Friday, October 30, 2020

جشن عید میلادالنبیﷺ اور قومی تقاضے ایکسپریس اردو

جشن عید میلاد النبیﷺ آج دنیائے اسلام ایک ایسے تاریخ ساز اورفیصلہ کن دن میں منا رہی ہے، جب صحرائے عرب میں کفرکی تاریکی،گمراہی اور دور جاہلیت کو نور نبوت سے شکست فاش ہوئی۔

انسانیت،ایمان اور اللہ کی وحدانیت کا سورج طلوع ہوا، ظلمت، جبروستم اور غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں، غرور سے اکڑی ہوئی گردنیں جھک گئیں، حق وصداقت کا بول بالا ہوا، محسن انسانیت، ہمارے آخری نبیﷺ نے ایک شمع اجالا کیا جس کی دائمی روشنی سے ظلمتوں کے اندھیرے چھٹ گئے۔ آج دنیا میں اس عظیم ہستی کا جشن ولادت ہے جس نے بادشاہی میں فقیری کی ۔ صدیاں گزرگئیں اس کا اسوۂ حسنہ عالم انسانیت کے لیے رشد وہدایت کا مستقل وسیلہ ہے۔

آج کا دن جشن ولادت سعید کے سیاق وسباق میں چشم کشائی کا بلیغ ذریعہ ہے، ہمیں تاریخ کے درست شعور اورحضورﷺ کی تعلیمات سے آگہی کی تجدید پر مائل کرتا اور باطل طاقتوں کی اسلام کے خلاف یلغار کے مذموم مقاصد اور عزائم سے بھی بیدارکرتا ہے۔

ہم اپنی تاریخ کے ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں، وطن عزیزکو عالمی سطح پر بے پناہ مسائل، چیلنجز اور بحرانوں کے طوفانوں نے محاصرہ میں لے رکھا ہے، ہم خود اپنی ذات وحیات کے درجنوں مصائب میں گرفتار ہیں، سیاسی،اقتصادی، سماجی اور انسانی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں، بانی پاکستان نے برصغیرکے اسلامیان ہندکو جس روادار وطن کا عطیہ دیا اس کی بنیاد ہی اقبال نے اس شعر میں واضح کردی تھی کہ

کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

جشن ولادت مناتے ہوئے ہمیں آج اپنا اولین محاسبہ چند بنیادی اصولوں کی پاسداری سے کرنا ہوگا اور یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا واقعی ہم نے فکرکی تطہیر، دینی شعائر اور انسانیت کے لازوال پیغام سے کمٹمنٹ کا حق ادا کیا، نام محمدﷺ سے وفاداری بشرط استواری کی تمام منزلیں صمیم قلب سے سرکر لی ہیں اور اگر مملکت خداداد پاکستان کے بنیادی مقاصد کے ساتھ ہمارے سیاسی اکابرین سماجی ، نظریاتی، علمی اور اخلاقی تعلیمات پر ان کی روح اور الفاظ کی روشنی میں پورے خلوص کے ساتھ عمل کررہے ہیں تو پھر یہ افراتفری کیسی، یہ انارکی، سیاسی محاذ آرائی، فرقہ واریت، دہشتگردی ، قتل وغارت، بہیمانہ جرائم کا بازارگرم کیوں ہے، قوم بے منزل وغریب کیوں ہے۔

پارلیمنٹ بے وقعت اور سیاست واقتدار گروہی،ذاتی اور مفادات کے چکر میں کیوں پڑے ہیں، قوم ایک پیج پر ہونے کی دعویدار ہوتے ہوئے مختلف شاخوں پر الٹی کیوں لٹکائی جاتی ہے، سیاست میں تدبر، روشن ضمیری، رواداری، شائستگی کا فقدان کیوں ؟ قومی ایشوز پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ہمارا ٹریک ریکارڈ دوسرے ترقی یافتہ اورجمہوری ملکوں سے متصادم کیوں ہے۔وطن عزیز کو آج جن مسائل کا سامنا ہے اس کا حل بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں مضمر ہے۔

اللہ کے رسولؐ نے انسانیت کی فلاح کے لیے سیدھا راستہ بتا دیا اب یہ ہمارا فرض ہے کہ آج ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے اللہ کے رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں۔صداقت‘ امانت‘ شجاعت اور انصاف جیسے اسلام کے سنہری اصولوں کو آج ہم بھلا بیٹھے ہیں اگر ہم ایک بار پھر ان اوصاف کے حامل ہو جائیں تو خوشحالی اور امن کی بہاریں لوٹ سکتی ہیں۔ نئی نسل آج جس بے راہ روی کا شکار اور جس منزل کی متلاشی ہے وہ منزل اللہ کے رسولؐ کے طریقوں ہی پر چل کر حاصل ہو سکتی ہے۔

آج تجدید عہد کا دن ہے، حقائق دیرینہ کے ادراک کا لمحہ ، قوم کو سوچنا ہے کہ باطل قوتیں کیوں اسلامی ، جمہوری اورانسانی نظام کی دشمن ہیں، فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی تشہیرکو سرکاری سرپرستی میں کھلی چھوٹ دی گئی ہے، صدر ایمانویل میکرون کی اسلام دشمنی اور حضورکی شان میں گستاخی کا سبب کیا ہے، وہ آزادی اظہارکو شان مصطفی سے الگ کرکے اپنے ہی فلاسفروں کی تکذیب میں کیوں مصروف ہیں، انھیں مسلمانوں کی روحانی دل آزاری کی اجازت کس نے دی ہے، وہ اسلامو فوبیا کی چنگاری سلگانے کی شرانگیزی پر کیوں مائل ہیں، انھیں تو فرانس کی تاریخ سے سبق لینا چاہیے۔

وہ انقلاب فرانس سے شعور حاصل کریں، مذہبی ہم آہنگی کے اس جدید عہد میں انھیں صلیبی جنگوں کی یاد کیوں ستانے لگی ہے، عالمی برادری مسلم دنیا کے اضطراب کا نوٹس لے، فرانس کو خبردار کرے کہ اسلامی سواد اعظم کی غیرمشروط حساسیت کی ایک حد ہے، اسلام امن کی تعلیم دیتا ہے، مسلمان کسی کی مذہبی شخصیات کی توہین کا توسوچ بھی نہیں سکتے، لہذا پاکستانی قوم ، عالم اسلام اور دنیائے عرب کو لاوارث نہ سمجھا جائے۔

لازم ہے کہ یورپی یونین اور مغرب کے اہل فکر ونظر ،مذہبی اور ممتاز دانشور صدر میکرون کو ہرزہ سرائی سے باز رکھیں، انھیں دنیائے اسلام کو برہم کرنے سے روکیں، ابھی تو صرف فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ تک بات چلی ہے، اگر مسلمانوں کی عظیم ترین ہستی کی شان میں گستاخی کا سلسلہ بند نہ ہوا تو حالات کی خرابی کو کوئی نہیں روک سکے گا، فرانس تاریخ سے تصادم نہ مول لے، مسلمان تو اس حقیقت کوپیش نظر رکھتے ہیں کہ قیصر وکسریٰ کی حکومتیں مٹ گئیں مگر شہنشاہ مدینہ کی فرمانروائی آج بھی جاری ہے اور جب تک دنیا قائم ہے جاری رہے گی۔

اب کچھ باتیں ملک کے سیاست دانوں ، پالیسی سازوں، اسٹیک ہولڈرز اور معاشرے میں اثرونفوذ رکھنے والوں کے نام جو عصری صورتحال سے واقف ہیں اور قوم کے سیاسی جذباتی ، سماجی اور معاشی مسائل سے بھی گہری شناسائی رکھتے ہیں۔

انھیں زمینی حقائق کو از سر نو دیکھنے کی ضرورت ہے، قوم 73برسوں کے سیاسی،سماجی اور اقتصادی سفر میں عجیب طرح کے گورکھ دھندوں میں الجھ گئی ہے، افسوس ناک خرافات نے سیاست کا چہرہ مسخ کردیا ہے، اہل سیاست سے یہی استدعا ہے کہ وہ نظر آنے والے سیاسی طوفانوں کا ادراک کریں، مہم جوئی کے ہر امکان کو بے نتیجہ بنائیں، قوم کو مزید کسی آزمائش میں نہ ڈالیں، انھیں جشن عید میلاد النبیﷺ کا واسطہ !!

 

The post جشن عید میلادالنبیﷺ اور قومی تقاضے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3mx7OrN
via IFTTT

No comments:

Post a Comment