عجیب ملک ہے ، ہر طرف غداری غداری ، چور چور کے نعرے بلند ہورہے ہیں، مقدمے درج ہو رہے ہیں ‘ ادھر ایسے حالات میں بھی ہم دہشت گردی اور کشمیر کی آزادی دلانے کا بوجھ بھی کندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہیں‘اب تو بنیادی سوال یہ ہے کہ آخرحکومت ملک کیسے چلا رہی ہے؟۔
پاکستان کو آئین کی روح کے مطابق چلانے کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو وسیع اختیارات حاصل ہیں‘اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارا ماضی سیاسی جماعتوں کو بنانے‘ توڑنے‘ حکومتوں کو لانے اور رخصت کرنے جیسی سازشوں سے بھرا پڑا ہے‘ اصل بات یہی ہے کہ اس قسم کے طریقے کا خاتمہ بہت ضروری ہے ‘جب تک یہ کلچر رہے گا ‘جمہوری نظام آئین کے مطابق چل نہیں سکتا ہے ۔
اب طاقت کے مراکز کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے اور وہ غلطیاں نہیں دہرانی چاہیے‘جن کی بنا پر پاکستان اور عوام کا نقصان ہو رہا ہے۔لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا مقتدر حلقوں کی عدم مداخلت ہی تمام مسائل کا حل ہے؟ ایسا سوچنا بھی غلطی ہوگی ‘ہمارے سیاستدانوں کو بھی سبق سیکھنا ہوگا‘ہماری سول حکومتوں اور حکمرانوں کو بھی اپنے رویے تبدیل کرنے ہوں گے ‘ نظام عدل کو بھی اپنی خامیوں اور ناکامیوں پر غور وفکر کرنا ہوگا‘ہماری پارلیمنٹ کو بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ عوام کی نمایندہ ہے اور ان کے حقوق کی صحیح محافظ بھی ہے۔
خود احتسابی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاست کے تمام اہم اداروں کو اپنے طرزعمل کا جائزہ لے کر اپنی غلطیوں کو سدھارنا ہوگا‘ صرف اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹہرانا ٹھیک نہیں، اس گلی میں جانے والے سیاستدان بھی جمہوریت کے مجرم ہیں۔
آج کی جمہوریت اصل میں بورژوا جمہوریت ہے ‘ سرمایہ دار طبقے نے ماڈرن جمہوریت کے لیے بھی کچھ اصول مقرر کیے ہیں لیکن پاکستان کے امیر اور بااثر طبقہ اتنا بے بس اورنا اہل ہے کہ اپنے نظام حکومت کو بھی صحیح بورژوا جمہوری اصولوں کے مطابق نہیں چلا سکتا‘ بدقسمتی سے ہمارا سرمایہ دار ، جاگیردار اور قبائلی سردار طبقہ محنت سے نہیں بلکہ مصنوعی طریقوں سے بنایا گیا ہے‘ اس لیے اپاہج ہے اور ہمیشہ دو بیساکھیوں کے سہارے چلنے کا عادی ہے ‘ہمیشہ اس طبقے کے ایک بغل میں مذہبی سیاست اور دوسرے میں مارشل لاء رہا ہے‘ ان دونوں کے بغیر یہ طبقہ چلنے کے قابل نہیں ہوتا، اس لیے اس کا جمہوری نظام بھی چوں چوں کا مربع ہوتا ہے۔
اس نظام پر محروم طبقات کی تنقید تو جائز ہے کیونکہ‘ اس میں صرف بالائی طبقات ہی بر سر اقتدار آتے اور مراعات حاصل کرتے ہیں‘لیکن اگر اس نظام کو ختم کیا جائے تو متبادل کیا ہوگا؟کیا جمہوریت کا کوئی ایسا متبادل‘ موجود ہے جس کے خطرناک نتائج ہم نہ بھگت چکے ہوں‘ سوشلزم ایک بہتر متبادل ہو سکتا ہے ‘لیکن اس کے لیے نہ حالات تیار ہیں اور نہ ابھی تک‘عالمی سطح پر اس نظام کی کوئی متفقہ شکل سامنے آئی ہے ‘اس لیے فی الحال محنت کش اور محروم طبقوں کو بھی اسی جمہوری نظام کے اندر ایک فلاحی ریاست کے قیام اور مراعات کے حصول کی کوشش کرنی ہوگی۔
یورپ‘امریکا اور دوسرے ممالک میںجمہوری نظام کو مستحکم ہونے میں صدیوں کا عرصہ لگااور یہ نظام اب بھی مسلسل اپنی کمزوریوں کی اصلاح کر رہا ہے‘ برطانیہ میںمیگنا کارٹا(1216)اور امریکا میں‘ اعلان آزادی(1776) سے جمہوریت کی ابتدا ہوئی‘ وہاں کے عوام، دانشوروں اور سیاستدانوں نے خونریز نظریاتی جنگیں لڑیں‘اسی طرح ‘غریبوں‘بے جائیداد لوگوں‘ خواتین اور اقلیتوں کی حق بالغ رائے دہی کے حصول کے لیے بھی طویل جدوجہد کی تاریخ ہے‘ اس کے علاوہ نو آبادیات کے غلام عوام کے حق رائے دہی اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد اور بے شمار قربانیوں نے بھی کافی عرصہ لیا ۔
پاکستان میں جمہوریت کو مختلف اطراف سے مشکلات کا سامنا رہا ہے ‘ مذہبی انتہاپسندوں ‘آمرانہ طرز حکومت کے حامیوں کے علاوہ ‘ حکمران طبقوں کی طرف سے مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔تجربات ہوتے رہے لیکن پاکستان کو حکمرانی کا ایک اچھا ماڈل نہ مل سکا ‘بہتر حکمرانی کے بجائے‘ ان تجربوں کے خطرناک نتائج ظاہر ہوئے ‘جس میں ملک کا دولخت ہونا اور چھوٹی قومیتوں کا احساس محرومی بڑھنا بھی شامل ہے۔
آخر کار 1973کے آئین کی شکل میں ایک عمرانی معاہدے پر متفق ہوئے‘ اس کے باوجود آج تک پاکستان نظریاتی اور سیاسی طور پر تقسیم ہے۔ ملک کے بانی کے سیکولرزم چاہتے تھے لیکن اس کے بجائے ‘ملک کو زبردستی مذہبی ریاست بنانے کی کوشش کی گئی ‘جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کا متفقہ بیانیہ موجود نہیں‘ قوم کی تشکیل کے سلسلے میںبھی خیالات منتشر ہیں اور فرقہ واریت بھی زوروں پر ہے ‘کوئی منتخب حکومت وقت پورا نہ کرسکی کیونکہ اقتدار کے مدعی زیادہ تھے‘کسی کو ملک کی سلامتی اور کسی کو اسلام خطرے میں نظر آتا رہا۔
اس کے علاوہ دیگر رکاوٹیں بھی جمہوری عمل کے راستے میں موجود ہیں‘ جمہوری حکومتوں کو شکوہ رہا کہ انھیں ملک کی بنیادی پالیسیاں بنانے کا اختیار نہیں ہے ‘ پھر سیاستدان ہی ایک دوسرے کوکبھی سیکیورٹی رسک اور کبھی غیر ملکی ایجنٹ کے القاب دیتے رہے ہیں‘قوم کو زبردستی ایک خاص بیانیہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے‘دوسری رکاوٹ، پارٹی لیڈروں کی طرف سے ‘سیاسی پارٹیوں میں جمہوری طرز عمل کا فقدان ‘۔تیسری رکاوٹ‘ جمہوری حکومتوں کے دور میں ‘بہتر طرز حکومت کے لیے بھی کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ چوتھی رکاوٹ ، ترقیاتی منصوبوں اور اخراجات کی ترجیحات میں عوام کی ضروریات کو نظر انداز کرنا۔پانچویں رکاوٹ ‘ایک منصفانہ اور صحیح احتسابی ادارے کا نہ ہونا۔چھٹی رکاوٹ۔ ‘ ایک توسیعی ایجنڈا‘جس کی وجہ سے نہ ہم معاشی ترقی حاصل کرسکے اور نہ دہشت گردی کے الزامات سے چھٹکارا پا سکے۔ آخری رکاوٹ، سیاست کو گلی کوچوں اور نالیوں کی مرمت‘ٹھیکوں کی کمیشن اور اپنے لوگوں کو ملازمت دینے تک محدود کردیا گیا ہے ‘منتخب ممبران ان سے آگے نہیں سوچتے۔
تمام حکومتوں اور برسر اقتدار پارٹیوںکو چاہیے کہ ان مسائل اور دوسرے مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دیں‘جن کی وجہ سے جمہوریت ہمیشہ مسائل سے دوچار رہتی ہے ‘ان کمزوریوں کی وجہ سے دوسری غیر جمہوری طاقتوں کو اپنا میدان وسیع کرنے کا موقع مل جاتا ہے ‘سیاست دانوں اور منتخب نمایندوں کو اپنے مفادات سے بالا ہوکر جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کے لیے انتخابی اصلاحات‘پارلیمنٹ کی بالادستی ‘پارٹیوں کے اندر جمہوریت ‘ عدلیہ کی آزادی اور ایک ویلفیئر ریاست کے قیام جیسے اقدامات کی طرف توجہ دینی چاہیے‘ ورنہ ہمیشہ ملک میں عمران خان پیدا ہوتے رہیں گے۔
میثاق جمہوریت کا معاہدہ اور PDMکا موجودہ ایجنڈا مستقبل کے جمہوری نظام کے لیے ایک اچھی دستاویز ثابت ہوسکتی ہے ‘بشرطیکہ قیادت مخلص ہو ۔ پرانی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے‘اس پالیسی کی وجہ سے ہم اندھی گلی میں پھنس گئے ہیں‘ اس کو تبدیل کرنے کے بغیر ‘اندرونی اور بیرونی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔
The post جمہوری نظام کو بہتر ہونا چاہیے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2HKOSGH
via IFTTT
No comments:
Post a Comment