ویسے تو اجتماعی طور پر ہم پاکستانی سوچنے سمجھنے کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کرتے لیکن یہ صورت حال اس وقت اور زیادہ خراب ہوجاتی ہے جب اختیارات کے استعمال اور فیصلوں میں بھی دکھاوے کی پالیسی اختیار کی جانے لگے۔ اس دکھاوے میں بھلے کسی کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ہمارے ارباب اختیار اپنی باتوں میں تو ایسے سمجھدار نظر آتے ہیں گویا ارسطو اور سقراط انہی کے شاگرد رہے ہوں لیکن ان کے کام اور پالیسیاں کسی اور ہی رنگ میں رنگی دکھائی دیتی ہیں۔ معاملات اور مسائل کو ان کے حقیقی رخ سے دیکھنے کے بجائے اپنا فلسفہ بگھارنا اور اپنے اختیارات پر خود کو عقل کل سمجھنا بھی ہمارے ارباب اختیار کا خاصّہ رہا ہے جس کی ایک مثال آج کل بھٹہ مالکان کو دیئے جانے والے نوٹس ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پچھلے سال اسموگ کے بڑے واقعات کے بعد ہمارے فرض شناس محکموں نے اپنی تحقیق اور تفتیش میں یہ جان لیا کہ اسموگ کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ہاں سیکڑوں کی تعداد میں قائم بھٹے ہیں۔ پاکستان کے کچھ علاقوں میں اُن کی مقامی ضرورت اور حالات کی وجہ سے عمارت سازی میں بلاک اور پتھر کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن ایک بہت بڑا علاقہ صرف اینٹ کا ہی استعمال کرتا ہے جس کی پیداوار بھٹہ مالکان کی مرہون منت ہے جو روایتی انداز اور طریقہ کار کے مطابق اینٹیں بناتے ہیں۔
اس وقت پنجاب کے کئی شہروں میں محکمہ ماحولیات کے اہلکار بھٹوں کا معائنہ کرتے ہوئے انہیں نوٹس جاری کررہے ہیں کہ مذکورہ بھٹہ پرانی طرز پر بنا ہوا ہے جو ماحول دوست نہیں، جبکہ غیر معیاری ایندھن کے استعمال اور جدید ’’زگ زیگ‘‘ ٹیکنالوجی کے حامل نہ ہونے کی وجہ سے بھٹہ زائد دھواں پیدا کرتا ہے جو اسموگ کا باعث بنتا ہے۔ اسی وجہ سے بھٹہ مالکان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ مذکورہ بھٹے کو جلد از جلد زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرلیں ورنہ 20 اکتوبر سے 31 دسمبر تک بھٹہ بند کر دیا جائے گا۔
کسی بھی مسئلے کو اس کے صحیح رخ سے دیکھنے کے بجائے شارٹ کٹ سے حل نکالنا شاید اب ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے۔ ہم قومی دنوں پر سیکیورٹی بڑھانے کے بجائے موبائل سروس بند کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کسی بھی سڑک یا علاقے کو آتشی مواد سے صاف قرار دینے کے بجائے اس سٹرک کو بند کر دینا بہتر سمجھتے ہیں۔ اپنی عیاشیوں سے زرِمبادلہ کے ذخائر (فارن ریزروز) کم ہونے لگیں تو عوام کے فارن کرنسی اکاؤنٹس ہی بلاک کر دیتے ہیں… اور جب اسموگ کا مسئلہ پیدا ہونے لگے تو بھٹے بند کرکے سمجھتے ہیں کہ مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔
لیکن کیا واقعی بھٹے اسموگ یا آلودگی کی واحد یا بڑی وجہ ہیں؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا۔
ماحولیاتی آلودگی کے شکار ممالک میں پاکستان بھی سرفہرست ہے اور کراچی سب سے زیادہ متاثرہ شہر ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ گاڑیاں ہیں۔ سپریم کورٹ کی ایک حالیہ رولنگ کے مطابق کراچی میں اب بھی پچاس سے ساٹھ سال پرانی گاڑیاں سڑکوں پر ہیں اور ان سے نکلنے والا دھواں آلودگی کا ایک بڑا سبب ہے۔ فیکٹریاں، کارخانے ماحولیاتی آلودگی کو بڑھانے کی دوسری بڑی وجہ ہیں جب کہ ان سے نکلنے والا گندا فضلہ اور پانی کئی اور طرح کی آلودگی کا باعث بن کر بیماریاں پھیلا رہا ہے۔ مسلمانوں کے ملک میں درخت کو صدقہ جاریہ نہیں سمجھا جاتا اور درختوں کے کٹاؤ اور شجر کاری کی طرف عدم توجہی ماحولیاتی آلودگی کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔
ایسے میں ساری ذمہ داری بھٹہ مالکان اور مزدوروں پر ڈالتے ہوئے ان کا کاروبار بند کرنا یقیناً ایک ناانصافی ہوگی۔
وہاڑی کے ایک چھوٹے سے قصبے لڈن میں دس کلومیٹر حدود کے اندر بائیس سے زائد بھٹے موجود ہیں اور مجموعی طور پر ضلع وہاڑی میں اس وقت تقریباً ڈھائی سو سے تین سو بھٹے کام کر رہے ہیں۔ یوں پورے پنجاب کی بات کی جائے توچونتیس اضلاع میں تقریباً دس سے گیارہ ہزار بھٹے موجود ہیں۔ ایک بھٹے پر اوسطاً دو سو سے ڈھائی سو مزدور ہوتے ہیں، اس طرح تقریباً پچیس لاکھ سے زائد افراد کا براہ راست روزگار بھٹوں کے ساتھ وابستہ ہے جبکہ مزدوروں کے افراد خانہ کو بھی شمار کیا جائے تو اندازاً ایک کروڑ کی آبادی کسی نہ کسی طور ان بھٹوں کے چلنے سے اپنی روزی روٹی وابستہ کیے ہوئے ہے۔ بھٹہ مزدور کے بارے ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ انہیں مزدوری فوری طور پر نہیں دی جاتی بلکہ اینٹ کی فروخت سے انہیں مزدوری ادا کی جاتی ہے۔
اب محکمہ ماحولیات کی طرف سے بھٹہ بند رکھنے کے احکامات تو جاری کر دیئے گئے ہیں لیکن ایک کروڑ کے لگ بھگ آبادی کی ضروریات زندگی اور روزی روٹی کی فکر کرنے والا کوئی نہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ محکمہ ماحولیات، آلودگی کی روک تھام کےلیے باقاعدہ کوئی منصوبہ بندی کرتا اور تمام انڈسٹریز بشمول بھٹہ مالکان کو اعتماد میں لیا جاتا، انہیں درخت لگانے کا پابند کیا جاتا اور مناسب وقت دیتے ہوئے انہیں زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقلی میں سہولیات اور معاونت فراہم کی جاتی۔ لیکن محکمہ ماحولیات نے ایک آسان حل نکالا: گاڑیوں، فیکٹریوں، کارخانوں اور فصلوں کی باقیات کو جلائے جانے سے پیدا ہونے والی آلودگی کا سارا ملبہ صرف اور صرف بھٹوں پر ڈال دیا گیا اور اپنی کوششوں کو اسموگ کے تدارک کےلیے بروقت اقدامات کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھٹوں کی بندش اپنے ساتھ منسلک بہت سے دوسرے کاروبار بھی متاثر کرے گی۔ چند بھٹہ مالکان کی اجارہ داری قائم ہونے کے ساتھ ساتھ اینٹ کی قیمت میں بڑی حد تک اضافہ بھی ہوگا جس کی وجہ سے عمارتی اور تعمیراتی کام بھی شدید متاثر ہوں گے؛ اور بھٹہ مزدوروں کی طرح ان تعمیراتی کاموں سے وابستہ راج، مستری اور مزدور کو بھی گھر بیٹھنا پڑجائے گا۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں اسموگ اور دھند بڑے مسائل بنتے جا رہے ہیں جبکہ فضائی اور آبی آلودگی میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، لیکن اس سب کا یہ حل بالکل نہیں کہ کسی غریب کے کاروبار کو بند کر دیا جائے۔ اگر اسموگ اور فضائی آلودگی کا اتنا ہی احساس ہے تو محکمہ ماحولیات تین ماہ کےلیے پورے پنجاب میں تمام فیکٹریوں اور کارخانوں کو بھی بند کرنے کے احکامات جاری کردے اور ساتھ ہی ساتھ تمام گاڑیوں پر بھی پابندی لگاتے ہوئے صرف سائیکل کی سواری کا حکم دے؛ لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں، اور نہ ہی ایسا کرنا آج کے جدید دور میں کوئی دانش مندانہ فیصلہ ہوگا۔ اس لیے وزیر اعلیٰ پنجاب، محکمہ ماحولیات اور ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ عملی اقدامات کی طرف توجہ دیں اور ڈیڑھ سے دو کروڑ لوگوں کو ذہنی پریشانی میں مبتلا نہ کریں کہ مسائل یوں حل نہیں ہوتے۔
بھٹہ مزدور اور تعمیراتی کام کرنے والے مزدور بھی انسان ہیں اور انہیں انسان ہی سمجھا جائے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق اگرچہ پورے نہیں کیے جارہے لیکن ان کے منہ میں جانے والے نوالے کو اپنے غلط فیصلوں کی نذر نہ کیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post بھٹہ مزدور بھی انسان ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NGjeHP
via IFTTT
No comments:
Post a Comment