وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک کو مستحکم کر دیا ہے، نیا سال خوشحالی کا سال ہوگا۔ وہ نجی یونیورسٹی سے خطاب ، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور اپٹما ٕکے وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیر اعظم کی خوش امیدی اور دلفریب گفتگو میں ایک پیش رفت کا احساس ملتا ہے ، اس سے قبل وہ معیشت کے استحکام کی بات کرتے تھے مگر اب انھوں نے ملک کو مستحکم کرنے کا یقین دلایا ہے، خدا کرے نئے سال کی برکت سے حکومت کسی یوٹرن کے بغیر ملکی استحکام اور قومی سلامتی اور عوامی فلاح و بہبود کے تمام ایجنڈے پر یکسوئی کے ساتھ کام کرے۔
وقت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ نئے سال میں حکومت کچھ ڈلیورکرے اور عوام کو ریلیف دے کر اپنی آئینی میعاد پوری کرے تاکہ ملک قانونی اور آئینی بحران ، بے یقینی اور محاذ آرائی کی دلدل سے ہمیشہ کے لیے نکل جائے، مگر اس کے لیے حکمرانوںکو صورتحال کا ادراک کرنا ہوگا ، ایوان کے اندر ہونے والی بحث نئے سال کا نیا ٹاسک ہے، منتخب نمایندوں کا فرض ہے کہ وہ ملکی استحکام کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے ہم آہنگی اور قومی اتفاق رائے کا سنگ میل بنائیں ، اب محاذ آرائی اور بلیم گیم کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔
قومی اسمبلی میں گیس لوڈ شیڈنگ، پیٹرولیم مصنوعات اور ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف اپوزیشن نے احتجاج کیا۔ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ہم تو مہنگائی پر بات کرنا چاہتے ہیں، سال کے پہلے روز حکومت نے مہنگائی کا تحفہ دے دیا، پٹرول بم گرایا گیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس قائم مقام اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت شروع ہوا تو خواجہ آصف ، نوید قمر نے ہنگامی بنیادوں پر اجلاس بلانے پر اعتراض کیا۔
قاسم سوری نے آیندہ شکایت نہ ہونے کی یقین دہانی کرا دی۔ اجلاس میں جیسے ہی فاٹا اصلاحات پر وزیر مملکت شہر یار آفریدی نے جواب دیا تو اپوزیشن کی طرف سے ’’جان اﷲ کو دینی ہے‘‘ اور ’’جھوٹا‘‘ کے جملے کسے گئے۔ شہریار آفریدی نے کہا ’’ جھوٹے پر اﷲ کی لعنت ، ہم یہاں جھوٹ بولنے نہیں آئے، وقت ثابت کرے گا سچا کون ہے۔‘‘ وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا آٹھ جنوری کو غریبوں کے لیے ملک بھر میں 192ارب روپے سے احساس پروگرام شروع کر رہے ہیں۔
2020 عوامی مسائل کے حل کا سال ہے، وزیراعظم اپوزیشن کے سوالات کے جوابات دینے کو تیار ہیں، صرف طریقہ کار طے کرنا ہے۔گیس لوڈ شیڈنگ پر ن لیگی توجہ دلاؤ نوٹس پر وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا ، گیس بحران کی ذمے دار مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہیں جو ٹی ٹیز اور پاپڑ والوں کے ساتھ کرپشن میں مصروف رہیں لیکن اس طرف توجہ نہیں دی ، ہم نے ڈیڑھ سال میں گیس لوڈ شیڈنگ ختم کرکے 50 فیصد اضافی گیس سسٹم میں ڈال دی ہے۔ ایک ماہ میں سی این جی اسٹیشنز مکمل بحال بھی کر دیں گے۔ عمر ایوب کے ریمارکس پر اپوزیشن ارکان نے احتجاج کیا ۔
ادھر سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے ایوان بالا کا اجلاس تاخیر سے اور ہنگامی بنیادوں پر بلانے پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ آرڈیننس کے ذریعے نظام حکومت چلایا جا رہا ہے۔ اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت ہوا۔ نو منتخب سینیٹر ذیشان خانزادہ نے حلف اٹھایا۔ قائد حزب اختلاف راجہ ظفرالحق نے کہا کہ حکومت نے پہلے بہت تاخیرکی اور پھر اپوزیشن کی ریکوزیشن کے بعد عجلت میں سینیٹ اجلاس بلایا۔ ملکی معاملات غیرآئینی طریقے سے چلائے جا رہے ہیں۔
پارلیمنٹ کو بند رکھنا اور سینیٹ کو تالے لگانا درست نہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور قلت کی وجہ سے عوام متاثر ہو رہے ہیں۔ رضا ربانی نے کہا سینیٹ کا اجلاس 120 دن سے زائد وقفے سے بلانا غیرآئینی اقدام ہے۔ آئین موجود بھی ہے اور معطل بھی ، ہم نے کبھی نہیں کہا کہ سرمایہ داروں اور سول بیورو کریسی کو نیب کے دائرے سے نکال دیں۔
احتساب بلا امتیاز ہونا چاہیے ورنہ دیگر اداروں کی طرح ارکان پارلیمنٹ کے احتساب کا حق بھی پارلیمنٹ کو دیا جائے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی نا اہلی کے سبب ایک قومی ادارے کو شرمندگی کی حالت میں لاکرکھڑا کر دیا۔یہ کیسی حکومت ہے جو تین یا چار درست نوٹی فکیشن بھی نہیں نکال سکتی؟ مولانا غفور حیدری نے کہا نئے سال کے آغاز پرگیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے سے عوام پر ڈرون حملہ کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر سائنس ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ بہت سے معاملات میں حکومت سے غلطیاں ہوئیں،کچھ اپوزیشن کی بھی غلطیاں ہوں گی، ہر حکومت اور ادارے سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخیاں ختم ہونی چاہئیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو قومی امور پر مشترکہ ایجنڈا بنا کر اتفاق رائے سے نئے سال کا آغاز کرنا چاہیے۔
اگر ہم آپس میں دست وگریبان رہے تو معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر، الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی، احتساب قانون اور آرمی ایکٹ جیسے امور پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے۔ آئین کے اندر وزیراعظم کا احترام بھی لازم ہے۔
یہ خوش آیند امر ہے کہ ایوانوں میں بچ قومی امور پر اس انداز نظر سے ہو رہی ہے کہ ملک کو آگے لے جانا ہے، منتخب نمایندوں میں قومی اتفاق رائے، فکری ہم آہنگی اور قومی ایشوز پر جمہور رواداری کے ساتھ بحث ومباحثہ کی نئی روایت ایک صحت مند پیش رفت ہے۔
امید کی جانی چاہیے کہ قومی سوچ کے ساتھ قوم نئے سال کی مسافت میں سرخرو ہوگی اور ملک امن وترقی کی راہ پرگامزن ہوگا، مگر اس کے لیے سیاست میں تدبر و تحمل اور اتفاق رائے کا ہونا اشد ضروری ہے، یہ ہماری قومی ضرورت ہے۔
The post جمہوری اسپرٹ اور رواداری کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2SPXM9w
via IFTTT
No comments:
Post a Comment