پاکستانی سینیٹ ، یعنی ایوان بالا کا بنیادی وظیفہ قانون سازی ہے۔ ادھر قوانین پیش کیے جاتے ہیں، اوربعد ازاں ایوان زیریں کے مانندارکان کی ووٹنگ ہوتی ہے۔ سینیٹ کی ذمے داریوں میں قانون سازی کے حوالے سے حکومتی اقدامات کی جانچ پڑتال،قوانین متعارف کرانا ، ان پر بحث اور فنانس بل پر سفارشات پیش کرنا شامل ہے۔
ارکان قومی اسمبلی کے برعکس، جو براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں، سینیٹرز کا انتخاب صوبائی نمایندگی کے تناسب سے ہوتا ہے، اسی وجہ سے ان کے اختیارات منتخب نمایندوں سے مختلف ہوتے ہیں۔
راقم نے23 مارچ 2006کو اپنے مضمون “Five Decades as a Republic” میں لکھا تھا:’’ ہمیں الیکٹڈ پوسٹ کے لیے براہ راست الیکشن پر انحصار کرنا چاہیے، چاہے وہ سینیٹ ہو، صدرکا عہدہ یا پھر وزیر اعظم کا منصب۔اپنی قیادت منتخب کرنا عوام کا حق ہے۔ موجودہ جمہوریت دراصل منافقت ہے۔سینیٹ کو پاکستان جیسے کسی بھی وفاقی جمہور میں زیادہ قابل اعتماد ہونا چاہیے،ہر عہدہ دراصل عوام کا ترجمان ہوتا ہے۔‘‘
اسی نکتے پر17 نومبر 2017 کو اپنے ایک اور مضمون’’فیڈرل الیکشن سسٹم‘‘ میں ان الفاظ میں روشنی ڈالی۔’’ہیرا پھیری اور دھوکا دہی کے باعث، اس نوع کا توہین آمیز بالواسطہ انتخاب جاگیردارانہ نظام کو مضبوط اور جمہوریت کے تصور کی توہین کرتا ہے۔‘‘
اسی مانند 13نومبر 2014 کے مضمون ’’آئین کی اندھی تقلید میں‘‘ میں یہ نکتہ اٹھایا کہ’’برٹش ہاوس آف لارڈز کے ہمارے ’جمہوری‘ وژن کے لیے بالواسطہ انتخاب شرم ناک بدنامی ہے۔سینیٹ کی نشستوں کی نیلامی جمہوریت کی بے عزتی ہے۔‘‘ ’’اکثریتی ووٹ‘‘ اور’’متناسب نمایندگی‘‘ جمہوریت کے بنیادی تقاضوں میں شامل ہے۔خفیہ رائے شماری کی بنیاد آئین کا آرٹیکل 59 (2)ہے۔
متناسب نمایندگی کا مطلب ہے کہ سینیٹ میں سیاسی جماعتوں کی نشستوں کی تعداد صوبائی اسمبلی میں ان کی تعداد کی مناسبت سے ہو۔بدقسمتی سے بیلٹ کی اس رازداری کو پیسوں کے عوض ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔کچھ بے حد امیر اور بااثر افراد، جو شاید کسی بھی سطح پر باشعور انتخاب کی شرائط پر پورے نہ اتریں، اپنی طاقت اور دولت کے زور پر سینیٹر بن بیٹھے۔
اس ہارس ٹریڈنگ اور چند منتخب افراد کی منفی شہرت کی وجہ سے ہمارے سینیٹ کی وہ ساکھ نہیں، جو ایوان بالا کی ہونی چاہیے۔اس بابت راقم نے 16 مارچ 2018 کے اپنے آرٹیکل ’’ایک بالواسطہ دھوکا‘‘ میں لکھا تھا۔’’ووٹوں کی خرید و فروخت برسوں سے بنا روک و ٹوک کسی ڈراؤنی کہانی کی طرح جاری ہے۔کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ہمارا سینیٹ براہ راست منتخب ہونے والے امریکی سینیٹ کے بجائے غیرمنتخب ہاؤس آف لارڈز سے کیوں مماثلت رکھتا ہے؟‘‘
اگست 2015 میں ’’ٹیلی گراف‘‘کے لیے لکھے گئے اپنے مضمون میں لیومیکنسٹری نے جو کچھ برطانیہ کے ہاؤس آف لادڑز کی بابت کہا، اس کا اطلاق پاکستانی سینیٹ پر بھی ہوتا ہے۔’’لارڈز کی بقا اور تسلسل برطانوی نظام میں بزدلی اور جمود کو عیاں کر دیتی ہے۔ایسے متروک اجسام کی جدید جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں۔اس کے جواز میں پیش کردہ ہر دلیل غلط ہے۔اس کے حامی یوں ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے یہ ہاؤس عقل مند بزرگ سیاست دانوں،ذہین ماہرین اور ممتاز سرکاری ملازمین سے بھرا ہوا ہے۔
پاکستان میں سینیٹ کے الیکشن 3 مارچ 2021 کو ہونے جارہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 104 میں سے ان 52 سینیٹرز کے انتخاب کا شیڈول جاری کر دیا ہے، جن کے عہدے کی میعاد 7 فروری 2021 کو تمام ہوئی۔ حکومتی جماعت پی ٹی آئی اور وزیر اعظم عمران خان یہ اصول وضع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شمارے کے بجائے شفاف بیلٹ کے ذریعے ہوں۔
حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ سسٹم کے تحت کرانے کی خواہش مند ہے، مگر اس پر اپوزیشن پارٹیاں چراغ پا ہیں۔پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت اس اقدام کو پارلیمنٹ اور آئین پر حملہ قرار دے رہی ہے۔صدارتی آرڈیننس کا فیصلہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے مظاہرے اور آئینی ترمیمی بل کا راستہ روکنے کے بعد کیا گیا۔ ہارس ٹریڈنگ کے ایک اور سلسلے کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک صدارتی ریفرنس پیش کیا گیا، جس میں اوپن بیلٹ کرانے کی درخواست کی گئی۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پراپ لوڈ کی جانے والی خفیہ ویڈیوز میں ووٹوں کی خرید و فروخت کا نیا طریقہ کار دکھائی دیا۔ رپورٹس کے مطابق ان ویڈیوز کا تعلق 2018 کے سینیٹ الیکشن سے ہے، جن میں چند ارکان پارلیمنٹ کو نوٹوں کی گڈیوں کے سامنے بیٹھے ، انھیں گنتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔کورٹ کو بتایا گیا کہ منشیات اور غیرقانونی ذرایع سے حاصل کی جانے والی رقم ووٹ خریدنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
پی پی پی کے سینئر لیڈر رضا ربانی کی جانب سے سپریم کورٹ میں اوپن بیلٹ کے خلاف دلائل حیرت انگیز ہیں۔
سن 2006 میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرنے والی پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے دہرائے معیارات بالکل واضح ہیں۔ انھوں نے چارٹر کے پیرا 23 میں واضح کیا تھا کہ ’’کرپشن اور فلور کراسنگ کو روکنے کے لیے سینیٹ اور تمام بالواسطہ نشستوں پر اوپن اور قابل شناخت ڈھب پر ووٹنگ ہوگی۔‘‘
یہ الفاظ،یہ دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے۔ 2008 تا 2013 نہ تو پی پی پی نے اپنے دورِ حکومت میں، نہ ہی مسلم لیگ ن نے 2013 سے 2018 تک اپنے دور اقتدار میں انھیں متعارف کرانے کی کوشش کی۔اور اب ،جب کہ تحریک انصاف ووٹوں کی خرید و فروخت کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے،یہی دو بڑی اپوزیشن جماعتیں اس کے خلاف کھلے عام احتجاج کر رہی ہیں۔
صدارتی ریفرنس سے متعلق ہیرنگ ابھی جاری ہے، حتمی فیصلہ ابھی نہیں آیا۔ چیف جسٹس نے یہ بھی واضح کیا کہ خفیہ رائے شماری کو اوپن بیلٹ میں تبدیل کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔
کورٹ کے نزدیک سینیٹ انتخابات کے مروجہ نظام کا تسلسل منتخب نمایندوں کو اپنی پارٹیوں کے ضوابط کی خلاف ورزی کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔بلاشبہ صدارتی ریفرنس کیس میں ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ روک کر پاکستان اور جمہوریت کی خدمت کرنے کا سنہری موقع ہے۔
(فاضل مصنف دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں)
The post سینیٹ الیکشن 2021 appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3uE0aR6
via IFTTT
No comments:
Post a Comment