زندگی اور موت کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل جو کبھی سست روی اور کبھی سُبک انداز میں جاری رہتا ہے، کسی بھی موت کو ’اچانک‘ قرار دینے کی گنجائش نہیں چھوڑتا، لیکن پھر بھی کچھ زندگیاں اس قدر ’زندہ‘ اور دمِ آخر تک اتنی تخلیقی وفور کی حامل رہی ہوتی ہیںکہ اُن کا آناً فاناً ختم ہوجانا پیچھے رہ جانے والوں کو دنوں غیر یقینی اور حیرت کی کیفیت میں مبتلا رکھتا ہے۔
ڈاکٹر آصف فرخی جنہوں نے ادبی دنیا میں خود کو صرف آصف فرخی کہنا اور کہلوانا پسند کیا، بزمِ جہاں سے یوں اچانک رخصت ہوئے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے بہت اونچی اڑان باندھی ہو، لمحہ بہ لمحہ بلندیوں کا سفر طے کیا ہو اور ابھی مزید بلندیاں اُس کی منتظر ہوں کہ معاً اُڑان کی یہ کہانی بیچ میں روک دی گئی ہو۔ آصف فرخی نے ادبی دنیا میں جتنی بھی مسافت طے کی وہ کمیت اور کیفیت دونوں میں بڑی خیرہ کُن ہے۔
وہ مزید زندہ رہتے تو نہ جانے اور کتنی کام یابیاں اُن کے حصے میں آتیں۔ ایک وسیع المطالعہ انسان، اردو اور انگریزی کے کلاسیکی اور جدید ادب پر گہری نظر، افسانہ نگار، نقاد، انٹرویونگار، اردو اور انگریزی زبانوں میں اپنے انداز کے لکھنے والے، ایک غیرروایتی قسم کے تازہ کار ادبی جریدے کے ایڈیٹر اور پھر ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کی تنظیمی سرگرمیوں میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے آصف فرخی غیرمعمولی توانائی کے ساتھ ادبی دنیا میں مصروفِ کار تھے۔ اُن کی کاوشیں اور حاصلات کا احاطہ آسان کام نہیں۔
آصف فرخی کا ادبی سفر بڑے موزوں پس منظر میں ہوا۔ اچھے اسکول کی تعلیم انہیں میسر آئی۔ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ بوسٹن، امریکا جاکر پبلک ہیلتھ کے مضمون میں ماسٹرز کیا۔ اس ساری پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں گھر میں ایک بڑا ادبی ماحول میسّر آیا جس نے اُن کی پرداخت میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے والد ڈاکٹر اسلم فرخی ایک مستند محقّق، اردو ادب کے پروفیسر اور ادیب تھے۔ اُن کے چچا انور احسن صدیقی معروف ترقی پسند ادیب، کالم نگار اور دانشور تھے۔ نظری اعتبار سے آصف فرخی نے اپنا ادبی سفر چچا کے بجائے والد کے روایتی ادبی افکار کے زیرِاثر شروع کیا لیکن جلد ہی وہ جدیدیت کی طرف مائل ہوتے چلے گئے۔
اُن کے افسانے زمانۂ طالب علمی ہی میں ادبی جریدوں میں شایع ہونا شروع ہوچکے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مطالعے میں وسعت بھی آئی اور خیالات میں بھی بڑی حد تک وسیع النظری داخل ہوتی گئی۔ ترقی پسندی اور ترقی پسندوں سے اُن کی مکمل نظریاتی وابستگی تو کبھی نہیں ہوئی بلکہ بعض مواقع پر اور بعض تحریروں میں انہوں نے اچھی خاصی جارحیت تک کا مظاہرہ کیا لیکن کچھ موضوعات ایسے ضرور تھے جن کے حوالے سے ان کا نقطۂ نظر اُن کو ترقی پسندوں کے قریب بھی لایا۔1995 میں انہوں نے ارجنٹینا کے ناول نگار عمر ریوا بیلا(Omar Rivabella)کے ناول Requiem for a Woman’s Soul کا ترجمہ ’ماتم ایک عورت کا‘ کے عنوان سے کیا۔ اس ناول کے بارے میں معروف امریکی ناول نگار نارمن میلر نے کہا تھا کہ ’یہ ناول انسانی وقار پر دہشت کی یورش اور اذیت اٹھانے والوں کی نفسیات کا مطالعہ ہے‘۔
یہ ناول ارجنٹینا میں فوجی شب خون اور آمریت کے زمانے میں آزادی خواہوں پر ٹوٹنے والی ابتلا اور اپنے حقوق کے طلب گاروں کے غائب کردیے جانے کی اذیت کا ایک تخلیقی اظہاریہ ہے۔ یہ ناول او راس جیسی دیگر غیر ملکی تحریروں نے آصف فرّخی کے طرزِ فکر میں تبدیلی کے تخم بونے شروع کیے۔
وقت گزرنے اور ارد گرد کی امتداد کے ساتھ ساتھ اُن کے پسندیدہ موضوعات کا میدان پھیلتا چلا گیا۔ خاص طور سے عالمی امن اور بالخصوص جنوبی ایشیا میں اسلحے کی دوڑ کے خلاف اُن کے خیالات اُن کے اور اکثر ترقی پسندوں کے خیالات میں قدرِمشترک بن گئے۔ پھر جس طرح سے انہوں نے فلسطینی اور دیگر عربی ادبیات کا ترجمہ کرکے اُن کو اردو کے قارئین تک پہنچایا اُس نے بھی اُن کو ترقی پسند حلقوں کے قریب آنے میں مدد دی۔
اس مشترک میدان کا بہت اچھا اظہار اُن کے نکالے ہوئے رسالے ’دنیا زاد‘ میں ہوا جس میں روایت پسند اور جدیدیت پسند ادیبوں کے ساتھ ساتھ ترقی پسند اہلِ قلم کو بھی بڑے پیمانے پر شایع کیا گیا۔ چنانچہ ’دنیازاد‘ کے صفحات میں جہاں عالمی سطح کے اہلِ قلم مثلاً نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید، ڈاکٹر اقبال احمد، حمزہ علوی، ارُن دھتی رائے، نجیب محفوظ اور محمود درویش کی تخلیقات کے تراجم شایع ہوئے، وہیں فیض احمد فیض، شیخ ایاز، حسن عابدی، انور احسن صدیقی، مسعود اشعر، انوار احمد، امر جلیل، امداد حسینی، فہمیدہ ریاض، زاہدہ حنا، کشور ناہید، شاہ محمد مری اور ایسے ہی بیسیوں ترقی پسندوں کی تخلیقات تواتر سے شایع ہوتی رہیں۔
’دنیا زاد‘، آصف فرخی کے مزاج کا بہترین پَرتو ثابت ہوا۔ تازہ کاری، نت نئے موضوعات کی تلاش، ہمعصر عالمی ادبی رجحانات کی عکاسی، پاکستان کی مختلف زبانوں میں ہونے والے تخلیقی تجربات کے اردو تراجم اور پھر ان سب کی پیشکش میں ایک غیرروایتی اسلوب، یہ سب عناصر ’دنیا زاد‘ کو ’دنیا زاد‘ بناتے تھے۔ عام طور سے ادبی جرائد مختلف اصناف کی چیزوں کو شعبوں کی شکل میں شایع کرتے ہیں۔
’دنیا زاد‘ نے اس اسلوب کو ترک کرکے نثر، نظم، افسانے، تنقید اور تراجم میں کسی ترتیب کو مستقل حیثیت نہیں دی۔ یہ بھی ایک نیا انداز تھا پڑھنے والوں کی نظر میں آنے کا۔ آصف ہر چیز کو نیا بنا کر پیش کرنے کے ماہر تھے۔ سب سے زیادہ انہوں نے جس چیز کو نئے انداز میں برتنے کی کوشش کی وہ اساطیری موضوعات، اساطیری کردار اور قدیم داستانوں سے اخذ کردہ لفظیات، تراکیب اور خیالات کو آج کے موضوعات پر منطبق کرنے کی ان کی معنی خیز اور دل چسپ روش تھی۔ یہ ماضی اور حال کے درمیان ایک رشتہ بنانے اور اس رشتے کو باور کرانے کی ایک اچھی کوشش تھی جس نے جلد ہی پڑھنے والوں کو آصف فرخی کی اپنی تحریروں اور اُن کے مرتب کردہ جریدے کی طرف متوجہ کرلیا۔
’دنیا زاد‘ کا یہ پہلو بھی بہت قابلِ تحسین تھا کہ آصف فرخی نے ہم عصر دنیا میں ہونے والے تلاطم خیز واقعات، عالمی سیاست کی بے مہر تبدیلیوں، بڑی طاقتوں کی سفاک سیاست، اور ان سب کے نتیجے میں ابھرنے والے تہذیبی و ثقافتی رجحانات اور تخلیقی تجربات سے لمحہ بہ لمحہ واقف رہنے کا مظاہرہ کیا۔ ’دنیا زاد‘ نے ’’عاشق من الفلسطین‘‘ کے عنوان سے دو جلدوں پر مشتمل جو خصوصی شمارہ شایع کیا، وہ اردو زبان میں فلسطین سے متعلق نمائندہ ادب کا بہترین مرقع تھا۔ عراق پر امریکی جارحیت کے پس منظر میں ’دنیا زاد‘ کے خصوصی شمارے کا عنوان ’میں بغداد ہوں‘ تھا۔ اس شمارے میں یورپ، امریکا، عالم ِعرب اور برصغیر کے اہل ِقلم کی تحریریں، غم و غصے، احتجاج، ملال، اور پھر اٹھ کھڑے ہونے، کے رویوں کا اظہار ہیں۔ ان تحریروں کو پڑھیں تویہ بصرہ و بغداد کے کراچی اور لاہور سے ہم آغوش ہونے اور وسیع تر انسانی تہذیب کی مشترکہ ابتلاؤں اور نجات کی مشترک خواہشوں کے اظہار پر صاد کرتی نظر آتی ہیں۔
نو گیارہ کے بعد دنیا دہشت گردی کے جس گرداب میں پھنسی، اس حوالے سے ’دنیا زاد‘ میں تخلیق کاروں کا بیانیہ نظم و نثر، سیاسی و سماجی تجزیوں کی شکل میں ایک خصوصی شمارے میں یکجا ہوا۔ شمارے کا عنوان تھا، ’دنیا دنیا دہشت ہے‘۔ جتنی دہشت انگیز، عالمی دہشت گردی تھی، شاید اتنا ہی دہلا کر رکھ دینے والا یہ عنوان تھا۔ بعدازاں، ’دنیا زاد‘ کے کم و بیش ہر شمارے کو کوئی نہ کوئی عنوان دیا گیا، خواہ وہ خصوصی شمارہ نہ بھی رہا ہو۔ البتہ یہ عنوان مذکورہ شمارے میں شامل چند خصوصی تحریروں کے حوالے سے قائم کیا جاتا تھا۔ عنوانات قائم کرنے میں آصف فرّخی کی اختراع پسندی، اور چیزوں کو کہانیوں کے روپ میں دیکھنے اور دکھانے کا رویہ واضح طور سے جھلکتا تھا۔ کچھ عنوان، مثلاً، یہ تھے -’سایۂ دیوارِ یار‘، ’جل دھارا‘، ’کوئے ملامت‘، ’قصّۂ رنگ ِشکستہ‘، ’نیند کے خلاف بیانیہ۔‘
آصف فرخی کاا پنا تخلیقی سفر اُن کے پہلے افسانوی مجموعے ’آتش فشاں پر کھِلے گلاب‘ سے شروع ہوا جو 1982میں شایع ہوا۔ دو سال بعد اُن کا ایک اور افسانوی مجموعہ ’اسمِ اعظم کی تلاش‘ شایع ہوا۔ اُن کا تیسرا مجموعہ 1991 میں ’چیزیں اور لوگ‘ کے عنوان سے اور چوتھا مجموعہ 1995 میں ’شہر بیتی ‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کے دو سال بعد 1997 میں ’میں شاخ سے کیوں ٹوٹا‘ اور2009 میں ’میرے دن گزر رہے ہیں‘ شایع ہوئے۔
مجموعی طور پر ان چھے مجموعوں میں کوئی ایک سو سے زیادہ افسانے شامل ہوئے جو اس لحاظ سے ایک اچھی تعداد ہے کہ ان کے علاوہ وہ تنقیدی مضامین بھی لکھ رہے تھے، یورپی، امریکی اور لاطینی ادیبوں کی تخلیقات کے تراجم بھی کررہے تھے، انگریزی اور اردو مطبوعات میں کتابوں پر ان کے تبصرے بھی شایع ہورہے تھے اور وہ ادیبوں اور دانشوروں کے مفصّل انٹرویوز بھی کررہے تھے جن کی بڑی تعداد انگریزی رسالے ’ہیرلڈ‘ میں شایع ہوئی۔ اردو میں شایع ہونے والے انٹرویوز اُن کی کتاب ’حرفِ من و تو‘ میں یکجا ہوکر شایع ہوچکے ہیں۔
آصف فرخی کی ذاتی اور طبع زاد تحریروں میں اُن مختلف اثرات کو دیکھا جاسکتا ہے جو مختلف اوقات میں اُن پر مرتب ہوئے۔ قدیم داستانوں اور کلاسیکی ادب سے انہوں نے بہت کچھ حاصل کیا۔ اپنی کئی کہانیوں میں انہوں نے اساطیری اندازِ تحریر اختیار کیا۔ انہوں نے علامتی کہانیاں بھی لکھیں۔ بیسویں صدی کے اردو ادب کا مطالعہ کیا اور پھر ہمعصر بین الاقوامی ادبی رجحانات سے بھی مستفید ہوئے۔ ان تمام اثرات کو قبول کرنے کے باوجود انہوں نے کسی ایک اسلوب کی پیروی سے احتراز کیا، پیروی کی بھی تو کم عرصے کے لیے، اور پھر وہ اپنا راستہ بنانے میں لگ گئے۔
وہ مختلف اوقات میں میراجی، محمد حسن عسکری، اور انتظار حسین سے ذہنی طور پر بہت قریب رہے۔ انتظار صاحب سے ذہنی قربت زیادہ گہری تھی اور کسی نہ کسی حد تک آخر وقت تک برقرار رہی۔ جہاں تک مؤخر الذکر کا تعلق ہے، آصف فرخی کے پہلے افسانوی مجموعے ’آتش فشاں پر کھِلے گلاب‘ کی کہانیوں پر انتظار حسین کے اثرات کے پس منظر ہی میں قمرجمیل نے بعض سخت جملے لکھے تھے: ’آتش فشاں پر کھِلے گلاب، ایسا لگتا ہے دنیا پر بڑی بوڑھیوں کا راج ہے…آصف فرّخی بھی انتظار حسین کی طرح ناسٹیلجیا کا شکار ہے…ہجرت کی خوشبو آخر کہاں تک ساتھ دے گی۔ افسوس یہ ہے کہ ہجرت کی یہ خوشبو اس نوجوان سے بھی لپٹی ہوئی ہے۔‘ بہر حال، ہجرت کی خوشبو کی یہ تہمت زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہی، جلد ہی یہ دوسری ہجرتوں سے آمیز ہوگئی۔ ہجرت کا زیادہ بڑا بیانیہ آصف فرّخی کے یہاں، فلسطین کی سرزمین سے ابھرا۔ ’دنیا زاد‘ میں شرقِ اوسط سے متعلق ہجرت کی کہانیاں اور اس کا سماجی و سیاسی تجزیہ، بھرپور طریقے سے آیا۔
گذشتہ دس پندرہ برسوں میں آصف فرّخی کو ادبی سرگرمیوں کا ایک اور میدان میسر آگیا۔ ملکی اور بین الاقوامی ادبی کانفرنسوں میں تو وہ برسہا برس سے شریک ہورہے تھے اور ان کانفرنسوں کے طفیل اُن کا اہلِ علم میں حلقۂ احباب بھی وسیع ہوچکا تھا، دس پندرہ برس قبل کراچی میں لٹریچر فیسٹیول اور ادبی کانفرنسوں کا ڈول ڈالا گیا۔ آصف فرّخی ان سرگرمیوں میں پیش پیش تھے۔
1980 اور 1991 کے عشرے کراچی پر بہت بھاری گزرے تھے۔ نسلی و مذہبی انتہاپسندی کے ہاتھوں شہر کا تہذیبی لبادہ تار تار ہوچکا تھا۔ کراچی بہت تیزی کے ساتھ ایک شہرِ خاک و خون، ایک آسیب زدہ شہر بن چکا تھا۔ دہشت گردی کی آئے دن کی وارداتیں، خونریزی، سربریدہ لاشیں، ایمبولینسوں کی دل و دماغ کو چیرتی ہوئی آوازیں، مخصوص اداروں کی اندرونی لڑائیاں، ان کے پروردہ سیاسی چہروں کی کاروائیاں، مافیاؤں کی ریشہ دوانیاں، ان سب کے نتیجے میں کراچی جو کبھی رونقوں کا شہر تھا، ایک شہرِبرباد کی تصویر بن چکا تھا۔ لیکن پھر اسی بربادی کے اندر سے تعمیر و تہذیب کی آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں۔1990کے عشرے سے علمی، ادبی اور ثقافتی سطح پر کراچی کے احیاء کی انفرادی اور کہیں کہیں اجتماعی کوششوں کا آغاز ہوا۔
چند اہلِ بصیرت نے علمی تحقیقات کے ذریعے، کچھ نے ادبی جرائد کے وسیلے سے اور کچھ نے اپنی نثری و شعری تخلیقات کے حوالے سے کراچی کے احیاء کی کوشش شروع کی۔ بہت سے نام اس سلسلے میں لیے جاسکتے ہیں مگر کچھ کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ کراچی کے محسن تھے اور آئندہ کا مؤرخ ان کو اسی طور دیکھنے پر مائل ہوگا۔ عارف حسن، اجمل کمال، فہمیدہ ریاض، احمد شاہ، امینہ سید اور آصف فرّخی، ان سب کی علمی اور عملی کاوشوں کے نتیجے میں کراچی کا ادبی و تہذیبی تشخص بحال ہوا۔ ان لوگوں نے جس پس منظر میں یہ کام کیا اُس کو دیکھ کر حسن عابد کا شعر زبان پر آجاتا ہے ؎
ہَوا کرتی ہے اپنا کام اور شمعیں بجھاتی ہے
ہم اپنا کام کرتے ہیں، نئی شمعیں جلاتے ہیں
آصف فرّخی کی ادبی خدمات ذہن میں آتی ہیں تو ذہن خود بخود کچھ ذاتی یادوں کی طرف بھی مڑ جاتا ہے۔ آصف فرّخی اپنے قریبی ادبی احباب کے ساتھ یقیناً بہت شیر و شکر رہتے ہوں گے، لیکن عام طور سے وہ خاصے لیے دیے رہتے تھے۔ اُن سے شناسائی تو زمانۂ طالب علمی ہی میں ہوگئی تھی جب وہ ڈاؤ میڈیکل کالج اور میں کراچی یونیورسٹی میں زیرِتعلیم تھا۔
ہمارے درمیان میل جول کے کچھ زیادہ اسباب موجود نہیں تھے، پھر نظریاتی فاصلے بھی اپنی جگہ موجود تھے۔ ان فاصلوں کو جنرل ضیاء الحق کے زمانے کی فوجی آمریت نے اور بھی وسیع کردیا تھا۔ یہ دائیں بازو کے طمطراق اور کسی کو خاطر میں نہ لانے کے دن تھے۔ پاکستان میں میکارتھی ازم اسلامائزیشن کی جُون میں آیا۔ محمد حسن عسکری نے مغرب کے تمام تصورات، نظریات اور ثقافتی مظاہر کو بیک جنبشِ قلم گمراہی قرار دے دیا۔
بایاں بازو کہیں مدافعت اور کہیں مزاحمت میں سرگرداں تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آصف فرخی اور ترقی پسندحلقوں کے درمیان اجنبیت کی یہ فضا کم ہونا شروع ہوئی اور اس تبدیلی کا سبب خود آصف فرّخی کے یہاں نموپذیر ہونے والا ایک نیا احساس تھا جس کے تحت انہوں نے اپنے گرد کھنچے ہوئے حصار کو خود ہی نرم کرنا شروع کیا اور اپنی سرحدوں کو ازسرِنو طے کرنے کی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ ’دنیازاد‘ کے اجراء نے اُن کے لیے اس کام کو اور بھی آسان بنادیا۔ تب انہوں نے اپنے بنیادی تصورات پر قائم رہتے ہوئے دوسرے لوگوں کے ساتھ مشترک موضوعات کی تلاش کا کام شروع کیا۔ اُن کی یہ پیش قدمی میرے لیے اُن کے قریب آنے کا سبب بن گئی۔
مارچ 2011 میں ہمیں بنگلادیش جانے اور ڈھاکا کی بریک یونیورسٹی کی ایک ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا۔ اس ورکشاپ کا مقصد پاکستان، بنگلادیش اور ہندوستان کے درمیان 1971 کے واقعات کے حوالے سے علم، تحقیق اور مکالمے کے کسی پلیٹ فارم کی تعمیر کے امکان کی تلاش تھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس ورکشاپ میں تینوں ملکوں کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور دیگر اہلِ قلم شامل تھے۔ پاکستان سے آصف فرّخی، پنجابی کے معروف شاعر اور ادیب ریٹائرڈ کرنل نادر اور راقم اس ورکشاپ میں شریک ہوئے۔ کرنل نادر 1971 میں مشرقی پاکستان میں تعینات تھے۔ مارچ 1971 کے بعد انہوں نے جو کچھ ہوتے دیکھا اُس کے نتیجے میں وہ ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے۔
فوج سے اُن کو فارغ کردیا گیا۔ برسوں بعد علاج معالجے کے نتیجے میں معمول کی زندگی شروع ہوئی تو انہوں نے قلم و قرطاس کا سہارا لیا اور ادیب بن گئے۔ اسی ورکشاپ میں امریکا سے کامران اصدر علی جن کا تعلق پاکستان ہی سے ہے اور یاسمین سائیکیا تشریف لائیں جو آسام سے تعلق رکھتی ہیں لیکن جنوبی ایشیا پر اپنی تحقیقات کے حوالے سے ثقافتی تاریخ نویسوں میں اپنی ایک نمایاں پہچان رکھتی ہیں۔ یہ ورکشاپ بڑی گرما گرم بحثوں کی حامل ثابت ہوئی۔ سب نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا۔ خوش آئند بات یہ تھی کہ بہت سے فاصلے اور غلط فہمیاں اس ورکشاپ کی میز پر ختم ہوئیں۔ آصف فرّخی نے 1971 کے واقعات کے، پاکستانی ادبیات پر اثرات پر گفتگو کی۔ مجھے 1971 سے متعلق پاکستان میں تاریخی اور سیاسی کتب اور سرکاری بیانیوں کے جائزے کا موقع ملا۔ ورکشاپ کے انہی دنوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ بنگلادیش میں آصف فرّخی کے دوست احباب کی کمی نہیں ہے۔
بنگلادیش کی اس ورکشاپ کا ایک اور نتیجہ یہ بھی نکلا کہ آصف فرّخی کی مشاورت سے ہم نے جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر میں نو لیکچروں کی ایک سیریز کا انعقاد کیا جس کا موضوع 1971 کے واقعات کا تاریخی و سیاسی پس منظر اور پھر اس پس منظر میں لکھا جانے والا ادب تھا۔ اس سیریز کے ابتدائی دو لیکچر میرے حصے میں آئے جب کہ بقیہ سات لیکچر آصف فرّخی نے دیے۔ انہی لیکچروں کے دوران ایک موقع پر وہ انتظار حسین صاحب کو سینٹر لائے اور ان سے اُن کے ایک ناول کا حصہ طالب علموں کے سامنے پڑھوایا اور پھر اس پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ایک اور روز وہ معروف افسانہ نگار اسد محمد خان صاحب کو لے آئے۔ انہوں نے بھی اپنا ایک افسانہ طالب علموں کے سامنے پڑھا اور پھر ان کے سوالوں کے جواب بھی دیے۔
یہ تجربہ اتنا کام یاب رہا کہ بعدازاں جب آصف فرّخی نے حبیب یونیورسٹی سے وابستگی اختیار کی تو انہوں نے تقسیمِ ہند اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے واقعات پر باقاعدہ کورس ڈیزائن کیے۔ خود مجھے بھی ایک آدھ مرتبہ ان کی دعوت پر ان کورسوں میں اظہارِخیال کا موقع ملا اور مجھے یہ دیکھ کر بے حد مسرت ہوئی کہ انہوں نے طالب علموں کو روایتی نصاب سے ہٹ کر تاریخ کے بہت اہم موضوعات پر بڑے تخلیقی انداز میں سوچنے اور اپنے خیالات مدوّن کرنے کا سلیقہ سکھا دیا تھا۔
آصف فرّخی سے تعلق کی ایک اور سبیل اُن کے چچا انور احسن صدیقی صاحب کے حوالے سے پیدا ہوئی۔ انور احسن صدیقی ہمارے ترقی پسند حلقوں میں غیرمعمولی عزت اور احترام کے حامل رہے تھے۔ انہوں نے بڑی صبرآزما زندگی گزاری تھی۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو باوجود بہت سے مواقع کے، کبھی حرص و ہوس کے سیلاب میں نہیں بہے۔ ادب، صحافت اور کالم نگاری میں انہوں نے اپنی زندگی بِتا دی تھی۔ آصف فرّخی نے اپنے اشاعتی ادارے ’شہرزاد‘ سے انور احسن صدیقی کی خودنوشت ’دلِ پُر خوں کی اِک گلابی سے‘ کے عنوان سے شایع کی۔ یہ خودنوشت کیا تھی، پاکستان کے ابتدائی پانچ چھ عشروں کے المیوں اور طربیوں کا بیان تھا۔ صدیقی صاحب کے انتقال پر مجھے ایک مفصّل مضمون اُن کے حوالے سے لکھنے کا موقع ملا تو آصف فرّخی نے بڑی خوش دلی سے اس کو ’دنیا زاد‘ میں شایع کیا۔ بلکہ ایک موقع پر ڈاکٹر اسلم فرّخی صاحب کے سامنے مجھ سے یہ مضمون پڑھوایا بھی۔
کراچی کے لٹریچر فیسٹیولز اور ادبی کانفرنسوں میں اُن سے ملنا ایک معمول کی بات بن گئی تھی۔ انہی ملاقاتوں میں کچھ نئے منصوبے اور نئے امکانات بھی زیربحث آجاتے۔ عجیب اتفاق ہے کہ اُن کے انتقال سے قبل محض چند روز میں اُن سے دو ملاقاتیں ہوگئیں۔ کورونا کی جان لیوا وبا نے سب کا سکون برباد کر رکھا تھا۔ شہر بند تھا۔ تعلیمی ادارے، کتابوں کی دکانیں، لائبریریاں سبھی پر تالے پڑے ہوئے تھے۔ ایسے میں وباؤں کے تناظر میں لکھے جانے والے ادب پر میں نے کچھ خامہ فرسائی شروع کی تو تیسرے یا چوتھے مضمون کے بعد میں نے آصف فرّخی کو فون کرکے پوچھا کہ ان کے ادارے سے چھپنے والا ڈاکٹر حسن منظر کا ناول‘ وبا‘ مجھے کس طرح مل سکتا ہے، دکانیں اور لائبریریاں تو سب بند ہیں۔ آصف فرّخی نے کہا کہ آپ مجھ سے میری ذاتی کاپی لے سکتے ہیں۔
میں نے ان کے گھر جا کر وہ ناول لیا اور ہفتہ دس روز بعد اس کو واپس کرنے گیا تو انہوں نے مشہور نوبل انعام یافتہ پرتگالی ناول نویس حوزے سارا ماگو کے ناول کا ترجمہ ’اندھے لوگ‘ یہ کہہ کر مجھے دیا کہ یہ مشکل ناول ہے، احمد مشتاق نے اس کا اچھا ترجمہ کیا ہے۔ امید ہے کہ آپ اس پر بھی تجزیاتی مضمون لکھنا چاہیں گے۔ وبا کی بندشوں میں آصف فرّخی صاحب سے یہ دوسری ملاقات ان کے انتقال سے محض چار پانچ روز قبل ہوئی اور پھر وہ خاموشی سے دنیا سے چل دیے، بہت سارے کام کرکے، اور بہت سے چھوڑ کر۔ کام کرنے والے یہی کرتے ہیں۔
The post مِرے شوق کی بلندی۔۔۔آصف فرّخی کا ادبی سفر appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3jDn2L3
via IFTTT
No comments:
Post a Comment