( قسط نمبر24)
اگر بیسویں صدی عیسوی کے دو بڑے تاریخی واقعات کا ذکر کیا جائے تو یہ دو واقعات روس اور سوویت یونین کے ہیں۔ روس اشتراکی انقلاب کے بعد 1922 میں سوویت یونین بنا اور پھر1991 میں سوویت یونین ٹوٹ گئی۔ 26 دسمبر 1991 سے پہلے سوویت یونین کا رقبہ 2 کروڑ 23 لاکھ 7 ہزار 815 مربع کلومیٹر تھا اور آبادی 29 کروڑ 26 لاکھ 10 ہزار 734 تھی اب روس کا کل رقبہ 1کروڑ 70 لاکھ 98 ہزار242 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی 14 کروڑ 68 لاکھ 80 ہزار432 ہے۔ اگرچہ رقبے کے اعتبار سے اب بھی روس دنیا کا سے سے بڑا ملک ہے،مگر اب سوویت یونین کو بکھر کر پندرہ آزاد وخود مختار ملکوں میں تقسیم ہو ئے 29 سال ہو چکے ہیں۔ یہ 20ویں صدی کے دنیا کے دو بڑ ے واقعات ہیں اور سوویت یونین نے ،،Modran History ‘‘جدید تاریخ میں اس کی بہت بڑی قیمت بھی چکائی ہے ۔
روس ، یوکرائن اور بیلاروس کے علاقوں میں انسان تو ہزاروں برسوں سے آباد رہے ہیں اور یہاں واقع آثار ِ قدیمہ اِس کی گواہی بھی دیتے ہیں مگر روس کی تاریخ اتنی زیادہ پرانی نہیں ۔ 800 سن ِ عیسوی میں Slavic سلاویک کے لوگوں نے یوکرائن اور روس کی جانب ہجرت کی۔
روس کی تاریخ میں پیٹر اعظم کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ وہ 1672 میں پیدا ہوا اور 1725 میں وفات پائی۔ اسے بادشاہ بننے سے پہلے ہی معلوم تھا کہ 244110 مربع کلو میٹر رقبے پر مشتمل جزیرے بر طانیہ نے علم ، تحقیق اور روشن خیالی کی بنیاد پر بے پناہ تر قی کی۔ 1689 میں جب زار پیٹر اعظم روس کا باد شاہ بنا تو روس مغربی یورپ اور خصوصاً برطانیہ کے مقابلے میں کئی سو سال پیچھے تھا۔ یہاں غلام رکھنے کارجحان شدت سے اُس وقت بھی مو جود تھا اور روس میں غلاموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ روس نے مغربی یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے سماجی ، سیاسی ، اقتصادی اصلاحات سے کو ئی استفادہ نہیں کیا تھا۔
یوں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ روس اور مغربی یورپ خصوصاً برطانیہ کے سماج میں علمی تحقیقی اور فکری لحاظ سے کتنا بڑا فاصلہ موجود تھا۔ پیٹر اعظم کو اس اعتبار سے روس ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے عظیم حکمرانوں میں شامل کیا جاتا ہے کہ اُس نے مغربی یورپ اور روس کے معاشروں کے درمیان حائل اس فرق کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ پیٹر اعظم نے بادشاہ بننے کے بعد1697-98 میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اپنے 250 اہم ماہرین ، مشیروں اور دانشوروں کے ہمراہ ( پیورتورمیخائیلوف ) کے جعلی نام سے مغربی یورپ کا ایک طویل دورہ کیا۔
اس دوران پیٹر اعظم نے ہالینڈ میں ’’ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی،، کے بحری جہاز میں ترکھان کی حیثیت سے کچھ عرصہ کام کیا پھر برطانوی رائل نیوی میں کم درجے کے مزدور کے طور پر کام کیا ، پرشیا میں اُس نے اسلحہ ساز ی کے کام کو سمجھا ، اس کے دیگر 250 مشیروں اور ماہر ین نے کارخانوں ، اسلحہ سازی کی فیکٹریوں، سکولوں ، کالجوں ، یو نیورسٹیوں کا مشاہدہ کیا۔ پیٹر نے برطانیہ کی مجلس قانون ساز کے ایک اجلاس میں بھی شرکت کی اور جمہوری انداز میں قانون سازی کا بطور ایک عام آدمی مشاہدہ کیا۔
یوں اس مدت میں اس نے اپنے 250 ماہر ین اور مشیروں کے ساتھ مغربی تہذیب، ثقافت ، ادب، بحری وبری عسکریت، اسلحہ سازی ، سائنس ، صنعت ، ٹیکنالوجی اور ایڈمنسٹریشن کو عملی طور پر دیکھا اور تجربہ حاصل کیا اور پھر 1698 میں روس واپس آکر اپنے مشاہدے ، تجربے اور علم سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے روسی ریاست اور اس کے معاشرے کو جدید تہذیب اور وقت کے تقاضوں کے مطابق تیز رفتار ترقی کرنے کی غرض سے اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا ۔ اُس نے روس میں مغربی ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی کے لیے مغربی یورپ سے ماہرین اور گاریگروں کو پُرکشش معاوضے پر روس بلوایا، یہاں تک کہ اُس نے آئزک نیوٹن کو منہ مانگی پیشکش کی کہ وہ لندن سے ماسکو آجائے مگر نیوٹین نے انکار کردیا اور ساتھ ہی ساتھ ذہین، لائق اور محنتی روسی نوجوانوں کو وظائف دے کر مغربی یورپ بھیجا تاکہ وہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم حاصل کر کے واپس روس آئیں اور روس کو تیزی سے ترقی دیں۔
پیٹر دی گریٹ نے اپنے دور میں زیادہ توجہ صنعت و تجارت پردی جس سے مزدوروں، کاریگروں ، چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور معاشرے میں متوسط تعلیم یافتہ طبقے کے سائز کے بڑھنے کی وجہ سے روسی معاشرے میں سماجی شعور کی سطح بلند ہوئی جس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کی قبولیت کا راستہ ہموار کر دیا۔
اس نے بری و بحری فوج ، اسلحہ سازی پر مغربی یورپ کے انداز سے بھر پور توجہ دی، بیوروکریسی کو جد ید خطوط پر استوار کیا، اس نے روسی اشرافیہ کو مغربی تہذیب اور مزاج میں پوری طرح رنگ دیا، اس طرح عوام نے پھر اشرافیہ کی تقلید کی اور روسی ثقافت میں شہری زندگی کے انداز کو اپنانے کا رجحان بڑھ گیا، اُس نے روسی کیتھولک کلیسا کو دقیانوسی قرار دیتے ہوئے سیکولر ازم کو اپنایا اور پھر اس نے اپنی فوجی قوت کو بھی آزمایا، ابتدائی طور پر کچھ جنگوں میں اُسے عارضی شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اُسے فتوحات حاصل ہوئیں۔ پیٹر دی گریٹ سے قبل ترکی کی سلطنت عثمانیہ روس پر بھاری تھی لیکن پیٹر اعظم کے دور میں روس خلافتِ عثمانیہ کا ہم پلہ ہو گیا۔
پیٹر اعظم روس کا وہ عظیم محسن تھا جس نے روس کے معاشرے کو اس قابل بنادیا کہ وہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں اور معاشروں کا مقابلہ کر سکے، سماجی علوم کے ماہرین اور محققین اس پر متفق ہیں۔ روس پیٹر دی گریٹ کے دور میں فوجی اعتبار سے بھی ایک بڑی وقت بن گیا تھا۔ یوں پیٹر اعظم کے بعد روس نے کئی جنگیں کیں، روس کی سرحدیں اُس زمانے کی ایک بڑی سلطنت عثمانیہ سے ملتی تھیں۔ یوں بڑی فوجی قوت بنتے ہی 1736 میں روس کی بڑی جنگ سلطنت عثما نیہ سے ہوئی، اس کے بعد روس مشہور سات سالہ جنگ میں 1757 میں شریک ہوا اور 1762 میں بغیر کسی معاہدے کے اس جنگ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ 1762 میں زار پیٹر سوئم کو قتل کر دیا گیا تو اُس کی ملکہ کیتھرئین دوئم کو اقتدار ملا جس نے 34 سال حکومت کی۔
یہ دور روس کا سنہری دور کہلاتا ہے جب ملک میں خوشحالی عام تھی۔ یہی دور تھا جب 1789 سے1799 کے درمیان انقلابِ فرانس آیا جس میں مفکر دانشور ادیب والئٹیر اور روسو کے نظریات اور تحریروں نے اہم کردار ادا کیا اور اس انقلاب نے بشمول روس اور یورپ امریکہ اور دیگر ملکوں کے اہل دانش ، فلاسفروں اور انقلابیوں کو متاثر کیا۔ والئٹیر اور روسو کی کتابیں ، تحریریں کئی دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو کر سامنے آئیں ۔ جرمنی کا عظیم فلاسفر دانشور ، مصف صحافی کارل مارکس بھی اس انقلاب سے متاثر ہوا تھا۔ 1778 میں والئٹیر اور روسو کا نتقال ہوا اُس وقت کارل مارکس 60 سال کا ہو چکا تھا اور وہ کیمونسٹ مینو فسٹو لکھ چکا تھا اور داس کیپٹل بھی مکمل ہوگئی تھی۔
اس کے تھوڑے عرصے کے بعد نپولین بونا پارٹ نے فرانس میں قوت اور بعد میں اقتدار حاصل کیا جو سکندر اعظم کی طرح دنیا کو فتح کر نے کا خوا ب رکھتا تھا، اُس نے 24 جون 1812 کو مغربی روس کے دریائے نیمان کو پار کر کے روس پر حملہ کر دیا حالانکہ گیارہ بارہ سال قبل جب زار پال اوّل روس کا بادشاہ تھا تو اُس نے نپولین کے ساتھ مل کر ہندوستان پر حملے کی بات چیت کی تھی۔ نیپو لین جسے فرانس کی فوج اور عوام فتح کی علا مت سمجھتے تھے اور اُس نے یورپ اور دیگر علاقوں میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑے تھے وہ سمجھتا تھا کہ وسیع رقبے کے ملک روس کو بھی فتح کر لے گا اور شروع میں اُسے فتوحات بھی ہوئیں لیکن یہ عظیم فوجی کمانڈر نیپولین کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی ۔ روسی بادشاہ الیگزینڈر اوّل نے اس سے اپنے ملک کے وسیع رقبے شدید سرد موسم اور صبر و استقامت کو استعمال میں لاتے ہوئے مقابلہ کیا۔
نیپولین نے بہت کوشش کی کہ تیز رفتار حملے کرتے ہو ئے روس کو فتح کر لے یہاں تک کہ باروڈونیو کے چھوٹے قبضے پر اور ماسکو سے سات میل دور کی لڑائی میں نپولین نے72000 افراد ایک دن میں ہلاک کئے، مگر روسی جب اپنی خاص اسٹر ٹیجی کے تحت پسپا ہوتے تو شہروں، دیہاتوں کو خود ہی آگ لگا دیتے اور خوراک اوررہائش کے سامان خود تباہ کر دیتے، نیپولین نے ماسکو بھی فتح کر لیا مگر یہاں بھی اُسے آگ اور راکھ کے سوا کچھ نہ ملا ، یوں دسمبر1812 تک روسیوں نے نیپولین کی سپلائی لائن کاٹ دی اور پھر شدید سردی کی وجہ سے 600000 فرانسیسی فوجی ہلاک ہو گئے اور نپولین کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس جنگ میں تقریباً 400000 روسی بھی مارے گئے لیکن روسیوں نے اپنے دفاع کی ایک عظیم تاریخ رقم کردی جو تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ وہ دور ہے جب فرانس ، بر طانیہ ، امریکہ اور روس دنیا میں مستقبل قریب کی چار بڑی قوتوں کی حیثیت اختیار کرنے والے تھے۔ اس موقع پر تاریخی تناظر میں دیکھیں تو فرانس سے یہ غلطی ہوئی کہ نیپولین نے روس پر حملہ کیا اور اس جنگ ہی کی وجہ سے نیپولین اور فرانس کو تاریخی نقصان ہوا۔
اس جنگ میں فرانس کے چھ لاکھ فوجی ہلاک ہوئے اور روس کے تقریباً چار لاکھ فوجی مارے گئے جب کے ماسکو سمیت روس کے کئی شہر تباہ و برباد ہو گئے۔ اس کے بعد 1825 میں سینٹ پیٹر برگ میں جمہوریت کے حامیوں کی بغاوت کا واقعہ پیش آیا، پھر 1853 سے روس کے خلاف جنگ کریمیاکا محاذ تشکیل پانے لگا جس میں ایک جانب روس تھا اور دوسری طرف فرانس ، برطانیہ ، سلطنت سارڈینیا اور ترکی کی سلطنت عثمانیہ کا اتحاد تھا۔
کریمیا کی جنگ مارچ 1854 سے فروری1856 تک جاری رہی، بیشتر جنگ جزیرہ نما کریمیا کے علاقے ہی میں لڑ ی گئی مگر کچھ معرکے بحیرہ بالٹک کے خطوں میں بھی ہوئے۔ یہ جنگ اگرچہ جنگ عظیم اوّل سے تقریباً 60 سال پہلے لڑی گئی مگر اسی جنگ میں اُس وقت کی بڑی قوتوں نے اُس زمانے کی جدید ٹیکنالوجی کو بہتر انداز میں استعمال کرکے جنگ کے روائیتی طریقوں کو بدل دیا۔ فرانس ، برطانیہ کی جانب سے جدید انداز کی بندوقوں کا استعمال بھی ہوا اور آخر میں جنگ کا اختتام معاہدہ پیرس پر ہوا جس میں تمام فریقین نے دستخط کئے اس جنگ میں روس کے ہاتھوں سے خطے کے بہت سے علاقے نکل گئے۔
یوں روس کو اس جنگ کا بڑا نقصان ہوا۔ تاریخ کے فیصلے عجیب ہوتے ہیں، کہ نیپولین جیسے زیرک جنرل سے ایک فاش غلطی روس پر حملے کی ہوئی تو دوسری غلطی یہ ہوئی کہ اُس نے امریکہ میں اپنی فرانسیسی نوآبادی لاؤسینیا Louisiana کی ریاست امریکہ کو فروخت کر دی، اس امریکی ریاست کا رقبہ 135382 مربع کلو میٹر ہے اور آج اس کی آبادی 4649000 ہے۔ اگر نپولین اس ریاست کو امریکہ کو فروخت نہ کرتا تو آج امریکہ کی یہ حیثیت نہ ہوتی۔ اسی طرح 1867 کو روس نے امریکہ کو الاسکا کا علاقہ 72 لاکھ ڈالر میں فروخت کر دیا۔
یہ جغرافیائی اور اسٹرٹیجکل اعتبار سے آج اہم ترین علاقہ ہے۔ الاسکا کا مجموعی رقبہ 17 لاکھ 18 ہزار مربع کلومیٹر ہے جس میں زمینی رقبہ 1481346 مربع کلومیٹر اور آبی رقبہ 236507 مربع کلومیٹر یعنی مجموعی رقبے کا13.77% ہے، یہ رقبے کے لحاظ سے امریکہ کی سب سے بڑی ریاست ہے جب اس کو روس نے امریکہ کو فروخت کیا تو اس وقت یہ تقریباً غیر آباد علاقہ تھا، آج اس کی آبادی710249 ہے جو امریکہ کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں آبادی کی گنجانیت کے لحاظ سے بہت ہی کم ہے، یہاں زیادہ تر علاقہ پہاڑی ہے، 1912 میں یہاں مقامی حکومت قائم کی گئی، 1958 میں امریکی صدر جنرل آئزن ہاور کے دستخط سے الاسکا کو امریکہ کی 49 ویں ریاست کا درجہ دیا گیا۔
الاسکا کا یہ سودا روس کی بہت بڑی غلطی تھی اگر چہ زار پیٹر دی گریٹ کے دور میں روس میں تیز رفتار اصلاحات کا عمل شروع ہوا تھا اور ترقی و تحقیق اور علوم کی خلیج جو مغربی یورپ اور روس کے درمیان حائل تھی اُس کو پیٹر اعظم نے بہت کم کردیا تھا مگر اس کے بعد یہ عمل سست ہو گیا۔ دوسری جانب روس کا دانشور وں، ادیبوں شعرا اور فلاسفروں اور انقلابیوں کا طبقہ جو انقلاب فرانس اور اس کے مفکرین والئٹیر اور روسوکی تحریروں سے متاثر تھا اب کارل مارکس کے زیر اثر تھا جبکہ روسی ادب عالمی سطح پر دوستو وسکی Dostovesky (پیدائش 1821 ،وفات1881) لیو ٹالسٹائی Leo Tolstoy(پیدائش 1821 وفات 1910) الیگزینڈر پوشنکن Alaxander Pushkin (پیدائش 1799 وفات 1837) جیسے ادیبوں کی بنیاد پر نہ صرف روسی ادب خود کو عالمی سطح پر تسلیم کر وا چکا تھا بلکہ اس ادب نے اجتماعی سماجی سیاسی شعور کی بنیاد پر حقوق کی جدوجہد کا عزم روسیوں میں پید ا کر دیا تھا۔
پھر مغربی یورپ کے مقابلے میں یہاں معاشرے پر شاہی آمریت کا اثر بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے معاشرے کی اجتماعی فکرو احساس، جذبات ایک ولولے اور جوش کے ساتھ اندر ہی اندر لاوے کی طر ح پک رہا تھا۔ 1897 میں روس میں اس قدر تبدیلی آئی کہ یہاں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی قائم ہو گئی، یہی پارٹی بعد میں بالشیوک Bolshevik اور مینشیویک Menshevik گروہوں میں تقسیم کا سبب بنی یعنی روس میں جماعتی بنیادوں پر جمہوری عمل کی ابتدا 1897 میں ہوئی۔
20 اکتوبر 1894 نیکو لیس دوئم روس کے بادشاہ بنے اور دس سال بعد 1904 میں روس کی جاپان سے جنگ ہوئی، یہ روسی جاپانی جنگ مینچوریا ، بحیرہ زرد، Yellow Sea ، جزیرہ نما کوریا، بحیرہ جا پان کے علاقے میں لڑی گئی۔ روسی بادشاہ نیکولیس کی فوجوں کی تعداد 1365000 اور جاپانی بادشاہ میجی کی فوجوں کی تعداد 1200000 تھی۔ یہ جنگ 8 فروری1904 سے 5 ستمبر 1905 تک ایک سال اور سات مہینے جاری رہی جس میں روس کے 526223 فوجی ہلاک، مزید بوجہ بیماری18830 ہلاک، 146032 زخمی اور74369 جنگی قیدی ہوئے۔ جاپان کے 55655 فوجی ہلاک مزید فوجی بوجہ بیماری 27200ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔
یہ جنگ آج بھی ماڈرن ہسٹری میں اپنی خاص اہمیت رکھتی ہے، اس جنگ کی وجوہات اُس وقت یہ تھیں کہ روس کوبحرالکاہل پر اپنی بحریہ اورسمندری تجارت کے لیے گرم پانی کی بندرگاہ کی ضرورت تھی، ولادی وستوک کی بندرگاہ صرف گرمیوں میں ہی کام آتی تھی جب کہ جاپان کے ذریعے لیز پر دیئے جانے والا بحری اڈہ پورٹ آرتھر سارا سال کام کرتا تھا، پہلی چین، جاپان جنگ کے خاتمے کے بعد جاپان کو کوریا اور مینچوریا میں اثر و رسوخ پیدا کر کے اپنے منصوبوں پر روسی تجاوزات کا خدشہ تھا۔ روس نے 16 ویں صدی میںایون ٹیر دور ہی سے سائبرین مشرق بعید میں توسیع پسندانہ پالیسی کا مظاہرہ کیا تھا ۔
روس کو حریف کے طور پر دیکھتے ہوئے جاپان نے کو ریا پر اپنے اثر و رسوخ کو تسلیم کرنے پر روس کو پیشکش کی کہ جاپان مینچوریا میں روس کے تسلط کو تسلیم کر لے گا ، مگر روس نے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ جاپان 39 متوازی شمال میں کوریا اور روس کے درمیان ایک غیر جابندارانہ بفر زون ہونا چاہیے۔ جاپان نے ایشیا میں روسی توسیع کے اَن منصوبوں کو خطرہ تصور کیا اور اعلانِ جنگ کر دیا۔
1904 میں مذاکرات کی ناکامی کے بعد جاپانی بحریہ نے چین کے پورٹ آرتھر پر روسی مشرقی بحری بیڑے پر اچانک حملہ کر کے اُسے نقصان پہنچایا۔ اس کے بعد جاپان نے روس کو کئی شکستیں دیں اور موقع فراہم کیا کہ روس بات چیت کر لے مگر روسی بادشاہ نیکولیس دوئم کو اعتماد تھا کہ روس یہ جنگ جیت جائے گا اور اُس نے جنگ جاری رکھی پھر جاپان کی جانب سے ثالث کی بنیاد پر مسئلہ حل کرنے کے لیے ہیگ کی ثالثی عدالت میں جانے سے بھی روس نے انکار کردیا اور پھر آخر روس یہ جنگ ہار گیا اور اختتام معاہدے پر ہوا جس میں امریکی صدر تھیوڈرو روزویلٹ نے اہم کردار ادا کیا۔
اس جنگ میں جاپانی فوج کی مکمل فتح نے عالمی مبصرین کو حیرت زدہ کر دیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں مشرقی ایشیا میں پہلی بار کسی ایشیا ئی ملک نے یورپ کے ملک کو شکست دی تھی اور وہ بھی روس جیسی قوت کو، روس جاپان جنگ نے یہاں طاقت کا توازن تبدیل کر دیا تھا اور آج بھی اس علاقے میں صورتحال کو 1904-05 کے اسٹرٹیجیکل تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
نیکولیس دوئم روس کا آخری بادشاہ تھا ثابت ہوا۔ 1905 کی جنگ جس میں لاکھوں روسی ہلاک اور زخمی ہوئے اور سب سے زیادہ یہ کہ جاپان جیسے ایشیائی ملک سے روس کے جیسی بڑی طاقت نے ذلت آمیز شکست کھائی تھی۔ یوں روسی عوام میں نیکو لیس کی مقبولیت کو دھچکا لگا تھا۔ یہی وہ دور ہے جب روس میں کارل مارکس کے اشتراکی فلسفے اور نظریات کی بنیاد پر لینن اور اسٹالن روس میں تحریک چلا رہے تھے۔ روس ، جاپان جنگ سے اس تحریک کو کا فی تقیو یت ملی۔ اسی سال زار شاہی خاندان میں تاریخ کی مشہور پُراسرار شخصیت گر یگو ری راسپو ٹین Grigori Rasputin داخل ہوا، اس کا شاہی خاندان میں اثر و رسوخ اس طرح ہوا کہ زار نیکولیس کا ولی عہد ایلکسیِ خون کی مہلک بیماری ہوموفیلیا میں مبتلا ہوا۔ (اس بیماری میں مریض کا خون جمنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور ایک مرتبہ چوٹ لگ جائے تو خون نہیں رُکتا، زیادہ خون بہنے سے موت واقع ہو جاتی ہے) یہ ایک لاعلاج مرض ہے۔
زار اور ملکہ زارینہ ولی عہد کی زندگی سے مایوس ہو گئے تھے کہ راسپوٹن نے زار نیکو لیس کو اپنی خد مات پیش کیں اور ولی عہد کو کئی بار انتہائی تشویش ناک حالت سے تندرست کرنے میں کامیاب رہا۔ راسپوٹین نے اپنی روحانی طاقت سے زار خاند ان خصوصاً ملکہ زارینہ کو حد درجہ متاثر کیا، اِس کے روحانی نظریات بھی عجیب وغریب تھے، گناہوں سے دل کو پاک کر نے کے حوالے سے اُس کا نظریہ تھا کہ انسان اتنے گناہ کر ے کہ دل میں گناہ کی خواہش ہی نہ رہے تو پھر انسان مکمل پاک ہوتا ہے۔
ملکہ زارنیہ سے راسپوٹین کے تعلقات کے اعتبار سے شاہی خاندان بدنام بھی ہو رہا تھا لیکن راسپوٹین کا زار خاندان پر اتنا اثر تھاکہ کسی کی جرات نہیں تھی کہ راسپوٹین کے خلاف بادشاہ سے کو ئی بات کرے۔ زار نیکولیس کی ملکہ نے سفارش کر کے راسپوٹین کو روسی کلیسا کا سربراہ مقرر کروایا تھا پھر شاہی خاندان اُس کی پیش گوئیوں ، روحانی کرامات یا جادو سے اتنے متاثر تھا کہ سلطنت کے ا کثر فیصلے اُس کے مشوروں سے ہو تے تھے ، اعلیٰ اور اہم عہدوں پر تقرریاں راسپوٹین ہی کے مشوروں اور سفارشات کی بنیاد پر ہوتی تھیں اس لیے بعض مورخین نے تو یہاں تک کہا ہے کہ 1905 سے 1916 تک روس پر عملاً راسپوٹین ہی کی حکو مت تھی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بر طانوی ایجنٹ ’’لارنس آف عریبیہ ‘‘ یعنی لارڈ لارنس کی طرح راسپوٹین بھی جرمنی کا ایجنٹ تھا کیو نکہ اُس نے روس کی 1914 میں پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی اور خلافت عثمانیہ کے خلاف اتحاد میں شرکت اور جنگ کی شدید مخالفت کی تھی لیکن اس موقع پر دربار اور روس کی پوری اشرافیہ اتحاد میں شامل ہو کر جرمنی کے خلاف جنگ کی حامی تھی اس لیے بادشاہ نیکولیس کو اتحاد میں شامل ہو کر جرمنی کے خلاف جنگ کرنی پڑی۔ جنگ کے دوران راسپوٹین کا شاہی خاندان پر اثر بہت زیادہ ہوچکا تھا۔ یوں خاندان کے وہ شہزادے جو راسپوٹین کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔
انہوں نے 30 ستمبر1916 کو روسی اشرافیہ کے بہت سے لو گوں کے ساتھ مل کر راسپوٹین کے قتل کا منصوبہ بنایا، اس گروپ کی قیادت شہزادہ یوسویوف اور گریند ڈیوک یالوچ نے کی اور گولیاں مار کر راسپوٹین کو پانی میں پھینک دیا۔ کہا جا تا ہے کہ اس کے باوجود کئی گھنٹوں بعد راسپوٹین کی جان نکلی، راسپوٹین کی پراسرار قوتوں کا زار خاندان پر اتنا اثر تھا کہ اُس کی موت کے بعد ملکہ اور بادشاہ خود کو بہت غیر محفوظ سمجھنے لگے تھے۔ دوسری جانب زار نیکولیس بادشاہ نے ایک طرف تو اپنی حاکمیت کو مستحکم رکھنے کے لیے اختیارات نہ صرف اپنے پا س رکھے تھے بلکہ ان کا استعمال عوام کے خلاف کیا تھا ، پھر روس کا یہ آخری بادشاہ نیکو لیس تاریخ کا سب سے امیر انسان تھا۔
اکتوبر1917 میں روس میں کارل مارکس کے اشتراکی نظریات کی بنیاد پر لینن،اسٹالن اور دیگر کیمونسٹ رہنما دنیا کا پہلا کیمونسٹ انقلاب لے آئے اورآخری زار بادشاہ نیکولیس دوئم کو خاندان سمیت گرفتار کر لیا گیا اور پھر 17 جولائی 1918 میں یکاٹربرگ میں اِس بادشاہ کو پورے خاندان کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
لینن نے 1921 میں نئی معیشت متعارف کر وادی تھی جس کے لیے 1917 سے 1921 تک اشتراکی انقلابی پروگرام کے تحت کارخانے زمینیں جاگیریں اور نجی تجارتی مراکز سب قومی ملکیت میں لئے گئے تھے اور 1922 تک خانہ جنگی پر بھی قابو پا لیا تھا مگر اُس وقت تک روس کی اس انقلابی حکومت میں بھی بعض افراد مارکس اور لینن کے نظریات کے مطابق ایک طویل المدت حکومت کے بارے میں مشکوک تھے۔ 1922 ہی میں لینن نے روس کو سوویت یونین بنا نے کا اعلان کرتے ہوئے جمہوریہ یوکرائن، جمہوریہ بلا روس اور روس کو ملا کر ون پارٹی کیمونسٹ پارٹی بالشیوک حکومت کی بنیاد رکھی۔ 1924 میں لینن کے بعد جوزف اسٹالن کیمونسٹ پارٹی جنرل سیکرٹری بنا اور پارٹی کا کنٹرول ماسکو کے پولٹ بیورو کے پاس آ گیا جس میں مرکزی حیثیت جوزف اسٹالن ہی کی تھی۔
معاشی اقتصادی اور عسکری اعتبار سے اب امریکہ کی دنیا پر حکومت تھی جو سوویت یونین کے اشتراکی معیشت کے مقابلے میں آزاد مارکیٹ کی معیشت یعنی سرمایہ دارانہ نظام کا حامی تھا اور اس تضاد کے ساتھ ہی 1918 سے دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔ سوویت یونین نے دنیا بھر میں مزدوروں اور کسانوں کو قومی ملکیت کی بنیاد پر بنیادی ضروریات خوراک ، لباس ، رہائش ، علاج ومعالجہ، تعلیم کی فراہمی کا عملی نمونہ دیا تھا جو اُس زمانے کے اعتبار سے اُن کے لیے بہت پُرکشش تھا کہ اب تک سرمایہ دارانہ معیشت کے حامل ملکوں میں مزدوروں اور کسانوں کو ایسے حقوق حاصل نہیں تھے ، سوویت یونین کے انقلاب کی مخالفت خصوصاً امریکہ اور مغربی یورپ کی طرف سے جاری تھی لیکن جنگ عظیم اوّل نے پورے یورپ کو معاشی ، اقتصادی اور سیاسی طو ر پر نڈھال کر دیا تھا ۔
جنگ ِ عظیم اوّل کے بعد دنیا کو کسی دوسری عالمی جنگ سے بچانے کے لیے امن پسند دانشوروں، سیاستدانوں ، ادیبوں سب کو فکر تھی او ر اسی احساس کے تحت 1919 میں جہاں فرانس کے محل وارسائی میں معاہدہ وارسائی ہو ا تھا وہیں عالمی سطح پر دنیا میں امن کو بر قرار رکھنے کے لیے لیگ آف نیشن ’’اقوام عالم ‘‘ قائم کی گئی مگر ساتھ ہی ساتھ اُس وقت بد قسمتی سے دنیا میں ایک جانب نو آبادیاتی قوتوں کی طرف سے اس نظام کو جاری رکھنے کے لیے منصوبے بنائے گئے تو دوسری جانب امریکہ کو دنیا کے سرمایہ داروں اور ماہرین اور سائنس دانوں نے محفوظ قلعہ تصور کیا اور دنیا کے سرمایہ اور ذہین و فطین افراد کو اس محفوظ قلعے کی کشش کھنچنے لگی، اسی بحرانی صورت سے اسٹالن کو یہ موقع ملا کہ وہ سوویت یونین کو مضبوط کر تے ہوئے اِسے دنیا کی ایک بڑی طاقت کے طور پر منوالے۔
دنیا کے وسیع رقبے پر پھیلی ایک ارب سے زیادہ آبادی کی نوآبادیات یعنی مقبو ضہ ملکوں پر حکومت کرنا آسان نہیں تھا، اب روس کے بعد چین اور دوسرے ملکوں میں عوامی سطح پر آزادی کی تحریکیں اٹھنے لگی تھیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا سب سے زیادہ اثر اسلحہ سازی پر پڑا، پہلی جنگ عظیم میں ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں کا استعمال ہوا تھا اور امریکہ نے1911 میں دنیا کا پہلا طیارہ بردار بحری جہاز بنا چکا تھا۔
اسی طرح جاپان جو 1905 میں روس جیسی طاقت کو شکست دے چکا تھا اب مزید طاقت حاصل کر چکا تھا پھر جنگ عظیم اوّل کے منفی اثرات بھی دنیا پر مرتب ہو رہے تھے، صنعتی زرعی پیداوار میں کمی کی وجہ سے اقتصادی سرگر میاں سست ہو گئی تھیں۔ بے روزگاری بڑھ رہی تھی اور اس ماحول میں روس کی زار سلطنت کے ٹوٹنے کے بعد سوویت یونین بن کر استحکام اور وسعت کی جانب گامزن تھی، برطانیہ اور امریکہ پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد کزن ممالک بن گئے تھے یعنی اِن کے درمیان اتحاد اور تعلقات میں بہت زیادہ قربت ہو گئی تھی اور عالمی سطح پر دفاع ، تجارت ، اور امورِ خارجہ میں اشتراک بہت بڑھ گیا تھا جو آج تک قائم ہے ۔
(جاری ہے)
The post زارشاہی کے روس سے کمیونسٹ سوویت یونین تک appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/32Ur7EF
via IFTTT
No comments:
Post a Comment