Tuesday, October 31, 2017

طلبا سیاست اور سیاسی جماعتیں؛ تاریخ کے آئینے میں ایکسپریس اردو

قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے حالات کے تناظر میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بہت کچھ شائع ہوچکا ہے اور اب تک شائع ہورہا ہے۔ تاہم ایسی بیشتر خبروں، رپورٹوں اور بلاگز میں پاکستان کی طلبا تنظیموں کے ماضی کا جائزہ نہیں لیا گیا اور نہ ہی ان شخصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے طلبا سیاست میں اہم کردار ادا کیا اور جو آج ملک کی سرکردہ سیاسی شخصیات میں شامل ہیں۔ پاکستان میں طلبا تنظیمیں اپنی ایک تاریخ رکھتی ہیں۔ زیر نظر تحریر میں اسی تاریخ کا مختصراً جائزہ لیا گیا ہے۔

 

طلبا سیاست کا پس منظر

پاکستان میں طلبا تنظیموں کی تاریخ اور ان کا کردار تحریک پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ تحریک پاکستان کے ولولہ انگیز لمحوں کو جوش کی جولانیاں اور جرأت کی کہانیاں اس نوجوان خون کی صلاحیتوں اور جذبوں سے ہی حاصل ہوئیں۔ بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ کے حکم پر، جبکہ تحریک پاکستان عین شباب پر تھی، یکم ستمبر 1937 کو کلکتہ میں پہلی مسلمان طلبا تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے قائم کی گئی اور اس کی قیادت اسلامیہ کالج لاہور کے اس وقت کے نوجوان طالب علم رہنماؤں عبدالستار خان نیازی اور حمید نظامی کو سونپی گئی۔ حمید نظامی اس طلبا تنظیم کے پہلے صدر بنے جبکہ عبدالستار خان نیازی کو جنرل سیکرٹری کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ ایم ایس ایف نے تحریک پاکستان میں نسل نو کو بیدار کرنے اور نظریہ پاکستان کے بارے میں ملک گیر آگاہی پیدا کرنے میں جو اہم کردار ادا کیا وہ ہماری ملی تاریخ کا روشن باب ہے۔ اس نوخیز طلبا تنظیم نے نہ صرف حضرت قائداعظمؒ کے ہمراہ ملک گیر دورے کیے اور رائے عامہ کو ہموار کیا بلکہ بحیثیت ایک طلبا تنظیم بھی انتہائی مؤثر اور تاریخی کردار ادا کیا۔

بانیان پاکستان کی رحلت کے بعد جس طرح ملک کے سیاسی، مذہبی، انتظامی اور معاشرتی شعبوں میں بدحالی اور مارا ماری نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کردیئے تھے اور ہم بحیثیت مجموعی پستی اور بگاڑ کی طرف چل دیئے، بالکل اسی طرح طلبا کی رہنمائی کا یہ اہم ترین شعبہ بھی ہماری اجتماعی بے حسی اور عدم توجہی کی بھینٹ چڑھ گیا اور ایم ایس ایف اپنے شاندار ماضی کے ساتھ گوشہ گمنامی میں چلی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کا یہ حساس طبقہ کتابی علم کے علاوہ عملی، تنظیمی اور سیاسی تربیت کے پیچ و خم سے بے تعلق اور دور کردیا گیا۔ نظریہ پاکستان کے دشمنوں کےلیے اس سے اچھا موقع اور کیا ہو سکتا تھا۔ انہوں نے اس خلا کو پر کرنے کےلیے اپنی سیاسی جماعتوں کی ذیلی طلبا تنظیموں کی داغ بیل ڈال دی اور یوں دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی کشمکس تعلیمی اداروں میں آن گھسی۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: جے این یو میں طلبا یونین کے انتخابات اور پاکستان میں طلبا سیاست

 

قیام پاکستان تا 1970

 

اسلامی جمعیت طلبہ

قیام پاکستان کے بعد 23 دسمبر 1947 کو جماعت اسلامی کے مرکز ذیلدارپارک اچھرہ میں اسلامی جمعیت طلبا کی بنیاد رکھی گئی۔ جمعیت کا منشور ’’اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق رضائے الہی کا حصول‘‘ قرار دیا گیا۔ تنظیم کے نظریات اور مطالعاتی مواد پر اسلامی دنیا کی ممتاز شخصیات سید قطب شہید، سید حسن البنا شہید اور مولانا مودودی کے افکار کی چھاپ نمایاں ہے۔ 1950 کی دہائی میں بائیں بازو کی لبرل اور آزاد خیال سیاسی جماعتوں کی ذیلی طلبا تنظیم کے طور پر ڈی ایس ایف نے مارکس ازم کے زیر اثر اسلام بیزاری کی تعلیمات کا پرچار کیا تو اسلامی جمعیت طلبا اور ڈی ایس ایف ایک دوسرے کے مقابل آن کھڑی ہوئیں۔ بعد ازاں بعد بنگلہ دیش نامنظور تحریک، تحریک ختم نبوتﷺ، تحریک نظام مصطفےﷺ میں بھی جمعیت اسلام پسند حلقوں کی نمائندگی کرتی رہی۔ اسلامی جمعیت طلبا کے نمایاں طلبا رہنماؤں میں خرم جاہ مراد، معراج الہدی، قاضی حسین احمد، سید منور حسین، سینیٹر پروفیسر خورشید احمد، لیاقت بلوچ، سلمان بٹ طیب شاہین، اویس قاسم، امیر العظیم اور سینیٹر سراج الحق شامل ہیں۔

 

ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف)

1949 میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) کی بنیاد رکھی گئی۔ 1950 کی دہائی میں بائیں بازو کی لبرل اور آزاد خیال سیاسی جماعتوں کی ذیلی طلبا تنظیم کے طور پر ڈی ایس ایف نے مارکس ازم کے زیر اثر اسلام بیزاری کی تعلیمات کا پرچار کیا۔ ڈی ایس ایف کو بانی کمیونسٹ پارٹی پاکستان سید سجاد ظہیر سمیت مولانا عبدالحمید بھاشانی، عبداللہ ملک، فیض احمد فیض، حسن ناصر، کامریڈ امام علی نازش، جام ساقی اور معراج محمد خان جیسے نمایاں لوگوں کی سرپرستی حاصل تھی۔

اسی اثنا میں ڈی ایس ایف نے جارحانہ پالیسی اختیار کرلی اور تعلیمی اداروں میں اسلامی تعلیمات سے کھلم کھلا بغاوت کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی آقاؤں یعنی کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان (سی پی پی) کی خوشنودی کےلیے مشرقی اور مغربی پاکستان میں حکومت کے خلاف ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کیا۔ نتیجتاً 1951 میں راولپنڈی سازش کیس اور پھر 1953 میں شدید ہنگاموں اور ان میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد 1954 میں ڈی ایس ایف پر پابندی لگا دی گیٔی۔ البتہ اس کے ہم خیال طلبا نے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کے نام سے صف بندی کرلی۔

 

1970 تا حال

1974 میں حکومت نے طلبا یونین کا آرڈینینس منظور کیا جس کا مقصد تعلیمی اداروں کی چار دیواری کے اندر تعلیمی اور تنظیمی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ مگر حقائق بتاتے ہیں کے سیاستدانوں نے طلبا کو اپنا مزدور بنالیا اور قوم کا یہ باصلاحیت طبقہ سیاسی بھٹوں کی بیگار پر لگا دیا گیا۔ یوں سیاسی اثر و رسوخ نے تعلیمی اداروں میں قلم کتاب کے بجائے کلاشنکوف کلچر اور بزور بازو نظریات کو مسلط کرنے کی تحاریک کو مضبوط کیا۔

 

انجمن طلبا اسلام (اے ٹی آئی)

1960 کی دہائی بھی ملکی اور طلبا سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کی کشمکش کی دہائی کہی جاسکتی ہے۔ مگر اس دہائی کے آخر میں 20 جنوری 1968 کو سبز مسجد صرافہ بازار کراچی میں 4 طالب علموں محمد حنیف طیب، فاروق مصطفائی، محمد یعقوب قادری اور جمیل احمد نعیمی نے پاکستان کی واحد سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد طلبا تنظیم کی بنیاد انجمن طلبا اسلام (اے ٹی آئی) کے نام سے رکھی۔ انجمن کا منشور تھا: ’’طلبا میں صحیح اسلامی روح بیدار کرنا جو ان کے دلوں میں عشق رسولﷺ کی شمع فروزاں کیے بغیر ناممکن ہے۔‘‘ پاکستان میں صوفیا کے طریق سے منسلک لوگوں کی اکثریت کے باعث انجمن کو اس پیغام کے فروغ میں زیادہ دیر نہ لگی اور انجمن کے اولین رہنماؤں نے خانقاہوں، مساجد، دینی اجتماعات اور مختلف مذہبی تہواروں اور تقریبات کو اپنے پیغام کے فروغ کےلیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ انجمن نے بیک وقت دین بیزار لوگوں اور دین کی من مانی تشریح کرنے والے مصلحین کے پیروکاروں کے سامنے اسلام کا سب سے زیادہ قابل قبول تصور ’’صوفی اسلام‘‘ پیش کیا اور بہت جلد صف اول کی طلبا تنظیم کا درجہ حاصل کرلیا۔ 1971 میں بنگلہ دیش نامنظور تحریک، 1974 میں تحریک ختم نبوتﷺ، 1977 میں تحریک نظام مصطفےﷺ، 1986 میں بحالی حقوق طلبا تحریک، 1988 میں تعلیمی امن تحریک، 1989 میں قومی یکجہتی تحریک اور عشرہ سماجی انقلاب نمایاں سرگرمیاں ہیں۔ 1989 کی طلبا تاریخ کے آخری انتخابات میں پنجاب کی فاتح بھی یہ تنظیم رہی۔ انجمن کے صدر ڈاکٹر ظفر اقبال نوری کو بلاشبہ تمام طلبا تنظیموں کے رہنماؤں کےلیے رول ماڈل کہا جاسکتا ہے جن کی قیادت میں تمام طلبا تنظیموں نے بندوقوں سے پھولوں اور بارود سے درود کی طرف رجوع کیا۔ ڈاکٹر نوری طلبا سیاست میں سیاستدانوں کی عدم مداخلت کے فلسفے کے علمبردار بن کر ابھرے جبکہ دیگر نمایاں رہنماؤں میں سابق وفاقی وزیر حاجی محمد حنیف طیب، ظہور الحسن بھوپالی، عثمان خان نوری، جسٹس (ر) نذیر احمد غازی، علامہ رضاالدین صدیقی، شوکت بسرا، طاہرمحمود ہندلی، سید محمد محفوظ مشہدی، قاضی عتیق الرحمن، عبدالرزاق ساجد، غلام مرتضی سعیدی، ڈاکٹر حمزہ مصطفائی اور امانت زیب شامل ہیں۔

 

امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن

22 مئی 1972 کو ڈاکٹر محمد علی نقوی نے یو ای ٹی لاہور میں امامیہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ اہل تشیع کی سیاسی جماعت تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اس کے اس وقت کے قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی سرپرستی میں آئی ایس او شیعہ افکار کے فروغ اور فقہ جعفریہ کے نفاذ کی علمبردار بن کر سامنے آئی۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ملک بھر میں اپنا تنظیمی نیٹ ورک رکھتی ہے۔

 

پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن

1973 میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے دیگر سیاسی جماعتوں کی تقلید کرتے ہوئے طلبا میں اپنا ونگ ’’پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ کے نام سے بنایا۔ تنظیم مخصوص سیاسی و نظریاتی وابستگی کے باعث طلبا میں مقبولیت حاصل نہ کرسکی۔ نمایاں رہنماوں میں سینیٹرجہانگیر بدر، سینیٹر نیر بخاری، خالد شہنشاہ مرحوم، نجیب احمد مرحوم، بابر اعوان، قاسم ضیا، سیدہ شہلا رضا اور سہیل ملک وغیرہ کا نام آتا ہے۔ یہ تنظیم بھی سیاسی حمایت کی محتاجی کے اور حالات کے مدوجزر کا شکار ہوکر اپنی افادیت کھو چکی ہے۔

 

اے پی ایم ایس او

آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد 11 جون 1978 کو کراچی یونیورسٹی میں رکھی گئی۔ اس کے پہلے چیئرمین بانی ایم کیو ایم جبکہ عظیم احمد طارق پہلے سیکریٹری جنرل تھے۔ ڈاکٹر عمران فاروق، ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفے کمال، خواجہ اظہار الحق، مقبول صدیقی، ارشد ووہرہ اور وسیم اختر جیسے رہنما اسی تنظیم سے ہوتے ہوئے اس وقت کی سیاسی جماعت ’’مہاجر قومی موومنٹ‘‘ (ایم کیو ایم) اور بعد ازاں ’’متحدہ قومی موومنٹ‘‘ کے رہنماؤں کے طور پر سامنے آئے۔ اے پی ایم ایس او بھی ایم کیو ایم ہی کے سیاسی ونگ کے طور پر کام کرتی ہے۔

 

ایم ایس ایف

قیام پاکستان کے بعد لگ بھگ تین دہائیاں خاموش رہنے کے بعد 1980 کی دہائی میں ایم ایس ایف (مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن) نے ضیا ماشل لا کی چھتری تلے نشوونما پائی۔ اس کی قیادت میاں نواز شریف کے پاس تھی جبکہ دیگر طالب علم رہنماؤں نے ان کے دست و بازو بننے کا فیصلہ کیا اور تنظیم سازی کاعمل شروع کیا۔ بالخصوص وزیر اعلی غلام حیدر وائیں کی ذاتی اور حکومتی سرپرستی میں نمو پانے والے سیاستدان نما طالب علموں میں ریاض فتیانہ، سعد رفیق، ارشد امین، ارشد چوہدری، علیم خان، صبا صادق جیسے رہنما اسی دہائی کے ثمرات ہیں۔ ایم ایس ایف ایک طلبا تنظیم سے زیادہ لیگی حکومتوں کی حاشیہ بردار کے طور کام کرتی ہے اور اس تنظیم کی سرگرمیاں طلبا کی شرکت سے قطع نظر سیاسی اقتدار اور حکومتی راہداریوں سے وابستہ و پیوستہ ہیں۔

 

متفرق

مندرجہ بالا کے علاوہ جے ٹی آئی (جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن)، پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن (اے این پی اسفند یار ولی)، مصطفوی اسٹوڈنٹس فیڈریشن (پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر طاہر القادری)، انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ٹی آئی عمران خان) اور جیے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن (جسقم) بھی مقدور بھر اپنے سیاسی رہنماؤں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف عمل ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبا سیاست صرف طلبا مفادات کے تحفط کےلیے ہو اور طلبا کے ذریعے یہی فلسفہ پروان چڑھایا جائے تاکہ طلبا کو سیاسی بھٹوں کی مزدوری سے بچایا جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post طلبا سیاست اور سیاسی جماعتیں؛ تاریخ کے آئینے میں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2gXJZgP
via IFTTT

No comments:

Post a Comment