Tuesday, October 31, 2017

آزاد سماج کے سیاسی غلام ایکسپریس اردو

اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ سوشل میڈیا کے انقلاب سے دنیا ایک قصبے کی مانند (گلوبل ولیج) بن چکی ہے، لیکن یہ کہنے میں بھی خود کو حق بجانب سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا کا یہ انقلاب تعلیمی و شعوری لحاظ سے پسماندہ ملکوں میں نظریاتی وار زون کے سوا کچھ بھی نہیں۔

ہمارے جیسے معاشروں میں مذہبی، لسانی اور علاقائی تعصب میں سوشل میڈیا ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ لیکن پچھلی ایک دہائی سے جس طرح سیاسی گالم گلوچ اور خرافات کے طفیل سوشل میڈیا (بالخصوص فیس بک) نظریاتی تصادم کا میدان بنتا جارہا ہے، سچ پوچھیے تو اسے دیکھ کر ہم اپنے سیاسی نظریات پر ماتم ہی کرسکتے ہیں۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ دراصل ہمیں اپنے غیر برقی و ’’غیر انٹرنیٹی‘‘ سماجی رابطوں کی لذت اور انسانی ہم آہنگی پر اپنے قارئین کے ساتھ ایک نشست کرنا تھی۔

ہمارے کوہستانی علاقوں میں سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز چائے خانے، کیفے، ثقافتی محفلیں اور حجرے ہی ہوا کرتے ہیں، یا پھر کسی گلی کی چھوٹی سی دکان جہاں نہ صرف حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال ہوتا ہے بلکہ بزرگوں کے تجربات اور آپ بیتیوں سے بھی خوب استفادہ کیا جاتا ہے۔

قارئین کرام، انسان عمومی تجربات ہی سے ہر پہلو کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔

چند دن پہلے کی بات ہے۔ باہر رم جھم برکھا برس رہی تھی، سوات کا تو یہی خاصّہ رہا ہے کہ ادھر ایک بوند آ ٹپکی اور اُدھر ہمارے جیسے فربہ لوگوں پر بھی سردی سے کپکپی طاری ہوگئی۔ خیر، جھٹ سے ایک مقامی ہوٹل میں گھس گیا تاکہ چند یار دوست کہیں سے نازل ہوجائیں اور تھوڑی دیر تک دودھ پتی کا دور چلے۔

موبائل میں دوستوں کے نمبر ٹٹول رہا تھا کہ کسی نے کاندھے پر تھپکی دے کر چونکا دیا۔ جیسے ہی میری نظر ان پر پڑی تو وہ میرے سینے سے چند لمحے ایسے لگے رہے کہ برسوں کا یارانہ ایک لمحے میں سمٹ چکا ہو۔ حالانکہ میری پہلے ان سے کبھی باقاعدہ ملاقات تو نہیں ہوئی تھی، البتہ سوشل میڈیا کی ’’دیواروں‘‘ پر روز ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔

یعنی وہ ہمارے سوات کوہستان کے عثمان بھائی تھے جو بچپن میں بڑے خوابوں کی گٹھریاں باندھ کر لندن کی رنگینیوں میں کھوچکے تھے۔ دودھ پتی کی چسکی لی اور عرض کیا کہ ہاں بھائی تو کچھ ہوجائے بیان بارے انگلستان کا۔

پھر کیا تھا! یوں لگا جیسے عثمان بھائی کے منہ پر برسوں کی بندھی پٹی ابھی کے ابھی کھول دی گئی ہو۔ وہ ایک سانس کا وقفہ لئے بغیر بولتے رہے اور میں کان پھیلا کر سنتا رہا۔

’’بڑا سیانا سمجھتا تھا خود کو۔ لندن کا بھوت سر پر سوار تھا۔ بڑے پاپڑ بیلنے کے بعد ویزا ہاتھ لگا۔ والدین اور رشتہ دار جہاز میں بیٹھنے تک زار و قطار روتے رہے اور فیصلے سے دستبردار ہونے پر مصر تھے مگر آنکھیں بند کرکے اڑان بھرلی۔ مگر لندن کی گلیوں اور سڑکوں پر انسانوں کی اپنے آپ سے دوڑ کا مقابلہ دیکھ کر دو دن تک واپسی فلائٹ کےلیے ٹسوے بہاتا رہا۔ وہ تو بھلا ہو اپنے ہندوستانی پریم بھائی کا جو کبھی حوصلہ دیتا رہا، کبھی طعنے دیتا رہا اور کبھی بھائی کا پیار دیتا رہا۔ کبھی کچھ کر دکھانے کی کوشش نے ایک مہینے تک قابو میں رکھا اور تب تک میں بھی لندن کی بھاگم بھاگ میں سما گیا۔‘‘

انہوں نے مجھے جھٹک کر اپنی طرف متوجہ کیا، ’’یقیناً آپ بھی یہی سوچیں گے کہ لندن کی آسائشیں، رنگینیاں اور اوپر سے پاؤنڈز کی بوچھاڑ، جی کرتا ہوگا کہ ابھی کے ابھی اڑان بھروں۔ ارے بھائی پناہ مانگو ایسے پاؤنڈ سے جس میں آپ سماج ہی بھول جائیں، آپ رشتتوں کی مٹھاس اور یاروں کی محفلوں سے محروم ہوں۔ بھائی میں تمہیں رشتوں کے احساس کی کون کونسی مثال دوں۔ ٹھیک آدھ گھنٹہ ایک نالی کی بو سونگھتا رہا ہوں جس سے مجھے اپنے محلے کی نالی کی بو محسوس ہورہی تھی۔‘‘

یہ سن کر میری ہنسی چھوٹ گئی اور ایک اور چائے کی لمبی چسکی لی۔ آگے بتانے کا حکم دینے کی تو ویسے بھی ضرورت نہیں تھی۔ عثمان بھائی کی زبان کی گردش تھی اور میرے کان کی باریکی۔

کہنے لگے ’’یار ہنسو، خوب ہنسو! میں تم لوگوں سے تب ہی شکوہ کرنے کا لائق ہوں گا جب تمہیں رشتوں اور یاروں کا احساس چھو کر گزرے۔ تم لوگ تو سوشل میڈیا پر سیاسی و نظریاتی اختلاف پر ایک دوسرے کے خلاف ایسے خرافات بکتے ہو کہ محلہ داری، یاری دوستی، سب کچھ بھول جاتے ہو۔ بہروں اور اندھوں کو کیا لیکچر دوں؟ بس دل کی بھڑاس نکال رہا ہوں۔‘‘

اتنے میں عثمان بھائی کا دھیان سامنے پڑی چائے کی پیالی پر گیا جو کب کی ٹھنڈ سے جم چکی تھی۔ پیالی پھر سے ٹیبل پر رکھ دی اور دوسرا سیشن جاری رکھا۔

’’یہ سامنے عبدالرحمن انکل کا ڈھابا دیکھ رہے ہو؟ ان کے چھولے اور لوبیا یاد آتے ہیں تو شدید کڑھن سے برگر حلق میں اٹک جاتا ہے۔ تم لوگ جب گاؤں کی چراگاہوں، کھیت کھلیانوں اور گلی محلوں کی تصویر کھینچ کر انٹرنیٹ پر ڈالتے ہو، یا میں تمہیں کسی حجرے میں گپیں ہانکتے ہوئے پاتا ہوں تو مہینوں کڑھتا ہوں اور اپنے آپ سے پاگلوں کی طرح گپیں ہانکتا ہوں۔‘‘

وہ محو گفتگو تھے کہ گاؤں کے تین چار ویلے اور وارد ہوئے۔ پھر عثمان بھائی کی رودادیں تھیں اور ان کا انگشت بدنداں ہوکر خاموشی سے سننا تھا۔ یوں شام ڈھل گئی اور عثمان بھائی نے بھی اسی شعر پر اکتفا کیا کہ

نہ پوچھ کیسی گزرتی ہے زندگی اے دوست
بڑی طویل کہانی ہے پھر کبھی اے دوست

اور ہم سب نے اپنے اپنے گھروں کا راستہ ناپنا شروع کریا۔ راستے میں مجھے صرف یہ خیال ستاتا رہا کہ وہ لوگ مفت تعلیم، مفت علاج، مفت شہری تحفظ و بہتر شہری حقوق کا مزا اڑاتے ہوئے بھی بغیر کسی سیاسی ہلڑبازی یا نظریاتی خانہ جنگی کے، خاموشی سے اپنے حکمران چن لیتے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کی بدولت بال بال قرضوں میں جکڑ کر، تعلیم کا گرا ہوا معیار لے کر، کچرے کے ڈھیر پر رزق تلاشتے ہوئے بھی شاہوں کی انتہائی فرمانبرداری میں ایک دوسرے کی عزت پامال کرتے ہیں۔

سیاسی عدم برداشت کی اس نہج تک پہنچتے ہیں کہ مکے اور کرسیاں چلاتے ہیں۔ اتنی فراغت کے باوجود بھی ہم سماجی روایات اور ذہنی ہم آہنگی کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے سے باز آکر، سوشل میڈیا کو پولنگ بوتھ بنانا ترک کرکے، نفرتوں کو محبت میں بدل کر، عثمان بھائی کی طرح رشتوں کا احساس کیوں نہیں جگاسکتے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post آزاد سماج کے سیاسی غلام appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2gQUQ8r
via IFTTT

No comments:

Post a Comment