لیاقت علی خان کے قتل کے بعد وڈیروں، جاگیرداروں نے اس ملک کی سیاست اور اقتدار پر قبضہ کرلیا جو تین چار مارشل لاء وقفوں کے بعد اب تک جاری ہے۔ اصل میں یہ پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہے کہ بائیں بازو کے رہنما آپس میں اختلافات کے باعث ایک دوسرے سے الگ ہوگئے اورگروپوں میں تقسیم ہوگئے، ورنہ پاکستان میں ترقی پسند پارٹیوں کی بالادستی یقینی تھی۔
بائیں بازوکی جماعتوں کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ عوام کو ان کے حقوق کے بارے میں بتاتے تھے اور یہ بھی بتاتے تھے کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی سیاسی بالادستی ہوتا ہے، لیکن اس ملک کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ سازشوں کے ذریعے بائیں بازوکو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کرکے اشرافیہ نے بتدریج سیاست اور حکومت پر قبضہ کرلیا اور یہ سلسلہ لگ بھگ ستر سال سے برقرار ہے۔
آج سینیٹ کے الیکشن کے نام پر جو تماشا جاری ہے، اس میں ایک یا دوسری اشرافیائی پارٹیاں ہی اقتدار میں آئیں گی کیونکہ ہمارے ملک میں دولت سیاسی گاڑی کے پہیے بنی ہوئی ہے اور دولت کا عالم یہ ہے کہ اشرافیہ کی آنے والی درجن بھر نسلیں بادشاہوں کی زندگی گزار سکتی ہیں، لیکن حال یہ ہے کہ یہ ٹولہ آنے والی کئی نسلوں تک اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتا ہے اور اس کے لیے سازشوں کے جال بن رہا ہے۔ عمران خان نے بیچ میں آ کر اس کی لائف ٹائم ممبر شپ میں کھنڈت ڈال دی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن کو ایک مسئلہ ہے، ان مسائل کا علاج عموماً سیاستدان کرتے ہیں۔
جمہوریت کے زعما نے بتایا ہے کہ تمام سیاسی مسائل کا حل انتخابات ہے، اگرچہ بڑی مشکلوں سے اپوزیشن سینیٹ کے انتخابات پر راضی ہوگئی ہے اور زور شور سے انتخابی مہم چلا رہی ہے جو ہر پارٹی کا حق ہے لیکن اس مہم میں فریق مخالف کے لیے جو زبان استعمال کی جا رہی ہے وہ کسی طرح بھی ہماری اشرافیائی اپوزیشن کو زیب نہیں دیتی۔ اس کے پیچھے دس سالہ لوٹ مارکی دولت کے وہ ڈھیر ہیں جس کا کوئی قانون کوئی انصاف کچھ بگاڑ نہیں پا رہا ہے۔
جمہوریت کے پروان چڑھنے میں یہ ایک ایسی بڑی رکاوٹ ہے جسے دورکیے بغیر جمہوریت کا سفر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ 72 سال کا عرصہ بہت طویل ہوتا ہے اس تمام عرصے میں دولت کے ڈھیر پر بیٹھنے والوں کا راج رہا اور جب کہ عمران خان نے اشرافیہ کو پیچھے دھکیل کر اقتدار حاصل کرلیا ہے، اشرافیہ تڑپ رہی ہے مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور اشرافیہ اقتدارکے بغیر ۔
اقتدار عوام کی امانت ہے اور کسٹوڈین بھی۔ وہ انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو ووٹ دے کر اقتدار میں لاسکتے ہیں یہ کام کسی جبر یا ترغیب کے بغیر ہوتا ہے لیکن پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں جہاں عوام جمہوریت کو ابھی تک سمجھ نہیں پائے اشرافیہ اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھتی ہے۔
اب اس کلچر کو بدلنے کی ضرورت ہے یہاں ایک بات کی نشان دہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ قانون اور انصاف اپنی وہ ذمے داریاں ادا نہیں کر پا رہے جو جمہوریت کے پھلنے پھولنے کے لیے ضروری ہیں۔ ہماری اشرافیہ اب اس قدر مغرور ہوگئی ہے کہ اہم ترین اداروں کو بھی خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مڈل کلاس پارٹی اقتدار میں آگئی اور ادارے اسے روک نہ سکے۔
بات یہ ہے کہ اب اس پورے کرپٹ نظام کو بدلنا ضروری ہے اسے بدلنے اور عوام کو اوپر لا کر ان کی جگہ پر بٹھانے کے لیے اگر ادارے مدد کرتے ہیں تو یہ ایک نیک قدم ہوگا۔ اشرافیہ کی سائیکی یہ ہوگئی ہے کہ اقتدار ہمارے لیے ہے اور ہم اقتدارکے لیے۔ اس میں کسی اور کا یعنی عوام یا عوام کے اصلی نمایندوں کا دخل نہیں ہونا چاہیے، لیکن حالات تیزی سے عوامی جمہوریت کی طرف جا رہے ہیں۔
اشرافیہ اپنے کارکنوں کو ہیرو بنا کر پیش کرتی ہے اور دولت کی سیڑھیوں کے ذریعے انھیں قانون ساز اداروں میں پہنچاتی ہے۔ یہ ہے وہ جمہوریت کی چیمپئن جس کا مداوا جمہوریت کے بغیر ممکن نہیں۔
The post کہانی سے کہانی تک appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3stleYP
via IFTTT
No comments:
Post a Comment