لاہور: پاکستان کا سیاسی موسم تبدیل ہوتا محسوس ہو رہا ہے، جس طرح سے کسی خوفناک طوفان کے آنے سے قبل کئی نشانیاں دکھائی دیتی ہیں ویسے ہی پاکستان کی سیاست میں غیر معمولی واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن ایک بڑے مارچ کا آغازکامیابی کے ساتھ اور لوگوں کی بڑی تعداد کے ساتھ کر چکے ہیں ،میاں نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت مل چکی ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی طبی بنیادوں پر ریلیف ملنے کے امکانات واضح ہورہے ہیں۔ حکومتی حلقوں میں جو بے چینی دکھائی دے رہی ہے وہ گزشتہ 14 ماہ میں پہلے کبھی دکھائی نہیں دی۔
طاقتور وزراء مستقبل کے حوالے سے عدم تحفظ اور بے یقینی کا اظہار کرتے سنائی دے رہے ہیں، راولپنڈی میں طاقت و اختیار کی علامت عمارت میں بھی بدلتی سوچ اور رویے کسی بڑی تبدیلی کے حوالے سے سرگوشیوں کو تقویت دے رہے ہیں۔اس سب صورتحال کے باوجود وزیراعظم عمران خان اپنی تقاریر میں اس موقف کو دہرا رہے ہیں کہ جب تک وہ زندہ ہیں ’’این آر او‘‘ نہیں دیں گے جبکہ کچھ دن قبل سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’میں استعفٰی نہیں دوں گا‘‘۔
یہ بات سبھی محسوس کر رہے ہیں کہ گزشتہ چند ہفتوں سے اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے استعفٰی کے حوالے سے غیر معمولی شدت اور یکساں بیانیہ سامنے آرہا ہے جبکہ باخبر بیوروکریٹس بھی اپنی نجی محفلوں میں ڈھکے چھپے الفاظ میں وزیر اعظم کے استعفے کے حوالے سے اہم گفتگو کر رہے ہیں۔ عمران خان کے مزاج اور عادات کے حوالے سے سبھی کو معلوم ہے کہ وہ ایک مخصوص حد سے زیادہ ’’تابعدار‘‘ نہیں رہ سکتے اور نہ ہی زیادہ دیر تک انہیں ’’کنٹرول‘‘ کیاجا سکتا ہے۔
ملک کی تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال کو دیکھ کر ایک تھیوری یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ عمران خان اور مقتدر حلقوں کی لو سٹوری میں ’’بریک اپ‘‘ کا موڑ آن پہنچا ہے اور شاید عمران خان نے مزید ’’مفاہمت‘‘ سے انکار کرنا شروع کر دیا ہے یا پھر وہ خود کو واقعی اتنا بڑا قومی لیڈر سمجھنے لگے ہیں کہ اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے تن کر کھڑے ہو جائیں گے تو پورے ملک کے عوام ترکی کے عوام کی طرح ان کی حمایت میں سڑکوں پر آجائیں گے اور فوجی گاڑیوں کے سامنے لیٹ جائے گی۔ اپوزیشن کا متفقہ پراپیگنڈا ہے یا پھر حکومتی مایوسی بنیاد بن رہی ہے، وجہ کوئی بھی ہو یہ واضح محسوس ہو رہا ہے کہ کسی نہ کسی مقام پر عمران خان کے استعفیٰ کا ذکر ہوا ہے۔
عمران خان کی حکومت گزشتہ 14 ماہ کے دوران عوام کو معاشی طور پر کسی بھی قسم کا ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے،اس وقت فٹ پاتھ یا ریڑھی والے سے لیکر بڑی بڑی فیکٹریوں کے مالکان تک کسی کو بھی پوچھ لیں ہر کوئی معاشی طور پر بحران کا شکار ہے، جس دکان میں 4 ملازم کام کرتے تھے وہاں اب 2 رہ گئے ہیں اور جس فیکٹری میں 100 بندہ کام پر آتا ہے وہاں اب یہ تعداد 50/60 رہ گئی ہے اور اس میں مزید کمی ہو رہی ہے، کار ساز ادارے کئی ماہ سے بند پڑے ہیں، لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ، اعظم کلاتھ مارکیٹ، برانڈتھ روڈ سمیت دیگر بڑی مارکیٹس میں کاروباری لین دین خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے۔
عمران خان نے حالیہ دورہ لاہور میں کہا ہے کہ آئندہ سال مارچ اور مئی میں بلدیاتی الیکشن کروائیں گے، وزیر اعظم عمران خان کی جماعت کا ہر اہم رہنما اور ٹکٹ ہولڈر اس بیان سے اختلاف رکھتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس وقت عوام میں تحریک انصاف کی جو صورتحال ہے اس کے نتیجہ میں بلدیاتی الیکشن میں تحریک انصاف کو شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،گلی محلوں کی سطح پر تحریک انصاف کے بلدیاتی امیدوار اپنے ووٹرز کے سامنے معاشی بحران م بے روزگاری اور مہنگائی جیسے ایشوز پر لاجواب ہو جائیں گے۔
عمران خان کیلئے سب سے بڑی مشکل اور ناکامی کا سبب ان کی کمزور ٹیم ہے، اتحادیوں کی خواہشات، اسٹیبلشمنٹ کی سفارشات اور اپنی پارٹی کے مضبوط دھڑوں کے دباو کے نتیجہ میں بننے والی کابینہ عمرا ن خان کے وژن کے مطابق کارکردگی دکھانے میں ابتک ناکام ثابت ہوئی ہے۔ معاشی ٹیم نے پورے ملک کو ’’تجربہ گاہ‘‘ بنا دیا ہے، یہ درست ہے کہ ماضی میں پاکستان کی معیشت کو ڈاکومنٹڈ اور وائٹ بنانے کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے لیکن اب یک جنبش قلم سب کچھ ٹھیک کرنے کی کوشش میں مزید بگاڑ پیدا کیا جا رہا ہے ملک بھر کے تاجر پھر سے ہڑتال پر چلے گئے ہیں لیکن حکومت بھی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔
حکومتوں کا کام معاملات میں لچک دکھا کر اور کچھ وقت دیکر صورتحال کو قابو میں لانا ہوتا ہے نا کہ عوامی حلقوں کے ساتھ ضد بازی کرنا ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا جلسہ ہو یا دھرنا لیکن ایک بات طے ہے کہ ’’کاونٹ ڈاون‘‘ شروع ہو چکا ہے، عسکری قیادت پر بھی عوامی بالخصوص کاروباری حلقوں کا شدید دباو موجود ہے،کور کمانڈرز بھی صورتحال سے پریشان ہیں کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی کو عسکری اداروں کی ناکامی قرار دینے کا تاثر مضبوط ہو رہا ہے جو کہ نہ تو ملک کے مفاد میں ہے اور نہ ہی اداروں کے۔ باخبر حلقوں کے مطابق فوری نتیجہ تو سامنے آنے کا امکان کم ہے لیکن آئندہ تین سے چار ماہ کے دوران ملکی سیاست اور حکومت میں بنیادی تبدیلیاں ممکن ہیں اور ان ہاوس تبدیلی کی آپشن زیادہ نمایاں ہو سکتی ہے۔
عمران خان کے مزاج کو سامنے رکھا جائے تو وہ تنہا استعفیٰ دینے کی بجائے نئے الیکشن کی جانب جانا زیادہ مناسب سمجھیں گے، اپوزیشن بھی عوام میں تحریک انصاف کی گرتی ساکھ کی وجہ سے شاید نئے انتخابات پر آمادہ ہو جائے لیکن یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ کیا مقتدر حلقے بھی نئے انتخابات پر رضامند ہوں گے یا پھر ’’قومی حکومت‘‘ یا ’’ٹیکنو کریٹ حکومت‘‘ کی جانب پیش قدمی کی جائے گی۔ میاں نواز شریف کی صحت واقعی بہت تشویشناک ہے لیکن حکومت کے بعض وزراء اور مشیر اس حوالے سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ایسے بیانات دے رہے ہیں جن کو عوام بھی ناپسند کر رہی ہے۔
حکومت اس قابل نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت میں سے کسی کے ساتھ خدانخواستہ کسی سانحہ کا بوجھ برداشت کر سکے۔ عمران خان کو پانچ برس پورے کرنے ہیں تو انہیں ٹیم میں تبدیلی لانے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اور اداروں کے ساتھ بھی تجدید تعلقات کرنا ہوگی، کرپشن کے معاملے پر عمران خان کا موقف درست ہے لیکن طریقہ کار سے سب کو اختلاف ہے، ملک و قوم کو کپتان کی مرکزی توجہ معاشی چیلنجز کی جانب درکار ہے، جب تک حکومت ماضی کے 10 برس کے آسیب سے خود کو آزاد نہیں کرواتی تب تک وہ آگے نہیں بڑھ پائے گی۔n
The post موجودہ سیاسی صورتحال کسی غیر معمولی تبدیلی کا اشارہ ہے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/320Mn7I
via IFTTT
No comments:
Post a Comment