زباں فہمی نمبر 58
’’چائے چاہیے…..‘‘۔’’کون سی جناب…..‘‘۔’’…..عمدہ ہے…..لیجیے‘‘۔’’…..لیجیے ، ….. پیجیے‘‘۔’’بھول نہ جانا پھر پَپّا…..،…..لے کر گھر آنا‘‘۔’’رنگ بِکھراتی، زُلف لہراتی….. اِٹھلاتی بَل کھاتی آئی……….لان‘‘۔’’راہ کا، ہر گام کا، ساتھی ہے یہ کام کا ……….‘‘۔ تاروں کی جھِل مِل میں آیا، سبھی کے دلوں میں سمایا……….۔’’دانے دانے پہ لکھا ہے ، پینے والے کا نام…..چائے‘‘۔’’پیو اور پِلائو …..ہے …..اور …..سے …..۔’’نام ہی کافی ہے‘‘۔’’تھوڑی سی پتّی …..کی، چائے بنائے کمال کی…..دانے دار چائے۔’’جو ہے سب کو پسند، میری مٹھی میں بند…..ہے کیا بتادو نا…..مصالحہ‘‘۔ (مسالے پر اصرار کرنے والے جان لیں کہ فرہنگ آصفیہ میں بھی مصالحہ ہی ہے)۔
’’اک چُٹکی ….. سے، چُٹکی بجاتے ہی…..دانت سفید اور چمک دار……….۔ اگر آپ بیسویں صدی کی پیداوار ہیں تو یقیناً ان تمام اشتہارات کے مندرجہ بالا نمونوں میں بہ آسانی خالی جگہیں پُر کرلیں گے، بلکہ از خود گُنگُنانے لگیں گے۔ وجوہ دو ہی ہیں: اوّل، ان اشتہارات کا مقبول ہونا اور مسلسل چلنا اور دُوَم، ان کی تیاری کے ہر مرحلے میں کی جانے والی محنت، جس میں معیاری اور مصنوعات کی پہچان کرانے والی مخصوص زبان کا برمحل استعمال شامل ہے۔
یہ تھا ہمارا درخشاں ماضی اور اَب ملاحظہ فرمائیں، بدلا ہوا منظر:’’سر! مجھے آپ سے ایک Adکی Copyلکھوانی ہے، But، اردو میں نہیں،…….Roman English میں،………Because, you knowمیری اردو Weakہے……‘‘جب آپ سے اس طرح کی فرمائش کوئی Burger لڑکی ، (وہ بھی آپ کی ’رفیقہ ملازمت‘ ۔یا۔افسر)کرے تو کیا خیال ہے……اپنا سرپیٹیں گے یا ……خیر اس ’’یا‘‘ کے بعد تو بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک جگہ کا ایک ہی بار پیش آنے والا واقعہ نہیں، جس میں خاکسار کو باری باری انگریزی اور اردو میں سمجھانا پڑا ہو کہ اصل میں آپ کو کیا مطلوب ہے، بلکہ اسی نوعیت کے واقعات کئی بار پیش آچکے ہیں۔
اس نئی پَود کو یہ سمجھانا ہی مشکل ہوجاتا ہے کہ Roman زبان میں نہیں، بلکہ رسم الخط (Script) میں لکھنا کیا ہوتا ہے۔ بعض کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ Roman کوئی زبان بھی ہے اور یہ بھولی مخلوق یہ بات بھی بمشکل سمجھ پاتی ہے کہ What is SCRIPT?۔ (اشتہارات میں اردو رسم الخط کی جگہ رومن اردو کا رواج تشویش ناک حد تک بڑھ چکا ہے اور ہمیں اس کے سَدّباب کے لیے بھی تحریک چلانی ہوگی)۔
ایسے لسانی لطائف کا عام ہونا ہی اس اَمر کی دلیل ہے کہ ہمارے نیم خواندہ معاشرے میں موجود ’سندیافتہ‘ یا Degree-holder جُہَلاء ہماری تعلیمی بقاء کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اس میں روز افزوں اضافہ ہمارے ناقص، (نام نہاد جدید)، تعلیمی نظام کی پول کھولنے کو کافی ہے۔ آپ کسی شعبے میں چلے جائیں، زبان کا قتل ِعام اور عرف ِ عام میں ’’جھٹکا‘‘ دیکھنے کو ملے گا۔ اگر آپ نے واقعی کچھ محنت سے پڑھ لیا ہے تو آپ اس قبیل کے لوگوں میں، بقول اُن کے Misfit ہیں۔
ہمارے یہاں تعلیم کے محدود معانی ہی ہماری ’سندیافتہ‘ جہالت میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ خاکسار نے جان بوجھ کر ’’علم‘‘ نہیں کہا۔ آسان الفاظ میں سمجھایا جائے تو معاملہ یہ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں، معاشرے کے ہر طبقے میں اور ہر جگہ، سیکھنے کے دو طریقے ہیں: ایک رسمی تعلیم (Formal education/academics) اور دوسرا غیررسمی تعلیم (Non-formal education)۔ مگر ہم تو رَٹّا لگا کر، نقل کرکے، رشوت دے کر، تگڑی سفارش، دھونس اور بدمعاشی کے طفیل ہر طرح کا امتحان بہت اعلیٰ ’نشانات‘ (Marks) اور درجے میں پاس کرلیتے ہیں یعنی اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں……حد تو یہ ہے کہ غیرملکی زبان کے امتحانات میں بھی نقل کرنے والے یا نقل کی کوشش کرنے والے ہمارے اپنے طلبہ ہی ہوتے ہیں۔
تازہ ترین کارنامہ جو سیاسی، معاشی اور معاشرتی ہر لحاظ سے وطنِ عزیز کی بدنامی کا سبب بنا، سرکاری ایئرلائن کے ہوابازوں کی جعلی یا مشکوک اسناد کا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس شعبے میں ’’سب اچھا ہے‘‘، مگر کسی بھی اہم معاملے میں رازاِفشا کرنے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس سے ہمیں اجتماعی، قومی اور عالمی سطح پر کیا نقصان ہوسکتا ہے۔ بہرحال ہم اپنے اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں اخبارات، رسائل، ٹی وی، ریڈیو، سنیما، موبائل فون، انٹرنیٹ، حتیٰ کہ پمفلٹ یا بِل بورڈ تک، ہمہ اقسام کی اغلاط سے پُر اشتہارات ہماری علمی کم مائیگی کی تشہیر کرتے نظر آتے ہیں۔ نکتہ وار بات کی جائے تو سب سے پہلے زبان کی ہئیت (Form)کا معاملہ ہے۔
شعبہ تشہیر (Advertising)میں مستحکم نشستوں پر براجمان لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اردو خواہ کتنی ہی آسان لکھی جائے، عوام اور اُن کے کسی بھی مصنوعہ (Product)کے تیارکنندگان کے لیے ناقابل فہم ہوگی۔ مثال کے طور پر ہندوستان سے تیار شدہ ایک اشتہار، اُسی ادارے کے پاکستانی نمایندے یہاں بنوائیں گے تو سب سے پہلے تو انھیں یہ باور کرایا جائے گا کہ یہاں Creative لوگ ہی نہیں، جو ہیں، وہ بس ہم ہیں (جو اس اصطلاح کا ترجمہ تو کُجا، اس کی تعریف بھی بیان نہیں کرسکتے)، پھر اُن سے یہ کہا جائے گا کہ جناب ایسا کرتے ہیں کہ نئے سِرے سے Shoot یعنی عکاسی کی زحمت کرنے کی بجائے صرف VO (Voice over)یعنی پس پردہ آواز کا Script یعنی متن تبدیل کردیتے ہیں۔
تھوڑے بہت فرق سے۔ اب ذرا سوچیں کہ صابن کے اشتہار میں ہندوستان والے تو انگریزی کے ساتھ ساتھ، شُدھ ہندی کی آمیزش کرتے ہیں، مگر جب ہماری باری آتی ہے تو Creative Managerکا اس نکتے پر اصرار ہوتا ہے کہ لفظ ’جِلد‘ مشکل ہے (برگروں کے لیے)، Skin لکھیں۔ اور پھر چل سوچل۔ ایک ایسی ملغوبہ یا مخلوط (Minglish) زبان تیار ہوجاتی ہے جس میں پچانوے یا اٹھانوے فی صد الفاظ انگریزی کے ہوتے ہیں (جن میں بعض یا کبھی کبھی تو اکثر) کم خواندہ، نیم خواندہ یا ناخواندہ صارف /ناظر/قاری کے لیے ناقابل ِفہم ہوتے ہیں۔ یہ صرف ایک مصنوعہ یا ایک قسم کی مصنوعات کا معاملہ نہیں، بلکہ جو اشتہارات ہمارے یہاں ہی ’سوچے‘ ، لکھے اور بنائے جاتے ہیں، اُن میں بھی بُہتات ایسے ہی اشتہارات کی ہے۔
زبان سے آگے بڑھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اشتہار کا تخیل۔یا۔عرف عام میں Concept کیا ہے اور کیسا ہے۔ یہ بجائے خود انتہائی نازک اور بحث طلب موضوع ہے جس کی بابت کسی بھی بڑے سے بڑے تشہیری ادارے میں کوئی راہ نمائی حاصل کرنا چاہتا ہے نہ کوئی بہ آسانی راہنمائی کے لیے دستیاب ہوتا ہے۔ بس جیسا بھی اُوٹ پٹانگ خیال ذہن میں آیا، من پسند افراد کی بیٹھک ہوئی، مشتہر (Advertiser/Client) کو بتایا، دکھایا (جو عموماً اُنھی جیسی سوچ اور محدود ذہنی استعداد کا حامل ہوتا ہے یا ہوتی ہے) اور بس جناب اشتہار کو عملی جامہ (یا اُن کے حساب سے پاجامہ) پہنادیا گیا، خواہ یہ اشتہار کسی بھی ذریعہ ابلاغ (Medium of Communication)کے لیے بنانا مقصود ہو۔
کسی تجربہ کار، جہاں دیدہ شخصیت سے یہ پوچھنے کی زحمت شاذ ہی گوارا کرتے ہیں کہ اگر ہم یہ چیز بنائیں گے تو اس کے، قلیل اور طویل مدت میں، کیا نتائج یا ثمرات برآمد ہوں گے۔ اب آتے ہیں نفس مضمون یا Contentکی طرف۔ آپ چاہیں تو آسانی کے لیے مندرجات کہہ لیں۔ جب ہم کوئی Copyیعنی تشہیری متن لکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا اثر براہ ِ راست یا بالواسطہ ہمارے ’مُخاطب‘ ناظر، سامع یا قاری (Target audience)پر کیا مرتب ہوگا یا ہوسکتا ہے۔ یہ دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف معاملہ ہے۔ آپ کو اپنی اقدار ، عوام الناس کی (یا اگر خواص کے لیے بھی اشتہار بن رہا ہے تو اُن کی) نفسیات اور مافی الضمیر کی ادائی کا پورا پورا خیال رکھنا ہوگا۔
دوسری طرف آپ کو Copyمیں اشتہار کے حُجم یا سائز ہی کی فکر نہیں کرنی ، بلکہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ کہی جانے والی بات ، کس پیرائے میں درست اور مؤثر ہوگی۔ قارئین کرام یہاں راقم دو باتوں کی وضاحت ضروری سمجھتا ہے: ایک تو یہ کہ اس تحریر میں انگریزی اصطلاحات اور الفاظ کا استعمال فقط اس لیے ناگزیر محسوس ہوا کہ شعبہ تشہیر سے متعلق افراد پڑھ کر سمجھ سکیں، کسی سے ترجمہ نہ کرانا پڑے اور دُوَم یہ کہ ایسا ہرگز نہیں کہ ہمارے یہاں سِرے سے کوئی اچھا اشتہار سوچا نہیں جاتا، لکھا نہیں جاتا یا بنایا نہیں جاتا۔ یہ وضاحت اس لیے اور اُن لوگوں کے لیے ازبس ضروری ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ تنقید کا مطلب ہے تنقیص یعنی کیڑے نکالنا اور پھر وہ یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ اس تحریر کا راقم کوئی منفی سوچ کا حامل شخص ہے۔ تنقید کا مفہوم کئی بار اپنی تحریر وتقریر میں دُہرانے کے بعد، یہاں پھر پیش کردو ں کہ کسی کام کی انجام دہی میں، خوبی یا خوبیوں کی نشان دِہی (نہ کہ دَہی)، انھیں سراہنا اور کمی، خامی یا خرابی کی نشان دہی کرتے ہوئے اس کی بہتری، اصلاح اور پختگی کی تجویز یا تجاویز پیش کرنا ہی اصل میں تنقید ہے۔
اَب اس تمہید کے بعد دو مثالیں دیکھیں۔ ایک اشتہار ماضی قریب میں ٹیلی وژن کے پردۂ نیرنگ کی زینت بنا جس میں ایک چینی لڑکی ایک مخصوص کمپنی کے مصالحے سے بریانی تیار کرتی ہے اور ہمسایوں (نہ کہ ہمسائیوں) کے گھر لے جاتی ہے، جہاں اُس کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ راقم نے گذشتہ ملازمت میں اس اشتہار کا تجزیہ بزبان انگریزی کرتے ہوئے مجموعی طور پر اچھا اور کامیاب اشتہار قراردیا۔ اس کے تخیل اور عکاسی کی داد دی، مگر یہ نشان دِہی بھی کی کہ (عوام میں رائج مفروضے کی بنیاد پر )، بریانی کو پنجاب سے مخصوص کرنا اور پھر اس اشتہار میں اردو کی بجائے پنجابی کا غیرضروری استعمال کسی طور موزوں نہیں۔ اس بارے میں مفصل گفتگو ہوسکتی ہے اور کم فہم حضرات کَج بحثی بھی کرسکتے ہیں۔ اسی طرح بعض دیگر اشتہارات کے تجزیے بھی راقم کا موضوع سخن بنے۔ ویسے اگر انگریزی کا استعمال برداشت کیا جائے تو دو اشتہار بہت اچھے لگتے ہیں۔
ایک تو وہ جس میں لفظ ’ممی‘ کو Tummyسے ہم قافیہ بنا کر متن لکھا گیا اور دوسرا وہ جس میں کہا گیا ، ’’……..سب Rightکردے گا‘‘۔ اب یہ دیکھیے کہ اِن دنوں صابن یا ڈِٹرجنٹ کے تقریباً ہر اشتہار میں یہ کہا اور دکھایا جاتا ہے کہ بچوں کا گندہ ہونا (گندا درست نہیں) اور گندگی سے لتھڑ جانا کوئی بُری بات نہیں، بلکہ مستحسن ہے۔ ’’کیوںکہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔’’داغ نہیں تو کام نہیں‘‘۔’’ہمارا ڈِٹرجنٹ…….ضِدّی سے ضِدّی داغ نکال دیتا ہے‘‘، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے اشتہار کا متن لکھنے والے جان لیں کہ یہ ضِدّی داغ کوئی چیز نہیں۔ جہاں تک سوال ہے چھوٹے بچوں کے کپڑوں اور ہاتھ پائوں کے، کھیل یا کسی بھی سرگرمی میں گندے ہونے کا تو سائنس اور تہذیبی علم یہ کہتا ہے کہ قدرتی طور پر ایسا ہوجانا کچھ ایسا مضرّ بھی نہیں، مگر حدِاعتدال اور ہماری اسلامی تعلیم کا خیال رکھنا اور انھیں بتانا اور سمجھانا لازم ہے۔
اسی نوعیت کے بعض اشتہارات میں نانی یا دادی کی یہ کہہ کر تحقیر کی جاتی ہے کہ آپ پرانے زمانے کی ہیں…………۔ چلتے چلتے ایک انکشاف: گزشتہ دنوں فوت ہونے والے ممتاز سیاست داں، شعبہ تشہیر کی معروف شخصیت اور خاکسارکی شعبہ تشہیر میں اولین ملازمت میں، آجر محترم دوست محمد فیضی نے ایک مرتبہ استفسار فرمایا، ’’صدیقی صاحب! یہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ Slogan’جہاں مامتا، وہاں………..‘ کس نے لکھا تھا‘‘۔ میرا جواب نفی میں سن کرخود ہی بتایا، ’’علامہ نیاز فتح پوری نے‘‘۔ مرحوم فیضی صاحب مجھ سے بہت شفقت فرماتے تھے۔ ایک موقع پر انھوں نے (سابق گورنرسندھ کے ایماء پر) مجھ سے کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے اطراف میں لگوانے کے خیال سے، خیرمقدمی کلمات پر مبنی بِل بورڈز کا تشہیری متن لکھواکر اشتہارات تیار کروائے، میری تحریر کو بہت سراہا، شاید گورنر نے بھی زبانی منظوری دے دی، مگر پھر نامعلوم کیا ہوا کہ بعجلت تمام تیار کردہ یہ مخلصانہ منصوبہ عملی شکل نہ اختیار کرسکا۔
The post اَیڈ ….وہ بھی رومن انگلش میں؟؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2D7rqRX
via IFTTT
No comments:
Post a Comment