کیمبرج شہر میں تیسرا یا چوتھا دن تھا جب یونیورسٹی کے قدیم ترین کیمپس ’’ہارورڈ یارڈ‘‘ میں موجود لائبریری میں جانا ہوا۔ مطلوبہ کتاب تک پہنچانے کےلیے ایک نوجوان لائبریرین میرے ساتھ لائبریری کی بیسمنٹ تک گئی۔ حسب عادت لفٹ میں اس سے کچھ ذاتی بات چیت ہوئی اور اس نے بتایا کہ وہ خود بھی ہارورڈ کی اسٹوڈنٹ ہے اور اس نے ہارورڈ اس لیے جوائن کی ہے کہ وہ ٹیچر بننا چاہتی ہے۔ میں نے اپنے پورے پروفیشنل کیریئر میں سب سے زیادہ جو کام کیا ہے، وہ ٹیچنگ ہے۔ اور اب بھی الحمدللہ کسی نہ کسی شکل میں تدریس کر رہی ہوں۔ اس کے باوجود میرے لیے یہ امر تعجب کا باعث تھا کہ کہ کوئی ہارورڈ جیسی یونیورسٹی میں محض ٹیچر بننے کےلیے پڑھنا چاہے گا۔
کیمپس میں ایک ہفتہ گزرنے کے بعد 22 جون کو کلاسز شروع ہوئیں تو فیچر رائٹنگ کی کلاس میں پہلا اسائنمنٹ اپنے کسی کلاس فیلو کا انٹرویو کرنا تھا جسے ایڈٹ کرنے کے بعد جمع کروانا تھا۔ کلاس میں میرے نزدیک شرلے بیٹھی تھی جس کی چپٹی ناک سے اس کی چینی قومیت کا پتا چلتا تھا۔ ہم نے طے کیا کہ ہم ایک دوسرے کا انٹرویو کریں گے۔ 33 سالہ شرلے سے طے شدہ وقت پر ہارورڈ یارڈ ہی میں ایک مقام پر ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس کے ماں باپ نے تائیوان سے نقل مکانی کی تو اس کی عمر 13 سال تھی۔ شرلے نے کیلیفورنیا یونیورسٹی سے کمپیریٹیو لٹریچر (تقابلی ادب) میں ماسٹرز کیا اور پھر ایک سال آکسفورڈ یونیورسٹی میں گزارا جہاں اس نے بیسویں صدی کا انگلش لٹریچر پڑھا۔ شرلے کا کہنا تھا کہ اس نے دوسرا ماسٹرز ہارورڈ سے ایجوکیشن میں اس لیے کیا کہ وہ ٹیچر بننا چاہتی تھی۔ شرلے کا کہنا تھا کہ جس وقت وہ دوسرا ماسٹرز کرکے فارغ ہوئی، گورنمنٹ نے تعلیم کے بجٹ میں کچھ کمی کر رکھی تھی اور ٹیچرز کےلیے مواقع کم تھے اس لیے اس نے یونیورسٹی کے ایک ادارے میں ملازمت اختیار کی جو غالباً چین سے متعلق معاملات پر ریسرچ کرتا ہے۔ درمیان میں اس نے نسل پرستی کے خلاف لکھنے والے ایک معروف مصنف کی پرسنل ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ لیکن اس کا کہنا تھا کہ اس کی آئیڈیل ملازمت ٹیچنگ ہی ہے۔ یہ دوسرا شاک تھا جو مجھے لگا۔
گزشتہ دنوں جب سرگودھا یونیورسٹی کے پروفیسر اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی گرفتاری کی خبریں اور تصویر سامنے آنا شروع ہوئیں تو مجھ سے رہا نہ گیا اور اس موضوع پر زندگی کے تجربات و مشاہدات کو قرطاس پر رقم کرنے کی خواہش ہوئی۔ میرے والد کا پورا پروفیشنل کیریئر ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوئے گزرا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تقریباً دس سال تک اسی یونیورسٹی میں تدریس کرتے رہے۔ ہم نے گھر میں بھی ہمیشہ انہیں کتابیں پڑھتے ہی دیکھا۔ لیکن میں نے اپنی انجینئرنگ کی تعلیم سے فارغ ہو کر تدریس سے وابستہ ہونا چاہا تو ابّو نے ہی مجھے اس سے روکا۔ بعد ازاں میرا شوق دیکھتے ہوئے اجازت دے دی۔
مجھے یاد ہے سرسید یونیورسٹی آف انجینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، کینپ کراچی، سینٹر فار نیوکلیر اسٹڈیز اسلام آباد، یہ تین آپشن میرے پاس تھے جن میں سے میرا انتخاب سرسید میں تدریس تھا کہ میرا دل صرف اور صرف ٹیچنگ میں تھا جو آج بھی ہے۔ سرسید میں تدریس کے دوران کیا تجربات ہوئے، ان پر ان شاللہ کبھی تفصیل سے لکھوں گی۔ لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیلینٹڈ پڑھنے اور پڑھانے کے شوقین نوجوان جو دوسری مراعات والی ملازمتیں ٹھکرا کر تدریس کو ترجیح دیتے ہیں، ان کے ساتھ معاشرے کا اور خود یونیورسٹی کی انتظامیہ کا کیا رویہ ہے؟ اس کا تجربہ مجھے بہت جلد ہوگیا۔
گو کہ گزشتہ چند دہائیوں میں سرکاری شعبوں کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی ٹیچرز کو دی جانے والی مالی مراعات میں بہت اضافہ ہوا ہے لیکن ٹیچرز کے ساتھ حوصلہ شکن رویہ ان اسباب میں سے ایک ہے کہ جن کی وجہ سے ہمارے ذہین ترین باصلاحیت بچے (جنہیں میں ’’اے کلاس‘‘ کہوں گی) امریکا کے طلبہ کی طرح تدریس کے شعبے میں جانا نہیں چاہتے بلکہ ڈاکٹر، انجینئر، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یا بینکر بن کر قوم کی خدمات کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیچنگ کےلیے ہمارے پاس وہ افرادی قوت بچتی ہے جسے ان شعبوں میں داخلہ نہ مل سکا ہو اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو فیکٹریز ہمارا مستقبل مینوفیکچر کر رہی ہیں، اس کی مشینری 99 فیصد زنگ زدہ اور انتہائی ناقص ہے۔ قسمت سے کوئی پڑھنے لکھنے کا شوقین اس شعبے میں آجائے تو خیر، ورنہ عمومی صورت حال یہی ہے۔
اور اس کا لازمی نتیجہ پی ایچ ڈی تک کے طلبہ کی استعداد دیکھ کر ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک مضمون روزنامہ جنگ میں پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے بیرون ملک زمانۂ طالب علمی کے ایک واقعے کا تذکرہ کیا جس کے مطابق پاکستان کی ایک بہت اچھی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل انجینئر کو اپنے شعبے کے کسی معمولی پروسیس کا عملی تجربہ نہ تھا۔ ڈاکٹر قدیر کا کہنا تھا کہ اس میں اس انجینئر کا کوئی قصور نہیں تھا۔ میں ڈاکٹر قدیر سے پوری طرح متفق ہوں۔
خود مجھے کراچی آئی بی اے میں پی ایچ ڈی کورس ورک کے دوران اندازہ ہوا کہ ریاضی سے متعلق بہت سے بنیادی تصورات میرے اپنے ذہن میں واضح نہیں تھے۔ میں نے پی ایچ ڈی کورس ورک کے دوران آئی بی اے میں اپنے اساتذہ کی مدد سے اسکولوں کے نصاب کو از سر نو پڑھ کر اپنی اصلاح کی۔ آج میں جائزہ لیتی ہوں تو پورے اسکول کی تعلیم کے دوران چند ایک کے علاوہ کسی استاد نے بھی ریاضی پڑھانے کی کوشش نہیں کی؛ کیونکہ خود ٹیچرز کے اپنے تصورات درست نہیں ہوتے تھے کہ وہ بھی اسی سسٹم کے ستائے ہوئے تھے۔ بیشتر اساتذہ بورڈ پر سوالات اتار کر مطمئن ہوجاتے ہیں جبکہ بچوں کے والدین یا ٹیوٹر انہیں رٹا لگوا کر اور ان کے اچھے نمبر دیکھ کر۔ اب شاید اشرافیہ کے بچوں کے اسکولوں میں کچھ تبدیلی آئی ہے مگر ایک عام پاکستانی بچے کےلیے عمومی حالات اس سے زیادہ بد تر ہیں۔
مستثنیات بالکل موجود ہیں لیکن اکثریت کا حال یہی ہے۔ ہمارے پاس اپنی قوم کا مستقبل مینوفیکچر کرنے کےلیے ناقص مشینری کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں۔
اور ٹھہریئے! کسی استاد کو ہتھکڑیاں لگانے میں صرف پولیس یا حکومت کا قصور نہیں، اس معاشرتی مائنڈسیٹ کا بھی ہے جس میں عزت کا پیمانہ یہ ہے کہ آپ کتنا کماتے ہیں؟ آپ کا گھر کس علاقے میں ہے؟ آپ کے پاس کونسی گاڑی ہے؟ آپ کے بچے کس اسکول میں جاتے ہیں؟ اس معاشرے میں کسی فرد کو صرف اسی وقت عزت مل سکتی ہے جب اس کے پاس یہ سب کچھ ہو۔ ڈراموں کا ہیرو ہمیشہ بزنس مین ہوتا ہے یا کسی انڈسٹری کا مالک یا زمیندار۔ ہم نے کتنے ڈرامے یا فلمیں ایسی دیکھی ہیں جن کا ہیرو ٹیچر ہوتا ہے؟ عمیرہ احمد اور فرحت اشتیاق کے کتنے ناولوں کے مرکزی کردار تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں؟ افسانوی ادب معاشرے کی سوچ کا عکاس بھی ہوتا ہے۔ اور سوچ بناتا بھی ہے۔ پھر کیوں ہمارے بچے ٹیچر بننا چاہیں گے؟ اور معاشرہ کیوں ٹیچر کی عزت کرے گا؟ پولیس کو بھی گالیاں دے لیجیے لیکن تھوڑی سی گالیاں خود ہمارے اپنے معاشرتی مائنڈسیٹ کا بھی حق بنتی ہیں۔
ہم سب شاہد ہیں کہ ہماری آپس کی بات چیت بالعموم صرف اس نکتے پر مرکوز رہتی ہے کہ فلاں شعبے میں اسکوپ ہے، بھاری مشاہرے اور مراعات پر اندرون ملک یا بیرون ملک ملازمت ملنے کے مواقع بہت زیادہ ہیں، اس لیے صرف اسی شعبے میں جانا چاہیے۔ اسی مائنڈسیٹ کے تحت تدریس کی طرح سوشل سائنسز کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے جو کسی بھی ملک کو چلانے اور مستقبل کی پلاننگ کےلیے انتہائی اہم ہے اور جس میں اعلیٰ ترین دماغوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسروں کو کیا کہوں، راقمہ خود نوجوانی میں اسی بھیڑ چال کا شکار رہی۔
میڈیکل اور انجینئرنگ تو، بقول امریکی مبلغ نعمان علی خان، اسکلڈ لیبر ہے جو کوئی بھی متوسط درجے کا دماغ انجام دے سکتا ہے۔ لیکن اس قوم کے مسائل کو سمجھ کر ان کا حل تلاش کرنے کےلیے اعلیٰ ترین دماغوں کی تدریس اور سوشل سائنسز یعنی سماجی علوم میں تربیت کی ضرورت ہے… اس طرف ہم کب دھیان دیں گے؟
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاسی لیڈران، یونیورسٹیز کے استاد، معروف اینکرز، کون ہے جو اپنے بچوں کو خوشی سے سوشل سائنسز یا تدریس کے شعبوں میں بھیجنا چاہے گا؟ اس سے بھی بڑھ کر اسلام اور پاکستان سے مخلص دینی احیاء کی تنظیمیں، جن کا کوئی بھی پروگرام ’’امت کی فلاح‘‘ کے تصور کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، ان کے قائدین میں سے کتنے ہیں جو اپنے باصلاحیت بچوں کو تدریس یا سوشل سائنسز کے شعبے کےلیے تیار کرتے ہیں کہ احیائے دین کےلیے ذہن سازی اس کے بغیر ممکن نہیں؟
اور یہ سب اس لیے ہے کہ مال کی محبت میرے نبیﷺ کی امت کو کھا گئی ہے۔ سورۂ انفال کی 28 ویں آیت مبارکہ میں ارشادِ باری تعالی ہے: (ترجمہ) ’’اور جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے۔‘‘
میرے سرکارﷺ ارشاد ہے: ’’مال کی محبت میری امت کا فتنہ ہے۔‘‘ ترمذی، حدیث نمبر 2336
آج کشمیر میں، افغانستان میں، چین میں، برما میں، فلپائن میں، خود اسلامی ملکوں میں بھی مسلمان جس اذیت کا شکار ہیں وہ علم، تحقیق، اور تدریس کا راستہ چھوڑ کر مال کی محبت میں بھاگنے کا نتیجہ ہے۔ پوری مسلم دنیا جس بے بسی کا شکار ہے، اس کے ڈانڈے دراصل اسی مسئلے سے ملتے ہیں کہ ہم عزت صرف مال کی کرتے ہیں اور انفرادی طور پر اسے پانے کی جدوجہد میں ہمیں اس سے آگے کوئی اجتماعی فائدہ نظر نہیں آتا۔ اس سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارا علمی و مذہبی اشرافیہ بھی ہمیں اس کی طرف متوجہ نہیں کرتا۔ قرآن میں کائنات کے نظام پر غوروفکر، زمین کی سیر کرنا، تاریخ سے سبق حاصل کرنا دراصل کائنات کے راز تسخیر کرنے کےلیے ریسرچ کی طرف اشارے ہیں لیکن ان سب احکامات کو دنیاوی ترقی کے خواہش مندوں کی طرح دینی طبقات بھی بری طرح نظرانداز کرتے ہیں۔ ہم صرف کشمیر، برما، فلسطین کے حق میں ریلیاں کر کے جذباتی تقریریں کرنے اور سننے کے بعد انہیں بھول جانے والے لوگ ہیں۔ کسی طویل مدتی پلاننگ کا ہمارے دینی اور لبرل قائدین کی تقریروں میں تذکرہ نہیں ملتا۔ کوئی ایسا وِژن نظر نہیں آتا جو اپنے ماننے والوں کو مسائل کے حل کےلیے تحقیق پر آمادہ کرے۔
قرآن جس صبر کو کامیابی کی گارنٹی قرار دیتا ہے، وہ دراصل سنسنی کے پیچھے بھاگنے کے بجائے، اسی طرح کچھووں کی طرح غوروفکر کائنات اور سماجی اور سیاسی زندگی کے رازوں کی تسخیر ہے جیسے مغرب چار صدیوں سے کر رہا ہے۔ مگر ہم سنسنی کے پیچھے بھاگنے والے، ریلیاں نکال کر جس مغرب کو گالیاں دیتے ہیں، اسی مغرب سے آنگ سان سو کی سے نوبل پرائز کا مطالبہ کرکے لمبی تان کر سوتے ہیں کہ اپنا فرض ادا کر دیا۔
پھر اگر ہماری دس بارہ یا اس سے کچھ زیادہ جماعتیں پاس پولیس کو ایک وائس چانسلر کو گرفتار کرنے کا پروٹوکول نہیں معلوم اور وہ ایک استاد سے زیادہ عزت ایان علی جیسی ماڈلوں اور راؤ انوار جیسے قاتل مگر اثر رسوخ والے ملزم کو دیتی ہے تو تعجب کیسا؟ آخر میں سرکارﷺ کے کلمات یاد کر لیتے ہیں: ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ مشکواۃ، حدیث 255
جن کا دیں پیرویٴ کِذب و ریا ہے اُن کو
ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Q2C0eq
via IFTTT
No comments:
Post a Comment