گزشتہ عشرہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کی دہائی دیتے گزرا اور اختتام عشرہ پر محولیاتی تبدیلی کے خطرات میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں پر گہری نگاہ رکھنے والے سائنس دانوں نے ان تبدیلیوں کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آیندہ برسوں میں ان تبدیلیوں کے اثرات اور زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ عالمی حدت میں اضافے کے اپنے خطرات ہیں جس کے نتیجے میں گلیشیئر اور آئس برگ پگھل رہے ہیں جس سے سمندروں کی سطح میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے اور کئی ساحلی علاقوں کے غرقاب ہونے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔
گزشتہ عرصے پر ایک نظر غائر ڈالی جائے تو یاد آتا ہے کہ براعظم افریقہ کے مختلف علاقوں، مشرق وسطیٰ اور روس کے بہت سے علاقوں میں گرمی کی شدید لہر آئی تھی جس کا زیادہ اثر دریائے ایمزن کے طاس پر پڑا تھا جب کہ شمالی امریکا کے علاقوں میں غیرمعمولی بارشوں نے تباہی مچا دی تھی۔ ان بارشوں اور سیلابوں کے نتیجے میں دو ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں سے متجاوز تھی۔ ان کے گھر بار اور مویشی پانی میں بہہ گئے تھے۔
اب جب کہ ہم نئے عشرے میں داخل ہو رہے ہیں، کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ گزشتہ برس یعنی 2019 میں یورپ کے جزیرے پورٹوریکو میں سمندری طوفان نے تباہی مچا دی تھی۔ یورپ میں گرمی کی لہر دو مرتبہ آئی جب کہ سائیکلون نے بہاماس اور جاپان میں تباہی مچائی اور ایمزون کے جنگلات میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی۔ اس علاقے میں دنیا بھر کے سب سے زیادہ گنجان جنگلات ہیں جنھیں بعض مبصرین دنیا کے پھیپھڑوں کا نام دیتے ہیں۔ ستمبر 2019 میں دنیا کے 150 ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے ’’کلائمیٹ اسٹرائیک‘‘ میں حصہ لیا۔ ان تمام سرگرمیوں کے باوجود مبصرین کو موسمیاتی حالات کے معمول پر آنے کی کوئی امید نظر نہیں آئی۔
اگرچہ عالمی حرارت کے بارے میں عوام کے شعور میں کافی اضافہ ہو گیا ہے مگر اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے کوئی مربوط اور منظم انتظام موجود نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ جنگلات کی آگ نے دنیا کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا ہے بالخصوص آسٹریلیا میں جنگلوں کی آگ نے حشر برپا کر رکھا ہے۔
دوسری طرف اس کرہ ارض پر ایسے علاقے بھی ہیں جہاں سردی کیشدت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے اور زندگی منجمد ہو کر رہ گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں اتنی سردی پڑی ہے کہ وہاں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ابتدائی اندازے کے مطابق 50 سے تجاوز کر گئی ہے۔حالانکہ بنگلہ دیش کا موسم معتدل ہوتا ہے لیکن اب وہاں موسم میں تغیر پیدا ہورہا ہے۔ پاکستان میں بھی آج کل سردی کی شدید لہر آئی ہوئی ہے اور پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بعض شہروں میں درجہ حرارت نکتہ انجماد تک گر گیا ہے۔
لاہور، راولپنڈی اسلام آباد، چکوال، سیالکوٹ، پشاور، مردان ، ایبٹ آباد میں غیرمعمولی سردی کی لہر ریکارڈ کی گئی جب کہ کراچی میں بھی اس بار سردی کی شدت میں اضافہ ہوا جب کہ کراچی میں گرمی کی شدت بھی بڑھ چکی ہے۔پاکستان میں جنگلات کی بے رحمانہ کٹائی کے باعث جنگل تقریباً ختم ہوگئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں، اگر احتیاط نہ کی گئی تو وہ بھی ختم ہوجائیں گے۔
پاکستان کے دیہات میں بھی سبزہ اور درخت کم ہورہے ہیں جب کہ شہروں میں تو آبادی میں بے تحاشا اضافے کے باعث جہاں ماحول آلودہ ہوا ہے، وہاں درخت بھی غائب ہوگئے ہیں۔پاکستان کے بڑے شہر جن میں کراچی اور لاہور سرفہرست ہیں، ماحولیاتی آلودگی کا نمونہ بن چکے ہیں۔آبادی میں بے محابہ اضافے نے ان شہروں کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور ان شہروں کی فضاانسانوں ہی نہیں بلکہ جانوروں کے لیے بھی مختلف قسم کی بیماریوں کا باعث بن رہی ہے۔
کراچی کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ یہ جنوبی ایشیا میں کچرے کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، لاہور میں بھی کچرے کی صورتحال دن بدن خراب ہورہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب یہاں بھی کچرا شہر کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے گا۔
The post 2020 کے دوران موسمیاتی تبدیلیاں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/36m5gov
via IFTTT
No comments:
Post a Comment