Sunday, February 23, 2020

قصہ مزار قائد پر رقص کا ایکسپریس اردو

’’مزار قائداعظم‘‘ پر حمیت اور غیرت کا اظہار ہی کسی باشعور قوم کی فکر کی ترجمانی کرتا ہے اور ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی وہاںموجودگی ملی جذبے اور یکجہتی کا مظہر بن کر اتحادکا پیغام دیتی ہے۔

باوقار نسلیں شعور کے اجالوں کی مدد سے غلطیاں سدھارتی ہیں، شامیں سنوارتیں نہیں، حساس روحیں پیکر احساس بن کر بھٹکے ہوئے جسموں کی نئی سمت مقررکرتی ہیں، غلطیاں مکرر نہیں! تو پھر سوال یہ ہے کہ اِن72 برسوں میں ایک قوم اور ایک فردکی حیثیت سے ہم نے ایسا کیا کر دکھایا ہے کہ ’’مسلسل ناچے ہی جارہے ہیں‘‘، جدھر نگاہ اٹھتی ہے ’’رقص‘‘ کے سوا کچھ نہیں ، ہر شخص مدہوش ہے یا بے ہوش ! اور ایسا بے ہوش کہ مقبوضہ کشمیر میں نعشیں بچھی ہوئی ہیں اور مزار قائد ہو یا پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب ، رقص و موسیقی کا سلسلہ جاری رہتا ہے، ویسے بھی ٹھمکوں اور جھمکوں کی بہار میں بکھری ہوئی نعشیں، سڑکوں پرجمے ہوئے لہو کے لوتھڑے اور بین کرتی ہوئی مائیں کیسے نظر آئیں؟کیونکہ بے حسی کے قبرستان میں چیخوں کی تدفین کوئی نئی بات نہیں۔

آپ قومی ثقافت اور وطن سے محبت کے نغموں کے نام پر محفلیں ضرور سجائیے مگر اِس شرط کے ساتھ کہ جب چمن کے ہر شجر پر امن کے گیت گانے والے پنچھی موجود ہوں!جہاں ہر نئی صبح ابتری کا پیغام لائے اور شام برتری کے جام میں ڈوب جائے وہاںتلاش کیجیے کہ وہ کون ہیں جو ’’بانسری‘‘ بجا رہے ہیں؟وہ کون ہیں جو تباہی کے شور میں پر سکون محوِ رقص ہیں؟ وہ کون ہیںجو اپنی ہی دھن میں مست ہیں؟

یقینا جب دربار سے ’’ناچو، گاؤ، جشن مناؤ‘‘ کا عندیہ دیا جائے گا توکیا عجب ہے کہ سڑکوں پر سائلنسر سے آزاد گلے پھاڑتی موٹر سائیکلیں، فائرنگ کی آوازیں اور پاکستان کی آزادی پر بھارتی نغموں کی دھنوں پر تھرکتے وجودبے خودی میں ڈوب نہ جائیں! ’’ حملہ توکوئٹہ میں  ہوا ہے نا ! پھر اسلام آباد، لاہورکراچی، ، پشاور اور دیگر شہروں میں اِس سے کیا فرق پڑتا ہے؟کوئٹہ والے اپنی نعشیں گنیں، جب ہم پر پڑے گی ہم دیکھ لیں گے‘‘ اور اِس ابلیسی تسلی کے ساتھ ہی آزادی کی صبح تک مستی کی چادر رات کو ڈھانپ لیتی ہے ، اِسے کہتے ہیں ’’ اجتماعی بے حسی‘‘ جس میں ہم سب مبتلا ہیں، اور جو ہر بستی میں یکساں پھیل چکی ہے۔

آزادی کے جتنے برس ہمیں نصیب ہوئے ہیں، وہی بھارت کا مقدر بھی بنے ہیں، لیکن انھوں نے کچھ نہیں گنوایا اور ہم نے بہت کچھ کھودیا ہے۔ رقص اْن کے مذہب کا حصہ اور گیت ہی میں رامائن کا قصہ ہے مگر’’ راشٹر پتی بھون ‘‘ میں 14اگست کی رات وہ کچھ نہیں ہوتا جو 13اگست کی رات ملک کی سڑکوں پر ہوتا ہے ، وہ ہمارے بد ترین دشمن ہیں اور جانتے ہیں کہ اپنی آزادی کی کس طرح حفاظت کی جاتی ہے اور ہم اِن بدترینوں سے مقابلہ کرنے کے بجائے نہ جانے کسی مستی میں مست ہیں!

انھوں نے ہم سے حیدرآباد دکن چھین لیا، اور نہیں ناچے، کشمیر میں لہو کی ایک نہیں کئی ہولیاں کھیلیں اورپھر گولیاں چلانے کے لیے نشانے باندھ لیے ، پاکستان کا ایک بازو کاٹ ڈالااور آج بھی بنیے ہمارے خلاف سازشوں کے جال بننے سے باز نہیں آتے، انھوں نے پاکستان کو تباہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے اور ہم ’’بھولے‘‘  عملاً اِن کی قسم کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔72برس پہلے ایک قوم ’’وطن ‘‘تلاش کررہی تھی جہاںآزادی اور خوش حالی کے تصور کوحقیقی تعبیر دیتے ہوئے امن سے رہا جا سکے اور آج72برس گذرنے کے بعد وطن کایہی پاک ٹکڑا ’’قوم‘‘ تلاش کررہا ہے !

آزادی ٹھمکے لگا کر جینے کا نام نہیں،اپنے زخموں کوعزم کے دھاگے سے سینے کا نام ہے ، فرد کو فرد اور درد کو درد سمجھنے کانام ہے۔ احساس سے عاری ہیں وہ نفوس جو لاشوں سے پٹے میدان میں کھڑے ہوکر آسمان پر تارے دیکھتے ہیںحالانکہ اْن کا مقدر ستارہ بننا تھا، تارے دیکھنا نہیں ’’کیا ہمارے بزرگوں نے اِس دن کے لیے تقسیم ہند کی تحریک چلائی تھی؟دو قومی نظریے اور خطبہ الہ بادکی فکر سے آراستہ اِس ارضِ پاک میں آکر ہم یوں تقسیم ہوجائیں گے ، قربانیاں دینے والوں نے توایسا سوچا بھی نہ ہوگا‘‘ لیکن آج یہ تقسیم کتنی واضح نظر آتی ہے !

کہیں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں اور سگار کے دھوئیں میں مواخذے کا غم اڑایا جارہا ہے اور کہیںوطن کے دشمن خود کش حملے کی نفرت سے آزادی کے چراغ جلانے والوں کی زندگی کے چراغ بجھا رہے ہیں۔کہیں چاپلوسوں کے جھرمٹ میں آزادی کا جشن منایا جارہا ہے اور کہیں آزاد وطن کے سہمے عوام کو یہ واضح پیغام دیا جارہا ہے کہ ’’ تم ابھی تک غلام ہو‘‘میرے قائدکی یہ تصویر بھی کتنی بے بس ہے کہ ہر اْس دیوار کی زینت بنا دی جاتی ہے جہاں وہ سجناہی نہیں چاہتی!

مجھ سمیت شایدکسی کو احساسِ شرمندگی نہیں کہ ہم نے پاکستان کو دیاہی کیا ہے سوائے اس سے لینے کے؟ بارہ بجتے ہی شدید فائرنگ اور آتش بازی کے شور سے دل دہل تو سکتے ہیں مگر اِس تصور سے بہل نہیں سکتے کہ ’’سب ٹھیک ہے‘‘کیونکہ سچ تو یہی ہے کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں،ہم تو وہ ہیں جو بدگمانی میں جی کر اتنے خوش گمان ہیں کہ اِسی کو زندگی سمجھ بیٹھے ہیں!آج ہمیں یہ تسلیم کر ہی لینا چاہیے کہ حاکم یا حکمرانوں کا سلسلہ نہیںدراصل ہم خود ہی غلط ہیں، جیسے عوام ویسے حکمراں کے مصداق ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو ہم نے بویا تھا،کسی کا کوئی قصور نہیں، ہم خود سزاوار ہیں مزار قائد اعظم کے احاطے میں ایک باپردہ لڑکی کے رقص کی ویڈیو شاید ہر فون میں موجود ہو، ہمارا یہی ’’فاروڈ‘‘ہے باقی تو سب  ’’ریوائنڈ‘‘ ہوچکا ہے۔

لڑکی کے رقص پر تنقید اْس وقت بجا ہے جب ہم نے خود کہیں دعائیہ اجتماع کا انعقاد کر کے اللہ کے حضور یہ اعتراف کیا ہو کہ ’’مالک! ہم نے تیری دی ہوئی نعمت کی قدر نہیں کی، تجھ سے جو عہد کیا، اْس عہدکو توڑا اور ستائیسویں شب کی عبادت کے حصول پاکستان کو اتنا نوچا، لوٹا، کھسوٹا اور زخمی کیا کہ آج وہ درد سے کراہ رہا ہے اور ہم مدہوشوں کو اْس کے زخموںپر احساس کا مرہم رکھنے کا بھی ہوش نہیں۔

یا اللہ! تیری عطا کردہ سرزمین پر نفاق کے بیج بونے کے ہم سب ذمے دار ہیں،جیسا تو چاہتا تھا ہم نے پاکستان کو ویسا نہیں بنایا اور اِس کے حسین مکھڑے کو نفرت کے غبار سے گرد آلود کردیا، پہلے قوم تقسیم ہوئی، پھر وطن ٹوٹا، او ر اب کہیں عقیدہ، کہیں مسلک، کہیں رنگ، کہیں زبان اور کہیں نسل ہمیں تقسیم در تقسیم کیے جارہی ہے اور ہم مسلسل ٹوٹ رہے ہیں،یہ وطن تیری عطا ہے اور اِس کی حفاظت بھی تیرا ہی ذمے ہے مگر ہمیں وہ شعور بخش دے !کہ اگر ہم اِس کی حفاظت نہیں کر سکتے تو  تیری اِس حسین عطا پر کم از کم تیرا شکر ہی ادا کر سکیں۔ ‘‘

The post قصہ مزار قائد پر رقص کا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3c3XIu4
via IFTTT

No comments:

Post a Comment