Saturday, October 26, 2019

ہاتھ چھونے لگے ہیں کانوں کو ایکسپریس اردو

سیاست میں حکومتیں گرانے اور بنانے میں وقتی حکمتیں تو ہوتی ہی ہیں مگر اس کے اثرات دہائیوں تک اپنا اثر رکھتے ہیں۔ پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں اب تک یہ سلسلہ جاری ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی حکومتیں گرانے کے لیے آئین بنانے والے اس سے اخلاقی رو گردانی کرتے نظر آتے ہیں۔

اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ عظیم وژنری لیڈرز اپنے متبادل اور جانشین خود تیارکرتے ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا ظرف کہاں؟ یہاں تو حسد و عناد میں ہر ایک کو باندھ کر رکھا جاتا ہے، اسی لیے اس ملک میں سیاست کو گالی بنادیا گیا ہے لیکن اگر جھوٹے مقدمات کے ذریعے قانون کو بھی گالی بنا دیا گیا تو وقت بدلنے کے بعد آج کے حکمران بھی اس گالی سے بچ نہ سکیں گے۔

عمران خان صاحب کی حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے نہ عدالتوں کا خوف ہے، نہ نیب کا، نہ اپوزیشن کا اور نہ ہی میڈیا کا۔ اس لیے وہ اس ڈھٹائی کے ساتھ ایسے اقدامات کر رہی ہے کہ جس کا تصور بھی ماضی کی حکومتیں نہیں کرسکتی تھیں۔ چند نشستوں کی برتری کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انقلاب جیسا فری ہینڈ مل گیا ہے آپ جسے چاہیں اٹھائیں اور جسے چاہے بند کر دیں یا پھر جب چاہیں منہ ہی بند کر دیں۔ یہ سب قانون کی اور تہذیب کی خلاف ورزی ہے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ کسی بھی حکمران کی قابلیت و صلاحیت اس کے ارادوں ، سوچ ، مستقبل کی منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کن لوگوں کو مصاحبین یا درباریوں کی صف میں شامل کیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت اور اس کی کابینہ پر نگاہ کی جائے تو وہ تمام خرابیاں جو ماضی کی حکومتوں میں تھیں آج وہ تمام بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہیں۔ نا اہل وزراء ماضی کے وزراء کی طرح اپنے دوستوں، اقربا کو نواز رہے ہیں اور نا پسندیدہ لوگوں کو اندر کر رہے ہیں۔ قرضوں پر قرضے لیے جا رہے ہیں اور گزشتہ ایک سال سے ملک میں کوئی ایک ترقیاتی کام یا نیا پروجیکٹ شروع نہیں کیا گیا۔ صوبے بھی اپنا رونا رو رہے ہیں کہ وفاق ہمیں فنڈ مہیا نہیں کر رہا وہ کیسے صوبے میں ترقیاتی کام جاری رکھیں؟

آج کے حکمران بھول گئے ہیں کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا اور اقتدار بھی ہمیشہ قائم نہیں رہتا۔ کرپٹ سیاستدانوں کا احتساب ضرور ہونا چاہیے، سب کا احتساب کریں لیکن احتساب سے انتقام کی بو نہیں آنی چاہیے۔ جھوٹے مقدمات سے ریاست مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوتی ہے۔ انصاف اندھا ضرور ہوتا ہے مگر انصاف پر شفاف عملدرآمد اگر قانون کیمطابق ہو تو اسے تسلیم کر لیا جاتا ہے لیکن اگر اندھا انصاف قانون سے روگردانی کرتے ہوئے لاگو ہو تو وہی ظلم بن جاتا ہے۔

اگر حکومت میں اعلیٰ ترین عہدے دار قانون اور تہذیب کے لیے اچھی مثالیں قائم کریں تو معاشرے سے بھی یہ برائیاں ختم ہوں گی وگرنہ یہ خصلتیں بڑھتی بڑھتی انارکی کو جنم دیتی ہیں۔ ملکی تاریخ دیکھ لیں۔ بھٹوکو مارا گیا ، پیپلز پارٹی کو طاقت ، عدالت اور سیاست تینوں طریقوں سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی نتیجہ کیا نکلا ؟ بھٹوکی پھانسی کے بعد احساس محرومی دورکرنے کے لیے پیپلز پارٹی کو 3 بار مرکز میں اور 5 بار سندھ میں حکومت دینا پڑی۔ لیکن اب پھر پیپلز پارٹی میں سرنگ بنانے یا اس میں دراڑ ڈالنے کی حکومتی کوششیں جاری ہیں، یہی نہیں بلکہ کراچی کو وفاق کے حوالے کرنے کی ’’ اندرونی کوششیں‘‘ بھی زوروں پر ہیں۔

ایسا کرنیوالے پھر یہ بھول رہے ہیں کہ وفاق اور صوبے کے تنازع سے ایم کیو ایم نے جنم لیا اور پھرکئی دہائیاں شہری سندھ میں تشدد و تخریب کی حکمرانی رہی۔ ریاست ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے ایم کیو ایم کو برداشت کرنے پر مجبور تھی اور پیپلز پارٹی کو طاقت میں آنے سے روکنے کے لیے یہ ایک اچھی سیاسی چال بھی تھی جس سے کراچی اور سندھ کو لاکھوں جانوں اور کھربوں روپے کے زر مبادلہ سے ہاتھ دھونے پڑے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جن کو حکومت ’’ دلوائی ‘‘ گئی ہے وہ حکومت کرنا سرے سے نہیں جانتے اور جو اپوزیشن میں آگئے ہیں وہ اپوزیشن کی سیاست کرنے سے عاجز ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ تحریک انصاف سیاسی جماعت کی تعریف پر پورا اترتی ہے نہ مسلم لیگ (ن) اور نہ پیپلز پارٹی۔ تحریک انصاف عمران خان کی، مسلم لیگ (ن) شریف خاندان کی اور پیپلز پارٹی زرداری خاندان کی ذاتی جاگیروں کی حیثیت میں برسوں سے سب کے سامنے ہے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت نے تو حد کر دی ہے، آصف زرداری نے پہلے اپنی حکمرانی سے پارٹی کو نقصان پہنچایا اور بالآخر پارٹی کا نظریہ تک کمزور کرکے رکھ دیا۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کی مقبولیت اور محبوبیت اپنی جگہ لیکن آج تک اس جماعت کے پاس ملکی مسائل سے متعلق کوئی ایجنڈا ہے اور نہ موجودہ سیاست سے متعلق کوئی لائحہ عمل۔ عمران خان جن شاخوں پر بیٹھے ہیں انھی کو کاٹنے لگے ہیں۔

پہلے تو یہ امید کی جا رہی تھی کہ تحریک انصاف مڈل کلاس کی نمایندہ اور تبدیلی کی علمبردار کی حیثیت سے نظام میں بھی تبدیلی لے آئے گی اور اس کا دباؤ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو بھی راہ راست پر لانے کا موجب بن جائے گا لیکن اب تو ثابت ہوگیا کہ وہ تبدیلی نہیں بلکہ تباہی لے آئی اور بطور سیاسی جماعت اس کی حالت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے بھی زیادہ پتلی ہوگئی ہے۔

کتنے دکھ اورکتنی تشویش کی بات ہے کہ نہ تحریک انصاف کے پاس ملک سے متعلق کوئی پروگرام ہے، نہ مسلم لیگ (ن) کے پاس اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے پاس۔ ایک کی سوچ اور سرگرمیاں عمران خان کی انا کے گرد گھومتی ہیں ، دوسری کی شریف خاندان کے معاملات کے گرد اور تیسری کی زرداری خاندان کی مجبوریوں اور ضرورتوں کے گرد۔ کون نہیں جانتا کہ انسان نے صدیوں میں قانون ، نظریے اور تہذیب کو سیکھا ہے۔ وگرنہ تو ہر انسان کے اندر ایک وحشی اور خود غرض بیٹھا ہوا ہے۔

قانون اور تہذیب نے اس وحشت کو روک رکھا ہے، اگر قانون اور تہذیب کی پابندی ہٹ جائے تو یہ معاشرہ پھر سے جنگل بن جائے۔ پاکستان کی تاریخ کے سیاسی نشیب وفراز پر نظریں دوڑانے سے پتا چلتا ہے کہ اس کی تاریخ حکمرانوں کی پہاڑ جیسی غلطیوں سے بھری پڑی ہے، افسوس کے کسی بھی حکمران کو بروقت اپنی غلطیوں کا احساس نہ ہوا اور جو قوم اپنے ماضی سے سبق حاصل نہ کر لے وہ ماضی کا حصہ بن کر رہ جاتی ہے۔

The post ہاتھ چھونے لگے ہیں کانوں کو appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2BKFJHU
via IFTTT

No comments:

Post a Comment