بچپن سے ایک بات لڑکیوں کو کہی جاتی ہے کہ تم توپرایا دھن ہو، کل کو بیاہ کر دوسرے گھر چلی جائوگی، اتنا پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے، ہانڈی روٹی ہی تو کرنی ہے اور پھر جب کوئی لڑکی گھرداری میں دل چسپی نہ لے تب بھی یہ کہا جاتا ہے۔
کچھ سیکھ لو کل کو کسی گھر جاؤ گی تو ہماری ناک کٹ واؤگی۔مگر ہمارے معاشرے میں کبھی لڑکوں کو گھر کا کو ئی کام نہیں کرنے پر یہ نہیں کہا جاتا۔ وقت کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔ آج ماں اور بہن موجود ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم زندگی گزارنے کا طور طریقہ نہیں سیکھو، بلکہ الٹا ہمارے ہاں مائیں اس بات کو بڑھاوا دیتی ہیں کہ لڑکے ہو تو کچن میں نہ آؤ ،کمرہ سمٹ جائے گا،کپڑے استری تم کیوں کروگے؟ یہ سب کام بیویوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ میں ان مائوںسے کہنا چاہوںگی کہ آئیے مل کر تربیت کا اندازبدلیں، اپنے بیٹوں کی زندگی ان کے لیے بھی آسان کریں اور آنے والیوں کے لیے بھی۔
کچھ باتوں پر عمل کیجیے۔ تاکہ کل کو ئی آپ سے یہ نہ کہہ سکے کہ آپ نے اس ہیرے کی پرورش کی ہے جس کا ساتھ اس کے لیے قابل رشک ہے۔
کھانا بنانا:آج کے دور میں تو خیر سے لڑکیوں کو بھی کھاناپکانے میں دل چسپی نہیں، کہاں یہ کہ لڑکوں کو ہو مگر یہ کہ چائے بنانے اور انڈا تلنے سے بھی بے بہرا ہونا بلکل ہی غلط ہے یا پھر یہ سوچنا کہ لڑکوں کا کچن میں کوئی کام نہیں ہوتا، اس لیے وقت بے وقت ضرورت پڑنے پر بھی کچھ نہیں کرنا ہے جیسا رویہ قطعی درست نہیں، اس لیے اپنے بیٹوں کو سمجھائیں کہ کچن میں آنا ان کی آنا کو قطعی مجروح نہیں کرے گی، اس لیے وہ بھی آپ کی مدد کرے تاکہ کل کو جاب کے سلسلے میں باہربھی جانا پڑے تو وہ خود سب کچھ کرسکے۔
کپڑے دھونا اور استری کرنا: آج کے مشینی دور میں ہر گھر میں کپڑے دھونے کے لیے مشین موجود ہے، اس سب کے باوجود لڑکوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ میلے کپڑے کمرے میں ڈال کر چلے جاتے ہیں، ایسے میں کم از کم آپ کو بیٹوں کو یہ عادت ڈلوانی چاہیے کہ میلے کپڑے ڈرم میں یا پھر مشین میں ڈالیں اور اگر آپ کے گھر میں کپڑے استری کرنے والی ماسی نہیں آتی تو پھر تو یقینی طور پر چودہ، پندرہ سال کی عمر سے بیٹوں کو استری کرنی سکھائیں، تاکہ وہ اس کام میں طاق ہو اور اپنے کپڑے استری کرنے کے معاملے میں خود مختارہو۔
الماری اور اس کی حالت زار: وہ مائیں جو بیٹوں کو کچھ زیادہ ہی لاڈ و پیار سے پالتی ہیں، وہ ان کی الماریاں اور دیگر چیزیں سیٹ کر کے رکھتی ہیں اور اگر وہ نہ کریں تو الماری کا حال تو پوچھو ہی مت، اس لیے بہتر ہے کہ بچپن سے چھوٹی الماریوں میں بیٹوںکا سامان رکھیں اور ان کو اس بات کا عادی بنائیں کے وہ خود اپنی الماری سیٹ کریں اور آپ پر انحصار نہ کریں۔
کمرہ سمیٹنا: عمومی طور پر لڑکوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ اپنے کپڑے، کتابیں اور دیگر استعمال کی چیزیںکمرے میں پھیلا کر رکھتے ہیں اور ماؤں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہیں کہ کمرہ صاف کرتے ہوئے چیزیں سمیٹ کر رکھیں اور پھر جب چیزیں ادھر ادھر ہوجاتی ہیں تو شور الگ ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ انھیں چھوٹی عمر سے ہی یہ بات سمجھائی جائے کہ وہ چیزیں سمیٹ کر رکھیں، تاکہ آپ کی زندگی میں بھی آسانی ہو اور بلا وجہ کے شور شرابے سے بچا جاسکے۔
چائے کا کپ :یوں تو ہمارے معاشرے میں ماسیوں سے استعمال شدہ برتن دھلوانے کا رواج ہے مگر ہم پاکستانی چائے پینے کے اتنے شوقین ہیں کہ پوچھو ہی مت اس لیے دن میں دو سے تین بار چائے بنتی ہی بنتی ہے اور پھر لڑکے اپنا جھوٹا مگ تک دھونا گوارا نہیں کرتے، اس لیے یہ کام بھی مائیں سرانجام دیتی ہیں، کیوں کہ ان کے پاس گھر کے کام ہی اتنے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے لیے وقت نہیں ہوتا، اس لیے بہتر ہوگا کہ وہ بیٹوںکو کہیں کہ دن میں کسی بھی وقت وہ چائے کا کوئی مگ استعمال کریں یاپھر کوئی اور برتن وہ اسے خود دھو کر رکھے تاکہ آپ کے لیے آسانی ہو اور انھیں بھی چھوٹے کاموں کی عادت ہو۔
کچھ باتیں سن کر یا پھر پڑھ کر بڑی عجیب لگتی ہے کہ پاکستانی ماؤں کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ وہ اپنی تربیت کا انداز بدل لیں مگر سچ تو یہ ہے کہ آج کے جدیدیت کے دور میں پوری دنیا میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور وہ قومیں ہی ترقی کرتی ہیں جو تبدیلی کو قبول کرتی ہیں کیوں کہ تبدیلی وقت کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے آئیے آپ بھی تبدیل ہو اپنی زندگی میں بھی آسانی لائیں اور آنے والی کی زندگی میں بھی جو آپ کے بیٹے کی زندگی کا حصہ بنے گی، کیوں کہ وہ کیا ہے شادی کا مطلب اپنی ذات کی قربانی نہیں بلکہ ساتھ ہوتا ہے جو خوشیوں سے بھر پور ہو۔
The post ’مائیں‘ صرف بیٹیوں کی نہیں، بیٹوں کی بھی ہوتی ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2RdXOog
via IFTTT
No comments:
Post a Comment