Sunday, December 29, 2019

اے ڈی سی، او ٹی سی کے ذریعے حکومتی ٹیکس پر فیس ختم ایکسپریس اردو

کراچی: بینک دولت پاکستان نے یکم جنوری 2020 سے آلٹرنیٹو ڈلیوری چینلز (اے ڈی سی) اور اوور دی کاؤنٹر ( او ٹی سی) کے ذریعے حکومتی ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی ادائیگی پر فیس ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اس وقت ٹیکس گزاروں کو اے ڈی سیز کے ذریعے ٹیکسوں کی ادائیگی پر ٹیکس کی رقم کے لحاظ سے فی ٹزانزیکشن 10 سے 50 روپے تک اور او ٹی سی کے ذریعے ادائیگی پر فی ٹرانزیکشن 50 روپے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ یکم جنوری 2020ء سے یہ فیس ٹیکس گزاروں کے بجائے اسٹیٹ بینک برداشت کرے گا۔

اس تبدیلی کی اطلاع اسٹیٹ بینک نے ایف ڈی سرکلر نمبر 4 برائے 2019ء  بتاریخ 7 2دسمبر 2019ء کے ذریعے دی ہے۔ یہ فیصلہ اسٹیٹ بینک کی ڈجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دینے کی کوششوں کا حصہ ہے اور امکان ہے کہ اس کے نتیجے میں ٹیکس گزاروں کی بڑی تعداد حکومتی ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی ڈجیٹل ادائیگی کی طرف آئے گی۔ ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی آن لائن ادائیگی کا طریقہ کار مارچ 2018ء میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اشتراک سے متعارف کرایا گیا تھا جس کا بنیادی مقصد ٹیکس گزاروں کو سہولت فراہم کرنا تھا۔

ٹیکس گزار اپنے گھر یا دفتر سے انٹرنیٹ موبائل بینکاری سہولتیں استعمال کرتے ہوئے 14000 سے زائد اے ٹی ایمز کے ذریعے یا ملک بھر میں کمرشل بینکوں کی 15000 سے زائد برانچز کے ذریعے ٹیکس ادا کرسکتے ہیں۔ ابھی تک اس طریقہ کار سے 346 ارب روپے اکٹھا کیے گئے ہیں۔ امکان ہے کہ اے ڈی سیاوراو ٹی سی کے ذریعے وصولی کے طریقے کے بارے میں آگہی بڑھے گی تو اس طریقے سے وصولی میں بہت اضافہ ہوجائے گا۔ اسٹیٹ بینک ٹیکس گزاروں، ٹیکس بار ایسوسی ایشنوں، چیمبرز آف کامرس، کلیرنگ اینڈ فارورڈنگ ایجنٹوں اور وسیع تر کاروباری برادری میں اے ڈی سی اور او ٹی سی ادائیگی کا طریقہ کار روشناس کرانے کے لیے آگہی کی مہم چلا رہا ہے۔

ملک بھر میں ایس بی پی بینکنگ سروسز کارپوریشن کے فیلڈ دفاتر کے توسط سے سیمینارز اور آگہی کے اسیشنوں کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ پہلا سیمینار 26 دسمبر 2019ء کو کراچی میں ہوا جس میں کارپوریٹ ٹیکس گزاروں، چیمبرآف کامرس، کاروباری تنظیموں، کمرشل بینکوں، ٹیکس بارز اور آڈٹ فرموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔

The post اے ڈی سی، او ٹی سی کے ذریعے حکومتی ٹیکس پر فیس ختم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2SBTzWX
via IFTTT

No comments:

Post a Comment