جب ہم بچپن میں یہ سنتے اور پڑھتے تھے کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی سے گھرا ہوا ہے تو اس بات کا یقین نہیں آتا تھا کیونکہ ہر طرف زمین ہی زمین نظر آتی تھی، لیکن پھر جو ایک ہفتہ کھلے سمندر میں گزار کے آئے تو تین چوتھائی کا تناسب پانی کی وسعت، شوکت، ہیبت اور عظمت کے اظہار کے لیے بہت کم معلوم ہوا۔ ہمیں اور ہمارے ایک عالم فاضل صحافی دوست (اُن کا نام گلزار فرض کرلیتے ہیں) کو یہ موقع چند سال قبل امریکا کی ایک جہازراں کمپنی Royal Caribbean International (آرسی آئی) نے اپنے تفریحی بحری جہازLegend of the Seas کے افتتاحی سفر پر مدعو کرکے فراہم کیا۔
یہ دورۂ سنگاپور سے شروع ہوکر تھائی لینڈ اور ملائیشیا سے ہوتا ہوا سنگاپور ہی پر ختم ہوا۔ ہم کراچی سے شام سات بجے بذریعہ سنگاپور ایئرلائنز براستہ لاہور دوسرے دن صبح چھ بجے سنگاپور پہنچے۔ ہم نے ہوائی جہاز ہی میں اپنی گھڑیاں تین گھنٹے آگے کرلی تھیں اور یوں آٹھ (بظاہر گیارہ) گھنٹے کا یہ سفر ہنستے بولتے، کھاتے کھلاتے اور بہت سوں کا ’’پیتے پلاتے‘‘ گزر گیا۔ پرواز نہایت آرام بخش تھی اور فضائی میزبان اتنے حسین اور ’’فرحت بخش‘‘ کہ، بقول استاد نصرت فتح علی خاں: دل کرے ویکھدا رواں! سفر کے اختتام پر کچھ لوگوں کا جہاز سے اُترنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا اور کچھ اپنی ’’خوش مشروبی‘‘ کے باعث اُترنے کے قابل نہیں تھے…اُنھیں اُتارا گیا۔
ہم یہاں واضح کردیں کہ صحافی دوست نے جہاز کا نام ’’آسان زبان‘‘ میں ترجمہ کیا__اُسطُور اُلبحُور۔) یہ ترجمہ سن کر ہمارے کانوں میں خارش ہونے لگی۔ ہم نے اُن سے کہا ’’ایک ترجمہ ہم نے بھی کیا ہے لیکن ذرا مشکل ہے۔‘‘ وہ بے صبری سے بولے ’’ہاں ہاں، بتاؤ۔‘‘ ہم نے عرض کیا ’’سمندروں کی داستان۔‘‘ انھوں نے برُا سا منہ بنا کر جملہ کسا ’’یہ استادی تو نہ ہوئی۔‘‘سنگاپور ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو لائن میں لگی ہوئی سب سے آگے والی ٹیکسی کے ڈرائیور نے اپنی گاڑی کی ڈِکی کھول کر ہمارا مودبانہ استقبال کیا۔ معلوم ہوا کہ وہاں ٹیکسیاں پبلک مقامات سے اسی طرح نمبر سے چلتی ہیں۔
نہ ڈرائیور کو مسافر کے انتخاب کا حق حاصل ہے اور نہ مسافر کو ڈرائیور کا۔ یہ نظم و ضبط کا وہ درس تھا جو ہم یہاں سے سن کرگئے تھے اور وہاں اس پر عمل ہوتے دیکھا۔ ٹیکسی چلی تو گلزار صاحب نے ڈرائیور سے پوچھا ’’بندرگاہ یہاں سے کتنی دُور ہے؟‘‘ ڈرائیور نے جواب دیا ’’سنگاپور ایک چھوٹا سا علاقہ ہے۔ یہی ملک ہے اور یہی اس کا دارالحکومت ہے۔ یہاں کوئی جگہ کسی دوسری جگہ سے دُور نہیں۔‘‘ ہمیں اس مختصر اور برجستہ جواب پر رضی اختر شوقؔ کا شعر یاد آگیا جو انھوں نے اپنے شہروں کے بارے میں کہا تھا ؎
اب جو چلے تو یہ کُھلا شہر کشادہ ہوگئے
بڑھ گئے اور فاصلے گھر سے گھروں کے درمیاں
ایک پورٹ سے دوسری پورٹ کا فاصلہ صرف بیس منٹ میں طے ہوگیا۔ راستے میں نہ کوئی ٹوٹی ہوئی سڑک ملی، نہ کہیں گندگی کا ڈھیر نظر آیا اور نہ پولیس کا سپاہی۔ صفائی ہمارے ایمان کا نصف جزو ہے لیکن ہمارے گٹر اُبلتے، متعفّن شہروں کے مقابلے میں سنگاپور لیبارٹری کی طرح صاف ستھرا اور باغ کی طرح ہرا بھرا لگا یہاں تک کہ پیدل چلنے والوں کے ’’اوور ہیڈ برج‘‘ بھی رنگ برنگے پھولوں سے لدے ہوئے تھے جنھیں دیکھ کر دل فرطِ مسرّت سے کھِل اٹھا۔ آپ بے شک اسے بارش کی برکت قرار دے دیں لیکن یہی بارش ہمارے شہروں کی غلاظت میں اضافہ کردیتی ہے جب کہ وہاں کا حال اس شعر کا عکاس تھا ؎
صفائی ہے باغِ محبت میں ایسی
کہ بادِصبا نے بھی تنکا نہ دیکھا
ہماری حیرانیوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ٹیکسی اپنی منزل پر پہنچ گئی۔ ہم نے جو میٹر دیکھا تو ایک اور حیرانی ہماری جھولی میں تھی۔ ہمارے یہاں کا ڈرائیور اپنی ٹیکسی کا اسٹیئرنگ بھی کنٹرول کرتا ہے اور میٹر بھی۔ وہاں کا میٹر خودکار ہونے کے ساتھ ساتھ خودمختار بھی تھا۔ یہ اسی تاجرانہ دیانت کا نتیجہ ہے کہ صرف پچاس لاکھ کی آبادی والے اس چھوٹے سے ملک میں، ایشیا کی حد تک، معیارِزندگی جاپان کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور یہ دنیا کا اٹھارواں امیر ترین ملک ہے۔ بندرگاہ پر ہمیں اپنا مطلوبہ جہاز تلاش کرنے میں ذرا دقت نہ ہوئی۔ ہم نے جہاز کے مین گیٹ پر متعین دو سیکوریٹی گارڈز کو ٹکٹ وغیرہ دکھا کر اپنی آمد کی اطلاع دی۔
یہ دونوں جو صورت سے جاپانی لگتے تھے ہمارے کاغذات چیک کرتے ہوئے آپس میں اپنی زبان بول رہے تھے۔ اسی اثنا میں ہم نے اپنے ساتھی سے کہا ’’یار گرمی بہت ہے۔‘‘ اس پر ایک گارڈ، جس کے سینے پر Netra Chemjongکے نام کا ٹیگ لگا ہوا تھا، نہایت شستہ اردو میں ہم سے مخاطب ہوا ’’صاحب، گرمی تو ابھی اور بڑھے گی۔‘‘ لیجیے، مزید حیرانی! ہم نے اس سے پوچھا ’’آپ اردو سمجھتے ہیں؟‘‘بولا ’’اچھی طرح۔ ہم لوگ نیپال کے رہنے والے ہیں اور ہمارے ملک میں اردو خوب سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ میں نے یہ زبان انڈونیشیا میں بھی سنی ہے۔‘‘ ہمیں اس بات کی خوشی ہوئی کہ ہم نے انھیں اجنبی سمجھ کر اردو میں کوئی غیرذمے دارانہ بات نہیں کی تھی۔
اب ذرا جہاز کا حال سن لیجیے۔ ہم تو بہت حیران ہولیے اب آپ کی باری ہے۔ گیارہ عرشوں (Decks) پر مشتمل، مکمل طور پر ایئرکنڈیشنڈ Legend of the Seas میں لگ بھگ ایک ہزار کمرے (Cabins) تھے اور اس میں مجموعی طور پر دو ہزار افراد کے ٹھہرنے کی گنجائش تھی۔ اُس وقت جہاز میں مختلف ملکوں کے ایک ہزار چھے سو مسافر تھے جن میں زیادہ تر یورپی اور امریکی تھے۔ ہمارے علاوہ انڈونیشیا کی ایک خاتون بھی صحافیوں کی نمائندگی کررہی تھیں جب کہ ایک ملائیشیا کی اور سری لنکا کی دو خواتین کا تعلق ’’ٹریول ٹریڈ‘‘ سے تھا۔ ہم چھے لوگ آر سی آئی کے ریجنل چیف مسٹر کیلون ٹان (Kelvin Tan)کے خاص مہمان تھے۔
جہاز میں چھے خود کار اور ’’بولنے والی‘‘ لفٹیں تھیں۔ ہر ڈیک پر جب لفٹ رکتی ہے تو ایک دل کش نسوانی آواز ڈیک نمبر کا اعلان کرکے یہ بتاتی کہ لفٹ اوپر جارہی ہے یا نیچے۔ جہاز کے مرکزی حصے کی دو کیپسول ٹائپ کی خوب صورت لفٹوں میں بھی یہی اہتمام تھا۔ (اُس وقت یہ عام بات نہ تھی۔) جہاز میں آٹھ سو افراد کی نشستوں کا ایک جدید تھیٹر، ساڑھے پانچ سو نشستوں کا مرکزی تفریحی لاؤ نج، ڈیڑھ سو افراد کا ایک کانفرنس سینٹر، ایک ہزار افراد کا مین ڈائننگ ہال، ڈھائی سو افراد کا ڈانسنگ فلور، لائبریری، شاپنگ مال، فوٹو اسٹوڈیوز، پکچر گیلری، بیوٹی پارلرز، فٹنس کلبس، میڈیکل کلینکس، قمار بازوں کی دل جوئی کے لیے ایک عظیم الشان چمکتا، پھڑکتا سا کیسینو اور ٹیلکس سینٹر کے علاوہ بالائی عرشے پر دو سوئمنگ پول، ایک منی گالف کورٹ اور کوہ پیماؤں کے شوق کی تکمیل کی خاطر ایک مصنوعی پہاڑ کا اہتمام تھا۔ حد تو یہ ہے کہ مسافروں کو تازہ ترین خبروں کی فراہمی کے لیے جہاز سے ہر روز ایک اخبار بھی شائع ہوتا تھا۔
ہم ایک ہفتے اُس جہاز پر رہے اور خوب گھومے پھرے لیکن پھر بھی پورے طور پر اس کی سیر نہ کرسکے۔ ویسے بھی ہم دونوں کا یہ پہلا بحری سفر تھا اس لیے جہاں ہماری دل چسپی کی کوئی چیز نظر آتی، ہم دیر تک اسے دیکھتے اور اس سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔ جہاز پر چوبیس گھنٹوں میں دس مواقع پر کھانا مقررہ اوقات پر (فی سبیل اﷲ) ہر عرشے کے ڈائننگ ہال میں مہیا کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ آپ جو چاہیں، جب چاہیں (بغیر ذاتی خرچ کے) اپنے کمرے میں منگوا سکتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ پیٹُو لوگوں کی جنت تھا۔ ہم اکثر کھانا اپنے عرشے ہی پر کھاتے تھے۔ ایک رات گلزار صاحب نے کہا ’’کیوںنہ آج ’ٹاپ فلور‘ (Upper deck) پر چلیں۔ وہاں تھائی فُوڈ میلہ ہے۔‘‘ ہم نے کہا ’’بھائی، تھائی میلہ ہو یا ہائی میلہ، ہمیں تو سبزی ہی کھانی ہے۔ وہ بھی نہ ملی تو کیا کریں گے؟‘‘، ’’نیچے آجائیں گے۔‘‘ انھوں نے کھڑے کھڑے مسئلہ حل کردیا۔ ہم اس خیال سے کہ کھلے عرشے پر رات کے وقت کا سمندر بھی دیکھ لیں گے، راضی ہوگئے۔
عرشے کے ایک حصے پر کھانے کی دسیوں میزیں سجی ہوئی تھیں جبکہ دوسرا حصہ جہاں سوئمنگ پول، گالف کورٹ وغیرہ تھے، خالی پڑا تھا۔ کھانے والے حصے میں باربی کیو کا ایک سیکشن، ذرا سی اوٹ میں، علاحدہ بنایا گیا تھا۔ گلزار صاحب وہاں جانے لگے تو ہم نے انھیں روکا لیکن وہ نہ مانے۔ دو منٹ بعد ہی اُبکائیاں لیتے ہوئے واپس لوٹ آئے۔ کہنے لگے ’’وہاں تو ’گندے جانور‘‘ کی سری بھی روسٹ ہورہی ہے۔‘‘ بہرحال کھانے سے فارغ ہوکر ہم دونوں دوسری طرف چلے گئے۔ وہاں سب سے الگ تھلگ، سمندر اور آسمان کا نظارہ کیا تو دل پر دہشت بلکہ وحشت طاری ہوگئی۔ کثافت سے پاک آسمان گہرا نیلا تھا اور اس پر تارے ایسے چمک رہے تھے جیسے سیکڑوں میل دُور برقی قمقمے روشن ہوں۔ اِدھر ہمارا عظیم الشان جہاز درویشانہ بے نیازی سے سمندر کا سینہ چیرتا چلا جارہا تھا۔ کبھی ہم اُوپر دیکھتے، کبھی نیچے۔ اسی والہانہ کیفیت میں اچانک مرحوم ضمیر جعفری کا ایک بہت پرانا شعر زبان پر آگیا ؎
یہ تاروں بھاری رات اور یہ سمندر
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
جہاز کے چار عرشے زیرِآب تھے اور سات سطح آب کے اوپر۔ ہمیں اور گلزار صاحب کو نیچے سے تیسرے عرشے پر بنے ہوئے دو کمرے دیے گئے جو ساتھ ساتھ تھے۔ تمام کمرے اندرونی ٹیلی فون کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے۔ ہر کمرہ اپنی گنجائش، آسائش اور تعیّشات کے اعتبار سے فائیواسٹار ہوٹل کے کمرے سے کم نہیں تھا۔ چلتے ہوئے جہاز سے جب ہم اپنے زیرِآب عرشے کی بُلٹ پروف، شیشہ بند کھڑکی سے باہر دیکھتے تو رئیس امروہوی کے اس شعر کو حقیقی تعبیر مل جاتی کہ ؎
خاموش زندگی جو بسر کررہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کررہے ہیں ہم
ہمارے مزاح گو دوست ضیا الحق قاسمی نے اس شعر کی یہ دل چسپ تضمین کی تھی ؎
کچھ کام مل گیا ہے ہمیں آب دوز پر
’’گہرے سمندروں میں سفر کررہے ہیں ہم‘‘
اندر کی بات بہت ہوگئی۔ اب کچھ باہر کا حال ہوجائے۔ ایک صبح جہاز تھائی لینڈ کے ایک جزیرے ’’پھُکٹ‘‘ (Phuket) پر لنگرانداز ہوا۔ یہاں ہماری گائڈ نُونی(Nooni) نام کی ایک شوخ و شنگ، تیزطرار اور ’’فراخ دل‘‘ قسم کی لڑکی تھی جو فرفر انگریزی بول رہی تھی۔ نُونی نے بتایا کہ جزیرے کی تین لاکھ آبادی میں 75فی صد بدھ، 20 فی صد مسلمان اور بقیہ 5 فی صد میں عیسائی، لامذہب خانہ بدوش اور دیگر قومیتوں کے لوگ شامل ہیں۔ یہاں بُدھوں کے 28 مندر اور مسلمانوں کی 35 مسجدیں ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کے پودے کو شورزمین ہی زیادہ موافق آتی ہے۔ بقول نونی، بدھ مذہب کے لوگ توحید پرست ہوتے ہیں اور حیات بعد الممات پر ایمان رکھتے ہیں۔
ان کے یہاں خاندان کی اکائی پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ گھر کے سب افراد ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور بزرگوں کو اپنے پاس ہی رکھتے ہیں۔ مغربی ملکوں کی طرح بوڑھے والدین کو ’’اولڈ پیپلز ہومز‘‘ میں ’جمع‘ نہیں کروادیتے۔ اکثر گھروں میں تین نسلیں ایک ساتھ رہتی ہیں۔ بدھوں کا مذہبی رہنما (Monk) تجرد کی زندگی بسر کرتا ہے۔ اسے اپنا کھانا پکانے کی بھی اجازت نہیں۔ وہ نذرنیاز پر گزارا کرلیتا ہے جو اسے دل کھول کردی جاتی ہے۔ (شاید اسی لیے وہ عام آدمی سے زیادہ فربہ اور مچرّب ہوتا ہے۔)
تھائی، دنیا کی مشکل ترین زبانوں میں اسے ایک ہے۔ صرف ایک لفظ ’’ما‘‘ (Ma)کو چار مختلف لہجوں میں ادا کریں تو چار الگ الگ معانی نکلتے ہیں یعنی (۱) یہاں آؤ (۲) کتا (۳) گھوڑا اور (۴) ماں۔ تھائی لفظ ’’ہا‘‘ کے معنی ہیں پانچ۔ اس لیے اگر آپ کو555 کا سگریٹ درکار ہوتو دکان دار سے کہیں ’’ہاہاہا‘‘۔ ہم نے یہاں اسکوٹر کو بطور ٹیکسی پہلی بار استعمال ہوتے دیکھا تھا۔ ایک سواری کے لیے یہ سستا اور تیزترین ذریعۂ سفر ہے جو اَب ہمارے یہاں بھی رائج ہوگیا ہے۔
البتہ جو شخص یہ خدمت انجام دیتا ہے اسے ہم ’’بائکیا‘‘ کہتے ہیں۔ ہمیں یہ تحقیرآمیز لفظ ایک آن نہیں بھاتا۔ آپ اسے ’’بائک مین‘‘(Bike man) یا سیدھا سادہ ’’بائک والا‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ چھوٹے سے اُس جزیرے میں مغربی طرز کے خوبصورت مکانات، اعلیٰ درجے کے ہوٹل، کشادہ پارک اور دل کش ساحل نظر آئے۔ ایسے ہی ایک ساحل پر ہلکی دھوپ میں چمکتی ہوئی ریت پر چلتے چلتے ہم لہروں تک جاپہنچے۔ راستے میں بہت سے سیاح (جن میں بیشتر خواتین تھیں) ریت پر پڑے غسلِ آفتابی لے رہے تھے۔ وہ سب ’’لباسِ فطرت‘‘ میں ملبوس تھے جس کی ستائش ہمارے ایک کلاسیکی شاعر نے ان الفاظ میں کی تھی ؎
کب ہے عریانی سے بہتر کوئی دنیا میں لباس
یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا اُلٹا
(صاحب مرزا شناورؔ)
ہمارے دوست انورشعور صاحب نے اس لباس کے یہ ’’فضائل‘‘ گنوائے ہیں ؎
مفت بھی ہے لباسِ عریانی
اور مجھ پر بھلا بھی لگتا ہے
ہم تھوڑی دیر لہروں کا لطف لے کر اسی راستے سے اپنی بس کے قریب پہنچے تو اچانک گلزار صاحب نے اپنے الٹے ہاتھ کی آستین کے کف کو نیچے کھینچتے ہوئے کہا ’’میری گھڑی ساحل پر کہیں گِرگئی ہے۔ آپ بس میں بیٹھیے، میں بس ابھی آتا ہوں۔‘‘ ہم نے مسکراتے ہوئے اُن کے حکم کی تعمیل کی۔ بیس منٹ بعد وہ خوش خوش لوٹے۔ ہم نے پوچھا مل گئی گھڑی؟‘‘ بولے ’’ہاں‘‘۔ یہ کہہ کر آستین اوپر کھینچتے ہوئے ہمیں اپنی گھڑی دکھائی۔ ہم نے اس راز پر پردہ ہی پڑا رہنے دیا کہ گھڑی تو اُن کی کلائی پر پہلے بھی نظر آرہی تھی۔ یہ تو محض ’’آنکھوں کی دوبارہ ٹکور‘‘ کا بہانہ تھا۔ پھُکٹ میںہم نے جی بھر کر سیر سپاٹا کیا…اور وہ بھی پھوکٹ میں! ہر طرف خوش حالی دیکھی اگرچہ نُونی بار بار کہہ رہی تھی کہ ہمارا ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ شاید اُن لوگوں میں خوداعتمادی کی کمی ہے۔ ہمیں دیکھیں کس طرح غربت، مہنگائی، بے روزگاری، ذخیرہ اندوزی، لوڈشیڈنگ اور بدعنوانی کا ’’زنانہ وار‘‘ (ہم نے مضمون 8مارچ کو لکھا ہے) مقابلہ کررہے ہیں۔
یہ ایک غیرمسلم ملک کا ذکر تھا۔ اب ایک اسلامی ملک کا حال بھی سن لیجیے۔ جہاز ملائیشیا کی ایک بندرگاہ پنانگ (Penang) پر رُکا تو ہم شہر کی سیر پر نکلے۔ ہم نے کیبل کاریں تو بہت دیکھی ہیں لیکن کیبل ٹرین زندگی میں پہلی بار اُس شہر میں دیکھی۔ پچاس ڈبوں پر مشتمل خوب صورت ٹرین تاروں کے سہارے سفر کرتی ہوئی سطح زمین سے پہاڑ کی چوٹی تک جاتی ہے۔
ایک مرحلے پر جب یہ تقریباً 70ڈگری کے زاویے سے ترچھی ہوتی ہے تو اچھے اچھے جیالوں، متوالوں اور کھلاڑیوں کی سسکیاں نکل جاتی ہیں۔ پہاڑ کے اُوپر بنے ہوئے پھل دار درختوں کے باغات میں دو گھنٹے تفریحی کرکے جب ہم واپس لوٹے تو دوپہر کے کھانے کی فکر ہوئی۔ ہم نے پورا بازار گھوم لیا۔ دونوں طرف ہوٹل ہی ہوٹل تھے لیکن حلال کھانا کہیں دستیاب نہ تھا۔ اب ہم لوگ لاکھ گناہ گار سہی لیکن باہر جاکر حلال گوشت پر کوئی مصالحت نہیں کرتے۔ ہمیں ’’لیجنڈ آف دی سیز‘‘ کا ایک عشائیہ یاد آیا جس میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ شریک تھے۔ مسٹرکیلون ٹان ایک بڑی سی گول میز پر صحافیوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ کھانے سے پہلے تمام مہمانوں کے سامنے سرخ شراب (Red wine) کی بڑی بڑی بوتلیں رکھ دی گئیں۔ کہا گیا کہ یہ خاص شراب بھوک کو مہمیز کرنے کی خاطر بطور Starter (شروعات) پیش کی جارہی ہے۔ تاہم گلزارصاحب کے حلق کو وہ ایسی راس آئی کہ گلاس پر گلاس اتارتے چلے گئے۔
ہم نے دو ایک بار انھیں ٹوکا بھی لیکن وہ ’مفت کی شراب قاضی کو بھی حلال ہوتی ہے‘ والی قطعاً غیرشرعی کہاوت پر یقین رکھتے تھے۔ جب تک ویٹر لڑکی ایک ایک مہمان کے پاس آکر کھانے کا آرڈر لیتی ہوئی ہم تک پہنچی، گلزار صاحب پوری طرح ٹُن ہوچکے تھے۔ بہرحال اُس نے ہم سے ہماری پسند پوچھی تو ہم نے اسے تلی ہوئی مچھلی اور اُبلے ہوئے چاول لکھوائے۔
جب وہ برابر والی نشست پر گلزار صاحب کے پاس آئی تو موصوف نے مخمور آنکھوں سے اُسے دیکھا اور لڑکھڑاتی زبان میں بولے (ترجمہ) ’’وہی جو میرے دوست نے منگوایا ہے۔‘‘ لڑکی نے مودبانہ عرض کیا ’’سر، آپ کے لیے ’چکن گِرِل‘ بھی لے آؤں۔ یہ ہماری آج کی خاص ڈِش ہے۔‘‘ ہمارے دوست نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کرتے ہوئے اُسی ڈانواڈول زبان سے کہا (ترجمہ) ’’ہرگز نہیں۔ تمھاری مرغی حلال نہیں ہوگی۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے شراب کا گلاس اپنے منہ سے لگالیا۔ یہ پوری کیفیت (جس میں حبّہ برابر جھوٹ یا مبالغہ نہیں) امریکا میں مقیم نامور مزاح گو خالد عرفان کے اس شعر کی غماز تھی ؎
تمھاری دعوت قبول مجھ کو مگر تم اتنا خیال رکھنا
بیئر کسی بھی برانڈ کی ہو، چکن فرائڈ حلال رکھنا
اب پھر آتے ہیں ملائیشیا کی طرف۔ اس ملک کے دارالحکومت (کوالا لمپور) میںہم نے (اُس وقت کے) دنیا کے سب سے اونچے ’’جڑواںٹاورز‘‘ (Twins Towers)دیکھے۔ سواسو منزلہ یہ خوب صورت ٹاورز (جنھیں اوپر سے ایک پل کے ذریعے ملادیا گیا ہے) انجنیئرنگ کا شاہکار ہیں۔ ٹاورز کی تیسری منزل پر برابر برابر تیرہ ریسٹورنٹ تھے جو ملک کے ہر صوبے کی نمائندگی کرتے تھے۔
ایک طرف نماز کا اہتمام بھی تھا۔ ہم نے ان ہی میں سے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا اور وہیں نماز پڑھی۔ کوالالمپور اپنی صفائی، کشادگی، عمارات اور امارت کے لحاظ سے مغربی ملکوں کی ہم سری کر رہا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ہمارے ایک سابق وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف1997ء میں جب اس ملک کا دورہ ختم کرکے واپس جارہے تھے تو سرکاری کار ملائیشیا کے وزیرِاعظم مہاترمحمد خود چلا رہے تھے۔ انھیں سڑک پر ایک آئس کریم کا خالی پیکٹ نظر آیا جو انھوں نے گاڑی روک کر اٹھا لیا اور ایئرپورٹ پہنچ کر ’’ڈسٹ بِن‘‘(کُوڑا دان) میں ڈال دیا تھا۔
یہ وہاں کے ماحول کا اثر تھا کہ گلزار صاحب ٹافی کھاکر اس کا ریپر ہاتھ میں لیے Use Me (مجھے استعمال کیجیے) کا ڈبا ڈھونڈتے پھرے۔ وطن عزیز میں ہوتے تو بے فکری سے ہوا میں اُچھال دیتے۔ ہم ’’اُسطُوراُلبحُور‘‘ سے سنگاپور لوٹ رہے تھے تو زبردست بارش شروع ہوگئی۔ پہلی نظر میںاوپری عرشے سے سمندر پر بارش کا منظر بہت بھلا لگا لیکن پھر اپنے تھر اور چولستان یادآگئے۔ کلیجے میں ایک ہُوک اُٹھی اور زبان پربے ساختہ احمد فرازؔ کا یہ شعر آگیا ؎
صحرا تو بُوند کو بھی ترستا د کھائی دے
بادل سمندروں پہ برستا دکھائی دے
The post ’’اُسطُوراُلبحُور‘‘پر چند روز appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3hDacL3
via IFTTT
No comments:
Post a Comment