راولپنڈی: تھانہ مورگاہ کے علاقے میں سابق گورنر خیبر پختونخواہ و پاک فوج کے سابق جنرل علی محمد جان اورکزئی کے گھر ڈکیتی کی واردات میں ملوث ملزمان کا سراغ نہ لگایا جاسکا۔
جائے واردات پر فنگر پرنٹس نہ مل سکنے کے بعد پولیس نے جیو فینسنگ کے ساتھ ساتھ جائے واردات کے اردگرد نصب کلوز سرکٹ ٹی وی کیمروں کی فٹیجز کی مدد سے ملزمان کی تلاش شروع کردی۔
پولیس کے مطابق جنرل ریٹائرڈ علی محمد جان اورکزئی نے مورگاہ پولیس کو مقدمہ درج کراتے ہوئے بتایا تھاکہ نجی ہاوسنگ سوسائٹی (ڈی ایچ اے)میں رہاہش پذیر ہوں اہل خانہ کے ہمراہ گھر موجود تھا کہ اچانک مسلح شخص کمرے میں گھر آیاساتھ ایک دیگر شخص بھی تھا دونوں کی عمریں پچیس سے تیس سال تھیں اسلحے کی نوک پر گراونڈ فلور پر لے گئے جہاں مجھے اہلیہ اور ملازم کو ایک ایک کمرے میں بند کردیا ایک ملزم ہماری نگرانی پر کھڑا رھا اور دیگر دو ساتھی گھر میں لوٹ مار کرتے رھے اس دوران بیٹی اور نواسیاں بھی آگئیں جنہیں بھی انھوں نے ہمارے ساتھ بٹھا دیا ۔
تقریبا پنتسالیس منٹ گھر میں لوٹ مار کرنے کے بعد تین لاکھ روپے کی نقدی، چار لاکھ بیس ہزار روپے کے پرائز بانڈ ، تیرہ تولے زیورات، چار گھڑیاں، لے کر فرار ہوگئے مجموعی طور پر مزکورہ چار افراد تھے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی۔
پولیس زرائع کے مطابق فرانزک اور پولیس کے تفتیشی ماہرین جائے واردات سے ملزمان کے فنگر پرنٹس دستیاب نہیں ہوسکے جسکے متعلق ماہرین کا خیال ہے کہ ملزمان پلاننگ سے واردات کرنے آئے اور واردات کے دوران یا تو دستانے استعمال کیے یا پھر وہ اسقدر محتاط رھے کہ اپنے نشان نہیں چھوڑے۔
ایکسپریس کو تفتیش سے جڑے آفیسر نے بتایا کہ تفتیش کا دائرہ وسیع کرکے واردات سے پہلے اور بعد تک مخصوص اوقات میں علاقےمیں موبائل کمیونیکشن کے زرہعے ملزمان کا سراغ لگانے کے لیے جیو فینسنگ شروع کردی گئی ہے اسی طرح جائے واردات کی جانب آنے و جانے والے راستوں سمیت متاثرہ گھر کے اردگرد گھروں پر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فٹیجز سے بھی ملزمان کا سراغ لگانے کے لیے مدد لی جارہی ہے ادھر ایس ایچ او مورگاہ انسپکڑ ندیم عباس کا کہنا تھا واردات کو ٹریس کرنے کے لیے تفتیش جاری ہے اور تمام پہلووں کو مدنظر رکھ کر تفتیش کی جارھی ہے۔
The post سابق گورنر خیبر پختونخوا جنرل (ر) علی محمد جان اورکزئی کے گھر ڈکیتی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/37XZuMJ
via IFTTT
No comments:
Post a Comment