افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء اور طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے اس خطے کے حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔
یہ خطہ خصوصاََ افغانستان ایک بار پھر عالمی منظر نامے پر اہمیت اختیار کر گیا ہے اور سب ہی مستقبل میں بننے والے حالات کا اندازہ لگانے کیلئے اس کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔اس امر کو دیکھتے ہوئے ’’افغانستان کی موجودہ صورتحال اور خطے پر اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونیوالی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(چیئرپرسن شعبہ سیاسیات جامعہ پنجاب)
کسی بھی ملک کی سرحدیں اس کی قومی سلامتی کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ یہ صرف جغرافیائی سرحدیں نہیں ہوتی بلکہ آج کے اس جدید دور میں سیاسی اور نظریاتی سرحدیں بھی اہم ہوچکی ہیں۔ افسوس ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی، نظریاتی اور سیاسی سرحدوں پر تیزی سے حملے کیے جارہے ہیں، جو عناصر پاکستان کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں انہیں بروقت اور موثر جواب دینے کی ضرورت ہے۔
اپنی سرحدوں کے تحفظ کیلئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کو پہلے ہم نے سوویت یونین کی مدد کے نام پر اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر نقصان پہنچایا۔ اب پاکستان کی سرحدیں کتنی محفوظ ہیں؟اس حوالے سے بہت سارے اہم سوالات ہیں جن کا جواب ہمیں خود اپنے ملک میں دینا ہے۔
جب بھی سوال اٹھا صرف الفاظ سے مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی اور بعد میں یہ کہا گیا کہ ہم تیار نہیں تھے۔ موجودہ صورتحال میں ہمارے حکمران، پالیسی میکرز اور فیصلہ ساز یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اس کے لیے تیار نہیں تھے یا یہ سب اچانک ہوا بلکہ افغانستان سے امریکی انخلاء کی بہت عرصے سے تیاریاں کی جارہی تھی۔
سوال یہ ہے ہم اس کے لیے اور بعد کی صورتحال کیلئے کتنے تیار ہیں؟اس حوالے سے کیا حکمت عملی ہے؟ایک بڑی طاقت کے ا س خطے میں آنے کے پیچھے مفادات تھے، جانے کے پیچھے بھی حکمت عملی ہے ، امریکا بظاہر افغانستان سے جارہا ہے مگراس خطے میں کسی نہ کسی طرح اپنی موجودگی برقرار رکھے گا اور اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
افسوس ہے کہ اس وقت کوئی واضح حکمت عملی عوام تک نہیں پہنچی اور نہ ہی پارلیمنٹ میں اس پر کوئی بحث ہوئی۔ تمام پاکستانی اس وقت پریشانی کا شکار ہیں لہٰذا عوام کو اس حوالے سے مطمئن کیا جائے۔یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ بھارت بھی وہاں سے چلا گیا۔ وہاں بھارت کے ہیوی ایئر کرافٹس کی نقل و حرکت معمولی نہیں، وہ سرجیکل سٹرائیک کی جسارت کر سکتا ہے لہٰذا ہمیں بھارت کے مزموم عزائم کو بھانپتے ہوئے اور امریکا، بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے جامعہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی، اسے لوگوں تک پہنچانا ہوگا۔ موجودہ صورتحال میں پالیسی میکرز اور فیصلہ ساز یقینی طور پر آگاہ بھی ہونگے اور اقدامات بھی کر رہے ہوں گے۔
ان سے میرے تین سوالات ہیں، اگر طالبان افغانستان میں غالب آجاتے ہیں تو پاکستان انہیں قبول کرے گا؟ کابل کے حکمران اگر محض کابل کے ہی رہتے ہیں تو پاکستان پر اس کے کیا اثرات ہونگے؟ موجودہ حالات میں پاکستان کی ترجیح اور حکمت عملی کیا ہے؟ امریکی فوجی انخلاء، طالبان کا علاقوں پر قبضہ، افغان فوج کا ہتھیار پھینکنا، سعودی وزیر خارجہ کا پاکستان آنا اور مشیر قومی سلامتی معید یوسف کا امریکا جانا معمولی نہیں ہے، حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں، کیا ہم اتنی تیزی سے آگے بڑھ کر اقدامات کر رہے ہیں؟ ہم نے افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے عالمی برادری کو کتنا موبلائز کیا؟ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی، اس پر ہم نے نیٹو ممالک سے کارکردگی شیئر کی؟ ان کو اپنی کامیابیوں اور کاوشوں کا بتایا ؟ ہمیں تبدیلیوں سے نمٹنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہونگے اور عالمی برادری کو ساتھ ملانا ہوگا۔
کرنل (ر) فرخ چیمہ
(دفاعی تجزیہ نگار )
امریکی فوجی انخلاء اور طالبان کے معاملات کی وجہ سے یہ خطہ سٹریٹجک لحاظ سے سب سے اہم ہوگیا ہے اور یہاں 2 بلاک بنتے نظر آرہے ہیں۔ ایک وہ ہے جو چاہتا تھا کہ امریکا، بھارت افغانستان سے نکل جائے اور امن ہوجائے جس میں پاکستان، چین، روس، ایران و دیگر شامل ہیں جبکہ دوسرا وہ ہے جو یہاں سے رسوا ہوکر نکل رہا ہے اور وہ اس خطے میں کسی نہ کسی طرح اپنی موجودگی رکھنا چاہتا ہے تاکہ امن کو خراب کیا جاسکے۔ امریکا نے پاکستان سے اڈے اسی لیے مانگے تھے ۔
اگر پاکستان اڈے دے دیتا تو جنگ باقاعدہ قائم رہتی۔ پاکستان نے انکار کر دیا، چین بھی نہیں چاہتا کہ امریکا یہاں بیٹھ کر اس کی مشکلات میں اضافہ کرے۔ چین کو اپنے منصوبے آگے بڑھانے کیلئے ان علاقوں کی ضرورت ہے جہاں امریکا کا اثر و رسوخ ہے۔ امریکا بھی یہاں بیٹھنے کی بجائے چاہتا ہے کہ جہاں جہاں چین کو ضرورت ہے وہاں وہاں اس کا اثر و رسوخ قائم رہے۔ امریکا اور چین اس لڑائی میں تھک جائیں گے۔ ففتھ جنریشن وار کے ذریعے پاکستان کی بنیادی تاریخ کو گدلا کیا جارہا ہے، اس خطے کو جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے لہٰذا ہمیں دانشمندی سے ان حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ روس کی شکست کے دیکھنے کے بعد بھی امریکا افغانستان میں کیوں گیا؟ اس کی سٹرٹیجی کیا ہے؟ ہمیں اسے سمجھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
امریکا نے دہشت گردی کے ذریعے 3 الفاظ پر مبنی جنگی سٹرٹیجی بنائی ہے’تباہی، محتاجی اور تعمیر نو‘، وہ سب ممالک میں ایسا ہی کرتا آرہا ہے، افغانستان و دیگر کی حالت بھی سب کے سامنے ہے۔ یہ سٹرٹیجی اپنے اثر و رسوخ کو لمبے عرصے تک قائم رکھنے کیلئے بنائی گئی ہے۔ امریکا افغانستان سے نکل رہا ہے مگر وہاں کے لوگوں کو ہتھیار دے کر، آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد حاصل کرے گا۔ 40 سالہ جنگی ماحول کی وجہ سے طالبان بھی بیزاری محسوس کر رہے ہیں، وہ خود کو معاشی طور پر بہتر کرنا چاہتے ہیں لہٰذا چین اور پاکستان کے ساتھ ان کا ملنا اور تجارت کی بات کرنا بہترین ہے تاہم امریکا دوبارہ سے غلط فہمیاں پیدا کرنے اور حالات خراب کرنے کی کوشش کرے گا۔بھارت نے افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کی اور اب اسے سب سے زیادہ تکلیف ہو رہی ہے، وہ بھی مسائل پیدا کرنے کی کوشش کرے گا ۔
پاکستان نے افغان بارڈر پر باڑ لگا کر اسے محفوظ بنا لیا ہے، یہی ہمارا لیے بہتر حل تھا۔ باڑ لگانے اور چیک پوسٹیں قائم کرنے کے باوجود بھی ہمیں ہر طرح کی صورتحال کیلئے چوکنا رہنا ہوگا۔ چین، روس، پاکستان، ترکی و دیگر ممالک کے بلاک کو آگے بڑھنے سے روکا نہیں جاسکتا، امریکا کو بھی اس کا ادراک ہے۔ اگر ہم خود کو اندرونی طور پر مضبوط کرلیں ، ملکی معاملات پر متحد ہوجائیں تو ہمیں کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(ماہر امور خارجہ)
ممالک کے درمیان تعلقات اور سفارتکاری میں کچھ اچھی باتیں ہوتی ہیں جیسے پرامن بقائے باہمی، بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل، ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام اور اقتدار اعلیٰ کا پاس رکھنا لیکن اس کے بعد اصل دنیا شروع ہوتی ہے جس میں ہرملک، خطے اور علاقے کے زمینی حقائق کے مطابق معاملات آگے چلتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کا مسئلہ باہمی طور پر 1947ء سے چل رہا ہے اور اس میں خاص کرپاکستان کی مغربی پٹی ،فاٹا ، خیبرپختونخوا، بلوچستان کے علاقے شامل ہیں۔ 70ء کی دہائی تک ہمارے جتنے بھی باغی ہوتے تھے وہ کابل میں ہی پائے جاتے تھے۔ ابھی بھی ’بی ایل اے‘ ، ’بی آر اے‘ وغیرہ کے حوالے سے یہی صورتحال ہے اور ایک ٹسل چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان خود بھی 1947ء سے پہلے عالمی سیاست کا مرکز رہا ہے، روس اور تاج برطانیہ کے درمیان ’گریٹ گیم‘ سے ہم سب آگاہ ہیں۔ جب سردار داؤد نے ظاہر شاہ کا تخت الٹا تو پھر کابل میں اس کی روایت پر گئی۔
اس کا نقصان افغانستان میں سوویت یونین کی آمد کی صورت میں ہوا۔ وہاں سے ’بگ پاور پولیٹکس‘ کا ایک نیا دور شروع ہوا جب امریکا اور تمام مغربی ممالک جن کے ساتھ پاکستان، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی تھے، نے جنگ کا آغاز کیااور افغانستان ا س کا میدان جنگ بنا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور عالمی جنگ دوئم کے معاملات بھی سب کے سامنے ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے اس وقت جو صورتحال ہے یہ اچانک پیدا نہیں ہوئی۔
امریکی افواج کے انخلاء کے حوالے سے کئی برسوں سے منصوبہ بندی چل رہی تھی، امریکا، پاکستان سمیت سب ہی اس حوالے سے مستقبل میں ہونے والے معاملات کا جائزہ لے رہے تھے اور سب کی ہی یہ کوشش تھی کہ انخلاء کے وقت نقصان کو کم از کم کیا جاسکے۔اس میں سب سے اہم امریکا اور طالبان کے درمیان ایسا معاہدہ تھا جس میں امریکا کو مزید لڑائی کی طرف نہ جانا پڑے اور اس میں اسے کامیابی ہوئی۔
اس وقت افغانستان ایک نئی سپر پاور پالیٹکس کا شکار ہے جس میں ایک طرف امریکا، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان جبکہ پاکستان، چین، ایران، روس دوسری طرف ہیں۔ چین اور امریکا دونوں ہی لیڈ کر رہے ہیں، امریکا، چین کی ٹسل کا میدان افغانستان ہے لہٰذا اسے دیکھتے ہوئے ہی پالیسی بنانی چاہیے اور اقدامات کرنے چاہئیں۔
افغان طالبان جو کچھ کر رہے ہیں وہ تنہا ئی میں نہیں کر رہے بلکہ میرے نزدیک خطے کے ممالک کے ساتھ ان کی انڈرسٹینڈنگ ہے، وہ ایک خاص حد سے آگے نہیں جائیں گے لہٰذا طالبان کو کمزور کرنے کیلئے ان کے مدمقابل داعش کو لایا جارہاہے جس سے افغانستان مزید عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ افغانستان کے معاملے میں ہمارے لیے سیکھنے والی بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ مرکزی طاقت ختم ہوجائے تو پھر کئی گروہ بنتے ہیں جن سے نقصان ہوتا ہے۔ امریکا کو بھی سیٹ اپ بنانے کیلئے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں کو اقتدار میں لانا پڑا مگر اس کے باوجود مرکزیت بحال نہیں ہوسکی۔
افغان فوج کو معلوم نہیں کہ وہ کس کے لیے لڑ رہی ہے، کس کے ساتھ لڑ رہی ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں، دوسری طرف طالبان منظم ہیں اور ان کا مقصد ہے، یہی وجہ ہے کہ افغان فورسز بھاگتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ پرامن افغانستان، پاکستان کا سٹیک ہے، یہی وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے۔
اگر افغانستان عدم استحکام کا شکار رہے گا تو اس کا براہ راست نقصان پاکستان کو ہوگا۔اس سے سی پیک منصوبہ بھی متاثر ہوگا۔سی پیک منصوبہ مغربی طرف سے چین کیلئے ایک محفوظ راستہ ہے جبکہ جنوبی چینی سمند کی طرف معاملات گھمبیر ہیں، آسیان ممالک اور امریکا نے مشکلات کھڑی کی ہوئی ہیں، چین سمجھتا ہے کہ مغربی چین والا راستہ اس کیلئے اہم ہے لیکن اگر امریکا اسے یہاں بھی روک لیتا ہے تو چین کے لیے شدید مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
بائیڈن سے امید تھی کہ وہ ٹرمپ کی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں گے مگر چین کے معاملے میں وہی پالیسیاں چل رہی ہیں اور اس کیلئے مزید مسائل پیدا کیا جائے رہے ہیں۔ اگر BRI نہیں بنتا تو پھر چین کی ساکھ متاثر ہوگی اور اس کے پاس کچھ نہیں رہے گا۔ اسی لیے لداخ میں چین پیچھے گیا ہے اور بھارت کوپیغام دیا ہے کہ ہم لڑنا نہیں چاہتے، آپ بھی ہمیں تنگ نہ کریں۔ اس وقت ’بگ پاور پالیٹکس‘ ہے اور ہمارے لیے نقصاندہ بات یہ ہے کہ ہم دانستہ ناداستہ الجھ جائیں گے۔
نجیب اللہ کی پوزیشن دیکھنے کے باوجود اشرف غنی اب تک ایسے ہی کابل میں نہیں بیٹھے، چاروں ممالک بھی طالبان کو بار بار کہہ رہے ہیں کہ کابل کے نزدیک نہیں جانا جبکہ طالبان نے بھی اب تک کابل جانے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔ دونوں کو پشت پناہی حاصل ہے لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ صورتحال تصادم کی طرف جائے گی یا مصالحت کی طرف؟دوحہ بات چیت اہم ہے۔ اگرچہ طالبان اور افغان حکومت میں پہلا دور کامیاب نہیں ہوالیکن دونوں کا بیٹھ جانا حوصلہ افزا ہے۔ عالمی طاقتوں سمیت خطے کے ممالک کو بھی مسائل کا ادراک ہے اور سب ہی اپنے تحت تیاری کیے ہوئے ہیں مگر حالات بدلتے دیر نہیں لگتی، امریکا پاکستان سے اڈے چاہتا ہے جوپاکستان نے اسے نہیں دیے مگر روس نے آفر دی ہے کہ امن و امان قائم کرنے کیلئے ہمارے اڈے لے لیں۔
اگر امریکا کو وہ اڈے مل بھی جاتے ہیں تو وہ انہیں اس طرح استعمال نہیں کرسکے گا جس طرح ہمارے کر سکتا تھا۔ امریکا، روس پر دباؤ بھی نہیں ڈال سکے گا۔ خطے کے ممالک نہ حالات خراب کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی امریکا کے ساتھ تصادم کی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں،ا س وقت سب کی توجہ حالات نارمل کرنے پر ہے۔ n
The post پرامن افغانستان خطے میں استحکام کا ضامن!! appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3fhl42s
via IFTTT
No comments:
Post a Comment