دی گئی اور نہرو نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ ماسکو جاکر اشتراکی انقلاب کی دسویں سالگرہ میں شرکت کی تھی، اس کے بعد جب بھارت اور پاکستان آزاد ہوگئے تو بھا رت سے نظریاتی اعتبار سے اس کوکوئی خطر ہ نہیں تھا کیونکہ بھارت سیکو لر ریاست تھی اور نہرو کی حکومت جمہوری اور سوشلسٹ تھی۔

بھارت نے آزادی کے ایک سال بعد ہی اپنا آئین بنا لیا اور اس آئین کے تحت بھارت میں کیمونسٹ پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت تھی۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں تھا پھر پاکستان کو بھی اپنا آئین بنا لینا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ ان تمام باتوں کے باوجود جب لیاقت علی خان اندرونی اور بیرونی سازشوں میں گھرے ہوئے تھے انہوں نے بحیثیت جمہوری وزیر اعظم پاکستان کے مفاد میں اہم اقدامات کئے۔

انہوں نے پہلے مقننہ کو مضبو ط کرنے کی کامیاب کو شش کی اور پھر مملکت کے دوسرے اہم ستون یعنی عدلیہ کو مضبو ط کیا اور سر عبد الرشید کو پاکستان کا پہلا چیف جسٹس مقرر کیا، محمد منیر کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس، سرجارج کونسٹنٹائن کو سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اور محمد اکرم کو ڈھاکہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا، اسی طرح کابینہ کی تشکیل کے بعد انتظامیہ پر بھر پور توجہ دی۔ پاکستان کی آزادی کے بعد جب چین آزاد ہوا تو پاکستان دنیا کا پہلا اسلامی ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کرتے ہوئے تعلقا ت قائم کئے۔ انہوں نے جمشید مارکر کو سوویت یونین میں پاکستان کا سفیر مقر ر کیا۔

یہاں اہم ترین بات یہ ہے کہ پاکستان کو آ زادی کے فورا بعد اپنی آزادی اور سالمیت کو قائم رکھنے کے لیے بڑے چیلنج کا سامنا تھا، ملک کی فوج محاذوں سے پوری طرح واپس نہیں آئی تھی۔ آزادی کے فورا بعد جنگ ہوئی تھی اور اس وقت انگریز کمانڈر انچیف نے جنگ سے انکار کردیا تھا۔ یہاں میجر جنرل اکبر خان نے جنگ کی تھی اب ایک جانب تو بھارت سے خطرات تھے تو دوسری جانب سوویت یونین کا واضح جھکاؤ بھارت کی جانب تھا۔ چین بھی اپنی آزادی کے بعد سب سے قریبی دوست کی حیثیت بھارت ہی کو دیتا تھا۔ افغانستان سے بھی بھارت کے تعلقات بہتر تھے اس لیے پاکستان کے پاس خطے میں بیرونی اور بڑی قوتو ں کے ساتھ تعلقات کے اعتبار سے توازن کو بہتر کرنا اور اپنے حق میں کرنا ضروری تھا اس لیے جب امریکہ کی جانب سے وزیر اعظم لیاقت علی کو امریکہ کا سرکاری دورہ کرنے کی دعوت ملی تو انہوں اسے قبول کر لیا۔

اسی دوران دنیا میں برطانوی دولت مشترکہ بنائی جا رہی تھی اور سوویت یونین کے اسٹالن یہ چاہتے تھے کہ بھارت جیسا ملک اس دولت مشترکہ میں شامل نہ ہو اور انہوں نے بھارت سے اس کی درخوست بھی کی لیکن پنڈت جواہر لال نہرو بھارت کے مفاد میں ایک اچھی خارجہ پالیسی پر گامزن تھے وہ امریکہ اور برطانیہ پر بھارت کا یہ تاثر قائم رکھنا چاہتے تھے کہ بھارت ایک جمہوری اور آزاد معاشی پالیسیوں کا حامل ملک ہے جو شدید نوعیت کی اشتراکیت سے محفوظ رہنے کے لیے سوشلسٹ اور سیکولر جمہوریت قائم رکھنا چاہتا ہے۔

اسٹالن نے بھارت کو دباؤ میں لانے کے لیے لیاقت علی خان کو سرکاری دورے کی دعوت دے دی لیکن جب دیکھا کہ لیاقت علی امریکہ کا دورہ بھی کر آئے اور دوسری جانب نہرو نے بھارت کو برطانوی  دولت مشترکہ کا رکن بھی بنا لیا تو انہوں نے اس دورے کی توثق نہیں کی اور نہ ہی پاکستان کی جانب سے یاد دہانی کے باوجود وزیر اعظم پاکستان کے دورے کا کوئی شیڈول جاری کیا۔ بدقسمتی کہ اس کے بعد آج تک یہ کہا جاتا رہا کہ لیاقت علی خان کی خارجہ پالیسی کی یہ غلطی تھی کہ انہوں نے سوویت یونین کے دورے سے انکار کر کے امریکہ کا دورہ کیا اور اس سے خطے میں طاقت کا توازن پاکستان اپنے حق میں برقرار نہ رکھ سکا۔

تعریف کی بات یہ ہے کہ امریکہ نے بھی اس تاثر کو برقرار رکھا حا لانکہ اب جب امریکہ ہی کی جانب سے شہید ملت کے قتل کی سازش کے راز سامنے آگئے کہ لیاقت علی خان کو امریکی سی آی اے نے قتل کروا یا تھا کہ انہوں نے دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر ٹرومین کی جانب سے پاکستان میںسوویت یونین کے خلاف فوجی اڈے کے لیے زمین دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ ہم نے آدھا کشمیر بغیر امریکی امداد کے آزاد کر وایا ہے اور پھر اس زمانے میں جب ایران کے ایک حصے پر سوویت یونین کا اثر اور موجودگی تھی تو دوسری جانب ڈاکٹر مصدق ایران میں امریکی برطانوی مفادات کے خلاف اور سوویت یونین کے لیے فائدہ مند تھے، اقتدار کے زینے طے کر رہے تھے ، لیاقت علی خان نے ان کو روکنے اور ایران میں تیل کے ذخائر پر اجارہ داری کو مضبو ط کرنے کے لیے تعاون سے بھی انکار کردیا تھا۔

اس لیے امریکی سی آئی اے نے اس وقت کے افغانستان کے باد شاہ ظاہر شاہ سے مل کر ایک افغانی باشند ے سید اکبر کے ذریعے 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی کے لیاقت پارک میں جلسے کے دوران انہیں قتل کروایا تھا۔ اس کے بعد یہ پروپیگنڈا سوویت یونین اور امریکہ دونوں ہی کے حق میں تھا کہ انہوں نے روس کے بجائے امریکہ کا دورہ کیا۔ لیا قت علی خان کے لیے 1950 کا سال بہت اہم تھا قائد اعظم کی وفات کے بعد انہوں نے فیصلے بہت بیباک انداز میں کئے اور ان پر 1948ء میں کمزور فیصلوں کے الزامات لگائے گئے تھے اس تاثر کو لیاقت علی خان نے امریکہ سے تعلقات میں بالکل دور کردیا مگر امریکہ اندر ہی سے جڑیں کاٹ چکا تھا کہ بیورو کریسی کے ملک غلام محمد اور سکندر مرزا لیاقت علی خان ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ خواجہ ناظم الدین کے خلاف بھی سازش کرچکے تھے۔ لیاقت علی خان نے1950  ہی میں نہرو سے معاہد ہ کرلیا تھا ۔

جس کی وجہ سے مہاجرین کے کلیم سمیت بہت سے معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات نہرو کے دور کے بعد بڑھ رہے تھے اور 1951 میں امریکہ نے کشمیر سے فوجوں کی واپسی کا مطالبہ بھی کر دیا تھا۔ لیاقت علی خان جنہو ں نے ملکی تعمیرو ترقی کی رفتار تیز تر کردی تھی وہ پہلے پاکستان کو مضبوط جمہو ری ملک بنانے کے بعد ہی کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کی رفتار بھارت سے زیادہ تھی اور ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ خوشحال پاکستان مشرقی پنجاب اورکشمیر کے حوالے سے بھارت کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے کیو نکہ پاکستان کی خوشحالی ان کو پاکستان کی جانب مائل کر سکتی تھی۔

لیا قت علی خان کی جمہوریت پسندی اپنی جگہ مگر ان کا اپنا ایک مسئلہ ضرور تھا کہ جس کی وجہ سے ان پر آج تک تنقید کی جاتی ہے وہ یہ کہ لیاقت علی کا حلقہ انتخاب دیگر مہاجر لیڈروں کی طر ح بھارت میں رہ گیا تھا اور جہاں تک تعلق قیام پاکستان کے بعد بھارت سے پاکستان مسلمان مہاجرین اور پاکستان سے بھارت ہندو مہاجرین کی منتقلی کا تھا تو مشرقی پاکستان اور بھارتی مغربی بنگال کی تقسیم بھی پنجاب کی طر ح ہوئی تھی لیکن مشرقی پاکستان میں ہندو بنگالیوں کا تناسب تقریبا 21% تھامگر وہاںحسین سہروردی اور مہاتما گاندھی نے مشترکہ کوششوں سے ہندو مسلم فسادات کو روک دیا اور اس کے مقابلے میں بھارتی مشرقی پنجاب اور ہمارے پنجاب کی تقسیم میں نا انصا فی کرتے ہوئے فیروز پور،گورداسپور اور زیرا جیسے مسلم اکثریت کے علاقے نہ صرف بھارت کو دے دئیے گئے بلکہ سردار ولب بھائی پٹیل اور ماسٹر تارا سنگھ کی مدد سے نہرو نے یہاں ایسے ہولناک ہندو مسلم فسادات کروائے کہ جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔

1951ء میں مہاجرین کی بھارت سے پاکستان آمد روک دی گئی اور اسی سال ملک کی پہلی مردم شماری کروائی گئی جس کے مطابق اس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان کی کل آبادی 3 کروڑ 30 لاکھ تھی۔ یہاں سے 45 لاکھ ہندوں اور سکھوں نے بھارت ہجرت کی تھی اور اس کے مقابلے میں بھارت سے 65 لاکھ مسلمان مغربی پاکستان آئے تھے یوں ہماری کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد مہاجرین پر مشتمل تھا وہ آبادی جو مشرقی پنجاب سے یہاں آئی تھی وہ تو ہمارے پنجاب میں ضم ہو گئی مگراہل زبان یا اردو بولنے والوں کی اکثریت نے کراچی کا رخ کیا اور لیاقت علی خان پر یہ الزام آتا ہے کہ انہون نے یہاںا پنا حلقہ انتخاب بنانے کے لیے لالو کھیت کو لیاقت آباد بنا دیا۔

لیاقت علی خان کے زمانے میں پاکستا ن کی کمیونسٹ پارٹی پر خاصی سختی اور پابندی رہی۔ میجر جنرل اکبر خان اور فیض احمد فیض پر راولپنڈی سازش کیس بھی ہوا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ لیاقت علی خان ایک بیباک جمہوریت پسند اور نہایت دیانتدار قابل اعلیٰ تعلیم یافتہ ذہین لیڈر تھے وہ جب شہید ہوئے تو ان کی جیب سے ایک روپے چند آنے برآمد ہوئے اور بنک اکاؤ نٹ میں 32 روپے تھے۔ بد قسمتی دیکھئے کہ آج یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ان کو امریکی سی آئی اے نے قتل کروایا تھا اور وہ پاکستان کی خاطر شہید ہوئے تھے، انہوں نے ہی جنرل محمد ایوب خان کو کمانڈر انچیف مقرر کیا تھا۔

The post پہلے وزیراعظم کو غیرمعمولی چیلنجز کا سامنا تھا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KAOKJC
via IFTTT

No comments:

Post a Comment