ملکی سیاست دو اہم واقعات کے سنگم پر سوالیہ نشان کی صورت کھڑی ہے۔27 اکتوبر کی تاریخ اس امر، اس حقیقت کا احساس دلاتی ہے کہ قوم کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہر قسم کے تحفظات ،خدشات اور کشمکش سے بالاتر رہتے ہوئے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے اور جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا ہے۔
ایک جانب جمعیت علمائے اسلام کا آزادی مارچ ہے اور دوسری طرف سابق وزیراعظم نواز شریف کی گرتی ہوئی صحت کی تشویش ناکی ہے۔ جمعہ کولاہور ہائیکورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت ایک کروڑ کے دو مچلکوں کے عوض منظور کر لی، شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت قوم کے لیے باعث خوشی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل نو کے تحت کسی شخص کو اس کی زندگی سے محروم نہیںکیا جا سکتا، نواز شریف کا علاج کرنیوالے میڈیکل بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر ایاز محمود نے لاہور ہائیکورٹ کو آگاہ کیا کہ نواز شریف کی بیماری کی تشخیص نہیں ہو سکی وہ شدید علیل ہیں، حالت تشویش ناک ہے اور تیزی سے ان کے پلیٹ لیٹس گر رہے ہیں، عدالت نے مریم نواز کی درخواست ضمانت پر نیب سے پیر 28 اکتوبر کو جواب طلب کر لیا ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے شہباز شریف کی درخواست پر نواز شریف کی رہائی کی درخواست پر سماعت کی، ایڈووکیٹ جنرل احمد جمال سکھیرا نے عدالت کو بتایا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ نواز شریف کی بیماری کی تشخیص ہو گئی ہے، 2 سے3 دن لگیں گے کہ نواش شریف کی صحت بہتر ہو رہی ہے یا نہیں۔
ادھر اسلام آباد ہائیکورٹ کی نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹرعدنان کو آیندہ سماعت پر پیش ہونے کی ہدایت کی گئی، میڈیکل رپورٹ عدالت نے طلب کر لی، عدالت نے قراردیاکہ ڈاکٹرز کو بتانا ہوگا نواز شریف کی جان کو خطرہ ہے۔
دوران سماعت شہباز شریف بھی عدالت میں موجود رہے، دوسری جانب میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سروسز اسپتال لاہور ڈاکٹر سلیم چیمہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے بیان دیا ہے کہ نواز شریف اس وقت تک سفر نہیں کرسکتے جب تک ان کے پلیٹ لیٹس کم از کم پچاس ہزار نہ ہو جائیں، اس سے کم پلیٹ لیٹس میں سفر خطرناک ہے۔
عدالت عالیہ نے نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کی درخواست میں منگل تک میڈیکل رپورٹ طلب کرتے ہوئے ڈاکٹر عدنان کو آیندہ سماعت پر ذاتی حیثیت پیش ہونے کی ہدایت کردی ، عدالت نے قرار دیا ہے کہ نواز شریف کی درخواست کا حتمی فیصلہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر ہو گا، شہباز شریف کی جانب سے دائر درخواست پر جسٹس عامر فاروق اورجسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔
سماعت کے دوران وکیل خواجہ حارث نے نواز شریف کی جانب سے شہبازشریف کی درخواست میں باضابطہ فریق بنانیکی ترمیمی درخواست جمع کرائی جب کہ سروسز اسپتال کی طرف سے ڈاکٹر محمد عارف، ایم ایس سروسز اسپتال ڈاکٹر سلیم چیمہ اورڈاکٹر محمد اشرف، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب فیصل چوہدری عدالت پیش ہوئے۔
سماعت شروع ہونے پر سروسزاسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سلیم نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایاکہ نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے، اس متعلق لاہور ہائیکورٹ میں بھی رپورٹ پیش کر دی ہے، پلیٹلیٹس بن رہے ہیں مگر وہ ختم بھی ہو جاتے ہیں، ابھی تک اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکا کہ پلیٹ لیٹس ختم کیوں ہو رہے ہیں۔
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کو اسٹنٹ پڑے ہیں، وہ جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں اور اس وقت زندگی اور موت کی اسٹیج پر ہیں، مسلسل دیکھ بھال کی ضرورت ہے، علاج ان کا حق ہے، مریض کا زندہ رہنا اس کا بنیادی حق ہے، اپنی مرضی سے علاج کروانے کی اجازت دی جائے، نواز شریف بیرون ملک بھی علاج کرانا چاہیں تو اجازت دینی چاہیے، جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ سروسز اسپتال لاہور میں طبی سہولیات کیسی ہیں؟
نوازشریف کو دل کا عارضہ اور گردوں کے مسائل بھی ہیں ، کیا ان بیماریوں کے ڈاکٹرز بھی دیکھ بھال کر رہے ہیں؟ جس پر ڈاکٹرسلیم چیمہ نے بتایا تمام متعلقہ ڈاکٹرز علاج کے لیے اسپتال میں دستیاب ہیں، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں وہاں ایک رات گزار کر آیا ہوں میرا تجربہ اچھا نہیں رہا، جسٹس محسن اختر کیانی نے ایم ایس سروسز اسپتال سے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کی جان کو خطرہ ہے؟
ایم ایس نے عدالت کو بتایا کہ جی نواز شریف کی جان کو خطرہ موجود ہے لیکن تمام بیماریوں کے ایکسپرٹ میڈیکل بورڈ میں موجود ہیں، خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ذرا سی غلطی بھی نوازشریف کی جان لے سکتی ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ10رکنی بورڈ حکومت نے بنایا اورڈاکٹر عدنان پرسنل معالج ہیں وہ بھی آ جائیں تو مزید بہترہو گا، عدالت نے کہاکہ میڈیکل بورڈ ایک اور رپورٹ دے اگر ڈاکٹر عدنان آنا چاہتے ہیں تو عدالت میں آجائیں، میڈیکل رپورٹ کے بارے میں آپ ڈاکٹرز نے عدالت کو بتاناہو گا کیونکہ ہم طبی ماہرین نہیں ہیں، اب اس کیس کا دارومدارآپ کی رپورٹس پر ہے۔
ڈاکٹرز نے کہا کہ پیرکو علاج کا5 دن کا سائیکل مکمل ہو رہا ہے جسکے بعد بہتر انداز میں رپورٹ دینے کی پوزیشن میں ہونگے، عدالت نے مزید سماعت منگل29 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے 9 رکنی میڈیکل بورڈکی رپورٹ عدالت جمع کرانے کا حکم دیدیا، ادھر نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت سے متعلق سول سوسائٹی کی جانب سے ایک اور درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائرکر دی گئی ہے۔
میڈیا کے مطابق نواز شریف کی صحت بہتر نہیںہو سکی، جسم پر خون کے دھبے نمودار ہوئے ہیں، دریں اثنا سابق صدر آصف زرداری کی طبیعت کی ناسازی بھی موضوع بحث ہے، سیاسی ذرایع کے مطابق ان کی طبیعت بھی ناساز ہے، پلیٹ لیٹس 90 ہزار کم ہوئے ہیں، کمر گردن میں شدید تکلیف جب کہ ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں خلا پیدا ہوا ہے ، معالجین کا کہنا ہے کہ اس کا علاج پاکستان میں دستیاب نہیں۔
ملکی سیاست اور سیاستدانوں کو درپیش ایشوز متنوع ہیں، تاہم آزادی مارچ کے آج اتوار سے شروع ہونے پر سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔ حکومتی اور رہبر کمیٹی کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوئے ، بات چیت جاری رکھنے پر البتہ اتفاق ہوا، بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے استعفٰی اور نئے انتخابات کے مطالبات مسترد کر دیے، اپوزیشن نے چاروں ڈیمانڈز تحریری طور پر پیش کیے تھے، حکومت نے پریڈ گراؤنڈ کے علاوہ کسی بھی جگہ مارچ کی اجازت سے انکار کر دیا۔
رہبر کمیٹی کے کنوینر اکرم درانی کے مطابق اپوزیشن نے لچک دکھائی، وزیر دفاع اور حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا کہ ریاستی رٹ چیلنج نہیںکرنے دیں گے، پرامن احتجاج کا حق تسلیم کرتے ہیں۔ یوں تناؤ کی کیفیت برقرار ہے ، وزارت داخلہ اور صوبائی حکومتوں کی ہدایات کے مطابق اسلام آباد میں آزادی مارچ کو روکنے کے انتظامات تیزی سے جاری ہیں، سیکڑوں کنٹینرز سے اسلام آباد آنے والے اہم راستوں کو بند کیا جا رہا ہے، پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے، تاجر برادری نے29 اور30 کی ہڑتال کی کال دی ہے۔
جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیراعظم کے استعفے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بیانات اور مارچ روکنے کی کوششوں کے درمیان کسی وقت صورتحال کے بے قابو ہو جانے کا خطرہ موجود ہے، حکومت اور آزادی مارچ کے شرکا کے درمیاں سخت اعصابی جنگ جاری ہے۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ سابق وفاقی وزیر محمدعلی درانی نے لاڑکانہ میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی اور ایک اہم شخصیت کا پیغام انھیں پہنچایا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین کشمکش کا نکتہ عروج سیاستدانوں کے تدبر ، ملکی سلامتی کے ادراک اور معاشی صورتحال کے مثبت تناظر میں ظہور پذیر ہوتا ہے یا قوم کچھ اور دیکھنے پر مجبور ہو گی۔
The post سیاسی و زمینی حقائق کا کلائمیکس appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PjLX9T
via IFTTT
No comments:
Post a Comment