ملک میں خواتین پر تشدد اور زیادتی کے واقعات میں اضافہ تشویشناک ہے۔ حال ہی میں یوم آزادی کے موقع پرمینار پاکستان پر خاتون ٹک ٹاکر سے نارروا سلوک نے پوری قوم کو دکھی کر دیا ہے۔ اس خاتون کے علاوہ ملک بھر سے متعدد خواتین سے زیادتی، تشدد اور ہراسگی کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
ان مجرموں کے خلاف اگرچہ کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے مگر وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے اور عملی طور پر کام کیا جائے۔ ’’خواتین پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ان کی روک تھام‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
طلعت نقوی ( رکن پنجاب اسمبلی ورہنما پاکستان تحریک انصاف)
ہمارا معاشرہ اب خراب نہیں ہوا بلکہ پہلے سے ہے مگر اب لوگ بے نقاب ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں وقت کے ساتھ ساتھ جرائم میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ موبائل فون، منشیات کا استعمال اور والدین کی اپنے بچوں سے دوری ہے۔ ہم اپنے بچوں سے بات نہیں کرتے، ہمارے پاس ان کیلئے وقت نہیں ہے۔ ہم اپنے بچوں کی تربیت میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ سکول اور اساتذہ کا کام ہے۔
اساتذہ کو ہم نے صرف کمرشل کر دیا کہ وہ بچے کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے، اگر کہتے ہیں تو والدین یا خود بچہ یہ سنا دیتا ہے کہ ہم فیس دیتے ہیں۔ ہم اخلاقی لحاظ سے پستی کی طرف جا رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔ ہمیں اپنے ارد گرد جتنے جرائم نظر آرہے ہیں ان میں سے بیشتر کی جڑ منشیات ہیں۔ اسے سٹیٹس سمبل بنا دیا گیا اور فیشن کے طور پر نشہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح طلبہ اور نوجوانوں میں اس کا رجحان بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں،۔
نور مقدم کیس میں بھی کہیں نہ کہیں منشیات کا عمل دخل ہے۔ ہمیں جرائم کی اس جڑ کا مکمل خاتمہ کرنا ہے۔ مینار پاکستان واقعہ بدترین اور افسوسناک ہے جس نے کئی سوالات کو جنم دیکر ہمیں تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ 400 نوجوانوں کو ایسا جرم کرنے کی سوچ کہاں سے آئی؟ اس وقت ان کی حیاء کہاں تھی؟ اب کے ساتھ کیا کیا جائے گا؟میرے نزدیک ان بچوں کو جیلوں میں نہیں رکھا جاسکتا اور نہ ہی یہ حل ہے۔ جیلوں سے تو یہ بڑے مجرم بن کر نکلیں گے اور اس طرح ملک کو مزید مشکلات سے دوچار کریں گے۔ انہیں ان کے جرم پر ندامت کا احساس دلوانا چاہیے اور ان کی تربیت کرنی چاہیے۔
میرے نزدیک جیلیں بھرنے سے بہتر ہے کہ ان کی سزا کے مطابق مقررہ مدت کیلئے انہیں کمیونٹی سروس کی طرف لایا جائے، ان سے سڑکوں، گلی محلوں کی صفائی ستھرائی و معاشرے کو سدھارنے والے دیگر کام کروائے جائے،ساتھ ساتھ ان کی تربیت کی جائے، اس طرح معاشرے میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے جلد اسمبلی میں قرارداد پیش کروں گی۔اس میں اگرچہ بہت مشکلات آئیں گی مگر ہمیں آہستہ آہستہ مستقل جدوجہد کے ذریعے ملک کو سنوارنا ہے۔
خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کے پیش نظر ہمیں معاشرے کو شعور دینا ہوگا، انہیں قوانین کے بارے میں بتانا ہوگا۔ ہمیں اس حوالے سے ڈائیلاگ کرنے چاہئیں جن میں مردوں کو بھی لازمی شامل کیا جائے۔ ہم نے سپورٹس بورڈ میں کافی اقدامات کیے ہیں۔ کورونا کی وباء کی وجہ سے اگرچہ بہت سارے کام رکے ہوئے ہیں مگر ہم اپنی بہترین کوشش کر رہے ہیں کہ جو ممکن ہے وہ کام کریں۔ ہم کلچر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر ایسے اقدامات کرنے جا رہے ہیں جس سے نوجوانوں کو اچھے کاموں کی طرف راغب کیا جاسکے۔
صدف اصغر (لیڈی سب انسپکٹر پنجاب پولیس)
مینار پاکستان واقعہ نے سب کو ہی ہلا کر رکھ دیا، ایسے واقعات سب کے ذہنوں پر گہرے نقش چھوڑتے ہیں، بطور خاتون ایسے واقعات پر دل ہل جاتا ہے اور دکھ ہوتا ہے، جب تک ایسے درندوں کو عبرتناک سزائیں نہیں دی جائیں گی تب تک ایسے جرائم کو روکنا مشکل ہوگا۔
2017ء میں پولیس میں جینڈ بیسڈ وائلنس کے خاتمے کیلئے الگ سیل بنا کر کام کا آغاز ہوا، پہلے سال 100 کیس رپورٹ ہوئے مگر آہستہ آہستہ رپورٹنگ میں بہتری آئی اور رواں سال 8 ماہ میں 300 کیس رپورٹ ہوئے جن میں چھوٹی بچیاں بھی زیادتی کا شکار ہوئی اور ان میں زیادتی کرنے والے چھوٹے بچے بھی شامل ہیں، زیادتی کے ایک مجرم کی عمر 12 سال ہے، سوال یہ ہے اسے کس چیز نے اس جرم پر مجبور کیا؟ اس کی تربیت سازی میں کہاں کمی رہی؟
کیا اسے معاشرے نے خراب کیا یا کوئی اور وجہ تھی؟وزیراعظم کا ویژن ریاست مدینہ ہے جو بہترین ہے، خواتین اسلامی اقدار اپنائیں اور خود کو دین کے قریب کریں، مرد بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کریں تو یہ معاشرہ پرامن اور پرسکون ہوجائے گا۔ کسی کا کردار اس بات کا لائسنس نہیں ہے کہ اس کے ساتھ بدتمیزی یا زیادتی کی جائے، جس نے جرم کیا ہے اسے لازمی سزا ملنی چاہیے، ہمیں ’وکٹم بلیمنگ‘ کی روش کو ترک کرنا ہوگا۔ تشدد و زیادتی کی صورت میں جلد از جلد پولیس کو رپورٹ کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ ثبوت حاصل کیے جائیں، ہمیں لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی دینا ہوگی۔
بشریٰ خالق (نمائندہ سول سوسائٹی )
میڈیا سول سوسائٹی کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کے بغیر آواز اور کام کو وسعت نہیں دی جاسکتی۔ خواتین پر تشدد کے حوالے سے بنائی جانے والی رپورٹس میں ڈیٹا کا بڑا ذریعہ میڈیا میں رپورٹ ہونے والے کیس ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے اخبارات پر زیادہ انحصار رہا ہے اور اب بھی ہے کیونکہ یہ خبریں ریکارڈ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ویب سائٹس، موبائل ایپ، پولیس، محتسب کا ادارہ، 15 و دیگر ہیلپ لائنز سے بھی ڈیٹا حاصل کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی اگرچہ بہت سارے واقعات سامنے آتے ہیں مگر وہاں لاقانونیت زیادہ ہے، وہ ڈیٹا مبہم ہوتا ہے جسے چیک کیا جاتا ہے کہ کہیں فیک تو نہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت خواتین کے حوالے سے جس نوعیت کے جرائم سامنے آرہے ہیں یہ ریاست، حکومت اور معاشرے کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔نور مقدم کیس ہو یا کسی دور دراز علاقے میں خاتون سے ہونے والی زیادتی، یہ افسوسناک واقعات کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے جس نے لوگوں کو ذہنی اذیت سے دوچار کر دیا ہے۔
افسوس ہے کہ خواتین کیلئے کبھی بھی موافق حالات نہیں رہے مگر اب جو جس طرح کے واقعات رونما ہورہے ہیں ان سے روح کانپ جاتی ہے۔ مینار پاکستان واقعہ پرعالمی سطح پر تشوش کا اظہار کیا جارہا ہے، مختلف بین الاقوامی چینلز نے اسے رپورٹ کیا، بے شمار لوگوں نے ہم سے رابطے کر کے پریشانی کا اظہار کیا۔ ہمیں یہیں رک کر فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کس سمت میں جانا ہے۔ مینار پاکستان پر 400 افراد کی شکل میں ہمارا مجموعی رویہ سامنے آیا ہے جو شرمناک ہے۔
تمام مرد ایک جیسے نہیں مگر ہمارے گھروں اور شاہراہوں پر جو لوگ خواتین کے حوالے سے غلط سوچ کے حامل ہیں ،انہیں روکنا ہوگا۔اس واقعے سے ہمارے اداروں کا رویہ بھی سامنے آیا ہے۔ کسی کے کردار پر بات کرنا اداروں کا مینڈیٹ نہیں، تربیت اور اخلاقیات کا کام گھر، مدارس، تعلیمی درسگاہوں کا ہے، ہمیں متاثرہ خاتون کے ساتھ صرف اس لیے کھڑے ہونا ہے کہ آئندہ کسی کے ساتھ ایسا واقعہ نہ ہو۔ ہمیں ان 400 نوجوانوں کی بھی فکر ہے کہ یہ کدھر جارہے ہیں، نوجوانوں کی تربیت سازی کیلئے حکومت کے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟ان کیلئے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے؟
اگر ہم نے یوتھ کو اسی طرح چھوڑ دیا اور انگیج نہ کیا تو مزید تباہی کی طرف جائیں گے۔اس وقت ضرورت ہے کہ یوتھ کی تربیت کیلئے نئے ٹریننگ سینٹرز قائم کیے جائیں اور بڑے پیمانے پر تربیتی پروگرام منعقد کیے جائیں۔ میرے نزدیک معاشرہ اس وقت ترقی کرے گا جب خاتون اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی وقت باہر نکل سکے اور اسے کوئی خطرہ نہ ہو۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ صنفی برابری اور صنفی ترقی کی سوچ کو خود پر نافذ کیے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔
طاقتور طبقہ یہ تسلیم کرے کہ خواتین پر تشدد ہے، جن اداروں کے پاس اختیار ہے وہ اس سوچ اور جرائم کا خاتمہ کرسکتے ہیں لہٰذا موثر پالیسی بنا کر ایسا سازگار ماحول بنایا جائے جس میں مرد و خواتین اور ٹرانس جیندر سب کو ہی برابر حقوق حاصل ہوں۔ قوا نین کو صرف سزا کیلئے ہی نہیں بلکہ جرائم کی روک تھام کیلئے بھی استعمال کیا جائے،ا س کیلئے قوانین اور سزاؤں کی تشہیر کی جائے اور ساتھ ساتھ عملدرآمد کا میکنزم بھی بہتر بنایا جائے۔
ٹک ٹاک اور پارکوں میں ٹک ٹاکرز کے داخلے پر پابندی اور نوجوانوں کو جیلوں میں ڈالنا حل نہیں ہے، ایسے سخت فیصلے بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں،ا گر ہم نے یوتھ کو تربیت نہ دی اور انہیں اسی طرح چھوڑ دیا تو تباہی کی طرف نکل جائیں گے۔ پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے قائم بہترین ادارہ ہے، اس کی چیئرپرسن فوری تعینات کیا جائے تاکہ خواتین پر تشدد جیسے مسائل کی روک تھام کیلئے موثر کام ہوسکے۔
نبیلہ شاہین (ماہر قانون و نمائندہ سول سوسائٹی )
صنفی برابری کا تعلق صرف خواتین کے حقوق سے نہیں بلکہ یہ مرد، عورت اورخواجہ سرا، تینوں کے حقوق کی بات ہے لہٰذا ہمیں اس کو سمجھنے اور اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں صنفی برابری کے حوالے سے غلط فہمی کو دور کرنا اور مجموعی معاشرتی رویے کو تبدیل کرنا ہوگا۔ پاکستان نے صنفی امتیاز کے خاتمے کے حوالے سے سیڈا کنونشن پر اس وقت دستخط کیے جب بہت کم ممالک نے کیے تھے لہٰذا خیال تھا کہ جلد صنفی امتیاز کا خاتمہ ہوگا مگر اس پر عملدرآمد کے میکنزم میں بہت عرصہ لگا اور تاحال اس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
پاکستان نے عالمی معاہدوں کے حوالے سے ہر سال عالمی اداروں کو اپنی رپورٹ جمع کروانی ہوتی ہے جو ’سب اچھا ہے‘ لکھ کر پیش کر دی جاتی ہے، رپورٹ دینے سے پہلے سول سوسائٹی اور دیگر سٹیک ہولڈرز سے شیئر کی جانی چاہیے۔ وویمن ڈویلپمنٹ، یوتھ ڈویلپمنٹ، ہیومن رائٹس کے حوالے سے پالیسیاں موجود ہیں مگر بدقسمتی سے میکنزم بنا کر بعد میں کام ادھورا چھور دیا جاتا ہے، خواتین کے حقوق و تحفظ کیلئے قائم ادارے اپنی سالانہ رپورٹ مرتب نہیں کرتے اور نہ ہی اسمبلی میں پیش کرتے ہیں۔
لوگوں کو اپنے بنیادی انسانی حقوق سمیت دیگر قوانین کا معلوم نہیں ہے، انہیں اداروں تک رسائی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے حق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں، کام کی جگہ پر ہراسگی کے حوالے سے تو مانیٹرنگ آسان ہے مگر عوامی مقامات پر اس حوالے سے کوئی میکنزم موجود نہیں، مینار پاکستان واقعہ میں سے کتنے لوگ جرم کی نوعیت اور سزا کے بارے میں جانتے تھے؟ اس کے علاوہ خواتین پر تشدد اور ہراسگی کے دیگر واقعات میں لوگ ویڈیوز بناتے رہے، کیا انہیں قانون اور سزا کا علم ہے؟ کیا انہیں قانون، پولیس ، سکیورٹی اداروں اور سزا کا ڈر ہے؟ یہ ریاست اور اداروں کی کمزوری تو نہیں؟
موجودہ دور حکومت میں خواتین اور بچوں پر تشدد جیسے مسائل میں اضافہ ہو اہے، قوانین پر عملدرآمد میں کمی آئی ہے لہٰذا ہمیں پالیسیوں اور کارکردگی کا جائزہ لینا ہوگا اور جہاں مسائل ہیں انہیں دور کرنا ہوگا۔ سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں ضابطہ اخلاق وضع کرنا لازمی ہے مگر کیا اس پر عمل ہورہا ہے؟ کیا وویمن ہراسمنٹ کمیٹیاں قائم اور فعال ہیں؟ کیا یہ کام صرف کاغذوں اور تصاویر کی حد تک تو نہیں؟ افسوس ہے کہ خواتین کے چند مخصوص اداروں کے علاوہ کسی کو اس حوالے سے علم نہیں۔
تمام بس اڈوں، پبلک ٹرانسپورٹ ، پارکس اور عوامی مقامات پر خواتین پر تشدد اور ہراسمنٹ کے حوالے سے موجود قوانین کی تشہیر کی جائے اور انہیں جینڈر فرینڈلی بنایا جائے۔
The post جنسی جرائم کی روک تھام کیلئے نوجوانوں کی کردار سازی کرنا ہوگی! appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3ztpnjn
via IFTTT
No comments:
Post a Comment